سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کا افسوسناک واقعہ

سویڈن میں قرآن نذرِ آتش کیے جانے پر مسلم ممالک کی مذمت، بغداد میں مظاہرین سفارتخانے میں داخل
سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کو جرم قرار دینے پر غور
عالمی سطح پر مسلمانوں کی ناراضگی اور احتجاج کے بعد سویڈش وزیر کا اعلان، مذموم حرکت نے سویڈن کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے

سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ایک شہری نے عید کے موقع پر جامع مسجد کے باہر پولیس سے اجازت ملنے کے بعد قرآن کی بے حرمتی کرتے ہوئے اسے جلا دیا تھا۔
دو سو کے قریب لوگوں نے دو اشخاص کو یہ فعل کرتے دیکھا اور وہاں پر موجود کچھ لوگوں نے ’اللہ اکبر‘ کے نعروں سے اس فعل کی مخالفت کی جبکہ پولیس نے ایک شخص کو پتھر مارنے کی کوشش کے الزام میں گرفتار بھی کر لیا ہے۔
سویڈن کی پولیس نے اس سے پہلے دو بار قرآن مخالف احتجاج کی درخواست مسترد کی تھی مگر عدالت نے اسے آزادی اظہار رائے کے خلاف قرار دیتے ہوئے پولسی کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا تھا۔
مسجد کے ڈائریکٹر امام محمود خلفی نے بدھ کو پولیس کی جانب سے عید کے دن دی جانے والی اجازت پر افسوس کا اظہار کیا۔
خلفی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا: ’مسجد نے پولیس کو مشورہ دیا تھا کہ کم از کم اس احتجاج کو کسی اور جگہ منتقل کر دیا جائے اور اس کی گنجائش قانون میں موجود تھی مگر پولسی نے ایسا نہیں کیا۔‘
خلفی کے مطابق ہر سال اس مسجد میں عید کی نماز کے لیے 10 ہزار کے قریب نمازی آتے ہیں۔
ترکی نے رواں سال جنوری کے آخر میں سویڈن کے ساتھ اس کی نیٹو میں شمولیت پر جاری مذاکرات اس وقت روک دیے تھے جب سویڈن کے ایک انتہائی دائیں بازو کے سیاست دان نے سٹاک ہوم میں ترک سفارت خانے کے قریب قرآن کو نذر آتش کیا تھا۔
اس سے قبل سویڈش پولیس نے تحریری فیصلے میں کہا تھا کہ (مقدس کتاب) جلانے سے منسلک حفاظتی خطرات ’اس نوعیت کے نہیں تھے جو موجودہ قوانین کے تحت درخواست کو مسترد کرنے کے فیصلے کا جواز پیش کر سکیں۔‘سویڈن کے سیاست دانوں نے قرآن کو نذر آتش کرنے پر تنقید کی تھی لیکن آزادی اظہار کے حق کا بھی ڈٹ کر دفاع کیا ہے۔
سعودی عرب نے سویڈن میں ایک انتہا پسند کے ہاتھوں قرآن کریم کے نسخے کو نذر آتش کیے جانے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
سعودی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا: ’یہ نفرت انگیز اور بار بار کی جانے والی کارروائیاں کسی بھی جواز کے ساتھ قبول نہیں کی جا سکتیں، جو واضح طور پر نفرت، اور نسل پرستی کو ہوا دیتی اور رواداری، اعتدال پسندی اور انتہا پسندی کو مسترد کرنے کی اقدار کو پھیلانے کی بین الاقوامی کوششوں سے براہ راست متصادم ہونے کے علاوہ لوگوں اور ریاستوں کے درمیان تعلقات کے باہمی احترام کو مجروح کرتی ہیں۔‘

سویڈن میں قرآن نذرِ آتش کیے جانے پر مسلم ممالک کی مذمت، بغداد میں مظاہرین سفارتخانے میں داخل
قرآن نذر آتش کرنے کے واقعے میں ایک عراقی نڑاد سویڈش شخص ملوث ہے
سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم میں ایک شخص کی جانب سے قرآن کے نسخے کو نذر آتش کرنے کے واقعے کی پاکستان اور ترکی سمیت متعدد مسلم ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔
بدھ کو سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر ایک شخص کی جانب سے قران کے نسخے کو نذر آتش کیا گیا۔ قرآن جلانے کے واقعے میں ایک عراقی نڑاد شحص ملوث ہے جس نے اس مظاہرے کے لیے عدالت سے باقاعدہ اجازت لی تھی۔
