نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مضمرات سے کیسے بچایا جائے؟

جاوید نذیر
نئی نسل کے ہاتھ سے موبائل فون چھیننا ایسا ہی ہے جیسے مرتے ہوئے شخص کے چہرے سے آکسیجن ماسک اتارنا۔ ایسی صورت حال میں نوجوانوں کو سوشل میڈیا کے مضمرات سے محفوظ رکھنے کےلیے بہت سوچ سمجھ کر حکمت عملی تیار کرنا ہوگی۔ سب سے پہلے تو والدین، ٹیچرز اور سرپرستوں کو اپنے بچوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے کہ وہ سوشل میڈیا استعمال کرنے کے دورانیہ کو کم کریں اور آہستہ آہستہ مزید کم کرتے جائیں۔ اس کےلیے بہت ضروری ہے کہ ان کے پاس انٹرنیٹ کے متبادل کیا ہے، کیونکہ بچوں کو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے دور رکھنے میں اچھی خاصی جدوجہد کرنا پڑے گی۔
جو والدین اپنے خاندان اور بچوں کو وقت نہیں دے پاتے انہیں اپنے آپ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اپنے خاندان کو وقت دیجیے۔ بچوں کی پڑھائی میں ان کی مدد کیجیے، ان کی پروگریس رپورٹ چیک کیجیے، ان کے اسکول ٹیچرز اور ٹیوشن پڑھانے والے ٹیچرز سے ملیے اور بچے کی وقتاً فوقتاً پروگریس چیک کرتے رہیں۔ ٹیچرز سے گزارش کریں کہ آن لائن اسٹڈی کے بجائے اسکولوں میں ہی پڑھایا جائے تاکہ بچوں کے پاس موبائل فون استعمال کرنے کا بہانہ ہی ختم ہوجائے۔
بچوں کے موبائل استعمال کرنے کے اوقات کار مقرر کردیں تاکہ بچوں کی صحت متاثر نہ ہو اور خاص طور پر رات کے وقت موبائل فون استعمال کرنے سے منع کریں۔ آپ اپنے بچوں کی موبائل فون کی ہسٹری چیک کرتے رہیں اور ان کے سوشل میڈیا گروپوں کو بھی چیک کریں کہ آپ کے بچوں کے دوستوں کی فہرست میں کون کون شامل ہے۔ اگر کوئی نامعلوم لڑکا یا لڑکی آپ کے بچے کی موبائل فہرست میں ہے تو آپ اپنے بچے سے پوچھیں اور فوری طور پر اس اجنبی کا نمبر ڈیلیٹ کریں یا بلاک کریں۔ عام طورپر دیکھا گیا ہے کہ ٹین ایج میں جب بچے اپنے متعلق خود سے فیصلے نہیں کرسکتے تو اس وقت انہیں علم نہیں ہوتا کہ انہیں دوست کس طرح کے بنانے ہیں۔ والدین کو اپنے بچوں کے دوستوں، سہیلیوں اور کلاس فیلوز کا علم ہونا بہت ضروری ہے۔
جیسے ہی دنیا ترقی کے نئے دور میں داخل ہوئی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے متعارف ہوئی تو نوجوانوں میں گویا خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ نوجوان اپنی فرسٹریشن کو ختم کرنے کےلیے گھنٹوں کے حساب سے انٹرنیٹ کو وقت دینے لگے۔ جیسے جیسے انٹرنیٹ میں جدت آئی فیس بک، ٹوئٹر، انسٹا گرام، واٹس ایپ متعارف ہوئے تو نوجوان نسل کو تو گویا اپنی جنت کا راستہ مل گیا اور وہ دنیا و مافیہا سے بیگانہ ہوکر اس جنت میں گھس گئے۔
