کوئٹہ میں رکشہ چلانے والی خاتون۔بی بی زہرا

’شادی کے بعد جب میری بیٹی پیدا ہوئی تو اس پر میرے سسر خوش نہیں تھے۔ سسر نے مجھ سے کہا کہ آپ نے بیٹا کیوں پیدا نہیں کیا؟ مجھے سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ یہ بات ایک ایسے شخص نے کہی جس کی خود ایک نہیں بلکہ پانچ بیٹیاں ہیں۔‘
بی بی زہرا بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں رکشہ چلانے والی ’پہلی اور واحد‘ خاتون ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ بیٹی کی پیدائش کے بعد انھوں نے محسوس کیا کہ سسرال والے انھیں اور ا±ن کی بچی کو بوجھ سمجھتے ہیں۔
’میں اپنے بہن بھائیوں کے پاس آ گئی اور یہاں کسی پر بوجھ بننے کی بجائے میں نے اپنی بچی کی کفالت کے لیے محنت کا آغاز کیا۔‘
بی بی زہرا کا تعلق کوئٹہ کے علاقے نیچاری سے ہے۔ ان کا گھرانہ انتہائی غریب ہے اور مالی مشکلات کے باعث وہ اور ان کے خاندان کے افراد نیچاری کے لوہاری محلے میں ایک انتہائی خستہ مکان میں مقیم ہیں۔
دس سال پہلے بی بی زہرا کی شادی لاہورمیں ہوئی تھی لیکن بیٹی کی پیدائش کے بعد انھیں سسرال کو چھوڑ کر واپس کوئٹہ آنا پڑا کیونکہ ان کے بقول بچی کی پیدائش پرسسرال والے خوش نہیں تھے۔
’مشکلات سے نمٹنے کے لیے پہلا کام بہت تکلیف دہ تھا‘
بی بی زہرا نے ہمیں اپنے گھر کے سامنے وہ تھڑا دکھایا، جہاں بیٹھ کر انھوں نے زندگی کے پہیے کو رواں رکھنے کے لیے سب سے پہلے کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنا شروع کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ شدید سردی اور بارش میں بھی کئی گھنٹے اس کھلی جگہ پربیٹھنا پڑتا تھا۔
’وہ بہت مشکل وقت تھا کیونکہ سخت سردی اور بارش میں میری چادر کئی مرتبہ بھیگ جاتی تو میں گھر جا کر اسے تبدیل کرکے واپس آتی۔‘
اس کے بعد انھوں نے وہ ڈھابہ دکھایا جو انھوں نے تھڑے کے بعد اپنے گھر کے عقب میں کھولا تھا اور نو سال تک اس ڈھابے کو چلایا۔
’جہاں ڈھابے میں کئی گھنٹے پربیٹھنا مشکل تو تھا ہی اس کے علاوہ اس میں چار پانچ مرتبہ چوری ہوئی بلکہ ایک بار تو اس کو جلانے کی بھی کوشش کی گئی۔‘
’ڈھابے کو چلاتے ہوئے دل اکتا گیا جس کے بعد موٹر بائیک چلانا شروع کی۔ بائیک پر اپنی بیٹی کو سکول چھوڑنا شروع کیا جس کے ساتھ ساتھ محلے کے ایک بچے کو بھی پک اینڈ ڈراپ دیا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’بائیک چلائے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ اللہ نے مجھے رکشہ دے دیا، جس سے گزر بسر پہلے کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہونے لگی۔‘
’اگرچہ آج کل مہنگائی کے دور میں گزارا کرنا بہت مشکل ہے لیکن رکشے کے باعث پک اینڈ ڈراپ دینے کے لیے سکولوں کے زیادہ بچے مل گئے ہیں۔‘
’خواتین میرے ساتھ خود کو زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں‘
انھوں نے بتایا کہ مرد اورخواتین دونوں ان کے رکشے میں سفر کرتے ہیں۔
’خواتین میرے ساتھ اپنے آپ کو سب سے زیادہ محفوظ محسوس کرتی ہیں۔ بہت ساری خواتین میرے گھر بھی آتی ہیں جہاں سے میں ان کو ان کی منزل مقصود پر پہنچاتی ہوں۔‘
بی بی زہرا نے بتایا کہ رکشہ چلاتے ہوئے جب مرد مجھے دیکھتے ہیں تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ خاتون کوئٹہ میں رکشا چلا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ اللہ کا شکر ہے کہ کسی نے میرے ساتھ بدتمیزی نہیں کی بلکہ ’مرد حضرات نے میری محنت کی تعریف کی۔ کسی مرد نے میری حوصلہ شکنی نہیں کی اوریہ نہیں کہا کہ خاتون ہو کریہ کام کیوں کررہی ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ اس تمام ماحول میں ان کے بھائیوں کا کردار سب سے زیادہ قابل فخر ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’کوئٹہ سمیت بلوچستان میں سختی والا ماحول ہے جس میں مجبوری نہ ہو تو مرد، خواتین کو اس طرح کا کام نہیں کرنے دیتے لیکن میرے بھائیوں نے مجھے کام کرنے سے نہیں روکا بلکہ مجھے سپورٹ کیا اورمجھے اجازت دی کہ باعزت طریقے سے کما سکوں۔‘
’رکشے کے بعد اللہ نے گاڑی دی‘
بی بی زہرا نے بتایا کہ انسان جب ہمت کرے تو بڑی بڑی رکاوٹیں دور ہو جاتی ہیں جس کہ واضح مثال وہ خود ہیں۔
انھوں نے اپنے رکشے کے سامنے سفید رنگ کی ہائی روف سوزوکی گاڑی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’رکشے کے بعد اللہ نے مجھے گاڑی دی۔‘
انھوں نے بتایا کہ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’عورت فاو¿نڈیشن‘ والوں نے میری محنت کی ویڈیوزدیکھی تھیں جس کے باعث انھوں نے مجھے یہ گاڑی دی۔
سوزوکی ہائی روف ملنے پر زہرا بہت زیادہ خوش ہیں اور اب وہ رکشہ چلانے کے ساتھ ساتھ اپنے بھائی سے گاڑی چلانا بھی سیکھ رہی ہیں۔
زہرا کہتی ہیں کہ رکشہ چلانے یا دیگر کاموں کے کے مقابلے میں گاڑی پر کم محنت کرنی پڑے گی۔
انھوں نے کہا کہ وہ گاڑی میں زیادہ سے زیادہ بچوں کو پک اینڈ ڈراپ دے سکیں گی، جس کے باعث ان کی آمدن بھی بہتر ہو سکے گی۔
’جب ہاتھ سلامت ہوں تو مایوسی کس بات کی‘
اس سوال پر کہ زندگی کے اس مشکل سفرمیں کبھی کوئی مایوسی بھی ہوئی، تو بی بی زہرا کا کہنا تھا کہ جب دونوں ہاتھ سلامت ہوں اور صحت بہتر ہو تو مایوسی کس بات کی؟
’ٹوٹ پھوٹ مجھ میں بھی ہوتی ہے لیکن پھر میں اپنے آپ کو سنبھالنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اگردو ہاتھ سلامت ہیں تو بھیک مانگنے اور غلط کام کرنے سے بہتر ہے کہ انسان محنت کر کے کھائے۔‘
بی بی زہرا نے کہا کہ ان کی ایک بڑی خواہش یہ ہے کہ وہ اپنی بیٹی کو اچھی تعلیم اورتربیت دیں۔
’میری کوشش ہو گی کہ میرے پاس جو دستیاب وسائل ہیں ان سے اپنی بیٹی کو اچھا پڑھاو¿ں۔‘