(اداریہ) نیب ترامیم خطرے میں

سپریم کورٹ نے 53 سماعتوں کے بعد بالآخر سابق وزیر اعظم عمران خان کی نیب قانون میں ترامیم کو چیلنج کرنے والی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، جب کہ فیصلے کے ملکی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ ان ترامیم سے ن لیگ اور پی پی پی کی قیادت پوری طرح مستفید ہو رہی ہے۔
سیاسی رہنماؤں کی مالی دیانتداری کے بارے میں چیف جسٹس عطا بندیال کی تسلسل سے ایک رائے رہی ہے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنے پورے کیریئر میں اس حوالے سے کئی فیصلے دئیے۔ حال ہی میں انہوں نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 کو ختم کیا۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تو سیاسی رہنماؤں کے خلاف مقدمات دوبارہ شروع ہو جائیں گے۔ یہ حریف سیاسی جماعتوں کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کے کرپشن کے بیانیے کی بھی فتح ہوگی۔ یہ فیصلہ نہایت اہم ہے، کیوں کہ اسی فیصلے سے اس بات کا تعین ہو گا کہ چیف جسٹس عطا بندیال پارلیمان کی قانون سازی کی اہلیت کی توثیق کریں گے یا ان طاقتور حلقوں کو مضبوط کریں گے، جنھوں نے پرویز مشرف دور سے لے کر آج تک ہمیشہ نیب کو سیاسی انجینئرنگ کے لئے استعمال کیا۔ نیب ترامیم کےخلاف کیس کا فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مختصر حکم نامہ جلد جاری کریں گے۔
کیسے کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسار کیا کہ نیب کا یہ قانون ججز اور جرنیلوں پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟ کیا یہ آئین کے آرٹیکل 25 کی خلاف ورزی نہیں؟ وہ اس بات پر بھی قائل ہیں کہ ترامیم شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے کر رہی ہیں؟ دوسری جانب چیف جسٹس بندیال اور جسٹس اعجازالاحسن دونوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ کیا پارلیمنٹ نیب قانون میں ترمیم کے ذریعے جرم کی شکل بدل سکتی ہے؟دونوں ججوں نے تشویش کا اظہار کیا کہ ترمیمی ایکٹ کا اطلاق ماضی سے کیا گیا ہے۔
دونوں جج ترمیم شدہ قانون میں بے نامی کی نئی تعریف پر بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ وہ اس ترمیم پر بھی سوال اٹھا رہے ہیں، جو مبینہ طور پر ان دستاویزات اور شواہد کے قابلِ قبول ہونے کو کالعدم قرار دے رہی ہے، جنہیں غیرملکی حکومتوں سے میوچل لیگل اسسٹنس کے طور پر حاصل کیا گیا اور جن پر نیب کی جانب سے جاری انکوائریوں، تحقیقات اور ٹرائلز میں انحصار کیا گیا ہے۔ سینئر وکلاء کا کہنا ہے کہ کچھ ترامیم پر غور کے لئے معاملہ دوبارہ پارلیمنٹ بھیجا جا سکتا ہے۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ ان لوگوں کا مستقبل کیا ہوگا جو پہلے ہی قانون کے نفاذ کے بعد ترامیم سے مستفید ہوچکے ہیں؟ نیب قانون میں ترامیم پر کوئی اسٹے نہیں دیا گیا۔
نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں سے متعلق رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں میں ترامیم کا سب سے زیادہ فائدہ سابق وزیراعظم شہباز شریف کو ہوا۔ یہاں تک کہ پی ڈی ایم حکومت میں سینئر وفاقی وزراء بھی اس سے مستفید ہوئے۔ قائدین میں میاں نواز شریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، مریم نواز، فریال تالپور، اسحاق ڈار، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، رانا ثناء اللہ، جاوید لطیف، مخدوم خسرو بختیار، عامر محمود کیانی، اکرم درانی، سلیم مانڈوی والا، نور عالم خان، نواب اسلم رئیسانی، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ، نواب ثناء اللہ زہری، برجیس طاہر، نواب علی وسان، شرجیل انعام میمن، انوار الحق کاکڑ، لیاقت جتوئی، امیر مقام، گورم بگٹی، جعفر خان مندوخیل، گورنر جی بی سید مہدی شاہ شامل ہیں۔
