انتہا پسند عناصر سے سختی سے نمٹا جائے

انتہا پسند عناصر سے سختی سے نمٹا جائے
ملک میں تواتر کے ساتھ تشدد اور انتہا پسندی کے جو واقعات سامنے آرہے ہیں ان پر قوم کے محب وطن لوگوں میں سخت تشویش پائی جارہی ہے۔ جبکہ عام لوگوں کے ساتھ ساتھ سول اور عسکری قیادت نے بھی اسے سنجیدگی سے لیا ہے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت ہونے والے کور کمانڈرز کانفرنس میں سیالکوٹ واقعہ کا نوٹس لے لیا گیاہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سربراہی میں 245 ویں کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی جس میں ملکی سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا گیا۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ کور کمانڈرز کانفرنس میں سیالکوٹ میں ہونے والے گھنائونے واقعہ کا نوٹس لیا گیا اور شرکاء نے اتفاق کیا کہ سیالکوٹ جیسے واقعہ کے ذمہ دار عناصر کے خلاف زیرو ٹالرنس ہونی چاہیے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق کور کمانڈرز کانفرنس کے شرکاء نے اتفاق کیا کہ سیالکوٹ جیسے واقعات پر زیرو ٹالرنس سے ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی ختم کی جاسکتی ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ کانفرنس میں آرمی چیف نے سرحدوں کے حوالہ سے لیے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہاکہ خطرات سے نمٹنے کیلئے ملکی سرحدوں کی کڑی نگرانی کی جائے۔ آرمی چیف کا کہنا تھا کہ مستقبل کے میدان جنگ ٹیکنالوجی سے لیس ہیں، ان چیلنجز سے نمٹنے کیلئے تربیت اور ڈاکٹرائن کا غیر جانبدارانہ جائزہ ضروری ہے۔ افغانستان کے حوالہ سے آرمی چیف کا کہنا تھا کہ افغانستان میں انسانی المیہ سے بچنے کیلئے لگاتار امداد ناگزیر ہے۔سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے مقامی فیکٹری کے منیجر پریانتھا کمارا کو توہین مذہب کے الزام میں تشدد کرکے ہلاک کرنے کے بعد ان کی لاش کو جلا دیا تھا۔واقعے کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر آنے کے بعد سیاست دانوں، حکومتی و عسکری قیادت سمیت دیگر اہم شخصیات نے بھی گہرے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے واقعے کو شرمناک قرار دیا۔وزیر اعظم عمران خان نے بھی واقعے پر مذمتی ٹوئٹ کی اور لکھا کہ سیالکوٹ میں مشتعل گروہ کا ایک کارخانے پر گھنانا حملہ اور سری لنکن منیجر کا زندہ جلایا جانا پاکستان کے لیے شرمناک دن ہے وزیر اعظم نے مزید لکھا کہ وہ خود تحقیقات کی نگرانی کر رہے ہیں اور ساتھ ہی دوٹوک انداز میں واضح کیا کہ ذمہ داروں کو کڑی سزائیں دی جائیں گی۔انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری نے بھی واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹ کی کہ سیالکوٹ واقعہ انتہائی خوفناک اور قابل مذمت ہے جب کہ ہجومی تشدد کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جائے گا۔شیریں مزاری نے لکھا کہ تمام جرائم سے نمٹنے کے لیے قوانین موجود ہیں اور حکومت پنجاب کو ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے۔حکومتی شخصیات کے علاوہ شوبز سے وابستہ افراد نے بھی واقعے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اسے ملک کے لیے شرم ناک قرار دیا۔فاطمہ بھٹو نے بھی واقعے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے حکومت کی خودمختاری پر بھی سوال اٹھایا۔انہوں نے ٹوئٹ کی کہ سیالکوٹ واقعہ انتہائی خوفناک ہے اور ہجوم میں شریک ہر ایک شخص پر قتل کا مقدمہ ہونا چاہیے۔سینیٹر شیری رحمن نے بھی واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملک و قوم کے لیے شرم قرار دیا۔