کینیڈا پلٹ پاکستانی کا کراچی میں قتل

’مرتے وقت بھی تین غریب بچوں کو عید کی خریداری کروانے لے جا رہے تھے‘

کراچی میں کینیڈا سے آئے پاکستانی نڑاد 65 سالہ امین الدین علوی کو ڈکیتی مزاحمت پر قتل کردیا گیا تھا، واقعہ گزشتہ روز ناظم آباد کے علاقے پاپوش نگر میں پیش آیا۔
واقعہ کا مقدمہ مقتول کی بہن کی مدعیت میں درج کرلیا گیا ، جس میں قتل اور اقدام قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔
مقتول کی بہن کے مطابق میرا بھائی کینیڈا سے کراچی آیا تھا، گزشتہ رات میرا بھائی امین علاقے کے کچھ بچوں کو عید کی شاپنگ کروانے جا رہا تھا، اس دوران پاپوش نگر ریلوے پھاٹک کے قریب ایک موٹر سائیکل پر سوار 2 ملزمان آئے،اور اسلحہ کے زور پر بھائی کو لوٹنے کی کوشش کی، مزاحمت کرنے پر ملزمان نے فائرنگ کردی، جس سے بھائی جاں بحق ہوگیا۔
دوسری جانب پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کی تحقیقات جاری ہیں، جلد ملزمان کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔
واقعے کا پس منظر
کراچی کے علاقے پاپوش نگر ناظم آباد بورڈ آفس پر فائرنگ سے پاکستانی نڑاد ڈکیتی مزاحمت پر قتل کردیا گیا تھا، مقتول کئی منٹ تک سڑک پر تڑپتا رہا لیکن کوئی مدد کو نہ آیا۔
مقتول غریب بچوں کو عید کی شاپنگ کے لئے لے کر گیا تھا لیکن ڈکیتوں کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا۔ معصوم بچوں نے آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ 55 سالہ امین علوی دوپہر کو 4 غریب بچوں کو نارتھ ناظم آباد اپنے گھر سے لے کر نکلا تھا، وہ پہلے بینک اور پھر منی چینجر گیا اور پھر بچوں کو شاپنگ کے لئے ناظم آباد لے کر پہنچا۔
بچوں کے مطابق ایک موٹر سائیکل پر دو مسلح ملزمان آئے ایک موٹر سائیکل سے اتر کر گاڑی کے قریب آیا، ملزم نے آتے ہی کہا کہ جو کچھ ہے نکال دو جس پر انکل نے کہا کہ کیا چاہیے، ڈاکو انکل کی جیبوں میں ہاتھ ڈالنے لگا تو انکل نے پیچھے کیا، ملزم نے انکل پر فائرنگ کردی اور روڈ پر کھڑے اپنے ساتھی کے ساتھ فرار ہوگیا۔
بچوں نے بتایا کہ انکل کئی منٹوں تک سڑک پر پڑے رہے کوئی بھی اٹھانے نہیں آیا، متعدد گاڑیاں روکی لیکن کسی نے مدد نہیں کی، پھر ایک رکشے والے نے مدد کی تو ہم اسپتال پہنچے، لیکن دوران علاج انکل کا انتقال ہوگیا، بچوں کے مطابق پولیس والے بھی دیر سے پہنچے جب سب کچھ ہوگیا تھا۔
امین علوی کون تھے
55 سالہ امین علوی کینڈین شہری تھے اور اپنی بیوی بچوں کے ہمراہ کینڈا میں رہتے تھے، 5 سال پہلے سعودی ائیرلائن سے ریٹائرڈ ہوئے اور ہر سال دو تین مرتبہ کراچی آتے تھے، اس بار بھی وہ 5 دن پہلے ہی کراچی آئے تھے۔
’وہ بہت خدا ترس اور سخی انسان تھے۔ ہر ایک کی مدد کرتے تھے۔ گولی کا نشانہ بنتے وقت بھی ان کے ہمراہ تین غریب بچے تھے جن کو وہ عید کی خریداری کے لیے ساتھ لے کر گئے تھے۔‘