اس ضمن میں خاندانوں پر یہ اثر پڑا کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے کےلیے ضروری تھا کہ ا±ن کے پاس اچھے قسم کے موبائل، آئی فون، آئی پیڈ اور بہتر رفتار کے لیپ ٹاپ اور کمپیوٹر ہوں۔ اس کے نتیجے میں موبائل اور کمپیوٹر انڈسٹری کو پھیلنے کا راستہ مل گیا۔ ہمارے معاشرے میں اس کا سب سے زیادہ نقصان تو یہ ہوا کہ جس موبائل کو خریدنا عام اور متوسط طبقے کا فرد اپنی سکت نہیں سمجھتا تھا اب ا±نہی گھروں میں خاندان کے ہر فرد کے پاس اینڈروائیڈ فون اور آئی فون موجود ہیں اور انٹرنیٹ کے کنکشن اور پیکیجز حاصل کر رکھے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ہمارے ملک میں موبائل فون اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد چھ کروڑ سے زیادہ ہے۔ اب تو عالم یہ ہے کہ گھر میں چاہے راشن ہو یا نہ ہو لیکن انٹرنیٹ کا ہونا بہت ضروری ہے۔
انٹرنیٹ زیادہ استعمال کرنے کا دوسرا نقصان نوجوان نسل کی گرتی ہوئی صحت ہے، کیونکہ نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے ا±ن کی صحت بری طرح متاثر ہورہی ہے۔ نوجوانوں میں فرسٹریشن اور ڈپریشن میں اضافہ ہورہا ہے۔ اپنے انسٹاگرام اور فیس بک پر اپنی ویڈیوز ڈال کر، جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا یا بے ہنگم سی ٹک ٹاک بنا کر دیکھتے رہتے ہیں کہ انہیں کتنے لائیکس ملے ہیں اور کتنے لوگوں نے ا±س پر کمنٹس لکھے ہیں۔ یعنی وہ اپنی تخلیق کے خود ہی رائٹر ہیں، خود ہی پروڈیوسر ہیں، خود ہی ہدایتکار ہیں اور کم وبیش خود ہی دیکھنے والے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ا±ن بے تکی ویڈیوز اور مواد کو دیکھنے کےلیے انہیں اپنے جیسے شائق بھی مل گئے ہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو توپ قسم کی چیز سمجھنے لگے ہیں۔
ہر نوجوان دانشور، ادیب اور لکھاری بن گیا اور بغیر تحقیق کے ہر پوسٹ پر رائے دینا ایمان سمجھنے لگا اور اپنا بیانیہ بنانے لگا۔ انہوں نے کچھ نوجوانوں کو مثال بھی بنایا ہوا ہے کہ فلاں شہر میں فلاں نے اتنے پیسے سوشل میڈیا کے ذریعے کمائے ہیں۔ اس لیے ہمارا نوجوان بھی دن رات اسی دوڑ میں لگا ہوا ہے اور شارٹ کٹ کے ذریعے پیسے کمانے کی کوشش کررہا ہے۔ آپ کسی طالب علم سے پوچھ لیں کہ وہ دن میں کتنے گھنٹے موبائل استعمال کرتا ہے تو آپ حیران ہوجائیں گے کہ وہ پڑھائی اور والدین کو وقت دینے کے بجائے زیادہ وقت اپنے موبائل پر گزار رہا ہوتا ہے۔ اس کا کوئی دوست نہیں ہے، اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ گھر میں یا معاشرے میں کیا ہورہا ہے، وہ صرف اسی کو اپنا دوست تصور کرتا ہے جو اس کی پوسٹ کو لائیک کرتا اور کمنٹس دیتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ ایسی لت کا شکار ہوچکا ہے جس نے ا±سے اپنوں سے دور کردیا ہے اور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنی ہی ایک الگ دنیا میں گم ہے۔
