محکمہ تعلیم سندھ تعلیم دشمنوں کے نشانے پر سندھ کے شعبہ تعلیم کو ایک پڑھے لکھے، قابل اور تعلیم سے جڑے شخص کی اشد ضرورت ہے

جاوید الرحمن خان
ویسے تو پورے پاکستان میں شعبہ تعلیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے، مگر سندھ میں اس حوالے سے صورت حال خاصی دگرگوں ہے۔ اس کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں ”کرپشن“ پر نظر رکھنے والی عالمگیر تنظیم کی پاکستان میں قآم شاخ ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل پاکستان نے اپنی سروے رپورٹ 2022 میں پاکستان بھر میں ”کرپشن“ کے حوالے سے کئے گئے سروے کے نتآج کا ذکر کیا ہے، جس میں شعبہ تعلیم کو پاکستان کا چوتھا کرپٹ ترین شعبہ قرار دیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق صوبائی سطح پر کرپشن کے حوالے سے صوبہ سندھ کا پہلے نمبر پر کرپٹ ترین ادارہ محکمہ تعلیم کو قرار دیا گیا، جو کرپشن میں پولیس اور ٹینڈرنگ اینڈ کنٹریکٹ جیسے بدنام شعبہ جات کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ سروے رپورٹ کے مطابق پاکستان کے دیگر تین صوبوں میں سے کسی بھی صوبے میں کرپشن کے حوالے سے شعبہ تعلیم پہلا، دوسرا یا تیسرا مقام بھی حاصل نہ کرسکا۔ واقعہ یہ ہے کہ تعلیم اور صحت دو ایسے ب±نیادی سماجی شعبے ہیں، جن کا تعلق براہ ِ راست عوام سے ہوتا ہے، خصوصاً غریب اور متوسّط طبقے کے حوالے سے، ان طبقات کی زندگیاں بہتر بنانے کے ضمن میں تو ان دونوں شعبوں کی اہمیت اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے اس ل?ے ان دو شعبوں میں کرپشن معاشرتی ناسور کی صورت اختیار کرجاتا ہے۔
اگر دیکھا جائے تو 23-2022 کے بجٹ میں سندھ حکومت نے تعلیم کی ترقی کے لیے 1.7 ٹریلین روپے یا 34.217 بلین روپے کے مجموعی بجٹ کا صرف 2 فیصد مختص کیا تھا بجٹ ریکارڈ کے مطابق صوبائی حکومت نے بجٹ میں 2 ارب روپے رکھے تھے۔ پرائمری اسکولوں کو معاون سہولیات کے ساتھ ابتدائی اسکول میں تبدیل کرنے کے لیے 100 ملین روپے رکھے گئے تھے، جبکہ سندھ حکومت نے کراچی کے علاقے کورنگی، کراچی ویسٹ، کیماڑی، ملیر، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈو اللہ یار اور سجاول کے اضلاع میں پبلک سیکٹر یونیورسٹی کے کیمپس بنانے کے لیے ایک ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا۔ سکھر میں جامع ہائی اسکولز (10 یونٹ) کے قیام کے لیے 100 ملین روپے مختص کئے گئے، جب کہ اتنی ہی رقم صوبے کے دیگر اضلاع میں ہائی اسکولوں کے قیام کے لئے مختص کی گئی۔ سندھ حکومت نے ڈویڑنل ہیڈ کوارٹر میں سائنس میوزیم کی تعمیر کے لئے 27 ملین روپے مختص کئے۔ لاڑکانہ میں گورنمنٹ اسپیشل ایجوکیشن اینڈ ری ہیبیلی ٹیشن سینٹر آف ایکسی لینس آٹزم سینٹر میں ایک سہولت کی تعمیر کے لیے111 ملین روپے مختص کئے گئے۔ رہائشی فلیٹس کی ترقی کے لئے نئی پیپلز یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنس برائے خواتین نواب شاہ کیمپس کے لئے 200 ملین روپے مختص کرنے کی تجویز بھی دی گئی۔