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقے سینٹرل کراچی میں قتل ہونے والے پاکستانی نڑاد کینیڈین شہری سید امین الدین علوی کے بہنوئی سید صغیر الدین علوی انھیں ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں۔
سید صغیر الدین علوی کے مطابق امین الدین علوی چند دن قبل کینیڈا سے عید کرنے پاکستان آئے تھے۔
ان کے دونوں بیٹے والد کی وفات کی خبر ملنے کے بعد کینیڈا سے کراچی کے لیے روانہ ہو چکے ہیں اور متوقع طور پر آج کراچی پہنچ جائیں گے جس کے بعد ان کی تدفین کی جائے گئی۔
سید امین الدین علوی کے قتل کا مقدمہ تھانہ پاپوش نگر کراچی میں درج کیا گیا ہے۔ درج مقدمہ مقتول کی بہن کی جانب سے درج کروایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ’مجھے کینیڈا سے میرے دوسرے بھائی نے فون کر کے بتایا کہ اس کو سید امین الدین علوی کے ملازم نے بتایا ہے کہ انھیں میڑک بورڈ آفس کے قریب ڈکیتی مزاحمت پر ٹانگ پر گولی مار کر زخمی کر دیا گیا ہے۔‘
درج مقدمے کے مطابق گولی ٹانگ پر لگی تھی اور امین الدین علوی کو عباسی شہید ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا، جہاں پر وہ زخموں کی تاب نہ لا سکے۔
ایف آئی آر کے مطابق ’دو موٹر سائیکل سواروں نے میرے بھائی کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر قتل کر دیا۔ اس موقع پر ان کے ہمراہ تین کم عمر لڑکے بھی موجود تھے۔‘
تھانہ پاپوش نگر کے ایس ایچ او ملک شوکت اعوان کے مطابق تین کم عمر لڑکے مقتول سید امین الدین علوی کی رہائش گاہ نارتھ ناظم آباد کے قریب موجود ایک غریب بستی کھنڈو گوٹھ سے تعلق رکھتے تھے۔
لڑکوں کے بیان کے مطابق مقتول انھیں عید کی خریداری کے لیے ساتھ لے کر جا رہے تھے۔
’وہ کافی دیر تڑپتے رہے، ایک رکشہ ڈرائیور نے انھیں ہسپتال پہنچایا‘
ملک شوکت اعوان کے مطابق پولیس کو تینوں لڑکوں نے بتایا کہ وقوعہ سے پہلے امین الدین ہمیں اپنی گاڑی میں ہمارے علاقے سے ساتھ لے کر گئے تھے۔ ’ہم سب سے پہلے بینک گئے اور اس کے بعد ہمیں عید کے لیے خریداری کروائی تھی۔‘
لڑکوں نے یہ بھی بتایا کہ مقتول انھیں ساتھ لے کر ریفریشمنٹ بھی کرتے رہے اور ان کے ساتھ گپ شپ بھی لگاتے رہے۔ ایسے میں میڑک بورڈ کی عمارت کے قریب دو موٹر سائیکل سواروں نے گاڑی کو روکا اور ایک موٹر سائیکل سوار نے پستول نکال کر ان سے کوئی بات کی۔
ملک شوکت اعوان کے مطابق اس موقع پر دوسرا موٹر سائیکل سوار موقع سے دور کھڑا رہا۔ موٹر سائیکل سوار کے بات کرنے پر جب مقتول نے ہاتھ پیچھے کیا تو موٹر سائیکل سوار نے فائرنگ کر دی جس سے ان کی ٹانگ پر گولی لگی تھی۔
کراچی میں کرائم رپورٹنگ کرنے والے نذیر شاہ نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ’انھیں کافی دیر تک طبی امداد نہیں ملی تھی۔ اس موقع پر ان کے پاس وہ تینوں کم عمر لڑکے ہی موجود تھے جو کہ اس صورتحال میں کچھ بھی کرنے سے قاصر تھے۔‘
