پاکستانی حکمرانوں کی تصویر بے حسی ڈاکٹر عافیہ صدیقی

ڈاکٹرعافیہ صدیقی ناکردہ گناہوں کی پاداش میں دو دہائیاں اسیری میں گزار دینے والی ایک بیٹی،جسے انصاف دلانے کے لئے پاکستان کی کسی سیاسی اور مذہبی جماعت نے آج تک قابل عمل کوششیں نہیں کیں۔پرویزمشرف کے بعد سے حکومت خواہ پیپلزپارٹی کی ہو یا مسلم لیگ اور پھر عمران خان کی کسی نے بھی اپنے آقاﺅں کی مخالفت کے خوف سے اس کی باعزت رہائی کے لئے کوئی آواز نہیں اٹھائی ۔ہاں ان ضمیر فروش حکمرانوں نے اتنا ضرور کیا ہے کہ ایک کھلے عام قتل کرنے والے ریمنڈڈیوس کو عزت و تکریم کے ساتھ پاکستانی عدالتوں سے بری کروا کے اپنے آقا کے حوالے کیا اور اپنی حکومتوں کو دوام بخشا۔
اس سلسلے میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کو خراج تحسین پیش کرنا بے جا ہ نہ ہوگا کہ اس منحنی سے عورت نے اپنی بہن کی رہائی کے لئے بیس سالوں سے جو جدوجہد کی ہے اور عوام میں اس مسئلہ کو زندہ رکھا ہے اس پر پاکستانی قوم انہیں سلام پیش کرتی ہے۔
امریکی وکیل نے بھی اب کھل کر اظہار کردیا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستانی حکومت اور دفترخارجہ ہے جس نے ان کی رہائی کے لئے ابھی تک کوئی مثبت سفارتی پیش قدمی نہیں کی ہے کلائیواسمتھ کا یہ بیانیہ ان حکمرانوں کے لئے ڈوب مرنے کا ایک مقام ہے کہ وہ اقتدار حاصل کرنے کے لئے کس طرح اپنے ضمیروں کا سودا کرتے ہوئے لاکھ اختلافات بھول کر اپنے مخالفین کو گلے لگالیتے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے کوئی آواز اٹھانا اس لئے ضروری نہیں سمجھا کہ کہیں ان سے امریکا ناراض نہ ہوجائے۔
پاکستانی میڈیا اس بارے میں بہرکیف کسی حد تک یہ آواز تو بلند کررہا ہے اور اس سلسلے میں مختلف آرٹیکلزان کے خیالات کی عکاسی کرتے ہیں۔رضوانہ قائد نے” مجھے اس جہنم سے نکالو ¾ ¾کے عنوان سے ایک بلاگ میں لکھا ہے۔
امریکا میں مظلومانہ قید تین بچوں کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی اپنوں سے جدائی کے بیس سال بعد اکتیس مئی کو ملاقات کا موقع دے دیا گیا۔ دنیا کی اس انوکھی ملاقات کا احوال یہ کہ جیل کے ایک چھوٹے سے کمرے میں درمیان میں لگے موٹے شیشے کے آرپار فون پر گفتگو… بہن سے گلے ملنے یا ہاتھ ملانے کی پابندی تھی۔ بچوں کی تصاویر یا ویڈیوز دکھانے کی بھی اجازت نہ تھی۔
جیل کے مخصوص خاکی لباس اور سفید اسکارف زیب تن کیے، تشدد سے ٹوٹے دانتوں والے چہرے، مظلوم سراپے والی عافیہ جیل کے جہنم سے رہائی کی فریاد کرتی رہی۔ ماں کی وفات اور چھوٹے بیٹے کی گمشدگی سے بے خبر بیٹی، ماں اور بچوں کو یاد کرکے تڑپتی رہی۔ اس کی تڑپ کو آسودگی سے بدلنے میں ابھی اور کتنا عرصہ درکار ہے، یہ وقت بتائے گا۔