اس کا تیسرا نقصان یہ کہ سیاستدانوں نے ان نوجوانوں کو جو سوشل میڈیا کے دلدادہ تھے، اپنے مقاصد کےلیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے میڈیا سیل تو بنائے ہی ہوئے تھے، ساتھ ہی سوشل میڈیا سیل بھی بنادیے اور نوجوانوں کو ٹاسک سونپ دیے کہ آپ نے اپنی مخالف جماعتوں کی کردارکشی میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی۔ اس بے لگام سوشل میڈیا کی ہیجان خیزیوں کا نظارہ ہم گزشتہ چند برسوں سے ملاحظہ کررہے ہیں۔ اسی سوشل میڈیا کو سیاستدانوں نے اپنے مطلب کےلیے استعمال کرنا شروع کردیا اور اپنے مخالف سیاستدانوں کی ایسی کھنچائی شروع کی کہ خدا کی پناہ۔ اب ملک کا کوئی سیاستدان، دانشور، ادیب، حتیٰ کہ مذہبی رہنما سوشل میڈیا کے ان نام نہاد دانشوروں کے شر سے محفوظ نہیں۔ سابقہ حکومت نے تو باقاعدہ طور پر نوجوانوں کی ایسی فورس تیار کرلی تھی جس نے سیاست میں اخلاقیات کا جنازہ نکال کر رکھ دیا۔ نتیجے میں معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے اس کو سدھارنے میں نہ جانے کتنا وقت لگے گا، کیونکہ ٹیکنالوجی کی جدت میں آئے روزاضافہ ہورہا ہے تو مستقبل میں خدا جانے اور کیا کیا چیزیں منظر عام پر آجائیں جس سے نوجوان کس سمت میں جائیں گے اس پر کوئی رائے دینا قبل از وقت ہے۔
سوشل میڈیا کا چوتھا نقصان ہوا کہ اس کی زد میں نوجوان نسل تو آہی چکی ہے اس کے ساتھ ساتھ اس میں ہر عمر اور ہر طبقے کے انسانوں نے اپنی اپنی پسند کے مطابق چیزیں تلاش کرلیں۔ آپ اپنے اردگرد ملاحظہ کیجیے آپ کو ہر شخص (مرد، عورت، نوجوان، بچے) انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ گھروں، بازاروں، اسکول و کالج، مذہبی درس گاہوں، حتیٰ کہ اسپتالوں میں بھی (جہاں پر طبی عملے کی ذرا سی غفلت سے مریضوں کا نقصان ہوسکتا ہے) میں بھی عملہ آپ کو انٹرنیٹ اور موبائل استعمال کرنے میں مشغول نظر آئے گا۔ پرائیویٹ اسپتالوں میں تو شاید تھوڑی سختی ہے لیکن سرکاری اسپتالوں میں آپ کو ڈاکٹر سے لے کر خاکروب تک مفت وائی فائی سے فیض اٹھاتا نظر آئے گا۔
اس کا پانچواں نقصان یہ کہ معاشرے میں فون استعمال کرنے کی وجہ سے حادثات کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ آپ کسی موٹر سائیکل سوار کو دیکھیں، اس نے پوری فیملی موٹر سائیکل پر بٹھائی ہوتی ہے اور موبائل کان سے لگا کر ایک طرف کو جھکا ہوتا ہے۔ اپنی اس حرکت سے ا±س نے اپنی پوری فیملی کی زندگی کو داو¿ پر لگایا ہوتا ہے۔ اسی طرح آپ سڑک پر دیکھیں کہ ایک کار والے کے پیچھے کاروں کی لمبی لائن لگی ہوتی ہے اور وہ موصوف فون پر محو گفتگو ہیں۔