انہوں نے لکھا کہ کسی بھی شخص یا ہجوم کو اس طرح لاقانونیت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔اداکارہ ماہرہ خان نے لکھا کہ سیالکوٹ واقعہ ہم سب کے لیے شرم کا مقام ہے، ساتھ ہی انہوں نے عمران خان کو مینشن کرتے ہوئے لکھا کہ قوم ان کی جانب دیکھ رہی ہے اور ان سے ہی سوالوں کے جواب مانگ رہی ہے۔اداکار و ماڈل عدنان ملک نے بھی واقعے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے اسے باعث شرم قرار دیا۔ افغانستان کیلئے عالمی مدد نہ صرف افغانستان بلکہ خطہ کے استحکام کیلئے ضروری ہے جبکہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ سیالکوٹ کا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے جس کا کوئی اخلاقی، انسانی جواز نہیں، ہمارے آئین اور قانون کے مطابق اقلیتوں کا تحفظ حاصل ہے، اگلے سال پاکستان اور یورپی یونین کے ساٹھ سال مکمل ہونے پر اسلام آباد میں کانفرنس کا انعقاد کریں گے۔ اگر افغانستان میں حالات کشیدہ ہوئے تو اس کے مضمرات دور رس ہوں گے۔ دورہ بیلجیم کے حوالہ سے میڈیا نمائندگان سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ بیلجیئم کے کسی وزیر خارجہ کے ساتھ دس سال کے وقفہ کے بعد دو طرفہ ملاقات ہوئی ہم نے دو طرفہ تعلقات کی تمام جہتوں پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے دوطرفہ تجارت، سرمایہ کاری، سائنسی، تعلیمی اور زرعی شعبہ میں تعاون کے فروغ سمیت باہمی دلچسپی کے امور پر بات چیت کی۔ انہوں نے کہا کہ بیلجیئم کی وزیر خارجہ نے افغانستان سے مختلف ممالک کے شہریوں کے محفوظ انخلاء میں پاکستان کے کردار کو سراہا۔ ملک کی سول اور عسکری قیادت کا انتہا پسندی کے حوالہ سے ایک پیج پر ہونا خوش آئند ہے اور یہ بات بھی واضح ہے کہ قوم کی غالب اکثریت فرقہ واریت ، انتہا پسندی اور تشدد کے خلاف ہے۔ یہ چند گمراہ عناصر ہیں جو بار بار ملک میں اس طرح کی صورتحال پیدا کرتے ہیں اور ان سے سختی کے ساتھ نمٹنے کی ضرورت ہے۔
ماہی گیروں کے مسائل حل کئے جائیں
وزیر اعظم عمران خان نے گوادر کے جفاکش ماہی گیروں کے جائر مطالبات کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان سے بات کرو ں گا ۔ ٹرالرز کے ذریعے غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت کارروائی کی جائیگی۔ گوادر میں ماہی گیروں کی جانب سے کئی دنوں سے احتجاج جاری ہے، ان کا مطالبہ انہیں سمندر تک رسائی دینے کا اور گاڑیوں کی پکڑ دھکڑ اور غیر قانونی ماہی گیروں کا خاتمہ ہے۔ یہ خوش آئند امر ہے کہ وزیراعظم کی جانب سے ماہی گیروں کے احتجاج کا فوری نوٹس لیا گیا ہے اور انہوں نے وزیر اعلیٰ بلوچستان سے بات کرنے کا بھی یقین دلایا ہے۔ اس وقت صرف بلوچستان ہی نہیں، پورا ملک مائلستان بن چکا ہے۔ سرکاری سطح پر عوامی مسائل حل نہ ہونے کے باعث عوام سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوتے ہیں جس سے امن و امان میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ حکومت کی جانب سے کھلی کچہریوں کے علاوہ عوامی سطح پر چھوٹے چھوٹے پورٹل سیل کا اہتمام کیا جائے جہاں فوری طور پر عوام کے مسائل حل ہوسکیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم عوامی مسائل کے حل کیلئے متفکر نظر آتے ہیں اور اس کیلئے کوشاں بھی ہیں۔ اس حوالہ سے حکومت کی جانب سے ایک پورٹل سیل بھی کام کررہا ہے لیکن دیکھنے میں یہی آرہا ہے کہ وہاں بھی عوام کو اپنے مسائل کے حل کیلئے طویل عرصہ انتظار کرنا پڑتا ہے جس سے مایوس ہوکر وہ مسائل کے فوری حل کیلئے سڑکوں پر نکل آتے ہیں جس سے نقص امن کا اندیشہ رہتا ہے۔ ماہی گیری ایک اہم صنعت ہے جس سے ملک کو کثیر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ اس صنعت سے وابستہ لوگوں کے مسائل کا فوری حل حکومت کی اولین ذمہ داری ہونی چاہیے۔ گوادر کے ماہی گیروں کے مطالبات جائز نظر آتے ہیں، حکومت کو بلا تاخیر ان کے مسائل کے حل کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ غیر قانونی ماہی گیری کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لاکر نہ صرف ماہی گیروں کو مطمئن کیا جاسکتا ہے بلکہ اس صنعت کو بھی بچایا جاسکتا ہے۔