امریکا کی معروف جامعات میساچیوسٹس اور برینڈیز سے اعلیٰ تعلیم یافتہ، ڈاکٹرعافیہ صدیقی کو 2003 میں کراچی سے اغوا کرکے لاپتا کردیا گیا۔ 2008 میں برطانوی صحافی ایوون ریڈلے اور عمران خان کی پریس کانفرنس میں افغانستان میں امریکی عقوبت خانے بگرام جیل میں ڈاکٹر عافیہ کی خفیہ قید اور مظالم کا انکشاف کیا گیا۔ اس کے بعد ڈاکٹر عافیہ کو امریکی فوجیوں پر حملے کی کوشش کے الزام میں زخمی حالت میں امریکا منتقل کیا گیا۔
2010 میں اقدام قتل کے مقدمے میں الزام ثابت ہوئے بغیر چھیاسی سال کی قید سنائی گئی۔ امریکی جیل میں غیروں کے ظلم، زیادتی، تشدد کا شکار ڈاکٹر عافیہ ہر دم اپنوں کی مدد اور رہائی کی منتظر ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کےلیے ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی ملک اور بیرونِ ملک اپنے حمایتیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کے ساتھ عوامی سطح پر مسلسل سرگرم ہیں۔
ان کوششوں کی ایک کڑی 10 اپریل کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے کیس کی پیشی تھی۔ اس موقع پر انسانی حقوق کی معروف سماجی شخصیت اور ڈاکٹر عافیہ کیس کے وکیل و خصوصی معاون کلائیو اسٹیفورڈ اسمتھ نے ڈاکٹر عافیہ پر ہونے والے جسمانی و ذہنی مظالم کا تفصیلی بیان پیش کیا۔ مسٹر کلائیو اس سال فروری میں دو پاکستانی بھائیوں (ربانی برادران) کی گوانتانامو بے سے بیس سال بعد رہائی کو ممکن بنانے والے عالمی انسانی حقوق کے معروف وکیل ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی ان کا اگلا ہدف ہے۔
کلائیو کے مطابق وہ گوانتاناموبے جیل کے بہت سے قیدیوں کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ ان میں سے کسی نے بھی ڈاکٹر عافیہ سے زیادہ صبر و استقامت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ڈاکٹر عافیہ صدیقی پر ہونے والے جسمانی و ذہنی تشدد کے ریکارڈ کو عافیہ کیس کی سماعت کرنے والی امریکی عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔ ان کے مطابق اگر یہ ریکارڈ جیوری کے سامنے پیش کیا جاتا تو کوئی عدالت ڈاکٹر عافیہ کو جیل میں نہیں ڈال سکتی تھی۔ مسٹر اسمتھ نے معزز عدالت کو ایک خفیہ نوٹ بھی پیش کیا، جس میں انہوں نے تفصیل سے بتایا کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جلد از جلد بازیابی کےلیے کیا اقدامات کرسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان تمام کوششوں کو حکومت کی مسلسل حمایت کی ضرورت ہوگی۔ اس ضمن میں کلائیو اسمتھ نے حکومت پاکستان کو ڈاکٹر عافیہ کی جلد از جلد بازیابی کو یقینی بنانے کے ممکنہ ذرائع پیش کیے۔
عدالت نے کلائیو اسٹیفورڈ اسمتھ کی کوششوں کو سراہتے ہوئے وزارت خارجہ کے حکام کو عافیہ کیس میں مطلوبہ اقدامات کرنے کی ہدایت کی۔ مذکورہ عدالتی کوششیں امید کی کرن ثابت ہوئیں اور ڈاکٹر عافیہ سے ملاقات کےلیے ان کی بہن کو امریکی ویزہ جاری کردیا گیا۔