’وہ کافی دیر تک تڑپتے رہے تھے، جس کے بعد ایک رکشہ ڈرائیور وہاں سے گزرا اور اس نے ان کو ہسپتال پہنچایا۔‘
نذیر شاہ کا کہنا تھا کہ مقتول کو جب ہسپتال پہنچایا گیا تو کافی وقت گزر چکا تھا اور کافی خون بہہ چکا تھا۔
’چھ بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھاتے تھے‘
سید صغیر الدین علوی بتاتے ہیں کہ امین الدین علوی کی عمر تقریباً 65 سال تھی اور وہ کینیڈا میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے۔
انھوں نے سوگواروں میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ وہ کئی سال تک سعودی ایئر لائن میں ایئر کرافٹ انجینیئر کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے۔
سید صغیر الدین علوی کہتے ہیں کہ ہر ایک کی مدد کرنا ان کا شیوہ تھا اور وہ کئی سال سے ان کا معمول تھا کہ وہ سال میں دو، تین مرتبہ کراچی ضرور آتے تھے۔
کھنڈو گوٹھ کی بستی میں زیادہ تر غریب، مزدور پیشہ افراد رہتے ہیں۔ اس بستی کے رہائشی محمد جمال ،سید امین الدین علوی کو کئی سال سے اچھی طرح جانتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ میرے علم میں ہے کہ وہ ہماری بستی کے کم از کم چھ کم عمر لڑکوں کی تعلیم کا سارا خرچہ اٹھاتے تھے۔ وہ کم عمر بچے پہلے محنت مزدوری کرتے تھے لیکن اب وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور قریب کے سکولوں میں جاتے ہیں۔‘
محمد جمال کا کہنا تھا کہ ’اس کے علاوہ وہ جب بھی پاکستان آتے تھے زیادہ تر وقت ہماری بستی میں گزارتے تھے۔ جن بچوں کو تعلیم دلوا رہے تھے ان کے ساتھ بات چیت کرتے تھے۔‘
’ان کو ساتھ لے کر ان کے سکول میں جاتے اور اس بات کو یقینی بناتے کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کا مستقبل بہتری کی طرف گامزن ہے۔‘
محمد جمال کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی آتے تو ان کا یہ معمول ہوتا تھا کہ وہ کچھ بچوں کو اپنے ساتھ لے کر بازار جاتے تھے۔ ’ان کو خریداری کرواتے تھے۔ عموماً یہ موقع عید ہی کا ہوتا تھا۔ اس دوران وہ بچوں کو عید کی خریداری کرواتے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کا مدد کا ایک اور طریقہ یہ تھا کہ انھوں نے کچھ لوگوں کو چھوٹا موٹا کاروبار بھی شروع کروایا تھا۔ ’اس میں بھی دلچسپ بات یہ ہوتی تھی کہ جن لوگوں کو وہ کاروبار شروع کرواتے ان کے حوالے سے ان کی شرط یہ ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دیں۔‘
محمد جمال کا کہنا تھا کہ وہ جب بھی آتے اس بات پر ضرور نظر رکھتے تھے کہ وہ اپنے بچوں کی کس طرح تربیت کرتے ہیں۔
سید صغیر الدین علوی کا کہنا تھا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ ضرورت پڑنے پر انھوں نے خاندان کے کئی لوگوں کی بھی مدد کی مگر انھوں نے کبھی بھی نہیں جتلایا کہ وہ یہ کام کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں کچھ نہ کچھ اندازہ تو ضرور تھا کہ قریب کی غریب بستی میں ان کی کیا سرگرمیاں ہو سکتی ہیں مگر انھوں نے آج تک کبھی بھی اپنے زبان سے اس بارے میں ایک لفظ نہیں بولا اور کبھی بھی نہیں بتایا کہ وہ کس طرح مخلوق خدا کی مدد کرتے ہیں۔‘