اس واقعے پر جہاں مراکش اور اردن نے احتجاجاً سٹاک ہوم سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں وہیں جمعرات کے روزعراق کے دارالحکومت بغداد میں واقع سویڈن کے سفارتخانے کے کمپاونڈ میں مشتعل مظاہرین بھی داخل ہوئے۔
سوشل میڈیا پر شیئر کی جانے والی ویڈیوز میں درجنوں مظاہرین کو بغداد میں موجود سویڈن کے سفارت خانے کے کمپاونڈ میں گھومتے دیکھا جا سکتا ہے۔ جائے وقوعہ پر موجود خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر نے بتایا کہ ’ہجوم کچھ دیر کے لیے سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہوا۔‘ تاہم مقامی سکیورٹی فورسز کی تعیناتی پر مشتعل ہجوم وہاں سے منتشر ہو گیا۔
جبکہ سویڈش حکام کی جانب سے اس نوعیت کے احتجاج کی اجازت دیے جانے پر ترکی نے سویڈن کی فوجی اتحاد نیٹو میں شمولیت کی دوبارہ مخالفت کی ہے۔ نیٹو رکنیت کے حصول کے لیے سویڈن کو ترکی کی حمایت درکار ہے۔
رواں سال جنوری کے دوران بھی سویڈن میں قرآن نذر آتش کیے جانے پر مسلم ممالک نے شدید ردعمل دیا تھا۔
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
سٹاک ہوم میں عید کے روز اسلام مخالف مظاہرہ
خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس واقعے کے تقریباً 200 عینی شاہدین کے مطابق مسجد کے باہر موجود دو مظاہرین میں سے ایک نے قرآن کے نسخے کو پھاڑ دیا اور مقدس اوراق کی بے حرمتی کرنے کے بعد انھیں نذر آتش کیا۔
جبکہ اس دوران دوسرا شخص میگا فون پر مظاہرہ کرنے والے کی بات کا ترجمہ دہراتا رہا۔
وہاں موجود بعض افراد نے اوراق جلائے جانے پر احتجاج کرنے کے لیے ’گاڈ از گریڈ‘ (خدا عظیم ہے) کے نعرے لگائے جبکہ پتھراو¿ کی کوشش کرنے والے ایک شخص کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔
بدھ کے روز مظاہرے سے قبل واقعے میں ملوث شخص سلوان مومیکا نے امریکی نیوز چینل سی این این کو بتایا تھا کہ وہ پانچ سال قبل عراق سے سویڈن آئے اور ان کے پاس سویڈن کی شہریت ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ ایک ایتھسٹ ہیں، یعنی کسی مذہب کو نہیں مانتے۔
سلوان مومیکا نے سی این این کو مزید بتایا کہ وہ یہ مظاہرہ عدالت میں تین ماہ کی قانونی لڑائی کے بعد کر رہے ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ قرآن پر پابندی لگائی جانی چاہیے۔واضح رہے کہ سویڈن کی پولیس نے مسلم مخالف مظاہروں کے انعقاد کی کئی درخواستیں خارج کر دی تھیں۔
تاہم ایک مقامی عدالت نے پولیس کے ان فیصلوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیا کہ وہ آزادی اظہار کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔
مسجد کے ڈائریکٹر اور امام محمود خلفی نے کہا کہ عید الاضحی کے تہوار کی تعطیل کے موقع پر احتجاج کی اجازت دینے کے فیصلے سے مسجد کے نمائندوں کو مایوسی ہوئی ہے۔
امام خلفی نے ایک بیان میں کہا کہ ’مسجد انتظامیہ نے پولیس سے درخواست کی کہ وہ کم از کم مظاہرے کو کسی دوسری جگہ کی طرف منتقل کر دیں جو قانون کے مطابق ممکن ہے۔ تاہم انھوں نے ایسا نہ کرنے کا انتخاب کیا۔‘
خلفی کے مطابق ہر سال دس ہزار کے قریب لوگ سٹاک ہوم کی مسجد میں عید کی تقریبات کے لیے آتے ہیں۔
مظاہرے سے متعلق پولیس کے اجازت نامے میں کہا گیا ہے کہ ’قرآن نذر آتش کرنے سے ممکنہ سکیورٹی خطرات اور نتائج اس نوعیت کے نہیں ہیں کہ موجودہ قانون کے مطابق وہ مظاہرے کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے کی بنیاد بن سکیں۔‘