بیس سال بعد دونوں بہنوں کی ملاقات عمل میں آئی۔ پابندیوں کے ساتھ یہ ملاقات تشنہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کی کوششوں میں اہم پیش رفت معلوم ہوتی ہے۔ ڈاکٹر عافیہ کیس کے دیرینہ متحرک ترین کردار پاسبان کے چیئرمین الطاف شکور ہیں، جن کے عافیہ کی فیملی کے ساتھ مسلسل انتھک تعاون کی وجہ سے یہ کیس نہ صرف زندہ ہے بلکہ کامیابی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سنیٹر مشتاق اپنی سیاسی حیثیت کے ساتھ مو¿ثر کردار ادا کرنے کےلیے پرعزم ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے فعال رکن وکیل کلائیو اسمتھ اپنی کوششوں اور ذرائع کے ساتھ عافیہ رہائی کےلئے قدم بڑھا چکے ہیں۔ سینیٹر طلحہ محمود کی ذاتی دلچسپی اور کوششیں بھی قابل ذکر ہیں، جن کی وجہ ڈاکٹر عافیہ کے دو بچے بازیاب کروا کے ان کی خالہ ڈاکٹر فوزیہ صدیقی تک بحفاظت پہنچائے گئے۔ اسی طرح کچھ اور مہربان بھی ہیں جو عافیہ رہائی کےلیے آواز بلند کرتے رہے۔
بیرون ممالک سے سابق امریکی اٹارنی جنرل رمزے کلارک، کانگریس وومین سنتھیا مکینی، معروف مصنفہ سارہ فلنڈرس، معروف مصنف و انسانی حقوق کے علمبردار موری سلاخن اور اندورن و بیرون ملک انسانی حقوق کے لاتعداد کارکنان۔
ایڈوکیٹ اظہر صدیقی کے مطابق پاکستانی آئین میں ہے کہ کوئی پاکستانی فرد کسی بھی ملک میں ہو اس پر پاکستانی قانون کا اطلاق ہوتا ہے۔ ملزم کو پاکستان لاکر قانون کے مطابق ٹرائل کیا جاسکتا ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی وطن واپسی کے ضمن میں سب سے اہم چیز پاکستان اور امریکا کا حکومتی سطح پر تعلق کا نہ ہونا ہے۔
اسی طرح زیادہ بھاری ذمے داری حکومت پاکستان اور وزارت خارجہ پر عائد ہوتی ہے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو سے پوری قوم کی جانب سے ہمدردانہ درخواست ہے کہ وہ ڈاکٹر عافیہ کیس کی سرپرستی کریں۔ ڈاکٹر فوزیہ کو اسلام آباد بلا کر عالمی ذرائع ابلاغ کے سامنے پریس کانفرنس کریں۔ اپنی حکومت کی جانب سے کی جانے والی کوششوں سے دنیا کو آگاہ کریں۔
دوسری اہم ذمے داری اس وقت پی ڈی ایم پر عائد ہوتی ہے جس کی سربراہی وزیرِاعظم شہباز شریف کے پاس ہے۔ موصوف کی میز پر عافیہ رہائی کیس کی فائل موجود ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ سے ملاقاتیں بھی کرچکے ہیں، اپنے ماتحتوں کو کیس کو آگے بڑھانے کےلیے ہدایات بھی دیتے رہے ہیں۔
محترم وزیراعظم شہباز شریف صاحب، وزیر خارجہ بلاول بھٹو صاحب! مظلوم عافیہ کی رہائی کی کوششوں کو نتیجہ خیز بنانے کےلیے آپ کی ضرورت ہے۔ آنسو بھری اداس آنکھوں والی عافیہ کی فریاد ”مجھے اس جہنم سے نکالو“ آپ کے پیچھے ہے۔
اسی طرح نور جہاں شیخ ”عافیہ ہم شرمندہ ہیں ¾ ¾کے عنوان سے ر قم طراز ہیں ۔دو بہنوں کی بیس سال بعد ملاقات ہو اور درمیان میں شیشے کی دیوار حائل رہے تو جذبات کیا ہوں گے؟ نہ ایک دوسرے کو گلے لگا سکے نہ ہی تسلی دے سکے۔ ظالموں نے اتنا خیال بھی نہ کیا پابند سلاسل بہن کو اس کے بچوں کی تصاویر دکھانے کی اجازت ہی دے دیتے۔
