چیئرمین سینیٹ کی مراعات کے بل سے قومی خزانے پر کتنا بوجھ پڑے گا؟

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اس اقدام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ قانون سے قومی خزانے پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔
’کچن کے خرچ کے لیے آج کل 50 ہزار روپے کیا ہے؟‘ سینیٹرز کی تنخواہوں و مراعات میں مجوزہ اضافے پر اعتراض کیوں

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے بل پر وضاحت دیتے ہوئے کہا تھا کہ 1975 کے قانون میں موجودہ حالات کے مطابق ردو بدل کیا گیا ہے، سہولیات پہلے سے دی جا رہی ہیں، سرکاری خزانے پر کوئی بوجھ نہیں پڑا۔
تاہم حقائق چیئرمین سینیٹ کے دعوے کے برعکس نکلے، چیئرمین سینیٹ کی مراعات اور الاو¿نسز میں اضافے کا بل منظور ہونے سے قومی خزانے پر بھاری بوجھ پڑے گا۔
سینیٹ سے منظور کردہ بل کے مطابق چیئرمین سینیٹ کی رہائش گاہ کا کرایہ ایک لاکھ تین ہزار روپے سے بڑھا کر ڈھائی لاکھ روپے ماہانہ کر دیا گیا، چیئرمین سینیٹ کی سرکاری رہائش گاہ کے فرنیچر کیلئے ایک بار کے اخراجات ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 50 لاکھ روپے کر دیے گئے۔
سابق چیئرمین سینیٹ کو 12 ملازمین اور 6 سکیورٹی اہلکار ملیں گے، سینیٹ میں قانون منظور
دفتر سے پانچ میل سے زیادہ سفر پر 10 روپے فی کلومیٹر کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کیلئے 300 اور نجی کار کیلئے 400 روپے فی کلومیٹر الاو¿نس ملے گا۔
سفر کے دوران رکنے پر 1750 روپے کے بجائے 10 ہزار روپے ملیں گے، چیئرمین سینیٹ چارٹرڈ جہاز پر بیرون ملک جاسکیں گے اور ساتھ میں چار اہلخانہ بھی سفر کر سکیں گے۔
بل پر پیپلز پارٹی میں بھی اختلاف رائے سامنے آگیا
دوسری جانب چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو مراعات دینے کے معاملے پر پیپلز پارٹی میں بھی اختلاف رائے سامنے آگیا۔
خورشید شاہ نے چیئرمین سینیٹ کو بھاری مراعات دینے کی حمایت کردی
خورشید شاہ مراعات دینے کے حامی جبکہ سلیم مانڈوی والا مخالف نظر آئے۔

خورشید شاہ کا کہنا تھاکہ پارلیمنٹ سب سے بڑا فورم ہے، چیئرمین اور اسپیکر کو مراعات ملنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے، دوسرے لوگوں کو مراعات ملتی ہیں تو آپ کو اعتراض نہیں ہوتا کیونکہ وہاں تک آپ کی پہنچ نہیں ہوتی۔

سلیم مانڈوی والا کہتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کیلئے مراعات سے متعلق قانون سازی دو چار لوگوں کے درمیان ہوئی، انہوں نے دوسرے ممبران کو غلط معلومات دے کر بل پردستخط کروایا، بل اسی طرح دو منٹ میں سینیٹ میں پاس ہوگیا۔
انہوں نے کہا کہ بل بھی غلط تھا اور طریقہ کار بھی غلط تھا جس سے سینیٹ کی بدنامی ہوئی، دستخط ایسے لیے گئے کہ ممبران کو بل ہی نہیں دکھایا گیا، ممبران کو کہا گیا کہ آپ کا فائدہ ہوگا مراعات ملیں گی اور ممبران نے دستخط کردیے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے ایوان بالا کے ارکان کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے بل کا دفاع کرتے ہوئے خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہے اور مستعفی ہونے کی بھی پیشکش کی ہے۔