ملک شوکت اعوان کا کہنا تھا کہ ’پولیس نے مقتول کے بارے میں جو بھی معلومات حاصل کی ہیں ان سے پتا چلا ہے کہ وہ انتہائی خدا ترس انسان تھے اور کئی لوگوں کی مدد کررہے تھے۔‘
’پانچ ماہ میں چالیس ہزار سٹریٹ کرائم کی وارداتیں‘
جنوری سے مئی تک پولیس کی جانب سے فراہم کیے گئے سٹریٹ کرائم ڈیٹا کے مطابق صرف رواں سال جنوری سے مئی کے درمیان چالیس ہزار سٹریٹ کرائم کی وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔
کراچی کے علاقے پاپوش نگر ناظم آباد بورڈ آفس پر فائرنگ سے جاں بحق ہونے والے 55 سالہ پاکستانی نڑاد سید امین الدین علوی انتہائی سخی انسان تھے جو کینیڈا سے پاکستان آکرہرایک کی مدد کرتے۔
امین علوی غریب بچوں کو عید کی شاپنگ کیلئے کے کرگئے تھے لیکن ڈکیتوں کی فائرنگ کا نشانہ بن گئے۔ واقعے سے قبل وہ دوپہر کو قریبی غریب بستی کھنڈو گوٹھ کے رہائشی 3 غریب بچوں کو نارتھ ناظم آباد میں واقع اپنے گھر سے لیکر نکلے تھے جہاں سے وہ بینک اور پھر بچوں کو شاپنگ کے لیے ناظم آباد لے کرگئے۔
ایف آئی آر میں قتل اور اقدام قتل کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ متن کے مطابق ، ’پاپوش نگر ریلوے پھاٹک کے قریب موٹر سائیکل پر سوار 2 ملزمان آئے،اور اسلحہ کے زور پر بھائی کو لوٹنے کی کوشش کی، مزاحمت کرنے پر ملزمان نے فائرنگ کردی، ان کی ٹانگ پرگولی لگی تھی، عباسی شپید اسپتال منتقل کیا گیا جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔‘
ایس ایچ او تھانہ پاپوش نگرملک شوکت اعوان کے مطابق تینوں لڑکوں نے اپنے بیان میں بتایا کہ امین الدین انہیں اپنی گاڑی میں ساتھ لے کر گئے تھے، سب سے پہلے ہم بینک گئے جس کے بعد ہمیں عید کی خریداری کروائی۔ انہوں نے ساتھ کھایا پیا بھی ، اس دوران میڑک بورڈ آفس کی عمارت کے قریب دو موٹر سائیکل سواروں نے گاڑی کو روک لیا اور ان میں سے ایک نے پستول نکال کر کوئی بات کی۔
ملک شوکت اعوان نے بتایا کہ دوسرا موٹر سائیکل سوار اس دوران دورکھڑا رہا، بات کرنے کے دوران مقتول نے ہاتھ پیچھے کیا تو موٹر سائیکل سوار نے فائرکھول دیا اور امین الدین کی ٹانگ پر گولی لگی۔
لڑکوں نے یہ بھی بتایا کہ گولی لگنے کے بعد کافی دیر تک کسی نے امین الدین کی مدد نہیں کی اور وہ کافی دیر تک تڑپتے رہے، اس دوران وہاں سے گزرنے والے ایک رکشہ ڈرائیور انہیں اسپتال لے کرگیا۔
تاہم اسپتال پہنچنے تک امین الدین کا کافی خون بہہ چ±کا تھا اسی لیے وہ چل بسے۔
ایس ایچ او کے مطابق، ’پولیس کی حاصل کردہ معلومات کے مطابق مقتول انتہائی خدا ترس انسان تھے جو کئی لوگوں کی مدد کررہے تھے۔‘
