انڈیا میں ہجوم کے ہاتھوں قتل

انڈیا میں ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے ظہیر ’کسی نے کہا کل ان کا تہوار ہے، ان کو آج ہی ختم کر دو‘

ظہیرالدین کی عمر 55 برس تھی۔ جسمانی معذوری کے باوجود وہ ٹرک چلانے پر مجبور تھے۔ ظہیرالدین کی موت کے بعد ان کا خاندان بکھر گیا ہے۔ ان کی والدہ لیلیٰ خاتون کی عمر 75 برس ہے۔
انھوں نے ہمیں اپنے بیٹے کے بارے میں بتایا: ’کلکتہ میں ایک بار گاڑی کے ایکسیڈنٹ میں اس کے پاو¿ں میں نقص آ گیا تھا، تب سے وہ لنگڑا کر چلتا تھا۔ اس واقعے میں سب بھاگے، وہ بھاگ نہ سکا۔‘
انھوں نے غم سے بوجھل آواز میں بتایا: ’وہ مجھے تھوڑے سے پیسے دیتا تھا تو میں اپنی کمر کا علاج کرواتی تھی۔ اب میرے بیٹے کے ساتھ میرے علاج کی امید بھی دم توڑ گئی۔ اس کے بچے تو ابھی اپنے پیروں پر کھڑے بھی نہیں ہوئے۔‘لیلیٰ خاتون مزید کہتی ہیں کہ یہ کاروبار ان کے لیے کوئی نئی چیز نہیں ہے اور نہ ہی علاقے کے لیے۔
’پہلے جانوروں کی ہڈیاں بیل گاڑیوں اور ریل گاڑیوں پر لاد کر کانپور اور دوسری جگہ لے جائی جاتی۔ میرے سسر بھی یہ کام کیا کرتے تھے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا، لیکن نہ جانے اس دن کیا ہوا کہ لوگوں نے میرے بے بس بیٹے کو مار ڈالا۔‘
’کسی نے آ کر شیشہ توڑا تو کسی نے چھری دکھائی، کوئی آیا تو اس ٹائر کی ہوا نکال دی، کسی نے کہا کہ کل ان لوگوں کا تہوار (بقرعید) ہے ان کو آج ہی ختم کر دو۔ اس کے بعد پولیس آگئی، اینٹ پتھر اور بھگدڑ دیکھ کر پولیس بھی بھاگنے پر مجبور ہو گئی۔ ایسے میں ظہیرالدین کو کون بچاتا؟ ظہیر معذور تھے۔ ان کے ساتھ انتہائی بے رحمی کا سلوک کیا گیا۔ ہم کسی طرح بھاگ کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو گئے۔‘
55 سالہ ظہیر الدین کی ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کی یہ درد ناک تفصیلات قیوم خان نے بتائیں جو 28 جون کو اسی چھوٹے ٹرک میں سوار تھے جس کو انڈیا کی ریاست بہار کے ضلع چھپرا میں جلال پور تھانے کی حدود میں پرتشدد ہجوم نے آگ لگا دی تھی اوراس کے ڈرائیور ظہیر الدین کو سڑک پر بے تحاشہ تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا۔
قریبی تھانے کی پولیس نے ٹرک کو قبضے میں لے کر قریبی ناگرہ بازار منتقل کر دیا۔ اس ٹرک کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ بدھ کی شام ظہیرالدین کے ساتھ کیا ہوا ہوگا۔
ڈرائیونگ سیٹ کے ساتھ والی سیٹ پر اب بھی پتھروں کا ڈھیر موجود ہے۔ جائے وقوع پر پہنچنے پر ہم نے دیکھا کہ وہاں سڑک پر ٹرک کے شیشے ابھی تک بکھرے پڑے ہیں اور کچھ چپلیں بھی دکھائی دے رہی ہیں۔
28 جون کی شام ہوا کیا تھا؟
قیوم خان 28 جون کواسی چھوٹے ٹرک میں سوار تھے جس کو انڈیا کی ریاست بہار میں پرتشدد ہجوم نے آگ لگا دی تھی اور ڈرائیور ظہیر الدین کو سڑک پر بے تحاشہ تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا
یہاں تک تو سب کو معلوم ہے کہ کسی خرابی کی وجہ سے جب ٹرک ڈرائیور ظہیرالدین کو بانگڑا گاو¿ں کے سامنے ہنومان مندر کے پاس ٹرک روکنا پڑا تو وہاں سے گزرنے والے ایک لڑکے نے آ کر دریافت کیا کہ ٹرک میں کیا لدا ہے؟
ڈرائیور اور عملے نے جواب میں بتایا کہ ٹرک میں مردہ جانور کی ہڈیاں ہیں۔ یہ سنتے ہی لڑکے نے چیخ کر وہاں لوگوں کو اکھٹا کر لیا اور مطالبہ کیا کہ انھیں ہڈیاں دکھائی جائیں۔
قیوم خان کے مطابق لوگوں نے ٹرک پر چڑھ کر بھی اچھی طرح دیکھا لیکن پھر بھی وہ ماننے کو تیار نہیں تھے کہ گاڑی میں گائے کا گوشت لوڈ نہیں کیا گیا۔
لوگوں نے مزید پوچھ گچھ کے لیے ہڈیوں کے کارخانے کے مالک کو بلانے کا کہا۔ انھوں نے ایسا ہی کیا لیکن پھر بھی لوگ ماننے کو تیار نہیں ہوئے اور ایک ہی بات پر اڑے رہے کہ ہڈیوں کے ڈھیر کے نیچے گائے کا گوشت ہے۔اس افسوسناک واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے انھوں نے کچھ عرصے پہلے کا دور یاد کیا جب ان کے مطابق ایسے واقعات نہیں ہوتے تھے۔
’اس سڑک سے ہڈیاں کھلے عام لے جائی جاتی تھیں، کبھی بیل گاڑیوں پر اور کبھی خاکروبوں کے ذریعے۔ مگر اب تو مجھے کہیں بھی جانے سے ڈر لگتا ہے کہ کوئی آ کر مجھے مار ڈالے گا۔ کتنے ہی لوگ دور دور سے کام کے لیے آتے تھے مگر اب یہ سب یہاں ہوا جس کی توقع نہیں تھی۔‘
جائے وقوع پر پہنچ کر تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی بھی واضح طور پر کچھ بتانے کو تیار نہیں تھا۔
تاہم اردگرد کے لوگ دبی دبی زبان میں ایسی باتیں ضرور کہتے سنے جاتے رہے کہ آج کل کے لڑکے کسی کے دباو¿ میں ہیں، پتہ نہیں کس وقت کہاں سے آواز بلند ہوتی ہے اور سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔
ظہیر کی بیٹی کہتی ہیں کہ ’میرے والد کوئی غیر قانونی کام نہیں کرتے تھے، ہم انصاف چاہتے ہیں‘ظہیر کی 24 سال کی بیٹی سید النسا باپ کے اس طرح مر جانے سے صدمے سے نڈھال ہیں۔
ان کا کہنا ہے، ’میرے والد کو چلنے میں محتاجی تھی۔ اس بے بسی کی وجہ سے ہم نے انھیں کئی بار کام چھوڑنے کا کہا۔ لیکن انھوں نے یہ سوچ کر بطور ڈرائیور نائٹ ڈیوٹی کرنا شروع کر دی کہ اگر وہ تھوڑا پیسہ کما لیں گے تو ہمارا گزارا کچھ آسانی سے چلے گا۔
چھپڑا ضلعے کے مختلف علاقوں میں 6 ماہ کے اندر اس نوعیت کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل مشتعل ہجوم نے گائے کے گوشت کی سمگلنگ کے شبہ میں ایک شخص کو تشدد کر کے جان سے مار ڈالا تھا۔
پہلا واقعہ ضلع کے رسول پور تھانہ علاقے میں پیش آیا جب کہ دوسرا واقعہ جمال پور کے بانگڑا گاو¿ں کے بالکل سامنے پیش آیا۔
دونوں کیسز میں واقعات مختلف ہو سکتے ہیں تاہم دونوں میں لوگوں نے گائے کے گوشت کا ذکر کیا ہے اور پھر ہتھے چڑھ جانے والے شخص کو اتنا مارا کہ وہ تشدد سے ہلاک ہو گیا۔
انڈیا: ہجوم کے ہاتھوں قتل روکنے کی ذمہ داری کس کی؟
’مردہ جانوروں کی ہڈیاں اٹھانے کا کام انگریزوں کے زمانے سے جاری ہے‘