سینیٹ کی جانب سے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے علاوہ تمام سینیٹرز کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کے بل کی منظور پر حکمران اتحاد میں شامل دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ اس بل کو کبھی بھی قانون کا حصہ نہیں بننے دیا جائے گا اور جب یہ بل قومی اسمبلی میں پیش ہوگا تو اس کی بھرپور مخالفت کی جائے گی۔
تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس بل کو پاس کروانے میں بھی ان دونوں جماعتوں کے ارکان کی اکثریت شامل تھی۔
دستور کے مطابق سینیٹ سے منظوری کے بعد اس بل کو ایکٹ یا قانون بنانے کے لیے اسے قومی اسمبلی میں بھیجا جائے گا اور اگر قومی اسمبلی اس کو یکسر مسترد کر دیتی ہے تو پھر یہ قانون کا درجہ حاصل نہیں کرتا اور اگر قومی اسمبلی کے ارکان اس بل میں کچھ ترامیم تجویز کرتے ہیں تو پھر یہ بل دوبارہ غور کے لیے سینیٹ میں بھیجا جائے گا۔
’آج کل کچن کے خرچ کے لیے پچاس ہزار روپے کیا ہے؟‘ صادق سنجرانی
ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا ر±خ‘ میں بات کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے کہا کہ ’وہ کہتے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ جہاز خرید رہا ہے۔ میں کہتا ہوں جس دن قابل ہوا اور پہلے اپنے غریب قوم کے مسئلوں کو حل کیا تو چیئرمین سینیٹ ایک نہیں 10 جہاز لے گا اور ضرور لے۔‘
بل پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ’ہم ہر چیز کو سیاسی بنا دیتے ہیں، میڈیا کی ہائپ پر ارکان اسمبلی بیک فٹ پر چلے جاتے ہیں۔
’چیلنج کرتا ہوں کہ کسی چیز میں ایک روپے کا اضافہ نہ کیا ہے، نہ ہماری خواہش ہے۔ جو موجودہ (مراعات) ہیں وہی ہیں۔ الگ کرنے کے لیے ایکٹ لائے۔ میں چیزیں چھپاتا نہیں سامنے لاتا ہوں تاکہ قوم کو پتا چلے یہ موجود ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آپ اپنے نمائندوں کو اچھی مراعات دیں تاکہ وہ اچھا کام کرسکیں۔ ایسے ارکان بھی ہیں جو سینیٹ کی تنخواہ پر گزارہ کرتے ہیں۔‘
صادق سنجرانی نے مزید کہا کہ ’1975 میں کچن کا خرچ چھ ہزار روپے تھا، اس کو پچاس ہزار کر دیا ہے۔ آج کل پچاس ہزار کیا ہے؟ وہ بھی میں نے استعمال کیا ہے نہ کروں گا۔ اپنی جیب سے کر رہا ہوں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ اگر میں نے ایسا کچھ کیا ہے تو آڈٹ کیا جائے ’میں چیئرمین سینیٹ (کا عہدہ) چھوڑ دوں گا۔‘
’زرداری نے طلب کیا اور ڈانٹ پلائی‘
ادھر سینیٹ کے سابق ڈپٹی چیئرمین اور سینیٹ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیف وہیپ سلیم مانڈوی والا کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت کی قیادت سینیٹ میں اس بل کے پاس ہونے پر سخت نالاں ہے اور انھوں نے اس بل کے پاس ہونے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔
بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سینیٹ سے اس بل کے پاس ہونے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے انھیں طلب کیا اور انھیں ڈانٹ پلائی کہ کیسے سینیٹ کے چیئرمین کی مراعات میں اضافے کا بل پاس کروایا گیا۔
سلیم مانڈوی والا کے بقول انھوں نے سابق صدر کو بتایا کہ چونکہ وہ بجٹ کے معامالات کو دیکھ رہے تھے اس لیے وہ اس پر توجہ نہیں دے سکے۔
انھوں نے کہا کہ اس بل کو منظور کراونے میں حتیٰ کہ ان کے پارٹی کے ارکان نے بھی انھیں اعتماد میں نہیں لیا۔
واضح رہے کہ اس بل کو پیش کرنے اور اس کو پاس کروانے میں سینیٹ کے دو سابق چیئرمین رضا ربانی اور فاورق ایچ نائیک شامل ہیں اور دونوں کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہے۔
