شرابی جمہوریہ پاکستان

شرابی جمہوریہ پاکستان
پاکستان کے متعلق پہلے دن سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ ملک کلمے کے نام پر وجود میں آیا ہے، چنانچہ اس مملکت خداداد کا نام بھی “اسلامی جمہوریہ پاکستان” رکھا گیا، مگر انتہائی افسوس اور حیرت کی بات ہے کہ ملک کے صرف سرکاری نام میں لفظ “اسلامی” ضرور موجود ہے، لیکن پورے نظام میں ڈھونڈے سے بھی اسلام نظر نہیں آتا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ سود، جسے اللّہ پاک سے جنگ قرار دیا گیا ہے، مگر ہمارے ملک کی پوری معیشت سود پر چل رہی ہے۔ یہاں تک کہ گزشتہ دنوں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں یہ شرم ناک انکشاف کیا گیا ہےکہ پارلیمنٹ میں 50 فیصد لوگ شراب پیتے ہیں اور پاکستان میں 8 کروڑ لیٹر سے زائد شراب بنائی جاتی ہے۔ یہ انکشاف پاکستان جیسے اسلامی ملک میں کسی گالی سے کم نہیں ہے، مگر انتہائی افسوس ناک بات یہ ہےکہ یہ بات ان لوگوں کے متعلق کہی جا رہی ہے، جو ملک میں قانون سازی کے زمہ دار ہیں، جو ملک کی درست سمت کا تعین کرتے ہیں۔
یہ بات بھی محل نظر ہے کہ پاکستان میں شراب کے پرمٹ کیوں دیئے جاتے ہیں؟ حالانکہ یہ بات ہر باشعور مسلمان جانتا ہے کہ شراب “ام الخبائث” ہے، یعنی خباثتوں کی ماں، مگر اس کے باوجود اقلیتوں کے نام پر شراب کے پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں، جبکہ دنیا کے ہر مذہب میں شراب ممنوع اور حرام ہے، مگر پھر بھی اس پاک وطن میں شراب نوشی کی سہولت مہیا کرنے کے لئے شراب خانوں کے پرمٹ جاری کئے جاتے ہیں، جہاں سے شراب لینے والوں میں اکثریت مسلمانوں کی ہوتی ہے، یعنی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ شراب خانے دراصل مسلمانوں کے لئے کھولے گئے ہیں۔ اگر حکومت اپنی رعایا کو ایک صحت مند اور صاف ستھرا معاشرہ دینے میں سنجیدہ ہے تو فوری طور پر شراب خانوں کے پرمٹ منسوخ کرے اور شراب نوشی پر پابندی عائد کردے۔ اگر حکومت اپنے ارکان پارلیمنٹ کی خوش نودی اور تفریح طبع کی خاطر شراب کے اس حرام اور ناجائز کاروبار کو بند کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے تو پھر فوری طور پر ملک کا سرکاری نام “شرابی جمہوریہ پاکستان” رکھ دیا جائے.
