قوانین اور اصول صرف کتابوں میں ہی ملیں گے

آئین کا لفظ ہمیں صرف سیاستدانوں کے جلسوں میں سننے کو مل رہا ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول مشہور ہے ”معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے ظلم پر نہیں“۔ اس ایک قول کے تناظر میں اس وقت پورے پاکستان کا نظام ملاحظہ کرلیجیے تو آپ کو حالات کی خرابی کا ادراک ہوجائے گا۔
”آئین ایک مقدس دستاویز ہے“ ہم تقاریر میں نہ صرف اس فقرے کی اکثر گردان سنتے آئے ہیں بلکہ ہمیں نصاب میں بھی یہی تاثر دیا جاتا ہے کہ آئین کوئی ایسی دستاویز ہے جس کے تحت ملک میں انصاف کا بول بالا ہوتا ہے، ظالم کی بیخ کنی کی جاتی ہے، مساوات اور برابری کو عملی سطح پر نافذ کیا جاتا ہے، ہر ادارہ اپنی حدود و قیود میں رہ کر کام کرتا ہے۔ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ اسی مقدس دستاویز میں تحریر ضوابط کے تحت اپنا اپنا کام احسن طریقے سے کرتے ہیں۔
قائداعظم کے چودہ نکات ہوں ہو پھر قراردادِ مقاصد، آئینِ پاکستان ہو یا پھر وفاق اور اس کی اکائیوں کے حوالے سے اصول و ضوابط، درسی کتب میں تو تفصیلات ازبر کروائی جاتی ہیں لیکن عملی سطح پر ہمیں دور دور تک کوئی تبدیلی قیام پاکستان سے آج تک نظر نہیں آتی۔ ہمیں جو درسی کتب میں آئین ملا، اس میں اقتدار کا منبع عوام تھے۔ لیکن یہ درسی کتب میں ہی کہیں لکھا رہ گیا۔ اور آج حال یہ ہے کہ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔
عوام پر سب سے بڑا ظلم ہی یہی ہے کہ آئین نے عوام کو جو حقوق دیے ہیں، اشرافیہ ان سے بھی انہیں محروم رکھتی ہے اور پھر آئین کی بالادستی کا نعرہ بھی لگاتی ہے۔ انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ عوام کو ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے بعد سیاستدان اقتدار کی جنگ پھر جیسے چاہے لڑتے، لیکن یہاں جس کو موقع ملا اس نے عوام کےلیے مشکلات ہی پیدا کیں۔
موجودہ حالات کے تناظر میں آئین کا لفظ ہمیں صرف عدلیہ کی راہداریوں، ایوان کے دریچوں اور سیاستدانوں کے جلسوں میں سننے کو مل رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ انتخابات 90 دن میں کروائیں، آئین یہ کہتا ہے۔ الیکشن کمیشن کہتا ہے ہم نوے دن سے زیادہ میں کروائیں گے، یہ بھی آئین کہتا ہے۔ عدلیہ کہتی ہے ہم اپنا فیصلہ نافذ کروائیں گے، ہمیں آئینی اختیار ہے۔ پارلیمان کا دعویٰ ہے کہ ہم سپریم ادارہ ہیں، ہم پر مرضی کی رائے نہیں تھوپی جاسکتی، یہ ہمارا آئینی استحقاق ہے۔ فوج خاموش ہے، بقول شخصے کہ آئین یہی کہتا ہے۔ لیکن سیاستدان اس ادارے کی خاموشی کو بھی پسند نہیں کرتے اور ان کا بولنا بھی۔ کیوں کہ کچھ کو ان کی خاموشی گوارا ہے کچھ کو ان کا بولنا فائدہ مند ہے۔
ایک عام پاکستانی بھی سیاستدانوں سے یہ سوال کرنا شاید بھول گیا ہے کہ کیا آئین پاکستان صرف اقتدار کی تقسیم کا فارمولہ ہے یا اس سے بڑھ کر ہے؟ ہم یہ سوال کرنا گوارا ہی نہیں کرتے کہ کیا آئین پاکستان کی دستاویز اس لیے مقدس ہے کہ اس میں عوام کو حقوق دیے گئے ہیں یا یہ مل کر بندر بانٹ کے اصول پر ملک کو کھانے کی وجہ سے مقدس دستاویز ہے۔