سوشل میڈیا کا چھٹا نقصان غیر اخلاقی مواد دیکھنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا ہے، جس میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے میں نئی نسل میں ہیجان خیزی میں اضافہ ہوا ہے اور نوجوان گلوبل ولیج میں اپنے آپ کو محسوس کرتے ہوئے اپنا موازنہ مغربی ممالک سے کر رہے ہیں۔ اب ایک ایسی پود تیار ہوچکی ہے جو مغربی ملکوں کے نوجوانوں کی تقلید میں اپنی مشرقی روایات کو یکسر بھلا کر ہر وقت خیالی دنیا میں کھوئے رہتی ہے۔ یہ وہ نسل ہے جو نہ صرف اپنے پہناوے بلکہ کھانے پینے کی چیزوں میں بھی مغربی ثقافت کی تقلید کررہے ہیں۔ جو اپنے ملکوں میں کاشت ہونے والی سبزیوں کو کھانا اپنی توہین سمجھتے ہیں اور ان کی غذا پیزا، برگر، شوارما اور دیگر فاسٹ فوڈ بن چکی ہے۔ اب اس نسل کو لاکھ سمجھایا جائے کہ ان چیزوں کو مسلسل کھانے سے صحت خراب ہوتی ہے لیکن مجال ہے کہ ا±ن کے کانوں پر جوں بھی رینگتی ہو۔
سوشل میڈ یا کا ایک اور نقصان کہ نوجوانوں کو انٹرنیٹ پر مختلف گیمز کھیلنے کی لت لگ چکی ہے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گیمز جان لیوا ہیں جن سے نوجوانوں کو دور رہنا چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ نوجوان سوشل میڈیا پر غیر ممالک کی لڑکیوں/ عورتوں سے دوستیاں اور شادیاں بھی کرتے ہیں لیکن دیکھا گیا ہے کہ اکثر شادیاں ناکام ثابت ہوتی ہیں۔ حال ہی میں انٹرنیٹ پر مشہور زمانہ بدنام گیم ”پب جی“ کے ذریعے ایک پاکستانی شادی شدہ عورت نے، جو چار بچوں کی ماں بتائی جاتی ہے، دہلی (انڈیا) میں رہنے والے لڑکے سے دوستی کی اور پھر نیپال میں شادی کرکے انڈیا چلی گئی۔ اب وہ لڑکی پاکستان آنے کو تیار نہیں جبکہ انڈیا والے اسے پاکستان کی جاسوس سمجھ کر اسے واپس بھیجنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح کا ایک اور کیس بھی سامنے آیا ہے جس میں انڈیا سے لڑکی پاکستان آکر شادی کرچکی ہے۔ یہ حالیہ کیسز ہیں جو منظر عام پر آئے جبکہ ایسے سیکڑوں کیسز ہیں جن کی وجہ انٹرنیٹ ہے۔
ٹیکنالوجی اور سوشل میڈیا کے دفاع میں نوجوان نسل کہتی ہے کہ اس طرح ساری دنیا سے رابطے ہوجاتے ہیں۔ انہیں اپنی پڑھائی سے متعلق چیزیں تلاش کرنے میں آسانی ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اگر موازنہ کیا جائے تو انٹرنیٹ سے استفادہ حاصل کرنے والوں کی تعداد اس سے حظ اٹھانے والوں کے مقابلے میں یقیناً کم ہوگی۔ خدا جانے اب یہ سلسلہ کہاں جاکر ر±کے گا کیونکہ اب تو عالم یہ ہے کہ تعلیم کے تمام اداروں نے آن لائن اسٹڈی کو اپنا فرض سمجھ لیا ہے اور نوجوان نسل آن لائن اسٹڈ ی کو ہی بہانہ بناکر موبائل اور انٹرنیٹ کو استعمال کرنا اپنا حق سمجھتی ہے اور والدین ا±ن کے اس بیانیے کو ماننے پر مجبور ہیں۔
نوجوان نسل کےلیے دعا ہی کی جاسکتی ہے کہ خدا ہر کسی کے بیٹے، بیٹی کو کسی ناخوشگوار حادثے سے بچائے اور انہیں ہدایت دے کو وہ انٹرنیٹ کو صحیح معنوں میں اپنی تعلیم، کاروبار اور دیگر مثبت کاموں کےلیے استعمال کریں۔