زرعی اراضی پاک فوج کو دینے کا معاہدہ بحال
لاہور ہائیکورٹ نے سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے پاک فوج کو زرعی اراضی دینے کا معاہدہ بحال کر دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی، جسٹس عالیہ نیلم نے زرعی اراضی فوج کو دینے سے متعلق معاہدہ کو غیر قانونی قرار دینے والے سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کر دیا۔ سنگل بینچ نے زمین فوج کو دینے کا اقدام غیر قانونی قرار دیا تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے مذکورہ فیصلے پر سنجیدہ حلقوں کی جانب سے انتہائی تعجب کا اظہار کیا جا رہا ہے، کیوں کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فوج اور بلڈر مافیا کو بہت سی زرعی اراضی دے دینے کی وجہ سے پاکستان، جو زراعت میں خودکفیل ملک کی شہرت رکھتا تھا، آج زرعی زمین سکڑنے کی وجہ سے زرعی اجناس، یہاں تک کہ گندم بھی بیرونی ممالک سے درآمد کرنے پر مجبور ہو چکا ہے، ایسی صورت حال میں بچی کھچی زرعی زمین بھی اگر بانٹ دی گئی تو رہی سہی زراعت کا بھی پاکستان سے مکمل طور پر صفایا ہو جائے گا۔
مختلف طبقات کی جانب سے عدالت عالیہ لاہور کے مذکورہ فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ زرعی انقلاب، صنعتی اورسائنس و ٹیکنالوجی کے انقلاب میں رقبے نہیں ملتے۔ پاکستان کے لئے بھی یہ اعزاز کی بات ہے کہ دنیا کے چاند پر پہنچنے والے چار ملکوں میں سے تین ہمارے ہمسایہ ممالک ہیں۔ پاکستان میں پہلی مرتبہ چینی 150 روپے کلو تک جا پہنچی ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے خاندان کی 17 شوگر ملز ہیں اور آصف زرداری کی 11 شوگر ملز ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ
جس سیاسی رہنما کی جائدادیں اور پیسہ باہر کے ملکوں میں ہو، وہ ملک کا خیر خواہ نہیں ہو سکتا۔
موجودہ حالات میں اعلیٰ عدالتوں کی جانب سے جو فیصلے سامنے آرہے ہیں، ان فیصلوں پر کافی تنقید کی جا رہی ہے، جیسے حمزہ شہباز کی کمر درد کے باعث عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ شہباز شریف، حمزہ اور سلیمان شریف منی لانڈرنگ کے مقدمے کی دائر ہوئی درخواست میں احتساب عدالت لاہور نے شہباز شریف اور حمزہ شہباز کی بریت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا، جو بعد میں سنایا جائے گا۔ اس پر بھی یہ تبصرہ کیا جا رہا ہے کہ سب کو معلوم ہے، وہ فیصلہ کیاہوگا؟ ہم چندریان نابنا سکے تو کیاہوا، چندریان کی رفتار سے انصاف تو دے رہے ہیں۔ درحقیقت مملکت خداداد میں اتنے فرعون ہیں کہ سمندر بھی کنفیوز ہو جائے کہ پہلے کِسے غرق کرنا ہے؟ پاکستان اسلام کا وہ عجیب و غریب قلعہ ہے، جو غیر مسلم ممالک کے چندوں اور قرضوں پر کھڑا ہے اور ہم نے پڑوسی د±شمن کے لئے زمین اتنی “تنگ” کر دی ہے کہ دشمن زمین چھوڑ کر چاند پر جانے کے لئے مجبور ہو گیا ہے۔ بہرحال، تاریخ عدالت عالیہ کے مذکورہ فیصلے کو غلط ثابت کرے گی۔
شطرنج کا کھیل امریکہ ہار گیا
امریکہ نے پوری دنیا میں شطرنج کی بساط بچھا رکھی ہے، مگر شطرنج کےاس کھیل میں امریکی ایجنسیوں نے منہ کی کھائی۔ امریکہ بہادر نے ایک شطرنج اپنے پیسوں سے خریدی اور خود ہی چال چلی، دونوں طرف سے۔ یعنی دونوں طرف سے کھیلنے والا خود امریکہ ہی تھا، مگر پھر بھی امریکہ کو دونوں طرف سے ہی مات ہو گئی۔ سوچنے والی بات ہے کہ یہ کیسے ہوا؟ کیا ایسا ممکن ھے؟ ہوا یہ کہ راز داری سے پاکستان کے دشمنوں پر تیر چلایا گیا۔