عوام بنیادی طور پر صرف نعرے لگانے اور وقتی طور پر پروٹوکول لینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں (انتخابات کے دوران) ورنہ وہ اپنے سیاستدانوں سے یہ سوال کرنا گوارا نہیں کرتے کہ آپ بے شک عدلیہ و انتظامیہ کے درمیان الیکشن الیکشن کی لڑائی لڑیں، لیکن آئین کے آرٹیکل 25 (الف) میں جو کہا گیا ہے کہ سولہ سال تک کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم ریاست فراہم کرے گی، تو وہ ہمیں کب مہیا کی جائے گی؟ لیکن ہم سوال کرنے والی قوم ہی نہیں۔
اداروں کی لڑائی پر وہ ضرب المثل صادق آتی ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں چیونٹی ماری جاتی ہے۔ ہم اپنی عقل سیاستدانوں کی حمایت میں گلے پھاڑنے تک ہی استعمال کرتے ہیں، ورنہ کم از کم ہم تمام اداروں سے اتنا سوال تو کرتے کہ جناب آپ سب آپس میں لڑلیں لیکن آئین کے آرٹیکل 32 میں جو بلدیاتی اداروں کے فروغ کا وعدہ کیا گیا ہے، اس پر کیوں عمل درآمد نہیں کیا جاتا؟ اور یہی سیاسی جماعتیں ہی بلدیاتی نظام میں کیوں روٹے اٹکاتی ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بلدیات میں کسی نہ کسی طرح غریب کی رسائی ممکن ہوجاتی ہے اور یہی اداروں کو اور سیاستدانوں کو گوارا نہیں؟
ہمیں صرف الیکشن کی کھینچاتانی میں الجھا دیا گیا ہے اور عوام بھی نہ تو سیاستدانوں اور نہ ہی اداروں سے یہ سوال کرنا چاہتے ہیں کہ آئین کی شق 37 میں تفصیل سے جو معاشرتی انصاف کا فروغ اور معاشرتی برائیوں کا خاتمہ بیان کیا گیا ہے، کیا اس کی جانب بھی ہمارے رہنما توجہ دے رہے ہیں۔ اس جانب توجہ دینا تو ہمارے رہنماو¿ں کی سیاست ہی ختم کردیتا ہے تو بھلا وہ کیوں توجہ دیں گے۔ بس انتخابات کروائیں، پرانے کھانے والوں کو نکالیں کہ نئے کھانے والوں کو موقع ملے۔ کوئی پانچ سال کھاتا ہے کوئی تین سال اور بس۔
پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ ہمارے ہاں قراردادِ مقاصد ہو یا بابائے قوم کے اقوالِ زریں، آئینِ پاکستان ہو یا ادارہ جاتی قواعد و ضوابط، درسی کتب میں پڑھنے کو سب کچھ میسر ہے جب کہ عملی سطح پر اس کا دس فیصد بھی نظر نہیں آتا۔ آئین میں عوام کو کیا حقوق حاصل ہیں، فلاحی ریاست کے کیا خدوخال بیان کیے گئے ہیں، طاقت و اختیار کا اصل منبع کسے قرار دیا گیا ہے، عوامی طاقت کیا ہوتی ہے، عوام کے سامنے حاکمِ وقت کی اوقات کیا ہے، تعلیم، صحت اور دیگر خدمات عامہ کے شعبہ جات کیسے ریاست کی ذمے داری ہیں؟ ان تمام عوامل کو آئینِ پاکستان سے بھلا دیا گیا ہے اور آئین کی مقدس دستاویز کو صرف اپنے اقتدار کو دوام دینے کےلیے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود عوام اپنی دھن میں مگن ہیں، بھنگڑے ڈال رہے ہیں اور خودغرض سیاستدانوں کے حق میں نعرے لگارہے ہیں۔