ایشیائی ترقیاتی بینک کا سماجی تحفظ پروگرام
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وسائل کے فقدان کے باعث ملک کی 88 فیصد دیہی آبادی اسپتالوں اور ڈسپنسریوں، 90 فیصد سیوریج اور نکاسی آب،26 فیصد گھروں میں ٹوائلٹ، 91 فیصدپختہ گلیوں جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے۔ اس ضمن میں یہ بات باعث تحسین ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے پاکستان میں سماجی تحفظ پروگرام کی توسیع اوراستحکام کیلئے 60 کروڑ30 لاکھ ڈالرزقرضہ کی منظوری دی ہے۔ کیش کی مشروط منتقلی کے تحت یہ رقم احساس پروگرام، قومی سماجی تحفظ اورغربت کے خاتمہ یا کمی سے متعلق پروگرام پر صرف ہوگی۔ بینک کے وسطی اورمغربی ایشیائی امورسے متعلق ڈائریکٹریوگینی ذوکوف کے مطابق یہ پروگرام پاکستان میں ترجیحی طور پراحساس کے ساتھ سماجی تحفظ میں فعال ثابت ہوگاجس کے تحت پرائمری اورسیکنڈری تعلیم اوراس سطح پر غریب خاندانوں کے بچوں خاص کرلڑکیوں کی تعلیم تک رسائی اورصحت کی سہولیات بہتر کرنے پر توجہ دی جائیگی۔ مزید برآں پروگرام میں ماں اوربچہ کی بہترخوراک سے متعلق اقدامات میں تیزی لانے پر زوردیا گیا ہے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک پاکستان کوچارماہ قبل کوویڈ19 سے بچائوکی ویکسین کے خریداری پروگرام میں پچاس کروڑڈالرزکی امداد دے چکا ہے۔نیزگزشتہ برس آئندہ پانچ سال کے دوران معاشی بحالی کے عمل میں معاونت کے طورپر بھی دس ارب ڈالرزفراہم کرنے کا اعلان کرچکا ہے۔ تاہم ان تمام رقوم کا کثیر دیہی آبادی کے حامل منصوبوں میں ٹھوس استعمال ایک انتہائی اہم معاملہ ہے جن میں سرفہرست ماں اوربچہ میں خوراک کی کمی کا مسئلہ ہے۔ اس حوالہ سے پی ٹی آئی حکومت احساس پروگرام پر پہلے سے عمل پیراہے جسے زمینی حقائق کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کی ضرورت ہے۔
عوام میں مزید مہنگائی برداشت کرنے کی سکت نہیںرہی
وفا قی حکومت نے قوانین کے چوتھے ترمیمی بل 2021کے مسو دے کو ختمی شکل دیدی ہے جس میں تقریباً سو ٹیکسوں پر چھوٹ ختم کردی گئی ہے اور ذرائع کے مطابق حکومت اب تک 17 فیصد جنرل سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ بیشتر اشیا ء سے چھوٹ واپس لینے کے لیے پارلیمنٹ میں ایک منی بجٹ پیش کرنے کو تیار ہے۔ منظر عام پر آنے والی معلومات کے مطابق ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ حکومت پی او ایل مصنوعات پر 17 فیصد کی معیاری جی ایس ٹی شرح نافذ کرے گی یا نہیں کیونکہ اگر جی ایس ٹی کی پوری شرح اور پیٹرولیم لیوی کو 30 روپے فی لیٹر تک لایا گیا تو مہنگائی کا طوفان نئی انتہاؤں کو چھوسکتا ہے۔ فی الوقت حکومت پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی کی کم از کم رقم وصول کررہی ہے۔ واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ 350 ارب روپے کی جی ایس ٹی چھوٹ ختم کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ مالیاتی ادارے کو یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ جی ایس ٹی نظام میں اصلاحات کا عمل یکساں ٹیکس کی بنیاد پر اور آئین کی حدود میں آگے بڑھایا جائے گا۔ حکومت نے برآمدی اور کیپٹل مشینری کے سامان کے علاوہ ٹیکس سے مستثنیٰ تمام اشیاء کو معیاری سیلز ٹیکس کی شرح پر منتقل کرنے کا فیصلہ ہے۔ آٹھ شیڈول کے تحت کم کیے گئے نرخوں کو ختم کرکے ان تمام اشیاء کو معیاری سیلز ٹیکس کی شرح پر لایا جائیگا۔ ان میں بنیادی خوراک، ادویات، انسانی استعمال کیلئے زندہ جانور، تعلیم اور صحت سے متعلق اشیاء شامل نہیں۔ ذرائع کے مطابق ان اصلاحات سے سالانہ بنیادوں پر جی ڈی پی کا تخمینہ اعشاریہ سات فیصد حاصل ہونے کی امید ہے۔ بیک وقت ساڑھے تین سو ارب کی ٹیکس چھوٹ کا خاتمہ اور بیشتر ضروریات زندگی پر جواب تک جی ایس ٹی سے مستثنیٰ تھیں 17 فیصد ٹیکس کا نفاذ بظاہر ملک میں مہنگائی کے ایک نئے طوفان بلکہ سونامی کا پیش خیمہ ثابت ہوتا دکھائی دیتا ہے لیکن حکومت کی موجودہ معاشی حکمت کار ٹیم کے سربراہ مشیر خزانہ شوکت ترین نے عوام کو تسلی دی کہ کھانے پینے کی اشیاء مہنگی نہیں ہونگی۔ انہوں نے یہ نوید بھی سنائی ہے کہ آئندہ ہفتوں میں پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی بھی کی جائے گی۔ ایک انٹرویو میں شوکت ترین نے کہا کہ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کے تحت منی بجٹ اگلے ہفتے لا رہی ہے تاہم اس میں کھانے پینے کی اشیا پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ ختم نہیں ہوگی ، اس لئے منی بجٹ سے اشیائے خور ونوش مہنگی نہیں ہوں گی۔شوکت ترین نے کہا کہ منی بجٹ میں میک اپ کا سامان، کپڑے، جوتے اور پرفیومز سمیت دیگر درآمدی آسائشی سامان پر کسٹم ڈیوٹی بڑھائی جائے گی، اس کے علاوہ مقامی طور پر تیار ہونے والی کچھ اشیاء پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح 12 سے بڑھا کر 17 فیصد کی جائیگی۔مشیر خزانہ نے کہا کہ عالمی منڈی میں قیمتیں نیچے آنے کے بعد اب تک پیٹرول کی قیمتیں کم نہیں ہوئی تھیں تاہم آئندہ ہفتوں میں پاکستان میں پیٹرول کی قیمتوں میں کمی بھی کی جائے گی۔مشیر خزانہ یہ یقین دہانیاں درست ثابت ہوں گی یا نہیں آنے والا وقت بہت جلد اس حوالہ سے حقیقت واضح کردے گا لیکن بظاہر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ ایسی صورت میں جب جی ایس ٹے کی چھوٹ کے خاتمہ کے بغیر ہی اشیائے خورونوش سمیت مہنگائی روز افزوں ہے تو سینکڑوں مزید اشیاء پر جی ایس ٹی کے نفاذ کے بعد کھانے پینے کی اشیاء بھی مزید مہنگی کیوں نہ ہوں گی؟عوام کو سکھ کا سانس لینے کا کچھ موقع اسی صورت میں مل سکتا ہے جب حکومت وزیروں اور مشیروں کی تعداد اور غیر ضروری سرکاری اخراجات میں آخری ممکنہ حد تک کمی کرکے اس کا فائدہ اشیائے ضروریہ پر زرتلافی کی شکل میں عوام کو منتقل کرے۔گزرے ماہ اکتوبر کیلئے بجلی کے بلوں میں فی یونٹ پونے پانچ (4.74) روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کے مطابق اکتوبر کی فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ماہ دسمبر کے بلوں میں وصول کی جائے گی۔ وزارت توانائی کے مطابق اس فیصلہ کا بجلی کی قیمت پر کوئی مستقل اثر نہیں پڑے گا۔ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے اس فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سستے پاکستان میں بجلی مزید مہنگی ہوگئی۔ حکومت الٹی چھری سے قوم کو ذبح کررہی ہے ۔ آئی ایم ایف کے حکم پر بجلی کی قیمت میں مزید اضافہ کیا گیا۔ انہوں نے یہ اضافہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کے حوالہ سے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں سالانہ اضافہ کے بعد فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کی مد میں بجلی مزید مہنگی کرنا عوام کا معاشی قتل ہے۔ ملک کی ان دونوں بڑی جماعتوں کے قائدین کی طرف سے آنے والے ردعمل کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی طرف سے بھی اس فیصلہ کی شدید مذمت کی گئی ہے اوراسے ظلم سے تعبیر کیا ہے اور فیصلہ فی الفور واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔ ملک میں دگرگوں معاشی صورتحال اور اس پر عوام کی بے بسی اور بے چارگی نے انہیں مایوسی اور بددلی کا شکار بنادیا ہے اور کسی قوم کی سوچوں اور اذہان میں جب مایوسی گھر کرتی ہے تو وہ زیادہ عرصہ تک مشکلات و مسائل برداشت کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ سماجی ڈھانچہ تیزی کے ساتھ بکھرنا شروع ہوجاتا ہے اور پھر تنزلی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے جس طرح عوام پر مہنگائی کے کوڑے برسائے جارہے ہیں اس نے انہیں ادھ موا کردیاہے۔ ان میں اب مزید ذہنی اذیت برداشت کرنے کی سکت نہیں رہی اس لیے حکومت کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے۔عوام کو دیوار سے لگانے کی کوشش منفی اثرات مرتب کرسکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عمل عمل کرکے عوام کو مصائب کی بھٹے میں پھینکنا آخرکار خود حکمرانوں کیلئے مشکلات پیدا کرنے کا سبب بن جائے گا۔ اگلے چند ماہ بعد مہنگائی کا گراف نیچے آنے کی خوش خبریاں زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتیں لہٰذا حکومت عوام کا مزید امتحان نہ لے اور انہیں فی الفور ریلیف مہیا کرنے کی کوئی سبیل نکالے۔
حکومت وعدوں کے بجائے کارکردگی پر توجہ دے
وزیراعظم اکثر اپنی تقریروں اور بیانات میں وہ کچھ کہہ جاتے ہیں کہ عام آدمی سوچتا رہ جاتا ہے کہ وہ کہنا کیا چاہتے ہیں، اسکردو میں بھی ان کے اس جملے سے کہ لوگ یہاں نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے، عوام کی اکثریت حیران رہ گئی اور خاص طور پر وہ لاکھوں بے روزگار جو بے روزگاری کی وجہ سے پریشان ہیں اور بہت سے خودکشیوں پر مجبور ہوچکے ہیں ، وہ اس بیان کا مطلب بالکل نہیں سمجھ سکے، اسکردو میں وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ بھی وقت آئے گا کہ لوگ یہاں روزگار دھونڈنے آئیں گے، گلگت بلتستان، بلوچستان اور اندرون سندھ ترقی میں پیچھے رہ گئے ہیں، ملک میں امیر، امیر سے امیر تر اور غریب مزید غریب ہوگیا ہے۔ غریب کو اوپر لے آنے تک ملک ترقی نہیں کرسکتا، غربت کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اسکرود میں جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ملک سے غربت کم کرنا ہمارا مشن ہے، پسماندہ علاقوں میں ترقی لانا میرا نظریہ ہے، خیبرپختون خوا میں ہماری حکومت آنے کے بعد یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق زیادہ تیزی سے غربت کم ہوئی ہے، جب تک غریب کو اوپر لے کر نہیں آتے، ملک ترقی نہیں کرسکتا، پاکستان میں امیر، امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہوگیا، یہ معاشی نا انصافی ہے۔ عمران خان نے کہا کہ گلگت بلتستان دنیا کے پہاڑی علاقوں میں سب سے خوبصورت ہے، سیاحت گلگت بلتستان کا اثاثہ بن سکتا ہے، یہاں سے لوگ اتنی دور نوکریوں کیلئے جاتے ہیں، اب آپ کو کہیں جانانہیں پڑے گا بلکہ یہ بھی وقت آئیگا کہ لوگ یہاں آپ کے پاس نوکریاں ڈھونڈنے آئینگے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں نے اپنی زمین کا دھیان رکھنا ہے، باہر سے لوگ آکر آپ کی زمین مہنگے داموں خریدیں گے، اسے ریزورٹس بنائیں گے، اسکرود ایئر پورٹ کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی سیرو تفریح کیلئے گلگت بلتستان آئینگے، سوئٹزرلیڈ 70 ارب ڈالرز کماسکتاہے تو ہم کیوں نہیں، ہم صرف گلگت بلتستان کی سیاحت سے، 40,30 ارب ڈالرز کماسکتے ہیں۔ عمران خان نے مزید کہا کہ اللہ نے اس ملک کو بے پناہ نعمتیں بخشی ہیں، ہم نے اللہ کی دی ہوئی کسی نعمت کا فائدہ نہیں اٹھایا، گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر سے بھی منسلک کررہے ہیں، ایئرپورٹ کے ذریعے بین الاقوامی سیاحت بڑھے گی۔ کاش ہمارے حکمران صیغہ مستقبل کے بجائے حال میں گفتگو کرنے کی کوشش کریں تو عوام کو سمجھنے میں آسانی ہوجائیگی کیونکہ یہ کردینگے، وہ کردینگے ایسا ہوجائیگا اور ویسا ہوجائیگا کے بجائے حکمران یہ ہوگیا اور ایسا کردیا کے جملے بھی استعمال کرلیا کریں۔