پیوستہ رہ شجر سے امیدِ اقتدار رکھ

پاکستانی سیاست نے 9 مئی کے بعد کچھ ایسی کروٹ بدلی ہے کہ آج کل ہر بات اور ہر خبر ہی اس منحوس تاریخ سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ اگلے ایک دو سالوں تک ہمیں پاکستانی سیاست اور بالخصوص وہ سیاست جس میں تحریک انصاف بطور کلیدی کردار نظر آئے گی اسے 9 مئی سے الگ کرنا قدرے مشکل ہوگا۔
اس دن کے توسط سے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا یہ بحث تو طویل ہے لیکن ایک بات جو یقین سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ کہ جو بھی کھویا ہے وہ صرف پی ٹی آئی نے نہیں بلکہ پاکستان نے کھویا ہے۔ ہم جو گزشتہ برس کے اپریل سے روز بروز ایک بند گلی میں داخل ہوتے جا رہے ہیں 9 مئی نے اس بند گلی کے اندھیرے میں خوفناک شور کا اضافہ کیا ہے جن نے مجھ جیسے عام پاکستانی کے دکھ میں بہت اضافہ کر دیا ہے۔
پی ڈی ایم کی جماعتیں 9 مئی کے بعد سے بگلیں بجاتی ہوئی نظر تو آ رہی ہیں۔ یقینی طور پر اس سے کچھ جماعتوں کو فائدہ ہونے والا ہے۔ گزشتہ برس کے آغاز سے ہی ایک بات جو زبان زدِ عام تھی وہ یہ کہ اگلی حکومت ایک قومی حکومت ہونے والی ہے اسے عمران بیانیئے نے پورا ایک سال ٹال رکھا تھا اب وہ دوبارہ سے مو¿ثر ہوتی نظر آتی ہے۔
قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کتنے الائنس بن چکے ہیں اور کتنے زیرِ تعمیر ہیں۔ لوگ یہ بھی جانتے ہیں کہ 2018ئ کے الیکشن میں پری پول دھاندلی کی رٹ لگانے والے آج کل خاموش کیوں ہیں اور ایک سیاسی جماعت کو ایسا کیوں لگنے لگا ہے کہ پاکستان میں ظلم و جبر کی داستان 2022ئ سے ہی شروع ہوئی ہے۔ یہ سب اب بےمقصد کی راگنی معلوم ہوتی ہےکیونکہ عوام اب پہلے کی نسبت خاصے سمجھدار ہو چکے ہیں۔
یہ وہ عام پاکستانی ہے جس کی ٹریننگ کسی خفیہ ایجنسی کے خطوط پر نہیں ہوئی مگر یہ ناصرف ذہین ہے بلکہ ایک ایسے معاشرے میں رہتا ہے جو سازشی کہانیاں سننے، گھڑنے اور ماننے میں مہارت رکھتے ہیں۔ لہٰذا نہ چاہتے ہوئے بھی انتہائی اندر کی خبروں سے عام پاکستانی واقفیت رکھتا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ اب اگر ایک قومی حکومت تشکیل ہونے جا رہی ہے جس کی بظاہر تو نشانیاں نظر آ رہی ہیں وہ اس ملک کو چلانے میں کیا دور کی کوڑی لے کر آئی ہے۔ کیا ترین، ق لیگ اور پیپلزپارٹی سمیت چھوٹے موٹے منجن فروشوں پر مشتمل یہ قومی اتحاد مقتدر حلقوں کو کوئی اچھا معاشی و حکومتی پلان دینے یا کم از کم اس کی یقین دہانی میں کامیاب ہو پایا ہے؟۔
ایسا بھی ممکن ہے کہ فل وقت ان قوتوں کا متمہ نظر معیشت نہ ہو۔ کیونکہ جو نقصان گزشتہ 6 سال میں ریاستی مشینری کی ساکھ کو پہنچا ہے اس وقت اس کی بحالی سب سے ضروری کام ہے وگرنہ سود کے چکر میں اصل سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتا ہے۔ اسی لئے ابھی سے آپکو قومی میڈیا پر حب الوطنی کی کھلی کچہری دیکھنے کو مل رہی ہے۔ اس میں کچھ برا بھی نہیں ہے۔ ہر ریاست نے اپنی کچھ حدود ومقدسات بنا رکھی ہیں۔ شاید کچھ ممالک کو ہمارے مقدسات عجیب اور عقل سے عاری محسوس ہوں مگر ہم گزشتہ 75 برس سے اسی آٹو ٹیوننگ پر چل رہے ہیں۔