19 سال پہلے 9/11 کا امریکی ڈرامہ کیا گیا، جس کے ثبوت مل چکے ہیں۔ تحقیقات ہوچکی ہیں اور یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ امریکہ نے خود کروایا تھا اور اس ڈرامے کا مقصد مسلمانوں پر زمین تنگ کرنا تھا۔ ان کے جوتشیوں نے انہیں بتا دیا تھا کہ اسلام غالب آنے والا ہے۔ وہی ڈر ان کو آج بھی کھائے جا رہا ہے، لہذٰا اسلام اور مسلمانوں کو کمزور کرنے یا ختم کرنے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈے آزمائے جاتے ہیں۔ ہالینڈ ، فرانس اور ناروے میں گستاخی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
تمام مسلم ممالک میں سب سے زیادہ چھاپ پاکستان کی ہے، جس کی طرف دیکھتے ہوئے بھی دشمن خوف کھاتے ہیں۔ باقی ہر مسلم ملک پر قبضہ یا تباہی ہو چکی ہے یا آسانی سے ہوسکتی ہے، مگر پاکستان میں ایسا ممکن نہیں، لہذٰا پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لئے 19 سال پہلے شطرنج کی ایک چال چلی گئی، جس میں اپنے ہی 2996 لوگوں کو مارا گیا اور 6000 سے زیادہ افراد زخمی ہوئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہاں کام کرنے والوں میں یہودی ہزاروں کی تعداد میں کام کرتے تھے، مگر ان میں سے ایک بھی نہیں مرا، سب کے سب اس دن چھٹی پر تھے۔ اس کے علاوہ حیرت انگیز طور پر ایک ہی دن میں اتنے جہاز ہائی جیک ہوکر ورلڈ ٹریڈ ٹاورز تک پہنچ گئے، اتنے شہروں کو کراس کر کے؟ مگر سپر پاور اور دنیا کی بہترین امریکی فوج اور انٹیلیجنس کو کچھ پتہ ہی نہیں چلا۔
پاکستان کو ایک انجانی جنگ میں جھونک دیا گیا۔ افغانستان میں داخل ہوکر امریکہ نے پہلے انڈیا اور اسرائیل کو انٹری دی اور پھر داعش کو۔ مقصد افغانستان پر قبضہ نہیں تھا، بلکہ اصل ٹارگٹ پاکستان تھا۔ پاکستان میں دہشت گردوں کو سپورٹ کر کے ہتھیار اور پیسہ دے کر پاکستان کے خلاف کھڑا کیا گیا اور گلی گلی دھماکے شروع کروائے گئے، مجبوراً پاکستان نے بلوچستان میں آپریشن کر کے ان امریکی، اسرائیلی اور انڈین پیڈ دہشت گردوں کا صفایا کر دیا۔ پاکستان میں امن ہوگیا۔ اب امریکہ بہادر کو جلن و خارش شروع ہو گئی اور اسے سمجھ ہی نہیں آرہا کہ اس کے ساتھ ہوا کیا ہے؟
افغانستان میں 19 برس طویل جنگ اور 40 ملکوں کی اتحادی فوج کے ساتھ بھی وہ چند ہزار طالبان کو ختم نہ کر سکا اور پاکستان نے اکیلے ہی پورے پاکستان سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا۔ جب اپنی ناکامی کا احساس ہوا تو امریکہ بہادر نے رونا پیٹنا شروع کر دیا کہ میرے پیسے تھے، میری شطرنج تھی، میری چال تھی، میرے گھوڑے تھے، میرے پیادے تھے، اور میرے ہی بادشاہ و وزیر تھے، پھر مجھے مات کیوں ہوئی؟ دنیا اب ت±ھو ت±ھو کرنا شروع ہوئی تو سارا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ پاکستان نے جیتنے نہیں دیا۔ 40 ملکوں کی فوج اور 40 ہی ملکوں کی انٹیلی جینس ایجنسیاں سب ناکام رہے اور شطرنج کی اس خطرناک بساط میں جیت پاکستان کا مقدر ٹھہری۔
عوام تاحال ریلیف کے منتظر
