ایک اور ہجرت کا دکھ؟

ہم ہیں تو یہ وطن ہے اور یہ وطن ہے تو ہی ہم ہیں۔
”میں نے ہاتھوں کا پیالہ بناکر تالاب سے پانی بھرا۔ ابھی پانی میرے ہونٹوں سے دور ہی تھا جب میری نظر اس تالاب پر پڑی۔ اندھیرے کی وجہ سے پہلے تو میں جان ہی نہ پایا کہ یہ سب کیا ہے مگر جب غور سے دیکھنا شروع کیا تو آہستہ آہستہ پانی میں تیرتی ہوئی لاشیں دکھائی دی۔ میرے ہاتھ ایک دم کھل گئے اور میرا پیالہ ٹوٹ گیا“۔
حاجی انور صاحب نے یہ کہنے کے بعد اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھنا شروع کردیا اور ان کے چہرے کے تاثرات میں وہ کرب واضح دکھائی دے رہا تھا جیسے ایک بار پھر ان کا پیالہ ٹوٹ گیا ہو۔
کافی دیر خاموش رہنے کے بعد انہوں نے کہا کہ میری اولاد مجھ سے کہتی ہے کہ اللہ نے ہمیں سب کچھ دیا ہے تو کیوں نہ ہم امریکا، برطانیہ یا کینیڈا میں سے کسی ایک کی شہریت لے کر وہاں چلے جائیں؟ ویسے بھی ہجرت میں برکت ہے اور یہاں کے حالات کبھی ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے۔ بدحالی، پسماندگی، آئے دن کے بحران اور مسلسل بے یقینی ہی ہمارا مقدر ہے۔ مگر میں انہیں سمجھاتا ہوں کہ ایسا سوچو بھی مت۔ شکر کرو کہ تم ایک آزاد اور خودمختار اسلامی ملک میں پیدا ہوئے ہو۔
آج یہ جو ہماری کاروباری ساکھ اور پیسے کی ریل پیل ہے، یہ سب اسی ملک کی بدولت ہے اور ہجرت تو وہ تھی جو 1947 میں کی۔ اب یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ جس سرزمین نے مجھے یہ اعلیٰ مقام دیا، ایک ایسا مستحکم کاروبار دیا کہ ساری دنیا کے دروازے میرے لیے کھل جائیں اور میں اپنی شناخت سے ہی غداری کر گزروں۔ میری پیدائش بھلے ہندوستان ہی کی تھی مگر میرا جینا مرنا پاکستان ہی ہے۔ یہ جسے تم ہجرت کا نام دے رہے ہو، یہ ہجرت وہ نہیں۔ یہ تو سیدھا سیدھا دھوکا ہے جو تم خود کو اور اپنی آنے والی نسل کو دے رہے ہو۔
لاکھوں لوگ تھے جنہوں نے اپنا سب کچھ قربان کرکے اس سرزمین پر قدم رکھا اور ان لاکھوں لوگوں میں سے گنتی کے لوگ تھے جنہوں نے یہاں آتے ہی ایسی صنعتوں کی بنیاد رکھی جس نے ہزاروں لوگوں کو نہ صرف روزگار دیا بلکہ بین الاقوامی منڈیوں میں بھی پاکستان کو صف اول میں لا کھڑا کیا۔
حاجی صاحب جیسے بہت سے لوگ اب بھی ہمارے اردگرد ہیں جنہوں نے اپنے ماں باپ، اپنی جائیدادیں، اپنا سب کچھ قربان کرکے اپنے ٹوٹے پھوٹے وجود کو یہاں آباد کیا بلکہ اپنی شناخت بھی بنائی۔ ان کا ایمان اس نکتہ پر پختہ ہے کہ ہم ہیں تو یہ وطن ہے اور یہ وطن ہے تو ہی ہم ہیں۔ حاجی صاحب سے میری اس قدر طویل نشست نہ ہوتی مگر گزشتہ روز جب اصغر کا مجھے فون آیا کہ ابا جی بہت اداس اور پریشان ہیں اور بار بار یہی کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کے ساتھ یہ ہو کیا رہا ہے۔ یہ جلاو¿ گھیراو¿، من پسند فیصلوں پر بھنگڑے، مٹھائیاں، اور اگر فیصلے اپنی مرضی کے نہ ہوں تو پھر دھرنے۔ یہ سب ہم اپنے ہی وطن کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے ایک بار پھر میں اسی تالاب کے پاس کھڑا ہوں۔