مظاہرے کے اجازت نامے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’قرآن کو جلانے کا مطلب ہے دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بڑھنا اور اس سے خارجہ پالیسی بھی متاثر ہوسکتی ہے۔‘
حکام کی جانب سے کچھ شرائط پر اس اجتماع کی اجازت دی گئی تھی جس میں 12 جون سے مظاہروں کے دوران آگ لگانے پر پابندی بھی شامل تھی جس کا اطلاق تا حکم ثانی لاگو تھا۔
پاکستان، ترکی سمیت مسلم ممالک کی مذمت
سویڈن میں مسجد کے باہر قرآن کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے کی پاکستان، سعودی عرب، ترکی، ایران،عراق اور مصرسمیت کئی مسلم ممالک نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ ’آزادی اظہار اور احتجاج کے بہانے تشدد پر اکسانے کے عمل کو کسی طور جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔‘
بیان کے مطابق ’عالمی قوانین کے مطابق مذہبی منافرت کو ہوا دینے کے لیے پرتشدد اقدامات کی روک تھام حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔‘
دفتر خارجہ کے مطابق ’مغرب میں اسلامو فوبیا کے واقعات کا تسلسل کے ساتھ ہونا قانونی فریم ورک پر سنگین سوال اٹھاتا ہے۔‘
ترجمان دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق ’اس واقعے پر پاکستان کے تحفظات سویڈن تک پہنچائے جا رہے ہیں۔ عالمی برادری اسلامو فوبیا اور مسلم مخالف جذبات کے خلاف ٹھوس اقدامات کرے۔‘
دوسری جانب مراکش اور اردن نے سویڈن سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔
مراکش کے دفتر خارجہ نے واقعے کو جارحانہ اور غیر ذمہ دارانہ قرار دیا ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ کارروائی ایک ایسے وقت میں کی گئی ہے جب مسلمان اپنا ایک مقدس تہوار منا رہے تھے۔
ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے ایک ٹویٹ میں قران کی بے حرمتی کے اس فعل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر اسلام مخالف مظاہروں کی اجازت دینا ناقابل قبول ہے۔سعودی عرب نے بھی اس واقعے کی مذمت کی ہے اور اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’ایسے اقدام نفرت اور نسل پرستی کو بڑھاوا دینے کا سبب بنتے ہیں۔‘
دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان نے اپنی بریفنگ میں صحافیوں کو بتایا کہ مقدس اوراق کو جلانا ’بے ادبی اور تکلیف دہ‘ ہے جو قانونی طور پر تو جائز ہو سکتا ہے تاہم اخلاقی طور پر نامناسب ہے۔
تاہم انھوں نے ترکی اور ہنگری پر زور دیا کہ وہ سویڈن کے نیٹو میں شمولیت کی درخواست کی توثیق کریں۔ ’ہمیں یقین ہے کہ سویڈن نے سہ فریقی یادداشت کے تحت اپنے وعدوں کو پورا کیا ہے۔‘
سویڈن نے گذشتہ سال یوکرین پر روس کے حملے کے تناظر میں نیٹو کی رکنیت کی درخواست دی تھی تاہم نیٹو ممالک کے اتحاد میں شامل ترکی نے اس عمل پر اعتراض عائد کیا تھا اور سویڈن پر الزام لگایا تھا کہ وہ ان لوگوں کو پناہ دے رہا ہے جنھیں ترکی دہشت گرد سمجھتا ہے اور ان کی حوالگی کا مطالبہ بھی کر رہا ہے۔
سویڈن کے وزیر اعظم الف کرسٹرسن نے بدھ کو ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ وہ اس بارے میں قیاس آرائی نہیں کریں گے کہ یہ احتجاج سویڈن کے نیٹو کے عمل کو کس طرح متاثر کر سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ عمل قانونی ہے لیکن اخلاقی طور پر مناسب نہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ قرآن جلانے کے واقعے کے بارے میں فیصلہ کرنا پولیس پر منحصر ہے۔‘
