تیمر: ساحلوں کی بقا کا ضامن

سعدیہ عبید خان
موسمیاتی تبدیلیوں کے لحاظ سے پاکستان اس وقت بدترین دور سے گزر رہا ہے۔
وہ ازل سے وہاں ہیں اور ابد تک وہیں رہیں گے… سمندر ان کے آگے پیچھے،دائیں اور بائیں ہے… سر پر کھلا آسمان ہے اور محض اپنا زورِ بازو… بنیادی سہولتیں کسے کہتے ہیں یہ ان کی بلا جانے۔
انہیں 2 وقت کی روٹی کی فکر ہے اور زیادہ کچھ نہیں۔ پھر بھی ان کے بے نیاز چہروں کی شادمانی اور بے فکر مسکراہٹ ا±ن سے لاکھ درجے بہتر ہے جو برانڈڈ ملبوسات پہنتے اور بڑے ہوٹلوں میں کھاتے پیتے ہیں۔
کراچی سے قومی شاہراہ، براستہ گھارو، گاڑھو، میرپور ساکرو اور چاول کے کھیتوں سے گزرتی پتلی خاردار کیکر کی جھاڑیوں سے بھرا راستہ، جس نے ہمیں ڈانڈو جیٹی کے گہرے نیلگوں اور لاجوردی پانی سے متعارف کرایا۔
جب ہم تپتی ہوئی دوپہر وہاں پہنچے تو ساحل کی موجوں پر ہلکورے لیتی کشتیوں پر ڈیزل لادا جارہا تھا تاکہ اس دریا سے وہ اپنے حصے کا رزق حاصل کرسکیں۔ انڈس ڈیلٹا کی یہ وسیع وعریض دنیا انواع و اقسام کے جانوروں اور آبی مخلوق کا مسکن ہے، جو دن بہ دن کم ہوتے میٹھے پانی اور سمندری پانی کی زور آوری کی وجہ سے زوال پذیر ہے۔ سروں پر منڈلاتا سفید سر والا عقاب بھی بے فکری سے کونج کے شکار میں لگا ہوا تھا۔
کشتی پر دو گھنٹوں سے زائد کا سفر، جال بکھیرتے، سمیٹتے مچھیروں کی دنیا دیکھتے گزارا۔ نیلگوں پانی پر سورج کی کرنوں کا رقص جاری تھا۔ پانی اور کرنوں کے اس اٹوٹ بندھن کو دیکھتے دیکھتے راستہ سمٹتا رہا اور منزل مقصود سامنے آگئی۔
مصری جت گاو¿ں، پانی سے گھری دنیا میں مست لوگوں کا مسکن۔
تقریباً 5 ہزار نفوس پر مشتمل اس آبادی میں ساحل پر لکڑی کے ایسے گھر ایستادہ تھے جنہیں بچے اپنی اولین ڈرائنگز میں بناتے ہیں۔ پانی چڑھنے کے خطرے کے پیش نظر ان گھروں کی بنیادیں اونچی رکھی جاتی ہیں جن میں سے پانی بہہ کر نکل جاتا ہے۔
لکڑی سے بنے ان کوٹھڑی نما گھروں میں بیت الخلا کے نام پر ایک کونے پر پتھر کی سل دھری تھی، ساری گندگی اس سل پر سے خودبخود بہتی ہوئی گھر کے باہر چلی جاتی ہے، ٹنکی، ٹونٹی اور نل یہاں اب تک ناپید ہیں۔
میٹھا پانی یہاں آسائش میں شمار ہوتا ہے، تعلیم کی شاید اب تک ضرورت محسوس کسی نے بھی نہیں کی… نہ حکومت نے اور نہ مقامیوں نے۔ اسکول کا پوچھنے پر آنکھوں میں امید کے دیے البتہ خوب چمکے۔
اپنی ٹوٹی پھوٹی سندھی اور یونیورسل اشاروں کی زبان میں ایک بچے سے پوچھا ”اسکول چاہیے؟“ اور جواب میں مسکراہٹ ملی۔
لیکن جہاں روٹی کے لالے ہوں وہاں تعلیم کو فوقیت ذرا مشکل ہی سے ملتی ہے۔
روایتی مقامی لباس، جس میں گاڑھے اور گہرے میرون رنگ کے سوسی کپڑے پر لاجواب بھرت کے کپڑے پہنے عورتوں کی دنیا ان کا گھر اور گاو¿ں ہی ہے۔ گاو¿ں کی واحد دائی قدرتی طریقے سے بچہ پیدا کروانے کی صلاحیت تو رکھتی ہے لیکن کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں یا تو جان کے لالے ہوتے ہیں یا قسمت ہو تو سمندر پار کرکے اسپتال کا رخ کرلیا جاتا ہے۔
عورتوں کو معاشی طور پر خود کفیل بنانے کےلیے سلائی سکھانے کا منصوبہ ابھی زیرتکمیل ہے۔ جس معیار کی کڑھائی وہاں دیکھی اگر کوئی جانا مانا ڈیزائنر ان عورتوں کے ہنر کو مہمیز دے تو شاید ان کی زندگیاں سنور جائیں۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف اور OXFAM کے تعاون سے ان دور دراز علاقوں میں سمندر اور دریا کے سنگم والے علاقے میں تیمر کی کاشت کو بطور روزگار متعارف کروایا جارہا ہے۔ تیمر ان دلدلی علاقوں میں آسانی سے کاشت کیے جاسکتے ہیں جہاں سمندر کے ساتھ ان کی افزائش کےلیے میٹھا پانی بھی تھوڑی مقدار میں موجود ہو۔
تیمر لگے گا تو جھینگے کی افزائش ہوگی۔ بطورایندھن جلانے کےلئے تیمر کی بے دریغ کٹائی نے حالات کو اس نہج پر ڈالا ہے۔
50 فٹ چوڑے اور اتنی ہی لمبائی کے حامل تالاب اب اس گاو¿ں کی معاشی بحالی کے ضامن بن رہے ہیں۔ سمندر سے کیکڑے پکڑ کر تالابوں میں ان کی فارمنگ کا منصوبہ بھی اسی ادارے کی مرہونِ منت ہے۔ ڈیڑھ ماہ میں تیار ہوجانے والے بڑے کیکڑوں کو بازار میں باآسانی 4 سو سے لے کر 8 سو روپے فی دانہ بیچا جاسکتا ہے۔ 4 تالاب تیار تھے اور تیاری کے مراحل سے گزر رہے تھے۔ تیمر کے ساتھ ساتھ ساحل پر گھاس کی افزائش بھی دکھائی دیتی ہے جو مویشیوں کا چارہ بنتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے لحاظ سے پاکستان اس وقت بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ سیلاب، خشک سالی، شدید بارشوں اور طوفانوں میں پاکستان سرفہرست آتا جارہا ہے، لیکن ارباب اختیار اور متعلقہ ادارے شتر مرغ کی طرح ریت میں سر چھپائے بیٹھے ہیں۔
کمیونٹی کی سطح پر کیے جانے والے چھوٹے چھوٹے اقدامات اکثر اوقات بہت دور رس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کو سمجھ کر ہی ان کا مقابلہ کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