مقتول کے بہنوئی سید صغیر الدین علوی نے بتایا کہ ان کی عمر تقریباً 65 سال تھی اوروہ سعودی ایئر لائن میں بطور ائرکرافٹ انجینیئر کام کرنے کے بعدکینیڈا میں ریٹائرڈ زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے لواحقین میں دو بیٹے اور دو بیٹیاں چھوڑی ہیں۔
بہنوئی نے سید امین الدین علوی کے حوالے سے مزید بتایا کہ وہ ہر کسی کی مدد کرتے تھے اور سال میں 2 سے 3 بار کراچی آنا ان کا معمول تھا، عموماً عید وغیرہ کے موقع پر وہ اکثر و قریبی بستی کھنڈو گوٹھ جاتے جہاں کے لوگ ان سے اچھی واقفیت رکھتے تھے۔
ا±ن کہنا تھا کہ، ’ہم جانتے ہیں ضرورت پڑنے پرانہوں نے خاندان کے کئی افراد کی مدد کی مگر کبھی نہیں جتلایا کہ وہ ایسا کرتے ہیں۔‘
سید صغیر الدین علوی نے مزید کہا کہ ، ’ہمیں کچھ نہ کچھ اندازہ ضرورتھا کہ غریب بستی میں انکی کیا سرگرمیاں ہیں مگر انہوں نے آج تک کبھی اپنی زبان سے اس بارے میں ایک لفظ نہیں کہا نہ بتایا کہ وہ مخلوق خدا کی مدد کس طرح کرتے ہیں۔‘
محنت کشوں اور غریب افراد پر مشتمل اس بستی کے رہائشیوں میں محمد جمال بھی شامل ہیں جو امین الدین علوی کو کئی سال سے جانتے تھے۔
محمد جمال نے بتایا کہ امین الدین ایک خدا ترس انسان تھے جو بستی کے کئی لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ، ’وہ ہماری بستی کے کم از کم 6 لڑکوں کی تعلیم کا مکمل خرچہ اٹھاتے تھے۔ وہ کم عمر بچے جو پہلے محنت مزدوری کرتے تھے اب تعلیم حاصل کرتے اور قریب کے اسکولوں میں جاتے ہیں۔‘
محمد جمال کے مطابق امین الدین جب بھی پاکستان آتے تو زیادہ تر وقت انہی کی بستی میں گزارتے اور جن بچوں کی تعلیم کا خرچ اٹھارہے تھے ، ان سے بات چیت کرتے رہتے۔ انہیں ساتھ لے جا کر کریہ یقینی بنانے کے لیے اسکول جاتے کہ وہ اچھی تعلیم حاصل کررہے ہیں اور ان کا مستقبل بہتری کی طرف گامزن ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ کچھ بچوں کو اپنے ساتھ بازار لے کر جانا بھی امین الدین کے معمولات میں شامل تھا، وہ ان بچوں کو خریداری کرواتے تھے۔ اورعموماً یہ موقع عید ہی کا ہوتا تھا۔
غرباء کی مدد کیلئے امین الدین نے کچھ لوگوں کو چھوٹا موٹا کاروباربھی شروع کروایا تھا لیکن سرمایہ فراہم کرنے سے قبل ان کی شرط ہوتی کہ کاروبار کرنے والے اپنے بچوں کو تعکیم لازمی دلوائیں گے۔
محمد جمال نے مزید بتایا کہ ہربار پاکستان آمد پر امین الدین اس بات پرضرور توجہ مرکوز رکھتے کہ والدین اپنے بچوں کی کیسی تربیت کررہے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 12 ہزار شہریوں کے موبائل فون چھینے گئے ہیں اور چوبیس ہزار سے زیادہ شہری موٹر سائیکلوں سے محروم ہوئے ہیں۔ اس دوران ایک ہزار سے زیادہ گاڑیاں بھی چھینی گئی ہیں۔
کرائم رپورٹر نذیر شاہ بتاتے ہیں کہ ’سب سے افسوسناک یہ کہ ان پانچ ماہ کے دوران ڈکیتی کے دوران مزاحمت پر 63 شہری اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں اور ایسے ہی واقعات میں ایک ہزار سے زائد شہری زخمی ہوئے ہیں۔‘