قومی ادارے اور ناقص پالیسی

چند سال قبل بنگلادیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے ورلڈ بینک سے قرض دینے کی درخواست کی کچھ عرصہ ورلڈ بینک ان سے ملکی نظام چلانے کی معلومات لیتا رہا پھر کچھ معاشی شرائط دی۔ اسی طرح چھ ماہ گزر گئے، تھک ہار کر جب حسینہ واجد تنگ آگئی تو انہوں نے ورلڈ بینک کا پروگرام ہی لینے سے انکار کر دیا۔ حسینہ واجد نے اپنے ذرائع آمدن بڑھانے شروع کر دیئے اور چند ہی سالوں میں بنگلادیش کی معیشت خطے کی سب سے مضبوط اور مستحکم معیشت بن گئی۔
بنگلادیش آج دنیا کے نامور اور مشہور و معروف برانڈز کے کپڑے تیار کرتا ہے، پاکستان اور بھارت سے زیادہ انٹرنیشنل کمپنیاں بنگلادیش کے تیار کردہ برانڈز کو ترجیحی دیتے ہیں، یہی کچھ آج آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ کر رہا ہے، بدقسمتی دیکھیں پاکستان اپنے ذرائع آمدن بڑھانے کے بجائے آئی ایم ایف کا جاری شدہ پروگرام ختم کر کے نیا پروگرام لینے کی تیاریاں کر رہا ہے، آئی ایم ایف جیسے ادارے کا بنیادی مقصد پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کی مشکل معاشی حالات میں مالی مدد کرنا ہے لیکن پاکستان کو اسی ادارے نے گزشتہ 7 ماہ سے چکروں میں الجھایا ہے، آئی ایم ایف کے چکر میں قوم کا کچھ خون چیئرمین پی ٹی آئی چوس گئے اب رہا سہا خون شہباز شریف چوس رہے ہیں۔
شہبازشریف کی کابینہ حجم 90 کے قریب پہنچ چکا ہے لیکن وزرائ کی اس فوج میں ایک بھی شاید ایسا قابل بندہ نہیں جو وزیراعظم کو مشورہ دے کہ ہمیں قرضے لینے کے بجائے اپنے ذرائع آمدن بڑھانے چاہیے۔ نئے ٹیکس لگانے سے وقتی حکومت کا سانس نکل جاتا ہے لیکن عام آدمی کا سانس جو پہلے ہی ہلک میں اٹکا ہوتا ہے مزید نکل جاتا ہے۔ احسن اقبال اور اسحاق ڈار جیسے تجربہ لوگوں کی کابینہ میں موجودگی کے باوجود ذرائع آمدن بڑھانے کی کوئی بات نہیں کرتا۔ پاکستان کے آمدن کے چار بڑے ادارے ہیں۔ جن میں ریلوے، پی آئی اے، مواصلات اور سٹیل ملز شامل ہیں جبکہ ان کے علاوہ ریونیو کا محکمہ ہے۔
پی آئی اے جو کسی وقت میں دنیا کی ٹاپ ترین ایئر لائن تھی آج اس ایئر لائن پر پاکستانی ہی بیٹھنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ پی آئی اے کے ریکارڈ کے مطابق قومی ایئر لائن میں گزشتہ سال 45 لاکھ پاکستانیوں نے سفر کیا جو ملکی آبادی کا بمشکل 5 فیصد بھی نہیں بنتے۔ پی آئی اے سالانہ پاکستانیوں کا 80 سے 90 ارب کھا رہا ہے جہنوں نے کبھی پی آئی اے کا سفر تک نہیں کیا۔ پی آئی اے کا قرض اور خسارہ اثاثوں سے 300 گنا زائد ہو چکا ہے۔ خسارہ اور واجب الادا قرض 840 ارب روپے سے تجاوز کر گیا ہے۔ سال 2022 میں پی آئی اے کا خسارہ 88 ارب تھا۔
پچھلے 5 سال میں پی آئی اے کے قرض میں 267 ارب روپے کا ریکارڈ اضافہ ہوا۔ قومی ایئر لائن نے 350 ارب روپے بینکوں کو ادا کرنے ہیں۔ قومی ایئرلائن کے اندرون اور بیرون ملک اثاثوں کی مجموعی مالیت ایک ارب 30 کروڑ ڈالر ہے۔ مشرف دور میں پی آئی اے کا خسارہ صرف 4 ارب تھا جبکہ آج 90 ارب سے زائد ہوچکا ہے۔ اس وقت پی آئی اے کے پاس 28 طیارے ہیں جن کے لئے 9000 ملازمین کام کرتے ہیں۔ اس حساب سے ایک طیارے کے لئے 321 افراد کو رکھا گیا ہے۔