اقتصادی بحران میں مراعات کیسے دی جا سکتی ہیں؟
سلیم مانڈوری والا کا کہنا تھا کہ ملک مشکل حالات میں ہے اور حکومت نے پاس سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے پیسے نہیں جبکہ دوسری جانب سینیٹ کے چیئرمین اور ارکان کے تنخواہوں کے بل منظور کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیئر اور وزیر مملکت برائے پیٹرولیم مصدق ملک کا کہنا ہے کہ وہ یہ معاملہ وزیر اعظم کے نوٹس میں بھی لے کر آئے ہیں اور انھوں نے اس پر برہمی کا اظہار کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پارٹی کی سینیئر قیادت کو بھی اس بل پر تحفظات ہیں جس کا انھوں نے اظہار بھی کیا۔
بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ملک اس وقت جن مسائل سے گزر رہا ہے تو ایسے حالات میں اس قسم کی مراعات کیسے دی جاسکتی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ کسی صورت میں بھی اس بل کو قانون بننے نہیں دیا جائے گا۔
بعدازاں ایک نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے مصدق ملک کا کہنا تھا کہ جب سے پی ڈی ایم اور پاکستان پیپلز پارٹی اقتدار میں آئے ہیں اس وقت سے وزیر اعظم نے یہ اعلان کر رکھا ہے کہ کوئی بھی وزیر تنخواہ اور مراعات نہیں لے گا اور وزیر اعظم کے احکامات کی روشنی میں تمام وزرا اکانومی کلاس میں سفر کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف چیئرمین سینیٹ کے لیے چارٹر طیارے تک بک کروانے کے بل کی منظوری دی جا رہی ہے۔
سینیٹ میں حزب مخالف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے بتایا کہ ان کی جماعت کے پانچ سینیٹرز کے پاس حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکان آئے تھے اور انھوں نے بتایا تھا کہ وہ چاہتے ہیں کہ سینیٹ کو قومی اسمبلی کی طرح خود مختار بنایا جائے اس لیے وہ سینیٹ میں قرارداد لا نا چاہتے ہیں جس کی انھوں نے حامی بھر لی تھی اور اس قرارداد پر انھوں نے دستخط کردیے۔
ہمایوں مہمند کا کہنا تھا جب یہ بل سینیٹ میں پیش ہوا تو ان کی جماعت نے کسی اور معاملے پر ایوان سے بائیکاٹ کیا تھا اور اسی دوران قرارداد کی بجائے اس کو بل کی شکل میں پیش کیا گیا۔
انھوں نے کہا کہ واپس آکر انھوں نے اس پر اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا تھا۔
سینیٹ
’چیئرمین کی تنخواہ دو لاکھ روپے، گھر کا ماہانہ کرایہ ڈھائی لاکھ روپے‘
ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا پر اس بل کی سینیٹ سے منظوری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پروٹوکول کے مطابق چیئرمین سینیٹ صدر اور وزیر اعظم کے بعد تیسرے نمبر پر آتے ہیں۔
سینیٹ کے چیئرمین کی تنخواہ اور مراعات میں اضافے کے علاوہ ان کے تین سال کا عرصہ مکمل کرنے کے بعد عہدے سے سبکدوش ہونے سے متعلق جو بل سینیٹ سے منظور کروایا گیا ہے اس کے اہم نکات میں یہ بھی ہے کہ چیئرمین کی تنخواہ دو لاکھ پانچ ہزار روپے ہو گی اور چیئرمین جس گھر میں رہے گا اس کا ماہانہ کرایہ ڈھائی لاکھ روپے ہوگا اور اس کی تزئین و آرائش پر پچاس لاکھ روپے سے زیادہ کا خرچہ نہیں ہوگا۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ منتخب ہوتے وقت اگر ان کے پاس کوئی سرکاری رہائش گاہ نہیں ہے تو انھیں ایسے گھر میں رکھا جائے گا جس کا ماہانہ کرایہ پانچ لاکھ روپے سے زیادہ نہیں ہو گا۔اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ اپنے ہی گھر میں رہ رہے ہیں تو انھیں سرکار کی طرف سے ڈھائی لاکھ روپے کرائے کی مد میں ادا کیے جائیں گے تاہم اس گھر کی تزیئن و آرائش پر اخراجات سرکاری خزانے سے ادا نہیں کیے جائیں گے۔