گورنمنٹ بوائز ہائر سیکنڈری اسکول سعید خان لغاری کی عمارت 16.5 ملین روپے سے تعمیر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے بجٹ تقریر میں کہا تھا کہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈیپارٹمنٹ این ای ڈی یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، کراچی کیمپس کے گراو¿نڈ میں 1.3 ایکڑ اراضی پر ملک کا پہلا مکمل طور پر مربوط سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک قائم کرے گا، جبکہ 1 ارب روپے کی لاگت سے پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈل تعمیر کیا جائے گا۔ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز ڈیپارٹمنٹ نے 29 اداروں کے لئے توانائی اور پیسہ بچانے کے لئے پبلک سیکٹر کی یونیورسٹیوں کو سولرائز کرنے کی بھی حمایت کی۔ یہ شعبہ انسٹی ٹیوٹ آف فارمیسی لیاقت یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز جامشورو بھی بنائے گا، جو سالانہ 80 فارماسسٹ تیار کرے گا۔ یہ سارے منصوبے گزشتہ سال کے بجٹ کے موقع پر بنائے گئے تھے، مگر ان کی پیش رفت یا تکمیل کے حوالے سے کوئی مستند رپورٹ منظر عام پر نہیں آئی ہے، جب کہ نیا بجٹ بھی آئندہ ماہ پیش ہونے کا
وقت قریب آچکا ہے افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ گزشتہ بجٹ میں کھربوں روپے کی خطیر رقم مختص کئے جانے کے باوجود سندھ کے سرکاری اسکولوں کا جو حال ہے، وہ کسی سے ڈھکا چھ±پا نہیں۔ گھوسٹ اسکول اور گھوسٹ اساتذہ کا تصوّر صوبہ سندھ کے علاوہ اور کسی صوبے میں نہیں اور اب تو گھوسٹ اساتذہ کے معاملات کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ گزشتہ سال بھی دسمبر میں محکمہ تعلیم سندھ نے صوبے میں “گھوسٹ اساتذہ” کے خلاف بڑا ایکشن لیتے ہوئے ہزاروں ملازمین کی تنخواہیں روک لی تھیں محکمہ تعلیم نے گھوسٹ اساتذہ کی تنخواہیں روکنے کے لئے اکاو¿نٹنٹ جنرل سندھ کو خط لکھا، جس میں انہیں سندھ کے 2 ہزار 19 ملازمین کی تنخواہیں فوری روکنے کا کہا گیا تھا۔ اس حوالے سے سیکریٹری تعلیم سندھ اکبر لغاری نے دعویٰ کیا تھا کہ گھر بیٹھے تنخواہ لینے والے ملازمین کو نوکری سے فارغ کریں گے۔ اکبر لغاری کی جانب سے جاری کی گئی فہرست کے مطابق کراچی میں 144، حیدرآباد میں 132، میرپور خاص میں 114، قمبر شہداد کوٹ میں 464، جیکب آباد میں 190، دادو میں 102، بے نظیر آباد میں 182، شکار پور میں 128، نوشہرو فیروز میں 89، لاڑکانہ میں 155 اور سانگھڑ میں 28 گھوسٹ اساتذہ موجود ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سیکریٹری تعلیم کی جانب سے گھوسٹ اساتذہ کی مذکورہ فہرست سندھ حکومت کی وزارتِ تعلیم کے منہہ پر زوردار طمانچہ ہے۔ اس وزارت اور محکمہ تعلیم میں کیسے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، جو گھوسٹ اساتذہ کو تنخواہیں دئیے جا رہےہیں؟