جمہوریت میں “طاقت کا سرچشمہ” عوام ہوتے ہیں، کیوں کہ “عوام” کے ووٹوں کی طاقت کے بل پر ہی حکومت قائم ہوتی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ حکومت عوام پر ہی کی جاتی ہے اور عوام کے لئے ہی ہوتی ہے، مگر یہ کیسی جمہوریت اور کیسی حکومت ہے، جو ہر عوام دشمن فیصلہ نہایت آسانی سے کر لیتی ہے اور عوام کو فائدہ یا آسانی پہنچانے والا کوئی بھی فیصلہ کرتے ہوئے ان کو موت آتی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ہی چیئرمین سینیٹ کے لئے تاحیات ناجائز مراعات کا انتہائی نامناسب، بلکہ انتہائی بے ہودہ فیصلہ بڑی دیدہ دلیری سے کر دیا گیا، جس پر ہر شعبہ زندگی سے اور سوشل میڈیا پر شدید احتجاج سامنے آیا، جس کے بعد کہا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا، مگر تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ساری باتیں منسوخ کر دی گئی ہیں یا پھر چند۔ کیوں کہ فیصلہ کیاگیا تھا کہ سابق وموجودہ چیئرمین سینیٹ تاحیات سرکاری طیارے پر گھر کے 24 افراد کے ساتھ سفر کر سکیں گے، اپنے لئے چارٹرڈ طیارہ بھی منگوا سکیں گے، 18 لاکھ روپے تک صوابدیدی فنڈ بھی استعمال کر سکیں گے، گھر کے کرائے کی مد میں ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ لے سکیں گے، 12 اہل کاروں پر مشتمل ذاتی عملہ رکھنے کی اجازت ہو گی، سرکاری گاڑی اہل خانہ بھی استعمال کر سکیں گے، اس کے علاوہ رہائش کی تزئین و آرائش کے لئے بھی 50 لاکھ روپے مختص کئے گئے تھے۔ متذکرہ مراعات کی تفصیل سن کر ہر عاقل و بالغ شخص مارے حیرت کے ششدر رہ جائے گا کہ یہ مراعات اس ملک کی حکومت دینے جا رہی ہے، جس کا نہ صرف وزیر خزانہ، بلکہ وزیراعظم تک بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کی بھیک مانگ رہا ہے۔ ملکوں ملکوں جا کر مالی امداد کے لئے جھولی پھیلا رہا ہے۔
مذکورہ تجویز جس بھی رکن سینیٹ نے پیش کی، نہ صرف وہ، بلکہ اس تجویز کی حمایت کرنے والے تمام ارکان سینیٹ اور اس ظالمانہ تجویز کو منظور کرنے والے چیئرمین سینیٹ نہ صرف پاکستان کے سسکتے، بلکتے عوام، بلکہ وطن عزیز کے بھی بدترین دشمن ہیں اور ان سب افراد کو پاکستان کی تاریخ کی اس بے ہودہ ترین تجویز پیش کرنے کے جرم میں گرفتار کر کے تاحیات زنداں میں ڈال دینا چاہئے، تاکہ وہ تاحیات قید میں رہ کر یہ سوچ سکیں کہ ایسے غلط فیصلے کرنے سے مراعات نہیں، بلکہ قید کی صورت میں سزا ملتی ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ وطن عزیز کے ہر طبقے نے اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف آواز بلند کی، مگر حکومتی ایوانوں میں سے کسی کو کلمہ حق بلند کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ سوشل میڈیا پر تو لوگ بےانتہا مشتعل تھے اور ان کا کہنا تھا کہ ہم چیئرمین سینیٹ کو نامکمل سہولیات دینے کی پر زور مذمت کرتے ہیں، کیوں کہ موت برحق ہے، لہذٰا دیگر مراعات کے ساتھ سرکاری خزانے سے کفن اور مقبرے کی تعمیر کے ساتھ ساتھ لاش پر پھول اور عطر کا چھڑکاو¿ مراعات میں شامل کیوں نہیں کیا گیا؟ یہ سراسر زیادتی ہے۔ یہ سینیٹ والے بیچارے ہمارے لئے 100 سالہ منصوبے بناتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ کرپشن، چوری، بے ایمانی میں دنیا میں شاید ہی ہم سے کوئی آگے ہو، ہمیں بھی ان کے لئے اسی طرح 100 سالہ منصوبے کی سوچ رکھنی چاہئے۔بمارے ٹیکسز پر پلنے والے اس غربائ ، مساکین طبقے کا ہمیں خیال رکھنا چاہئے، ان کی مدد کرنی چاہئے۔ ان غریبوں کے کفن، دفن، سوئم، دسویں، چہلم کےلئے بھی کم از کم 5 ارب روپے کی رقم منظور کرنی چاہئے، دین اسلام بیوہ کو شادی کی اجازت بھی دیتا ہے، اس لئے عدت کے بعد ان کی مسکین بیوہ دوسری شادی کرنا چاہیں تو بیوہ کی شادی کیلئے بھی 10 ارب روپے تک کی رقم مختص کرنی چاہئے۔ پورا سوشل میڈیا دل جلے پاکستانیوں کی ایسی باتوں سے بھرا پڑا ہے، مگر گزشتہ بہت سی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت کے بھی کسی کل پرزے پر ان فریادوں، دہائیوں کا کوئی اثر نہیں ہوا اور عوام کو ریلیف دینے کا کوئی واضح یا بڑا اقدام تاحال سامنے نہیں آیا۔
