احتجاج کے نام پر اپنا مستقبل خراب نہ کیجیے

بہت سے لوگوں نے اپنے لیڈر کی محبت میں یہ غلط قدم اٹھایا۔
9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ان کے سپورٹرز شدید غصے میں آگئے اور پاکستان بھر میں جلاو¿ گھیراو¿ کرکے اربوں روپے کا نقصان کر ڈالا۔ نقصان تو ایک طرف، اس احتجاج نے ریاست کو بھی کمزور کیا۔ یہ احتجاج اچانک نہیں تھا بلکہ مہینوں کی برین واشنگ کا نتیجہ تھا، جس کے خطرناک نتائج برآمد ہوئے۔ اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ملک دشمن عناصر نے اس احتجاج پر خوشی کے شادیانے بجائے۔
سیاسی کارکن ہونے میں کوئی قباحت نہیں لیکن انتہاپسند ہونے میں شدید کراہت ہے۔ احتجاج کرنے میں کوئی قباحت نہیں لیکن پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے میں شدید کراہت ہے۔ سیاسی احتجاج ہوتا ہے مہذ ب طریقے سے، لیکن جلاو¿ گھیراو¿، گھروں میں گھسنا، ریاستی اداروں میں گھسنا، سپر اسٹورز کو لوٹنا اور پھر جلانا، پبلک بسز جلانا، میٹرو اسٹیشن جلانا، وطن کےلیے شہید ہونے والوں کی یادگاریں جلانا، کسی طور قابل قبول نہیں، چاہے لیڈر کی گرفتاری ہو یا پھر سزا۔
آپ اپنے سیاسی لیڈر سے محبت ضرور کیجیے، اپنا وقت دینا چاہیں، ضرور دیجیے۔ لیکن اگر سیاسی لیڈر آپ کو انتہاپسند بنارہا ہے تو وہ لیڈر ہرگز نہیں۔ وہ آپ کو اپنی شیلڈ بنارہا ہوتا ہے تاکہ مستقبل میں آپ کا خون کسی سیاسی معاملے کو فائدہ مند بنانے کےلیے استعمال کیا جائے۔ سیاسی لیڈروں کی اکثریت صرف اپنے مفادات کو دیکھتی ہے اور اصل لیڈر ہمیشہ فرنٹ سے لیڈ کرتا ہے اور کارکنوں کو پیچھے رکھتا ہے۔ کارکنان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور ان کو دہشت گردی پر نہیں ا±کساتا۔
9 مئی پاکستان کی تاریخ کے سیاہ دنوں میں سے ایک سیاہ دن تھا۔ اس دن احتجاج کے نام پر جو دہشت گردی ہوئی اس کا نقصان صرف اور صرف پاکستان کو ہوا۔ اس دن دہشت گردی کرنے والے ہزاروں لوگوں پر دہشت گردی کے مقدمات بنے، کئی ہزار لوگ گرفتار ہوئے جن میں خواتین بھی شامل ہیں۔
جب دہشت گردی کرنے والے لوگوں کی تفصیلات دیکھیں تو حیرت کے ساتھ افسوس بھی ہوا۔ کیونکہ ان میں کچھ لوگ بہت پڑھے لکھے تھے، کچھ طالب علم تھے، کچھ کاروباری حضرات تھے، کچھ گورنمنٹ ملازم تھے لیکن اب ان سب کی شناخت دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے طور پر ہوگئی ہے، جو پوری زندگی ان کے ساتھ جڑی رہے گی۔
بہت سے لوگوں نے اپنے لیڈر کی محبت میں جو یہ قدم اٹھایا ہے ان لوگوں کو شاید اندازہ نہیں کہ ان قدموں نے انھیں مشکل ترین زندگیوں میں ڈال دیا ہے۔ اٹھنے والے ان قدموں نے ان کی زندگی کو کچل دیا ہے اور اب ان کی زندگیاں مستقل طور پر تبدیل ہوجانی ہیں۔ نہ صرف ان کی زندگیاں بلکہ ان کی فیملیز نہ جانے کتنے سال تک روتی رہیں گی۔ ان کے کاروبار، ان کا لائف اسٹائل سب تباہ ہوجائے گا۔
9 مئی کو کراچی میں رینجرز کی چوکی جلانے والے ایک ادھیڑ عمر شخص کی ویڈیو دیکھی، جو اس نے چوکی جلانے کے بعد اپنے بیٹے سے بنوائی، اور اب وہ دونوں باپ بیٹے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ دونوں نے فرط جذبات میں یہ کام کردیا اور وہ اب گرفتار ہیں لیکن ان کی پارٹی نے ان کو اپنانے سے انکار کردیا ہے اور یہ بھی کہہ دیا کہ ان کا ہم سے قطعی کوئی تعلق نہیں۔ اب کیا ہوگا؟ مسلسل خواری، جیل، عدالت، تھانہ، کچہری، وکیل، خرچہ اور سزا۔ یہ دو لوگوں کی کہانی نہیں، ہزاروں لوگوں کی کہانی ہے جن کے اگلے کئی سال اذیت بھرے ہوں گے۔
خونیں احتجاج ہوگیا، لیڈر اے سی والے کمرے میں سکون سے براجمان ہے۔ ان کانوں نے یہ بھی سنا کہ لیڈر کہتا ہے کہ ہمارا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں اور احتجاج کرنے والے ہمارے کارکن نہیں۔ لیڈر کی یہ مجبوری ہے کیونکہ وہ کھلے عام یہ قبول نہیں کرسکتا، کیونکہ آپ عوام کے ذریعے لیڈر کچھ خاص جگہ پیغام پہنچاتا ہے۔ بہرحال ان واقعات نے ملکی سیاست کو زخمی کیا ہے جس کے اثرات طویل عرصے ریاست کی روح پر رہیں گے۔
سیاسی کارکنوں کو یہ بات اب سمجھ لینی چاہیے کہ ریاست کے خلاف جو بھی کھڑا ہو آپ اس کے خلاف کھڑے ہوں۔ ریاست کو ہر حال میں مقدم رکھنا ہوتا ہے، کیونکہ ریاست ہوگی تو سیاست ہوگی اور سیاست ہوگی تو لیڈر ہوگا۔