سینیٹ سے پاس ہونے والے اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ بیرون ملک دورے پر جائے گا تو ان کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے زیر استعمال جہازوں کے علاوہ مسلح افواج یا کسی فلائینگ کلب کا طیارہ حاصل کیا جائے گا۔
اس بل میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ کے لیے کوئی طیارہ کرائے پر لیا جاتا ہے تو اس میں ان کے خاندان کے چار افراد ان کے ساتھ جا سکتے ہیں اور اگر چیئرمین سینیٹ کسی کمرشل فلائٹ سے بیرون ملک جاتے ہیں تو ان کے ساتھ ان کے ِخاندان کا ایک فرد ان کے ساتھ جاسکتا ہے جس کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے جائیں گے۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر چیئرمین سینیٹ کسی فضائی حادثے کا شکار ہو جاتے ہیں تو ان کے ورثا یا ان کی نامزد کردہ کسی شخص کو ایک کروڑ روپے بطور معاوضہ دیا جائے گا۔
اس بل میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ اگر کسی چیئرمین سینیٹ نے تین سال کا عرصہ مکمل کر لیا ہے تو وہ اور ان کی اہلیہ ملک میں اور بیرون ملک بھی سرکاری خرچ پر علاج کروانے کے اہل ہوں گے اگر سابق چیئرمین فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی بیوہ یہ سہولتیں حاصل کرنے کی اہل ہوں گی۔
اس بل کے مطابق صدر مملکت چیئرمین سینیٹ کو تین ماہ کی چھٹی بھی دے سکتے ہیں اور اس عرصے کے دوران چیئرمین سینیٹ دو لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ بھی وصول کریں گے۔
اس بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ چییرمین سینیٹ اپنے گھر یا دفتر میں بارہ افراد پر مشتمل سٹاف کو رکھنے کے اہل ہوں گے اور ان میں سے جن کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہے اگرچہ ان کی تنخواہ سرکاری خزانے سے دی جائے گی لیکن انھیں مستقل نہیں کیا جائے گا۔
اس بل میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ جو بھی شخص چیئرمین سینیٹ کی تین سال کی مدت مکمل کرلے گا تو اسے فل سکیورٹی فراہم کی جائے گی جس میں سے چھ سنتری جبکہ چار اہلکار جن کا تعلق پولیس کی انسداد دہشت گردی سکواڈ، رینجرز، فرنٹیئر کور یا فرنٹیئر کانسٹیبلری سے ہوگا۔
سینیٹ ارکان کی تنخواہ بھی ڈیڑھ لاکھ، سفری الاو¿نس بھی زیادہ
اس کے علاوہ اس بل کے مطابق سینیٹ کے ارکان کی تنخواہ بھی ڈیڑھ لاکھ روپے ہو گی جبکہ سینیٹ اور کسی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں شرکت کے لیے انھیں یومیہ 4800 روپے ملیں گے جو کہ اس سے پہلے 28 سو روپے ملتے تھے۔
اس کے علاوہ ان ارکان کا سفری الاو¿نس بھی بڑھ جائے گا جو اس بل کے مطابق 30 روپے فی کلومیٹر ہو گا جبکہ اس سے پہلے سینیٹ کے ارکان دس روپے فی کلو میٹر کے حساب سے وصول کرتے تھے۔
سینیٹ کے موجودہ چیئرمین صادق سنجرانی جن کا تعلق بلوچستان عوامی پارٹی سے ہے۔ انھوں نے اس بل کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس بل کے پاس ہونے سے قومی خزانے پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔
انھوں نے کہا کہ بیرون ممالک میں تو سابق چیئرمین سینیٹ کو پانچ ہزار امریکی ڈالر ماہانہ ملتے ہیں۔