آئی ایم ایف معاہدہ اور عوام
وفاقی حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 9 روپے فی لیٹر اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں سات روپے فی لیٹر کمی کا اعلان کیا ہے جبکہ پیٹرولیم لیوی جوکہ آئی ایم ایف سے طے تھی، اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔ بلاشبہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں واضح کمی سے عوام کو ریلیف ملے گا لیکن دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑرہا ہے، بجلی مہنگی کرنا آئی ایم ایف کی شرط ہونے کے ساتھ گردشی قرضوں کی وجہ سے ہماری ضرورت تھی۔ ایک جانب تو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ آئی ایم ایف معاہدہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوم برگ کی پاکستان کے حوالہ سے مثبت رپورٹ اور حکومت کی عالمی مالیاتی ادارہ کی شرائط پر سختی کے ساتھ عملدرآمد کی پالیسی سے اچھی خبریں آنے کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔ یہ فوری مالیاتی بندوبست توسیعی فنڈ سہولت کے تحت عالمی مالیاتی ادارہ کے 2019 میں شروع ہونے والے پروگرام کی آخری تاریخ تک تجدید نہ ہوپانے کی وجہ سے عمل میں لایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں بہتری آئی ہے اس کے نتیجہ میںمعاشی بحالی کے پچھلے دنوں منظر عام پر آنے والے اس نہایت اہم حکومتی منصوبہ میں بھی تیز رفتار پیش رفت متوقع ہے، جس کے تحت زراعت، معدنیات، توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی وغیرہ جیسے ترقی کے ضامن شعبوں میں ون ونڈو آپریشن کے تحت چین، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر وغیرہ جیسے دوست ملکوں کی جانب سے بیرونی سرمایہ کاری کے راستے کھول دیئے گئے ہیں اور جس میں افواج پاکستان بھی سیکیورٹی کی ضمانت اور کئی دیگر حوالوں سے معاون ہونگی۔ دوسری جانب پاکستان جیسے مالی مسائل سے دوچار ملک کے حکمران طبقات کی مراعات انتہائی ترقی یافتہ اور دولت مند ممالک سے کہیں زیادہ ہیں اور حالات کا تقاضا ہے کہ انہیں جلد از جلد معقول سطح تک کم کیا جائے۔ معاہدہ کے باوجود ملکی معیشت کے لیے خطرات کم نہیں ہوئے، یہ معاہدہ محض دیباچہ ہے کیونکہ اس معاہدہ کے نتیجہ میں جو رقم ملے گی اسے حکومت اپنے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے لیے استعمال نہیں کرسکے گی، نہ سبسڈیز دی جائیں گی۔ یہ معاہدہ ایک کڑا امتحان ہے، ایک جائزہ کے مطابق جی ڈی پی میں ٹیکس آمدنی کی شرح 1980 کی دہائی میں 13.4 فیصد سے مسلسل کم ہوتے ہوئے سال 2023 میں 8.5 فیصد رہ گئی ہے لہٰذا ایک ٹیکس چور کلچر کی موجودگی میں مالی خسارہ کم کرنا کسی معجزہ سے کم نہیں جبکہ سرکار کے بے پناہ اخراجات بھی کم نہ ہوں۔ یہ بات تو ریکارڈ پر ہے کہ ہمارے ملک میں امرا کی مراعات و مستثنیات 4000 ارب روپے سے زیادہ ہیں۔ حالیہ سالانہ بجٹ میں مالی خسارہ کا تخمینہ جی ڈی پی کا 6.5 فیصد لگایا گیا ہے جبکہ سود کی ادائیگی پر خرچہ 6.9 فیصد ہوگا۔ اس معاملہ میں ہاتھ اٹھاتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ نے خوش گمانی یہ پیدا کی ہے کہ 88 فیصد قرض تو داخلی ہے جو ہمارے ہاتھ میں ہے۔