سویڈن میں ایک عراقی نڑاد شخص کی جانب سے عیدالاضحی کے روز دارالحکومت سٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے سامنے قرآن کے نسخے کو نذر آتش کرنے کے واقعے کے خلاف پاکستان میں ’یوم تقدیس قرآن‘ منایا گیا۔قرآن کو نذر آتش کرنے والے عراقی نڑاد شخص سلوان مومیکا پانچ سال قبل ایک تارکِ وطن کے طور پر سویڈن آئے تھے اور انھوں نے امریکی چینل سی این این کو بتایا تھا کہ ا±ن کے پاس سویڈن کی شہریت ہے۔ یہ عراقی نڑاد شخص اپنے حوالے سے ملحد ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔
میڈیا کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں ا±ن کا کہنا تھا کہ ’قرآن کی تعلیمات مغربی معاشرے میں جمہوریت، انصاف، انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے اصولوں سے متصادم ہے، لہٰذا اس پر پابندی لگائی جائے۔‘
لیکن وہ سویڈن میں یہ کام کرنے والے پہلے شخص نہیں ہیں۔ سویڈن میں اس واقعے سے پہلے بھی کئی بار قرآن کو نذر آتش کرنے کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔
رواں برس جنوری میں، ’سٹرام کرس‘ نامی ایک بنیاد پرست دائیں بازو کے گروپ کی جانب سے ایک احتجاجی مظاہرے میں قرآن کا نسخہ نذر آتش کیا گیا تھا۔ یہ گروپ امیگریشن مخالف اور اسلام مخالف کے طور پر جانا جاتا ہے اور اس تنظیم کی قیادت راسموس پالوڈن نامی شخص کرتے ہیں۔
سٹرام کرس پارٹی کے رہنما راسموس پالوڈان نے سٹاک ہوم میں ترکی کے سفارت خانے کے باہر قرآن کو نذر آتش کیا تھا۔ اور اس واقعے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کیا گیا تھا۔
اسی طرح ماضی میں سنہ 2020 میں بھی سویڈن مسلمانوں کی مقدس کتاب کو نذر آتش کیا گیا تھا۔
معرض وجود میں آنے کے بعد جیسے جیسے سویڈش سلطنت پھیلتی گئی، اسی طرح اس کے مذہبی خیالات بھی پھیلتے گئے۔ اگرچہ ابتدا میں سویڈن میں کیتھولک آبادی زیادہ تھی، لیکن یہ ملک 16ویں صدی میں لوتھرن پروٹسٹنٹ ملک بن گیا۔ جس کے بعد سنہ 1665 میں سویڈن نے ا±س مذہب کو غیر قانونی قرار دے دیا جس پر وہ پہلے عمل پیرا تھا اور یہ وہی وقت تھا جب کیتھولک مذہب کے ماننے والوں اور مسلمانوں کو ’حقیقی عیسائیت‘ کے دشمن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سویڈن میں سماجی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ لبرل جذبہ بھی پیدا ہوا اور فی الحال ملک سیکولر قوانین کے تحت چل رہا ہے۔
سویڈش اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر عمر مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ سویڈن کے رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور اب یہاں اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے جس کا اظہار ناصرف انٹرنیٹ پر ملتا ہے جبکہ حقیقت میں یہاں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی۔
قرآن نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعہ کے بعد اس ضمن میں مختلف نفرت انگیز سرگرمیوں کی تفصیلات بتائیں جیسا کہ سویڈن کی سڑکوں پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنا، مسلمانوں کے گھروں کو نقصان پہنچانا اور مساجد پر چھوٹے موٹے حملے۔
صحافی تسنیم خلیل ایک عرصے سے سویڈن میں مقیم ہیں اور سویڈش معاشرے سے ان کی شناسائی کافی گہری ہے۔ ا±ن کا خیال ہے کہ ان واقعات کے پیچھے سیاست کارفرما ہے اور یہ کہ پورے یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے عروج کی جھلک سویڈن میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ سویڈن کی موجودہ حکومت ایک واحد بڑی پارٹی، سویڈن ڈیموکریٹس کی حمایت سے برسراقتدار ہے، جس نے گذشتہ انتخابات میں 20 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ انھوں نے 349 نشستوں والی پارلیمان میں 72 نشستیں حاصل کیں۔ سویڈن ڈیموکریٹ پارٹی ماضی میں ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت تھی جو کبھی نازی نظریے پر یقین رکھتی تھی اور ایک حد تک، وہ اب بھی نسل پرست اور امیگریشن مخالف ہیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’نتیجتاً سخت دائیں بازو کی جماعتیں جو کبھی مرکزی دھارے سے باہر سمجھی جاتی تھیں اب سیاسی میدان میں بڑی قوتوں کے طور پر ابھری ہیں۔‘ یہ دائیں بازو کی جماعتیں سویڈش معاشرے میں ’ممنوع‘ یا بحث کے موضوع سے پرے جیسی سوچ کو ختم کرنے کی بات کرتی ہیں۔
تسنیم خلیل اس کی وضاحت اس طرح کرتی ہیں کہ نسلی یا مذہبی اقلیتوں کے مسائل پر تنقید سویڈن کی بڑی آبادی کو سخت ناپسند ہے کیونکہ ا±ن کے خیال میں یہ اقلیتیں جنگ زدہ ممالک سے آئی ہیں اور کمزور ہیں۔
’لیکن سویڈن کے آئین میں اظہار رائے کی آزادی کی ضمانت انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں ٹیبوز کو ختم کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور اقلیتوں پر حملہ کرنے کے لیے اپنے اظہار کے آئینی حق کو استعمال کر رہی ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں ’اور یہی وجہ ہے کہ ہم اس نوعیت کے زیادہ سے زیادہ واقعات دیکھتے ہیں جیسا کہ قرآن کو نذر آتش کرنا۔‘
یاد رہے کہ مسلمان سویڈن کی آبادی کا بہت بڑا حصہ نہیں ہیں لیکن دوسری جانب انھیں مذہبی بنیادوں پر اشتعال دلوانا آسان ہے، اور ذرا سی اشتعال انگیزی پر پوری مسلم دنیا کی جانب سے ردعمل سامنے آتا ہے اور سویڈن میں موجود انتہائی دائیں بازو کی قوتیں ایک منصوبہ بند طریقے سے اس کوشش میں مصروف ہیں کہ وسیع تر سویڈش معاشرے کے مسلمانوں کے تئیں رویوں کو تبدیل کیا جا سکے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں چند محققین نے فرانس، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ اور سویڈن میں اسلاموفوبیا پر تحقیق کی ہے۔
اس گروپ سے منسلک ایک محقق عبدالقادر این جی کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کے بارے میں سویڈن کا رویہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں تبدیل ہونا شروع ہوا۔ سنہ 2014 کے ایک سروے سے پتا چلا کہ 35 فیصد جواب دہندگان کے خیال میں اسلام یورپی طرز زندگی کے لیے خطرہ ہے۔ سنہ 2016 میں ایک اور سروے میں پایا گیا کہ 35 فیصد سویڈش مسلمانوں کا ہی مسلمانوں کے بارے میں منفی نظریہ ہے جبکہ 57 فیصد کا خیال ہے کہ سویڈن آنے والے مہاجرین سویڈن کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں، اور یہ بیانیہ بنیاد پرست دائیں بازو کی جماعتیں استعمال کر رہی ہیں۔
جوڈی صفین برکلے پولیٹیکل ریویو میں اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں کہ اسلامو فوبیا نہ صرف سویڈن میں بلکہ پوری دنیا میں بڑھ رہا ہے۔ ’خاص طور پر شام اور عراق جیسے ممالک کے مسلمان جو اپنے ہی ملکوں میں جنگی جرائم اور مالی بحران کا شکار ہو چکے ہیں۔ ’زینو فوبیا‘ یا غیر ملکیوں کے خوف کو مختلف ممالک میں مضبوط قوم پرست رویوں سے جوڑا گیا ہے۔ لوگ اب اپنی ثقافتی شناخت، ذریعہ معاش اور یہاں تک کہ سلامتی کے کھو جانے کے خوف سے ’دوسروں‘ کی مدد کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ سویڈن میں بھی ایسا ہی ہے۔‘
پناہ گزینوں یا تارکین وطن کے تئیں بدلتے رویوں کا ایک اور پہلو جوڈی صفین نے اپنے مضمون میں نوٹ کیا ہے۔ روس کی جانب سے جنگ مسلط کیے جانے کے بعد یوکرین سے نقل مکانی کر کے آنے والے یوکرینی شہریوں کا مشرق وسطیٰ کے ممالک سے آنے والوں سے موازنہ کرتے ہوئے، انھوں نے لکھا کہ سویڈن کے میڈیا اور سیاسی رہنماو¿ں نے بار بار اس بات کی نشاندہی کی کہ یوکرینی مہاجرین ’شام کے پناہ گزین نہیں ہیں، وہ یوکرین کے پناہ گزین ہیں۔۔۔ وہ عیسائی ہیں اور وہ سفید فام ہیں۔‘