حاجی صاحب کو میں خاموشی سے سنتا رہا۔ میرے پاس کوئی ایسی مضبوط دلیل نہیں تھی، کوئی ایسی میٹھی گولی بھی نہیں تھی جس کی چاشنی سے ان کو اچھا احساس ملتا۔ ہاں البتہ چند سوچیں اور سوال ضرور تھے کہ پاکستان کے سیاسی نظام میں ہماری اشرافیہ اور اہل دانش میں ہمیشہ یہ تاثر پایا گیا ہے کہ سول اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک سرد جنگ رہی ہے لیکن سیاسی فریقین نے کوئی بھی موقع اپنی بالادستی منوانے کا ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور ہم اپنی آزادی سے لے کر آج تک اسی مخمصے کا شکار ہیں کہ یہاں کس کی حکمرانی ہونی چاہیے۔
سب کا حصول طاقت کو لمبے عرصے تک اپنے ہاتھ میں رکھنا ہے۔ یہ پریکٹس قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی جڑیں پکڑنا شروع ہوگئی تھی۔ اس عمل نے تمام سنجیدہ سیاسی کارکنوں اور سیاسی اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے مختلف طبقات، جن میں میڈیا، وکلا، ریٹائرڈ حضرات یا ایسے عناصر جو سیاسی عمل میں ایک بڑا اور مثبت کردار ادا کرسکتے تھے، انہیں سیاسی جماعتوں نے فیصلہ سازی سے باہر ہی رکھا اور ان کے مقابلے میں وہ عناصر سامنے آئے جو محض اپنی دولت اور طاقت کے ساتھ ساتھ پس پردہ قوتوں کے آلہ کار کر بن کر سیاسی رہنماو¿ں کا روپ دھار چکے تھے۔
بدقسمتی یہی ہے کہ اس مافیا نے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی گرفت میں لے لیا ہے اور انہیں تحفظ حکومتیں اپنے اقتدار کو تقویت دینے کےلیے دیتی ہیں۔ بہت سے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے سیاست میں داخل ہوئے اور ان پر کرپشن کا کوئی دھبہ یا پس منظر نہ تھا لیکن پھر سب نے دیکھا کہ انہوں نے نہ صرف خوب دولت کمائی بلکہ وہ ایک بڑی مافیا کی سیاست کا حصہ بھی بن گئے۔
جمہوریت حقیقی معنوں میں یہاں پنپنے ہی نہ دی گئی، بلکہ ہر بار نافذ کرنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ ایک ہی طرح کے کھیل نے اب عوام کے سارے طبق روشن کردیے ہیں مگر سیاسی جماعتوں کے نسل در نسل مالکان ابھی بھی پرانے ادوار کی سنہری یادوں میں وہی چور سپاہی کا کھیل جاری رکھنے پر بضد ہیں۔ہمارے آبا و اجداد نے ہندوستان سے ہجرت کی اور پاکستان کی راہ لی، وہ آج بھی ان دکھوں اور تکلیفوں کو نہیں بھولے مگر جب ان کی نسل مایوس ہوکر ایک اور ہجرت کی بات کرتی ہے تو ان کی روح چھلنی ہوجاتی ہے۔ ہر سیاسی جماعت میں ایسے محب وطن کارکن موجود ہیں جن کی سیاست کا محور پاکستان کو ایک پرامن، ترقی یافتہ اور فلاحی ریاست کے طور پر بنانا ہے اور جو واقعی موجودہ حالات اور سیاسی راستہ اپنے اور اپنے ساتھیوں کےلیے بند ہونے پر فکرمند ہیں اور نجی محفلوں میں سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادتوں کی ڈکٹیٹر شپ پر بھی نالاں ہیں۔ ان سب کو سیاسی نظام میں پھیلی ہوئی خرابیوں کے خلاف کھڑا ہونا ہوگا اور مزاحمت کرنا ہوگی کہ سیاست کے نام پر گھیراو¿، جلاو¿ اور اداروں کو بلیک میل کرکے خود کو سیاسی تحفظ دینے کا سلسلہ اب ختم ہونا چاہیے۔