سانحہ جڑانوالہ

پاکستانی معاشرہ اس وقت ہمہ گیر نوعیت کے سماجی بحران کا شکار ہے۔انتہا پسندی،عدم برداشت، غصہ، تعصب اور نفرت جیسے ناسور ہماری معاشرتی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔مختلف نوعیت کی سماجی و اخلاقی بیماریوں نے پورے معاشرے کو ایک عفریت کی صورت میں اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
روزانہ کی بنیاد پر ایسی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں جو ایک خطرناک معاشرتی بحران کی نشاندہی کرتی ہیں۔رانی پور کے واقعہ نے معاشرے کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا ہے،ایک جج صاحب کی اہلیہ کی جانب سے معصوم بچی پر تشدد اسی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے،اور پھر سانحہ جڑانوالہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔اس سانحے نے بطور قوم ہمارے سر شرم سے جھکا دئیے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ جس جگہ انصاف کا چراغ گل ہو چکا ہو،تحقیقی و تفتیشی ادارے اختیارات کے نشے میں بد مست ہوں،سیاسی قیادت محض کٹھ پتلی ہو،اعلیٰ ترین عدالتیں محض ربڑا سٹمپ ہوں،سزا اور جزا کا تصور ہی ناپید ہو،وہاں سانحہ جڑانوالہ وقوع پذیر نہ ہو تو کیا ہو؟پاکستانی معاشرہ اس وقت ہمہ گیر نوعیت کے سماجی بحران کا شکار ہے۔انتہا پسندی،عدم برداشت، غصہ، تعصب اور نفرت جیسے ناسور ہماری معاشرتی جڑیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔مختلف نوعیت کی سماجی و اخلاقی بیماریوں نے پورے معاشرے کو ایک عفریت کی صورت میں اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
دسمبر 2021 سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر پریانتھا کمارا کو دردناک انداز میں موت کے گھاٹ اتارا گیا،پھر اس کی لاش سڑک پر گھسیٹی گئی اور پھر اسے جلا دیا گیا۔
یہ واحد واقعہ تھا جس کے بعد ”قانون ‘حرکت میں آیا،اور 18 اپریل 2022 کو 88 ملزمان کو سزا سنائی گئی جن میں سے 6 ملزمان سزائے موت کے حقدار ٹہرے۔مذکورہ بالا تینوں واقعات میں نہ توہین قرآن کا کوئی ثبوت ملا اور نہ ہی جھوٹا اعلان کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دی گئی۔اور اگر کوئی شخص توہین کا مرتکب ہوا تو اسے بھی کٹہرے میں لانے میں بری طرح ناکامی ہوئی
۔اقلیتوں کے خلاف انتہاپسندی اور نفرت میں اضافہ کیوں ہورہا ہے؟ یہ سوال ایک عرصے سے اقلیتوں کے ذہنوں میں سمایا ہوا ہے اور ملک میں جب بھی اقلیتوں کے کوئی خلاف کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہ اکثریت کو کیسے یقین دلائیں کہ وہ بھی پاکستانی ہیں۔
حال ہی میں ہونے والے جڑانوالہ واقعے میں بھی ماضی کے واقعات کی طرح کی کہانی دہرائی گئی اور توہین قرآن کے واقعے کے بعد کسی تحقیق اور قانونی کارروائی کے بغیر مسیحی بستیوں پر قیامت ڈھا دی گئی۔
مذکورہ واقعے کے بعد میڈیا نے مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے پروگرامز بھی کیے جن میں اقلیت کے ساتھ اکثریت کی طرف سے بھی مختلف لوگوں کی آرا لی گئی اور کم و بیش سب کا نقطہ نظر یہی تھا کہ جڑانوالہ کے مسیحیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ ان سب کا کہنا تھا کہ توہین کے مرتکب افراد کو پکڑا جاتا باقی مسیحیوں کو سزا دینے کی کیا ضرورت تھی۔
واقعے کی جزئیات مختلف میڈیا میں مختلف طریقوں سے سامنے آئی ہیں۔ لیکن یہ سن کر واقعی تعجب ہوا کہ کیا یہ گستاخی کے مرتکب اس قدر فاترالعقل ہیں کہ انھوں نے ان مقدس اوراق کے ساتھ اپنے نام اور تصاویر بھی دیں۔ کوئی بھی ذی شعور ایسا نہیں کرسکتا اور خاص طور پر اس وقت جب دنیا کے چند ممالک میں قرآن شریف کی بے حرمتی کی گئی اور پاکستان سمیت پوری دنیا ان واقعات پر غم و غصہ کا اظہار کررہی ہے، ایسی صورتحال میں پاکستان میں بسنے والا کوئی بھی غیر مسلم قرآن شریف کی بے حرمتی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جن ملزمان کے نام ا±ن مقدس اوراق پر درج ہیں وہ ایک غریب مسیحی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، جن کا والد درجہ چہارم کا ملازم ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ا±ن کی گرفتاری عمل میں لائی جاچکی ہے اور اب ا±ن کا فیصلہ عدالتیں کریں گی کیونکہ اس قسم کے واقعات کےلیے باقاعدہ قانون موجود ہے۔
