چینی سے اربوں روپے کمانے والے

ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں 90 شوگر ملیں ہیں، جن میں سے 32 شریف خاندان کی، 8 میاں منشاء کی، 3 جہانگیر ترین کی، 16 آصف زرداری کی، 2 حنا ربانی کھر کی اور باقی دیگر لوگوں کی ہیں، مگر اس کے باوجود چینی کی قیمت آئے روز بڑھتی رہتی ہے اور اس وقت چینی کا نرخ ڈبل سنچری کو بھی پھلانگ چکا ہے۔ ذیادہ تر شوگر ملیں تو خود سیاست دانوں کی ہی ہیں اور ہمارے یہی سیاست داں ملک و قوم کی بھلائی اور دکھ درد دور کرنے کے صبح شام بیانات دیتے رہتے ہیں، مگر ان کا عملی کردار یہ ہے کہ ذاتی شوگر ملیں ہونے کے باوجود غریب عوام کو ارزاں نرخوں پر چینی فروخت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے تقریباً ہر سیاست داں نے مملکت خداداد کو خدمت کا نہیں، بلکہ لوٹ کھسوٹ کا ذریعہ سمجھ رکھا ہے اور ہر ہر طریقے سے ملک اور عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔ سوشل میڈیا اور اخبارات میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ چینی کی افغانستان اسمگلنگ میں سیاست دانوں کی شوگر ملیں ملوث ہیں، جس کے باعث پاکستان میں چینی کی قلت پیدا ہوئی اور نرخ فی کلو 200 روپے سے بھی اوپر چلے گئے۔
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اور حالیہ رخصت ہونے والی پی ڈی ایم حکومت کے سابق وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے انکشاف کیا ہے کہ ایکسپورٹ سے چھ گنا زیادہ چینی اسمگل ہوئی۔ اگر ہم چینی ایکسپورٹ نہ کرتے تو یہ بھی اسمگل ہو جاتی۔ نوید قمر کا کہنا تھاکہ صرف چینی ہی نہیں، فرٹیلائزر، گندم اور دیگر چیزوں کی اسمگلنگ پر ہمارا کوئی کنٹرول نہیں۔ باہر سے اسمگل ہو کر جو تیل آتا ہے، اس پر بھی ہمارا کوئی کنٹرول نہیں۔ نوید قمر نے صاف صاف کہا کہ بہت سے لوگ اس اسمگلنگ سے قوم کی قیمت پر ارب پتی بن چکے۔ سب کو پتا ہے کہ اسمگلنگ کون کروا رہا ہے؟ اس وقت لوگوں نے بڑے بڑے کاروبار چھوڑ کر اسمگلنگ شروع کر رکھی ہے، مگر اس وقت ہماری فورسز نگراں حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں، اگر اب بھی اسمگلنگ نہیں روک سکتے تو کب روکیں گے؟
کئی بار وفاقی وزیر کے منصب پر فائز رہنے والے سید نوید قمر کا مذکورہ بالا انکشاف انتہائی حیران کن اور چشم کُشا ہے اور ان کے بیان کی تصدیق رواں ماہ ستمبر کی 4 تاریخ کو مختلف قومی اخبارات میں شائع ہونے والی ایک خبر سے بھی ہوتی ہے، جس کے مطابق
بلوچستان میں ایک ہی دن میں دو کارروائیوں کے دوران چینی کے ہزاروں تھیلوں سے بھرے 20 ٹرک پکڑے گئے یہ چینی افغانستان اسمگل کی جا رہی تھی اور ایسے موقع پر پکڑی گئی جب پاکستان میں چینی کی قلت ہے اور نرخوں میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے چینی اور قبضے میں لی جانے والی گاڑیوں کی مارکیٹ قیمت 70 کروڑ روپے کے قریب بنتی ہے کم از کم 15 ٹرک ایک کارروائی میں پکڑے گئے، جبکہ 5 دوسرے واقعے میں ضبط ہوئے کسٹم حکام کے مطابق ایک کارروائی بلوچستان اور خیبر پختون خوا بارڈر پر واقع کسٹم فیلڈ انفورسمنٹ یونٹ نے سرانجام دی۔ کسٹم یونٹ نے ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے وانا سر سے آنے والے 15 ٹرکوں پر مشتمل ایک بڑے کارواں کو روک کر چینی کے 8 ہزار 260 تھیلے تحویل میں لے لئے۔ ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ اسی طرح کے ٹرکوں میں دکھاوے کے لئے اوپر سیمنٹ کی بوریاں اور نیچے چینی کے تھیلے رکھ کر بڑی تعداد میں چینی اسمگل کی جا رہی ہے۔
سرحدی راستوں سے چینی کی اسمگلنگ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کیوں کہ سرحد پر کس کی ڈیوٹی ہے اور سرحدوں کی دیکھ بھال پر کون متعین ہے؟ یہ بچہ بچہ جانتا ہے، پھر کیوں کر اتنی بھاری تعداد میں چینی افغانستان اسمگل ہو رہی ہے اور ناقص و غیر معیاری پیٹرول ایران سے پاکستان میں آ رہا ہے؟ پاکستانی راستوں سے اسمگلنگ کے حوالے سے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو حال ہی میں وزارت تجارت کی جانب سے بریفنگ دی گئی، جس میں ملک میں قانونی راستوں سے تجارت کے فروغ کے لئے متعدد اقدامات زیر بحث آئے۔ وزیراعظم نے ملک میں اسمگلنگ کی روک تھام کے لئے کسٹمز حکام کو غیر منظم سرحدی راستوں پر نگرانی کا مؤثر نظام قائم کرنے کی ہدایت کی۔
وزیراعظم کے کسٹمز حکام کو دئیے گئے مذکورہ بالا احکامات اپنی جگہ، مگر باوثوق ذرائع یہ دعویٰ کر ریے ہیں کہ جتنا پیسہ چینی کی اسمگلنگ سے کمایا گیا ہے،اس میں سے ن لیگ،پیپلز پارٹی اور مولانا کے اہم امیدواروں کو الیکشن مہم کے لئے ایک ایک ارب روپے دیئے جا سکتے ہیں، کہا جارہا ہے کہ چینی کی ناجائز منافع خوری سے جو سینکڑوں ارب روپے عوام کی جیب سے نکلا ہے، یہ سیاسی جماعتوں کی الیکشن مہم کا خرچہ ہے. کوئی بعید نہیں کہ انہی پیسوں میں سے 50 ارب روپے میاں نواز شریف کی واپسی پر استقبال کے لئے کرائے کے بندوں کے لئے بھی دیا جائے. اگر واقعتاً ایسا ہے تو قوم کو مبارک ہو، عوام نے چینی کی قیمتوں کی مد میں میاں صاحب کی ممکنہ واپسی میں اپنا حصہ ڈال دیا ہے۔ یہ ہے، سیاست دانوں کا وہ شرم ناک کردار، جو عوام کو واضح پیغام دیتا ہے کہ اب عوام کو سیاست دانوں سے مکمل طور پر کنارہ کشی کر لینی چاہئے۔