انٹرنیٹ کے متبادل کے طور پر جب آپ اپنے بچوں کو وقت دیں تو آپ ان کے ساتھ اِن ڈور گیمز کھیلیے، جیسے لڈو، کیرم بورڈ وغیرہ اور ان کی تخلیقی صلاحیتیں نکھارنے کےلیے ان کی صلاحیت کے مطابق سرگرمیاں ترتیب دیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شاعری کرنا چاہتا ہے تو اس کی حوصلہ افزائی کیجیے۔ کوئی پینٹنگ کرنا چاہتا ہے، کوئی موسیقی کو پسند کرتا ہے تو اسے موقع دیجیے۔ لیکن یہ تمام چیزیں ج±ز وقتی ہونی چاہئیں تاکہ بچے کی پڑھائی متاثر نہ ہو۔ یاد رکھیے کہ آپ کی طرف سے اجنبیت کا رویہ آپ کے بچے کو آپ سے دور کردے گا اور پھر وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا میں پناہ لینے کی کوشش کرے گا۔
بچوں کی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا میں دلچسپی کی ایک وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ آبادی کے تناسب سے ملک میں بچوں کے کھیلنے کےلیے گراو¿نڈز نہیں ہیں۔ ملک میں آبادی بڑھنے سے نئی کالونیاں، سوسائٹیاں ضرور بنی ہیں لیکن گراو¿نڈ ز نہیں بنائے گئے، جس کی وجہ سے بچے کھیلوں سے دور ہوتے چلے گئے اور نتیجہ یہ نکلا کہ پوری طرح انٹرنیٹ کے چنگل میں پھنس گئے۔
آپ ماضی میں بچوں کے کھیلوں کو دیکھیں تو یقیناً حیران ہوں گے کہ ماضی کے ا±ن کھیلوں سے نئی نسل بالکل آشنا نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی قسم کے کھیل میں دلچسپی نہ ہونے کی وجہ سے ان میں سستی، تھکاوٹ، کاہلی اور چڑچڑے پن کا عنصر نمایاں ہے۔ ماضی میں اسکولوں میں بزم ادب کروایا جاتا تھا، جو آہستہ آہستہ تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ وہ ایک بہتر سرگرمی تھی جس کی وجہ سے بچے نہ صرف غیر نصابی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے بلکہ انہیں اپنی فنی صلاحیتیں نکھارنے کا بھی موقع مل جاتا تھا۔ بچوں کو غیر نصابی سرگرمیوں کے ذریعے ہی مصروف رکھ کر ان کے انٹرنیٹ استعمال کرنے کا دورانیہ کم کیا جاسکتا ہے۔
والدین کی ذمے داری تو بنتی ہی ہے لیکن ریاست کی بھی اہم ذمے داری ہے کہ بچوں کو کھیلوں کی طرف راغب کرنے کےلیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے، کیونکہ جس تیزی کے ساتھ بچے انٹرنیٹ کی طرف راغب ہورہے ہیں تو یہ ہم سب کےلیے لمحہ فکریہ ہے۔ سوشل میڈیا استعمال کرنے کےلیے قواعد و ضوابط ہونے چاہئیں اور کسی کی بھی کردارکشی کرنے پر استعمال کرنے والے کو سزا کا خوف ہونا چاہیے۔
یہ چند تجاویز ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ نئی نسل کی بہتر آبیاری کےلیے بہت ضروری ہیں۔ یاد رکھیے کہ ہم سب کا یہ فرض ہے جس میں والدین، اساتذہ کرام، بہن، بھائی، رشتے دار اور سرپرست، ہم سب اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر بنانے کےلیے پوری کوشش کریں۔ اس ضمن میں ریاست کی بھی اہم ذمے داری ہے کہ وہ ہر ممکن کوشش کرے کہ نوجوانوں کو صحیح معنوں میں مستقبل کا معمار بنایا جاسکے، جو صحتمند، توانا ہو اور نئی سوچ کے ساتھ ترقی یافتہ پاکستان کا ضامن ہو۔