اسکولوں کو ناکارہ بنانے کے بعد اب سندھ کے تعلیم دشمنوں کا نشانہ محکمہ تعلیم کالجز ہے، جس میں کرپشن اور بدانتظامیوں کا دور جاری ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سندھ میں محکمہ تعلیم میں کرپشن کا خاتمہ اس وقت ہی ممکن ہے، جب معاشرے کے دیگر طبقات بھی اس ضمن میں اپنا م?ثر کردار ادا کریں۔ سندھ کے موجودہ وزیر تعلیم سیّد سردار شاہ کو چند برس قبل 2018 میں جب پہلی مرتبہ محکمہ تعلیم کا قلمدان تفویض کیا گیا تھا تو وہ سندھ کے محکمہ تعلیم میں کرپشن کے خاتمے اور تعلیمی نظام کی بہتری کے ضمن میں خاصے مخلص نظر آتے تھے، چنانچہ جب انہوں نے اس سلسلے میں انقلابی اقدامات اٹھانے کا سلسلہ شروع کیا تو ا±ن سے محکمہ تعلیم کا قلمدان واپس لے کر سعید غنی کے حوالے کردیا گیا، جو بعد ازاں دوبارہ اب سیّد سردار شاہ کو تفویض کردیا گیا ہے، مگر اس مرتبہ سیّد سردار شاہ اپنے عزآم کی تکمیل کے ضمن میں بے بس نظر آرہے ہیں یہی وجہ ہے کہ سندھ کا محکمہ تعلیم ایک بین الاقوامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق کرپشن میں ملک کے دیگر صوبوں کو پیچھے، بلکہ بہت پیچھے چھوڑ گیا ہے۔
مذکورہ بالا رپورٹ تو اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ سال 2022 سندھ کے تعلیمی شعبے کے لئے بدترین سال رہا۔ اس سال بھی اسکولوں سے گھوسٹ اساتذہ کا خاتمہ نہ ہوسکا۔ سال 2022 میں سندھ میں تعلیم کے لئے 356 ارب روپے سالانہ بجٹ میں رکھے گئے تھے۔ اس کے باوجود گزشتہ سال تعلیم کے حوالے سے بدقسمت ثابت ہوا اور اسکول ڈراپ آو?ٹس کی تعداد بڑھ گئی۔ 5 ہزار اسکولوں کی عمارتیں آج بھی مخدوش ہیں۔ سیلاب آیا تو صوبے میں موجود 49 ہزار اسکولوں میں سے 20 ہزار مکمل تباہ ہو گئے، جس کے باعث 23 لاکھ طلبہ سے تعلیمی سہولیات چھن گئیں اور ان کے تعلیمی مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا۔ تاحال ان کی بحالی کے لئے کوئی مو¿ثر اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں۔
گزشتہ سال بھی سرکاری اسکولوں کے اساتذہ ملازمت مستقل کرنے کا مطالبہ لئے سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے لیکن 2017 میں بھرتی ہونے والے ہیڈ ماسٹرز اور 10 سال سے ملازمت کرتے کنٹریکٹ اساتذہ کے اس احتجاج کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ ایک جانب کنٹریکٹ اساتذہ کا ناکام احتجاج تھا تو دوسری جانب سندھ حکومت کو 2022 میں اسکولوں سے گھوسٹ اساتذہ کا خاتمہ کرنے میں بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اس سال بھی کئی اساتذہ کو بغیر حاضری تنخواہ وصول کرنے پر ملازمتوں سے برطرف کیا گیا۔
سندھ میں اعلیٰ تعلیم کی بات کی جائے تو پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی جامعہ کراچی بھی سنگین مالی بحران کا شکار رہی۔ انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں شہر قائد سمیت سندھ کے درجنوں کالج کے تمام طلبہ فیل قرار پائے۔ سندھ کے تعلیمی بورڈ کے امتحانات ہوں یا پروفیشنل جامعات و کالجز کے معاملات، تمام امور میں انتظامی بدنظمی دیکھنے میں آئی۔ اس ساری صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا بجا ہو گا کہ سندھ کے شعبہ تعلیم کو ایک پڑھے لکھے، قابل، باشعور، جدید تقاضوں سے واقفیت رکھنے والے اور تعلیم سے جڑے شخص کی اشد ضرورت ہے، جو محکمہ تعلیم میں انقلابی اقدامات کے ذریعے مثبت تبدیلیاں لا کر “کرپشن” کا بدنما داغ مٹا سکے!