یہ منظر امریکی ریاست ٹیکساس کے فورٹ ورتھ جیل میں ”قوم کی بیٹی“ عافیہ صدیقی اور ان کی بہن فوزیہ صدیقی کی ملاقات کا ہے۔ تین گھنٹے کی مختصر ملاقات بیس سال کی جدائی اور غموں کا مداوا کہاں کرپائی ہوگی۔
ان بیس برسوں کے اندوہناک مظالم نے جہاں چھوٹی بہن کو وقت سے بہت پہلے بوڑھا، کمزور اور معذور کردیا وہیں بڑی بہن بھی اپنی پیاری بہن کی رہائی کےلیے بیس برس کی تگ و دو کے بعد اس ”تشنہ ملاقات“ تک رسائی حاصل کرپائی تھی۔ بڑی بہن کےلیے یہ کرب بھی کم نہ تھا کہ شیشے کے پار اس کی چھوٹی بہن کے دانت گرے ہوئے نظر آرہے تھے جبکہ سر پر لگنے والی ایک چوٹ کے باعث اسے سننے میں بھی دقت پیش آرہی تھی۔
آہوں، سسکیوں اور نہ تھمنے والے آنسوو¿ں کے ساتھ ملاقات کا وقت تو ختم ہوگیا لیکن دل کا کرب کیسے مٹ سکتا ہے۔ ان بیس برسوں کی جدائی کا زخم کیسے مندمل ہوسکتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ وقت پر لگائے اڑ جاتا ہے، لیکن غیروں کی قید میں قوم کی بیٹی کے یہ بیس سال، بیس صدیوں سے کم نہیں ہیں۔ مارچ 2003 میں قوم کی اس ہونہار بیٹی کو ”لاپتہ“ کردیا گیا اور پھر اس کا سراغ گوانتاموبے کی جیل میں ملا جہاں وہ ناکردہ جرائم کی سزا میں قید تھی۔
ستم ظریفی دیکھیے کہ انسانی حقوق اور انصاف کی علمبردار ریاست نے ”ناانصافی“ کا وہ مظاہرہ کیا کہ آج تک پوری دنیا میں اس فیصلے پر طعنہ زنی کی جارہی ہے۔ امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کے الزام میں86 سال کی سزا سنائی جس کی نظیر شاید کسی اور قانونی فیصلے میں نہ مل سکے۔ امریکی عدالت نے اپنے اس فیصلے سے خود انصاف کا خون کردیا۔
افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ پاکستانی حکومتوں پر اپنی اس قوم کی بیٹی کے حوالے سے ہمیشہ ازلی بے حسی طاری رہی۔ کوئی ایک بھی سیاسی جماعت ایسی نہیں جس نے حقیقی معنوں میں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوششیں کی ہوں۔ صرف روایتی بیان بازی اور لفظوں کی شعبدہ گری سے قوم کو بہلانے کی کوشش کی گئی۔ وعدے، وعید، دعوے کیے گئے لیکن سب رائیگاں گئے۔ قومی غیرت اور حمیت کا جاگنا بھی سمندر کا جھاگ ثابت ہوا۔ صرف باتیں بنائی گئیں لیکن قوم کی یہ بیٹی آج بھی غیروں کی قید میں ہے۔ جیل میں قید اِس بیٹی کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ا±س کی ماں ا±س کی راہ تکتے اس دنیا سے کب کی رخصت ہوچکی۔ قوم کی یہ بیٹی اپنی گرفتاری کے وقت اپنے نوزائیدہ بیٹے کےلیے بھی فکرمند ہے لیکن کسی کو علم نہیں کہ اس وقت چھ ماہ کا سلمان زندہ بھی ہے یا نہیں؟
کیا قوم کی اس بیٹی کو انصاف ملے گا؟ کیا عافیہ صدیقی کبھی رہا ہوکر واپس اپنے وطن، اپنوں کے درمیان آسکیں گی؟ ان سب باتوں کا انحصار پاکستانی حکومت کی جانب سے پرخلوص کوششوں پر ہے۔ اگر پاکستانی حکومت واقعی چاہے تو عافیہ وطن واپس آسکتی ہے وگرنہ یونہی باتیں بنتی رہیں گی اور لوگ اپنی سیاست چمکانے میں یہ بھول بیٹھیں گے کہ قوم کی بہنوں، بیٹیوں کی عزتیں یوں غیروں کے حوالے نہیں کی جاتیں۔