لہذا، ا؛ن کا خیال ہے کہ یورپ میں غیر عیسائیوں اور نسلی اقلیتوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
لیکن صحافی تسلیم خلیل کا خیال ہے کہ قرآن کو نذر آتش کرنے یا مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی بار بار کوششوں نے سویڈش معاشرے کا ایک اور پہلو سامنے لایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ وسیع تر سویڈش معاشرہ اقلیتوں پر تنقید نہیں کرتا ہے، لیکن ان کے الفاظ میں ’نرم تعصب‘ موجود ہوتا ہے، یعنی، ایک ایسا نظریہ جس کی پسماندہ گروہوں کے ارکان سے زیادہ توقع نہیں کی جاتی ہے۔ یہ بھی نسل پرستی کی ایک شکل ہے۔
عراقی نڑاد سلوان مومیکا نے اچانک قرآن کو نذر آتش کرنے کا منصوبہ نہیں بنایا تھا بلکہ انھوں نے اس ضمن میں کافی عرصہ قبل سویڈش حکام سے مسجد کے سامنے مظاہرہ کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ پولیس کی جانب سے اجازت نہ دینے پر معاملہ عدالت میں چلا گیا اور تین ماہ تک کیس چلتا رہا اور بالآخر عدالت نے ایسا کرنے کی اجازت دے دی کیونکہ سویڈن کے آئین کے مطابق احتجاج کا حق بنیادی حق ہے۔
اس واقعے کے بعد سویڈن میں آزادی اظہار رائے کی حدود کے بارے میں زبردست بحث شروع ہو چکی ہے۔ سویڈن کی پولیس کا کہنا ہے کہ انھیں ان لوگوں کی جانب سے احتجاج کے لیے نئی درخواستیں موصول ہوئی ہیں جو ناصرف قرآن بلکہ تورات اور بائبل کو بھی جلانا چاہتے ہیں۔
سویڈن میں کچھ لبرل مبصرین بھی اب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس طرح کے احتجاج کو نفرت کی کارروائیوں کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، کیونکہ وہ ایک مخصوص نسلی گروہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، جو سویڈن کے قانون کے مطابق ممنوع ہے۔
دوسری طرف سویڈن کے اندر بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ مذہب پر تنقید، چاہے وہ اس کے ماننے والوں کے لیے ناگوار ہی کیوں نہ ہو، اس کی اجازت ہونی چاہیے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سویڈن میں توہین مذہب کے قانون کو واپس لانے کے لیے دباو¿ کی مزاحمت کی جانی چاہیے۔ سیکولر سویڈن میں کئی دہائیوں پہلے اس قانون کو منسوخ کر دیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیٹو کی رکنیت کے لیے سویڈن کی امیدوں کو چھ ماہ کے دوران اسٹاک ہوم میں دوسری بار قرآن نذر آتش کرنے کے بعد ایک اور دھچکا لگے گا۔ اور یہ واقعہ جس وقت پیش آیا اس پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سویڈن اور فن لینڈ نے یوکرین پر روسی حملے کے بعد فوجی غیر جانبداری کی اپنی دیرینہ پالیسی کو ترک کرتے ہوئے گذشتہ سال نیٹو کی رکنیت کے لیے درخواست دی تھی۔
رکنیت کے لیے نیٹو کے تمام رکن ممالک کی منظوری درکار ہوتی ہے لیکن ترکی اور ہنگری نے ابھی تک سویڈن کی درخواست کی حمایت نہیں کی ہے۔ ترکی کی اردوغان حکومت بارہا سویڈن کی حکومت پر کالعدم باغی گروہوں، کردستان ورکرز پارٹی اور دیگر ترک اپوزیشن گروپوں کو پناہ دینے کا الزام لگاتی رہی ہے۔ انقرہ حکومت انھیں دہشت گرد تنظیم سمجھتی ہے۔
دریں اثنا، ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے پیر کے روز اشارہ دیا تھا کہ ا±ن کا ملک ابھی تک نیٹو میں سویڈن کی رکنیت کی منظوری دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اسٹاک ہوم کو اپنا ’ہوم ورک‘ ختم کرنے کے لیے مزید محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سٹاک ہوم میں ہماری مقدس کتاب پر ہونے والے ’گھناو¿نے حملے‘ نے ہم سب کو مشتعل کر دیا، دو ارب مسلمانوں کے جذبات کی بیحرمتی کو کسی بنیادی انسانی قدر کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا۔