اس پورے واقعے میں ہڈیوں کا ذکر شروع ہی سے کیا جا رہا ہے۔ اس لیے بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ جانوروں کی ہڈیاں کہاں جا رہی تھیں؟ اور وہ کون لوگ ہیں جو ہڈیوں کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔
تو ان سوالوں کے جواب جاننے کے لیے ہم چھپرا ضلع کے ناگرا بلاک میں واقع فیکٹری پہنچے جہاں برسوں سے مردہ جانوروں کی ہڈیوں کی پروسیسنگ کا کام جاری ہے۔ یہ ان کا جائز کاروبار ہے، انھیں وزیر اعظم ایمپلائمنٹ جنریشن سکیم کے تحت مدد بھی ملی ہے۔
بات کرتے ہوئے فیکٹری کے ڈائریکٹر محمد صفات کہتے ہیں، ’ہمارا یہ کام آج سے نہیں، ہم نسلوں سے یہ کام کر رہے ہیں۔ ہمارے دادا ہڈیوں کو ٹرین سے لاد کر کانپور بھیجتے تھے اور اب وہ گجرات میں سٹرلنگ بائیوٹیک لمیٹڈ کمپنی میں جاتے ہیں۔ ہم پاو¿ڈر بنا کر گجرات بھیجتے ہیں اور اس سے بہت سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔‘
جب ہم نے فیکٹری اور مختلف جگہوں سے ہڈیاں لانے کے بارے میں سوالات کیے تو انھوں نے اپنے جواب کے بجائے الٹا ہم سے سوال کیا کہ ’کیا ریاست میں کسی قسم کا کاروبار کرنا جرم ہے؟ ہم کوئی غیر قانونی کام نہیں کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ مردہ جانوروں کی ہڈیاں اٹھانے کا کام انگریزوں کے زمانے سے جاری ہے۔ ’اس کا ایک مکمل نیٹ ورک ہے۔ جب مردہ جانور گاو¿ں سے باہر مخصوص علاقے میں پھینکے جاتے ہیں تو کمتر سمجھے جانے والی ذات کے لوگ انھیں جمع کرتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں، ’ہم ان ہڈیوں کو اپنے نیٹ ورک کے ذریعے اٹھا کر لے جاتے ہیں، ان کا وزن کرتے ہیں اور بدلے میں ان کو پیسے دیتے ہیں۔ ہم صرف گاو¿ں اور معاشرے میں ہر طرف پھیلنے والی بدبو اور بیماری سے نمٹ رہے ہیں، پھر ایسا ظلم کیوں ہوا؟‘
ملزم کی گرفتاری پر پولیس کیا کہہ رہی ہے؟
اس پورے واقعے اور ملزم کی گرفتاری کے متعلق جاننے کے لیے ہم نے چھپرا ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ گورو منگلا سے رابطہ کیا۔
پولیس سپرنٹنڈنٹ نے پریس نوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’28 جون کو محمد ظہور الدین جانوروں کی ہڈیاں فیکٹری میں لے جا رہے تھے جب جلال پور تھانے کی حدود میں ان کی گاڑی خراب ہو گئی۔ بدبو کی وجہ سے وہاں بھیڑ جمع ہو گئی اور بھیڑ نے انھیں مار مار کر شدید زخمی کر دیا اور علاج کے دوران ان کی موت ہو گئی۔‘
اس معاملے میں اب تک سات ملزمان کو گرفتار کیا گیا ہے۔ متوفی کے لواحقین کے بیان پر 20 سے 25 نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ بھی درج کر لیا گیا ہے۔
تاہم اس پورے معاملے میں پولیس انتظامیہ کی جانب سے جاری تحقیق اور کارروائی اب تک ناکافی دکھائی دے رہی ہے۔ اس واقعے کی ایف آئی آر میں چھ لوگوں کے نام درج کیے گئے ہیں، لیکن اب تک ایک بھی نامزد شخص کو گرفتار نہیں کیا جا سکا ہے۔
پولیس حکام نے بھی بات چیت میں اعتراف کیا ہے کہ اس معاملے میں 29 جون کو درج کی جانے والی گرفتاریوں کے سوا کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