نیب نے شہباز شریف کے کیسز کی تفصیلات دیتے ہوئے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا کہ لال سوہانرا نیشنل پارک کے قریب 1400 کنال سرکاری اراضی کی غیر قانونی الاٹمنٹ سے متعلق کیس بھی حالیہ ترمیم سے متاثر ہوگا کیونکہ اس معاملے میں ملوث رقم 500 ملین روپے سے کم ہے۔ اسی طرح سابق وزیراعظم اور دیگر کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق ایک اور معاملہ بھی متاثر ہوگا، کیونکہ اس مبینہ اسکینڈل میں بھی ملوث رقم 500 ملین روپے سے کم ہے۔ تیسرا، 2014 سے 2018 تک وزیر اعظم کے طیارے کے غیر قانونی استعمال کے حوالے سے شہباز شریف اور دیگر کے خلاف انکوائری بھی متاثر ہوگی۔ ان تفصیلات پر چیف جسٹس نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ نیب ترامیم کے ذریعے جرائم کو ثابت کرنا انتہائی مشکل بنادیا گیا ہے۔
حکومتی و سیاسی شخصیات نے جس بے رحمی اور بےحسی سے ملک کو لوٹا، نیب قانون میں باہمی گٹھ جوڑ سے ترامیم کر کے ان سب لوگوں نے اپنے آپ کو ڈرائی کلین کرا لیا۔ ترامیم سے حکومتی و سیاسی شخصیات کو بے پناہ فائدہ پہنچا، مگر ملک و قوم کا بھاری نقصان ہوا۔ ترامیم کے بعد سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف نیشنلائزیشن ایکٹ 1974 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ZTBL کے سی ای او کی غیر قانونی تقرری سے متعلق تحقیقات متاثر ہوں گی۔ سابق وفاقی وزیر ریلوے کے خلاف بھی انکوائری بند ہو گی۔ پی ٹی آئی رہنما شوکت علی یوسف زئی کے خلاف بطور وزیر اطلاعات خیبرپختونخوا میں اختیارات کے مبینہ غلط استعمال کی انکوائری بھی متاثر ہو گی، کیونکہ اس سکینڈل میں بھی ملوث رقم 500 ملین روپے سے کم ہے۔ سابق وزیر صحت عامر کیانی کے خلاف ادویات کی قیمتوں کے تعین کی پالیسی بناتے ہوئے اختیارات کے ناجائز استعمال، بے ایمانی اور غیر قانونی طریقوں سے مالی فائدہ حاصل کرنے کے حوالے سے انکوائری بھی متاثر ہو گی۔ پی ٹی آئی کے سابق وفاقی وزیر خسرو بختیار، مخدوم ہاشم، جواں بخت اور خاندان کے دیگر افراد کے خلاف اثاثے جمع کرنے کی انکوائری متاثر ہوگی۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کی انکوائری قومی احتساب ایکٹ 2022 کے سیکشن 4(2a) کے تحت متاثر ہوگی۔ مولانا فضل الرحمان کے خلاف انکوائری کو بند کردیا جائے گا، کیونکہ کیس میں ملزم کے نام پر جائیداد برائے نام ہے اور نئے ترمیمی ایکٹ کی روشنی میں بے نامی جائیدادوں کو جوڑنا بہت مشکل ہے۔ سابق وزیر دفاع خواجہ آصف کے خلاف کینٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کی منظوری اور پرائیویٹ افراد کی زمینیں حاصل کرنے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے الزام پر انکوائری متاثر ہوگی۔
نیب ترامیم آخر کیوں کی گئیں؟ اس میں ملک وقوم کا کیا فائدہ ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ترامیم کا مقصد کی گئی بدعنوانیوں اور لوٹ مار کے جرم میں ملنے والی مجوزہ سزا سے اپنے آپ کو بچانا ہے۔ اس میں سب کرپٹ سیاست دان شامل ہیں۔ کیوں کہ ترامیم سے نواز شریف اور مریم نواز سمیت شریف خاندان کی ملکیت چوہدری شوگر ملز کے خلاف بھی انکوائری متاثر ہو گی۔ سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں، بے نامی اداروں کے نام پر 95 ملین روپے کے غیر قانونی اثاثوں اور 100 ملین روپے کے غیرقانونی منافع کی انکوائری متاثر ہوگی۔
نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے پیش نظر نواز شریف کے خلاف کل 6 مقدمات متاثر ہوں گے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل آف پاکستان کے چیئرمین سید عادل گیلانی کے خلاف بھی انکوائری متاثر ہوگی۔