پاکستان ریلوے بھی خسارے میں جا رہا ہے۔ ریلوے کا خسارہ رواں سال کے پہلے 7 ماہ میں 29 ارب 99 کروڑ روپے سے زائد کا ہوا۔ ریلوے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ میں ریلوے کو 32 ارب 91 کروڑ 10 لاکھ 75 ہزار روپے آمدنی ہوئی جبکہ 62 ارب 90 کروڑ 28 لاکھ 62 ہزار روپے کے اخراجات آئے۔ پارلیمانی سیکرٹری شاہدہ رحمانی نے گزشتہ دنوں پارلیمنٹ میں وقفہ سوالات کے دوران انکشاف کیا کہ سٹیل ملز میں جون 2015 سے پیداوار بند ہے۔ سٹیل ملز 206 ارب روپے کی مقروض ہے۔ یہ قرضہ اس مدت میں بڑھا جب پیداوار بند تھی۔ اس دوران ملازمین کو تنخواہیں ادا کی جاتی تھیں۔ گاڑیوں کے اخراجات تھے۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ (جولائی تا مارچ) کے عرصے میں وفاقی حکومت کی جانب سے 6 ہزار 978 ارب 17 کروڑ 90 لاکھ روپے کے اخراجات کئے گئے، جن میں سے 3 ہزار 582 ارب 44 کروڑ 70 لاکھ روپے قرض و سود کی مد میں ادا کئے گئے۔ یوں رواں مالی سال وفاقی حکومت کے کل اخراجات کا 51 فیصد حصہ قرض و سود کی ادائیگی میں صرف ہوا۔
وزارت خزانہ کی دستاویزات کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران ایف بی آر کی جانب سے 5 ہزار 155 ارب 90 کروڑ 60 لاکھ روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا گیا جبکہ 6 ہزار 396 ارب 58 کروڑ 20 لاکھ روپے کا مجموعی ریونیو اکٹھا کیا گیا۔ جولائی 2022ئ سے مارچ 2023ئ کے عرصے میں وفاقی حکومت کی جانب سے کی جانے والی قرض و سود کی ادائیگی ایف بی آر کے ریونیو کا 69 فیصد جبکہ وفاقی حکومت کے مجموعی ریونیو کا 56 فیصد ہے، ہر گزرتے سال کے ساتھ قرض و سود کی ادائیگیوں کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کی آمدن کا تقریباً 58 فیصد پیسہ قرض اور سود کی مد میں ادا کر دیا جاتا ہے۔ سود اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے لیکن ہم مسلمان ریاست ہونے کے باوجود اپنی ملکی آمد کا 52 فیصد صرف سود کی مد میں ادا کر دیتے ہیں۔ سول ایوی ایشن اور ریلوے کے مختار کل سعد رفیق ہیں جو نوازشریف کے قریبی ساتھی ہیں۔ نجی ایئر لائنز میں اسوقت سب سے ٹاپ پر شاہد خاقان عباسی کی ایئر لائن جا رہی ہے جبکہ سب سے خسارے میں پاکستان کی ایئر لائن جا رہی ہے جو سعد رفیق کے انڈر ہے۔ شاہد خاقان 1999 میں سول ایوی ایشن کے چیئرمین تھے ان کو نوازشریف نے ہی چیئرمین بنایا تھا جبکہ پرویز رشید پی ٹی وی کے چیئر مین تھے۔
پرویز رشید نے آج کہی بھی جانا ہو مریم نواز کی گاڑی میں ہی جاتے ہیں جبکہ شاہد خاقان کے لئے کہی بھی جانے کے لئے اپنے جہاز ہیں۔ قرضوں پر دنیا کا کوئی کاربارو نہیں چلتا لیکن ہم 75 سال سے پاکستان جیسا ایٹمی قوت کا حامل ملک دھکا لگا کر چلا رہے ہیں۔ نئے ٹیکس لگانا مسائل کا حل نہیں ہے ہمیں اپنے وسائل کو استعمال میں لاتے ہوئے ذرائع آمدن بڑھانا ہوں گے۔ اگلے آنے والے اگست میں پاکستان 76 سال کا ہو جائے گا ہم 76 سال بغیر کسی قومی پالیسی کے ضائع کر چکے ہیں جو اسوقت ہماری قومی پالیسی ہے لگتا ہے ہم اگلے 76 سال بھی ضائع کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہیں۔