آزادی اظہار کے نام پر سویڈن میں قرآن پاک کو نذر آتش کرنے کی عدالتی اجازت کے بعد عراقی نڑاد شہری کے ہاتھوں اس مذموم حرکت سے پورا عالم اسلام مشتعل ہے اور جگہ جگہ احتجاج ہو رہے ہیں۔ او آئی سی ممالک سمیت تمام مسلم ممالک نے سویڈن کے ساتھ سفارتی سطح پر اظہار ناراضگی کیا ہے۔ بالآخر سویڈن حکومت اپنے گھٹنوں پر آگئی ہے۔ اب سویڈن حکومت اس بات پر غور کر رہی ہے کہ وہ قرآن پاک کی بے حرمتی کو باقاعدہ ایک جرم قرار دیدے۔
یاد رہے کہ مسلمانوں کے احتجاج کے باعث ہی سویڈن حکومت نے آزادی اظہار کے نام پر قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت دینی بند کردی تھی لیکن گزشتہ دنوں سویڈن کی ایک عدالت نے عراقی نڑاد شخص کو اس کی اجازت دیدی اور اس نے ٹھیک عیدالاضحی کے دن مسجد کے سامنے یہ مذموم حرکت کی جس کا ویڈیو دنیا بھر میں وائرل کیا گیا۔ اس کے بعد سے عالم اسلام میں اس کی نہ صرف مذمت ہو رہی ہے بلکہ سویڈن کے خلاف بھی سفارتی سطح پر کارروائی کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ ان حالات میں سویڈن حکومت خود دباﺅ میں ہے۔
سویڈن کے وزیر انصاف گنر اسٹرومر نے جمعرات جمعرات کو ’افٹن بلیڈیٹ‘ نامی اخبار کو بتایا کہ حکومت سویڈن کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے قرآن کو جلانے کے حالیہ واقعات کی روشنی میں قرآن یا دیگر مقدس کتابوں کو جلانے کو جرم قرار دینے پر غور کر رہی ہے۔ سویڈن کی سیکوریٹی سروس کا کہنا ہے کہ اس حرکت نے ملک کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔اس سال سویڈن کی پولیس نے سیکوریٹی کی وجوہات کی بنا پربعض احتجاجی مظاہروں کو منظم کرنے کی متعدد درخواستوں کی منظوری سے انکار کر دیا تھا جس میں قرآن کو جلانا شامل تھا، لیکن سویڈش عدالتوں نے پولیس کے فیصلوں کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ ایسے اقدامات سویڈن کے جامع آزادی? اظہار کے قوانین کی ضمانت ہیں۔ سویڈن کے وزیر انصاف نے جمعرات کو کہا کہ حکومت صورتحال کا جائزہ لے رہی ہے اور اس بات پر غور کررہی ہے کہ آیا قانون کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہےیا نہیں۔انہوں نے کہا کہ ”ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا ہوگا کہ کیا موجودہ نظام اچھا ہے یا اس پر نظر ثانی کرنے کی کوئی وجہ ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ حملوں میں سویڈن ایک ’ترجیحی ہدف‘ بن گیا تھا۔ ‘ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گزشتہ ہفتے قرآن پاک کو جلانے سے ہماری داخلی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔“اس واقعے نے سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی کوشش کو بھی متاثر کیا ہے کیونکہ ترکی کے صدر طیب اردگان نے کہا کہ ان کا ملک سویڈن کی درخواست پر قرآن کو جلانے کے واقعات روکنے سے پہلے رضامند نہیں ہو سکتا۔
گستاخ شخص کے خلاف عراق میں وارنٹ