اس سارے کھیل میں پیادے تو اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں مگر مقتدر حلقوں کی دور اندیشی سے بھی کوئی معید نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے قومی حکومت کی سجی دکھا کر صدارتی سسٹم یا سنگل پارٹی کی کھبی مار دی جائے۔ تیسرا آپشن جو میرے احباب کے ذہن میں آ رہا ہے وہ مارشل لائ ہے مگر میری ناقص رائے میں ابھی یہ بات خارج از امکان ہے کیونکہ میرے عزیز ہم وطنوں ملکی حالات مکمل کنڑول میں ہیں لہٰذا کسی نئے کنڑول کی کوئی ضرور ت نہیں ہے۔
ایک سوال جو 9 مئی کے بعد کا ہر سورج اپنے ساتھ لے کر اٹھتا ہے وہ یہ کہ کیا چیئرمین تحریک انصاف اور ان کی پارٹی کے تعلقات مقتدر حلقوں سے مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں اور تحریکِ انصاف اب مستقبل قریب میں برسرِ اقتدار نہیں آ سکتی؟ اگر پی ڈی ایم کے مرکزی کے رہنماو¿ں کو سنیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کسی ماضی کے کردار کا نام ہے جو قرونِ وسطٰی میں ہوا کرتا تھا۔
مگر حقیقت وہ ہے جو پی ڈی ایم کے تمام رہنما بھی جانتے اور مجھ خاکسار کا بھی خیال ہے کہ پی ٹی آئی کو فی الحال ایک پاور نیپ دیا گیا ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ پی ٹی آئی کو اس وقت ناراضگی اور اعتاب کا سامنا ہے مگر چیئرمین تحریک انصاف مسلسل کاوشوں میں ہیں کہ کہیں نہ کہیں سے پھٹا ہوا ایک پیج پھر سے ٹکڑا ٹکڑا کر کے جوڑ لیا جائے۔ اس مقصد کے لئے جو چسپاں کردہ میٹیریل کا استعمال کر رہے ہیں وہ باربار ناقص نکل رہا ہے۔ کبھی انکا دفاع کرتے سابق وزیرِدفاع ہی اپنا دفاع مضبوط کر بیٹھتے ہیں تو کبھی انکا اسد ہی عمر دراز کروا بیٹھا۔ لیکن “پیوستہ رہ ،شجر سے امیدِ اقتدار رکھ”۔
ایک بات جو سیاسیات کے طالب علم جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ایسی سیاسی پارٹیاں جو قومی سطح پر نا صرف مقبول ہوں بلکہ ایوانِ اقتدار میں جڑیں بنا چکی ہوں انہیں سیاست سے نکالنا آپشن نہیں ہوا کرتا۔ عوامی لیگ اور شیخ مجیب اگر آج پاکستان کی سیات میں نظر نہیں آتے تو وہ مغربی پاکستان کی سیاست میں ہوا بھی نہیں کرتے تھے۔ بھٹو کو آج تک ہم مغربی پاکستان کی سیاست سے نکال نہیں سکے۔ الطاف حسین نکل کر بھی پاکستان کی سیاست میں نظر آتے ہیں۔ لہٰذا یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے چیئرمین سمیت کوئی بھی مائنس یا پلس ہونے والا نہیں ہے۔ سب اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
اس وقت پی ٹی آئی قیادت کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ آنے والے الیکشن سے پہلے پہلے تعلقات کو بحال کیا جائے۔ اگر ایسا ممکن نہیں ہوتا تو دو سال پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو سکون سے بیٹھ کر بہتر بنائیں۔ ہو سکتا ہے آپکو خیبر کی حکومت کا کچھ حصہ نواز دیا جائے۔ محنت کر حسد نہ کر کے فارمولا کے تحت محکموں کو بہتر طریقے سے چلانے پر غور دیں۔ ایک اور مشورہ جو جاتے جاتے بہت ضروری ہے کہ اب جب اقتدار میں آئیں تو وسیم اکرم پلس سے گریز کریں۔ افاقہ ہوگا۔