اس واقعے کے بعد مشتعل افراد کی جانب سے مسیحی بستیوں اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا۔ آئی جی پنجاب عثمان انور نے بی بی سی کو بتایا کہ 17 چرچز جلائے گئے جبکہ 85 گھروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ مسیحیوں کے مطابق کرسچن کالونی میں کیتھولک سینٹ پال چرچ اور تاریخی دی سالویشن آرمی چرچ سمیت شہر بھر میں 20 سے زائد چرچز جلائے گئے، ان میں زیادہ تر وہ چرچ تھے جو مسیحیوں نے اپنے محلوں میں بنائے ہوئے تھے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے تب سے ہی اقلیتیں اپنے آپ کو محب وطن پاکستانی ثابت کرنے کی پوری کوشش کررہی ہیں۔ باوجود اس کے کہ ملک میں ہر شعبے میں اقلیتوں کا حصہ نمایاں ہے لیکن اس کے باوجود اقلیتوں کو یہ احساس دلانا کہ آپ اقلیت اور کمزور ہیں تو بحیثیت اکثریت ہم آپ کے ساتھ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ مذکورہ واقعے میں جب لوگوں کو ا±کسانے کےلیے پہلا اعلان کیا گیا تو ا±س وقت مقامی انتظامیہ حرکت میں کیوں نہیں آئی؟ جب لوگ مشتعل ہوکر اکٹھے ہورہے تھے تو اس وقت معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے پولیس کی زیادہ نفری اور رینجرز کو کیوں نہیں بلایا گیا؟ اقلیتیں سمجھتی ہیں کہ ان سارے اقدامات کےلیے پروسیجرز فالو کرنا پڑتے ہیں لیکن جڑانوالہ کی مسیحی اقلیت کے ساتھ جو کچھ ہوچکا ہے، بروقت فیصلے کرنے سے شاید اسے روکا جاسکتا تھا۔ حیرت یہ ہے کہ اس واقعے کا سارا قصوروار ا±س مسیحی اسسٹنٹ کمشنر کو ٹھہراتے ہوئے اسے معطل کردیا گیا۔
سانحہ جڑانوالہ سے متعلق ویڈیوز میں ایک بات پر بہت تاسف ہوا کہ حملہ، توڑ پھوڑ اور جلاو¿ گھیراو¿ کرنے میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے جو کہ لمحہ فکریہ ہے کہ ان بچوں کے ذہنوں میں بھی انتہاپسندی کا جنون ڈال دیا گیا ہے۔ حالانکہ ملک کی اکثریت ایسے مذہب کو مانتی ہے جو پیار، محبت اور امن کا درس دیتا ہے۔
موجودہ حکومت سے استدعا ہے کہ سانحہ جڑانوالہ کو ٹیسٹ کیس بناتے ہوئے ا±ن تمام افراد کے خلاف کارروائی کریں اور انہیں کڑی سزا دیں جو اس تمام واقعے کے مرکزی کردار ہیں۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت، عدالتیں اور پاک فوج اقلیتوں کو خوف کی صورتحال سے نکالتے ہوئے انہیں دوبارہ اپنے گھرو ں میں بسانے کےلیے ہر ممکن مدد کرے۔ مسیحیوں کے مالی نقصان کے ازالے کےلیے حکومت فوری طور پر اقدامات کرے۔ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے والے قوانین پر عملدرآمد کرانے کےلیے فوری اقدامات کیے جائیں۔ اقلیتوں کی عبادت گاہوں اور بستیوں، اسکولوں، اسپتالوں کی حفاظت کےلیے خاطر خواہ اقدامات کیے جائیں اور اس تاثر کو زائل کرنے کی پوری کوشش کی جائے کہ اقلیتیں اس ملک میں غیر محفوظ ہیں۔
اقلیتوں نے ابھی چند دن پہلے ہی اپنی عبادت گاہوں میں جشن آزادی کے پروگرامز منعقد کیے اور قومی اسمبلی میں باقاعدہ طور پر اقلیتی سیاستدان نے برملا کہا کہ وہ بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ا±تنا ہی مانتے ہیں جتنا مسلم مانتے ہیں۔ اس لیے حکومت کی اہم ذمے داری ہے کہ اقلیتوں کے خدشات دور کرکے انہیں اس حقیقت سے دوچار کریں کہ وہ اکثریت سے بڑھ کر پاکستانی ہیں۔
جاپان،سنگاپور اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح نظام تعلیم میں جوہری تبدیلی لانا پڑے گی۔کنویں کے مینڈک پیدا کرنے کی بجائے اہل علم تیار کرنا ہوں گے۔تب اس مرض کاعلاج ممکن ہوگا،دوسری طرف ہمارا نظام انصاف اپنی حقیقی روح کے ساتھ متحرک ہو،مجرموں کو قرار واقعی سزا دی جائے تب اس کا تدارک ہو سکتا ہے۔لیکن اگر ہماری عدالتوں میں بیٹھنے والے منصف،عدالتوں سے زیادہ میڈیا میں ا?نا پسند کریں گے،ایک اور جسٹس افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کی روح عدالت عظمی کی راہداریوں میں بھٹکے گی تو پھر اس قوم کے مقدر میں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔بدترین مہنگائی اور معاشی گراوٹ کے اس دور میں تشدد کو روکنا محض انتظامی مشینری سے ممکن نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے ہمہ جہت اقدامات کی ضرورت ہے۔
﴾﴿