جمعرات کو عراق کی سپریم جیوڈیشل کونسل نے سویڈن میں قرآن پاک کے اوراق نذرآتش کرنے کے گھناﺅنے جرم میں ملوث سلوین مومیکا نامی گستاخ کے خلاف گرفتاری کا وارنٹ جاری کیا ہے۔عراق میں سپریم جیوڈیشل کونسل کی طرف سے جاری کردہ ایک میمورنڈم میں وزارت داخلہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے ”فوری طور پر، عرب اور بین الاقوامی پولیس ڈائریکٹوریٹ کو ملزم سلوان صباح متی مومیکا کی گرفتاری کے وارنٹ کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں اور اس کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ملزم عراقی پینل کوڈ کے آرٹیکل(۱) ۳۷۲ کی دفعات کےتحت عراقی عدلیہ کو مطلوب ہے، توقع ہے عالمی ادارے اشتہاری ملزم کو پکڑنے اور اسے عراق کے حوالے کرنے میں مدد کریں گے۔“میمورنڈم میں حکام سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ملزم کی گرفتاری کی صورت میں عراقی عدلیہ کو مطلع کریں تاکہ اسکے خلاف کارروائی شروع کی جا سکے۔ عراق نے سویڈن سے کہا تھا کہ عیدالاضحی کے پہلے دن اسٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے قرآن پاک کو جلانے والےگستاخ کو مقامی قانون کے مطابق مقدمہ چلانے کیلئے اسکےحوالے کیا جائے۔ عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد الصحاف نے کہا کہ ”قرآن پاک کی توہین کرنے والا عراقی ہے۔ اسلئے ہم سویڈن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اسے عراقی حکومت کے حوالے کیا جائے تاکہ اس پر عراقی قانون کے مطابق مقدمہ چلایا جا سکے۔
اس بدبختانہ واقعہ پر ساری دنیائے اسلام میں احتجاج کیا جا رہا ہے۔ سب سے بڑا حتجاج مراقش نے کیا۔ مراقش نے سویڈن سے اپنا سفیر واپس بلا لیا۔ہر مسلم ملک میں سویڈن کے سفارت خانوں کے سامنے لوگ اپنے طور پر احتجاج کررہے ہیں۔ عام طور پر غیر فعال سمجھی جانے والی او ائی سی بھی حرکت میں اچکی ہے۔ اس کی مجلس عاملہ نے فوری طور پراجلاس طلب کیا۔ وہاں یہ بتایا گیا کہ کسی نے سویڈن میں اظہار رائے کو جتانے کے لئے پولیس سے یہ اجازت مانگی تھی کہ وہ تورات کی ایک کاپی بھی جلانا چاہتا تھا، لیکن پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی۔ پولیس کی دلیل یہ تھی کہ اس طرح ملک میں نقص امن کا خطرہ ہوجائے گا۔او ائی سی نے کہا کہ پھر یہی دلیل اس معاملہ میں کیوں نہیں اپنائی گئی۔ ویسے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اسرائیل کے دو بڑے یہودی ربیوں نے قران کی بے حرمتی کی مذمت کی ہے۔ اسے مذمت کے قابل قرار دینے کے لئے عام طور پر او ائی سی ایسے سخت الفاظ کم ہی استعمال کرتی تھی،لیکن پچھلے دو تین سال میں اس کا رویہ بدلا ہے۔ ابھی تک اس انجمن میں اپنے ہی تیل کی دولت کے سہارے وہاں جو بھی ہوتا تھا سعودی عرب کے اشارے ہی پر ہوتا تھا لیکن اب چونکہ اسلامی ممالک یہ دیکھ رہے ہیں کہ دنیا میں ترکی ،ایران اور پاکستان کو بھی مضبوط طاقت سمجھا جا رہا ہے اور گلوبل معاشرہ بھی ان ممالک کی طرف متوجہ ہے اس لئے سبھی کو اپنا رویہ پہلے سے زیادہ سخت کرنا پڑا ہے۔
حیرت اس بات کی تھی کہ اس سلسلہ میں عمران خان کا کوئی بیان سامنے نہیں ایا۔ یہی وہ لیڈر تھے جن کی کوششوں سے اقوام متحدہ نے ہر سال کے پندرہ اپریل کو اسلامو فوبیا مخالف دن قرار دیا تھا لیکن عمران خان کا ایک المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی شہباز شریف حکومت نے ایک قانون بنا کر تمام ٹی وی چینلس پر یہ پابندی لگادی ہے کہ وہ عمران خان اور ان کی پارٹی کا نام تک نہ لیں۔ اگر کوئی ان کے خلاف بیان ہو تو بھی ان کا نام نہ لیا جائے اور اگر وہ کہیں احتجاج کریں تو اس جگہ کرفیو لگادیا جائے۔ اس لئے اگر وہ کوئی بیان دے بھی دیں تو بھی ان کا نام نہیں لیا جائے گا۔ بہر حال عمران خان نے اپنے ویڈیو لاگ پر قوم کو یہ پیغام دیا کہ جمعہ کی نمازکے بعدساری قوم مسجد کے باہر اکر پر امن طریقہ سے اس واقعہ کی مذمت کرے۔پاکستان کے دیہاتوں میں اس احتجاج کا مظاہرہ کیا گیا۔