پانی کی اہمیت کو سمجھئے

محمد عظیم پاشا
پاکستان میں پانی کی عدم دستیابی کی موجودہ صورت حال ہر گزرتے لمحے پریشان کن ہوتی جارہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر یہی صورت حال رہتی ہے تو خاکمِ بدہن ملک 2040 کے قریب پاکستان سے ریگستان بننے کے سفر پر گامزن ہوجائے گا۔
پوری دنیا نے اپنے آپ کو کامیاب کرنے میں ترقی کے زینے بتدریج طے کیے اور ہم نے اپنے آپ کو تباہی کی منازل طے کرنے میں مشغول رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں کئی ایسے علاقے موجود ہیں جن میں پینے کےلیے صاف پانی بڑی مشکل سے ملتا ہے۔ اس جان لیوا مسئلے کے حل کےلیے پاکستان بھر میں واسا، متعلقہ ضلعی حکومتیں، صوبائی حکومتیں اپنے تئیں کچھ نہ کچھ کر رہی ہوں گی۔ لیکن جب تک وفاقی حکومت اس معاملے پر سر جوڑ کر نہیں بیٹھے گی، پاکستان کے اس دیرینہ مسئلے کا حل نہیں نکل سکے گا، جس کا نتیجہ بہرحال ٹھیک نہیں ہوگا۔
پاکستان میں پانی کی کمی: صوبوں کو ایک دوسرے سے شکایت کیا ہے؟
تنویر ملک
ہر سال مئی کے مہینے میں آم کی فصل پک کر تیار ہونے کا موسم ہوتا ہے تاہم رواں برس کے اس مہینے میں آم کے پیڑ جھڑ رہے ہیں جس کی وجہ پانی کی کمی ہے۔ اسی طرح سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ سے کپاس کی فصل گزشتہ سال کے مقابلے میں پچاس فیصد کم رقبے پر کاشت کی گئی ہے۔
سندھ میں زراعت کے شعبے میں کام کرنے والے سندھ آباد گار بورڈ کے وائس چیئرمین محمود نواز شاہ صوبے میں پانی کی قلت کی شکایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس مسئلے کی وجہ سے سندھ کے زرعی شعبے کو سخت نقصان کا اندیشہ ہے۔ انھوں نے بتایا کہ پانی کی قلت کی وجہ سے اب صوبے میں پینے کے پانی کی بھی کمی واقع ہو رہی ہے۔
سندھ میں پانی کی قلت پر صوبے کی حکومت کے وزرا کی جانب سے پنجاب میں پانی غلط استعمال ہونے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔
سندھ کے وزیرجام خان شورو کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ صوبے کو اپنے حصے سے چالیس فیصد سے کم پانی دیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے زراعت کے شعبے کے متاثر ہونے کے علاوہ پینے کے پانی کی کمی کا بھی صوبے کے عوام کو سامنا ہے۔
تاہم انڈس رِیور سسٹم اتھارٹی (ارسا) میں پنجاب کے نمائندے امجد سعید نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پانی کی کمی کی وجہ سے سندھ اور پنجاب دونوں کے حصے سے دس دن کے کوٹے میں پانی کم کیا گیا ہے۔
پاکستان میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے لیے سنہ 1991 میں ایک معاہدہ کیا گیا تھا، جس کے تحت تمام صوبوں کے درمیا ن پانی کی تقسیم ایک فارمولے کے تحت ہوتی ہے تاہم ہر سال گرمیوں کے موسم کے شروع میں پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کی تقسیم پر تنازع کھڑا ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں بہنے والوں دریاو¿ں پر ڈیم، بیراج اور نہریں نکال کر آبپاشی کا پورا نظام موجود ہے، جو ملک کے قیام سے پہلے کام کر رہا ہے۔ اس نظام میں پاکستان کے قیام کے بعد تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں اور ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ نئے بیراج اور نہریں بھی نکالی گئی ہیں۔
پاکستان کے دریائی سسٹم میں پانی کی کمی کی نشاندہی طویل عرصے سے کی جا رہی ہے، جس کا سبب موسمیاتی تبدیلیوں کو قرار دیا جاتا ہے اور اس کی وجہ سے زراعت کا شعبہ ب±ری طرح متاثر ہو رہا ہے، جو ملک کی معیشت میں انڈسٹری اور خدمات کے ساتھ اہم شعبہ ہے۔
سندھ اور پنجاب میں پانی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق دونوں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے مسئلے پر تنازع نیا نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اپریل، مئی اور جون میں یہ تنازع کھڑا ہوتا ہے کیونکہ اس وقت ڈیموں سے پانی کا اخراج کم ہوتا ہے اور جولائی میں جب مون سون کی بارشیں شروع ہوتی ہیں تو یہ تنازع ختم ہو جاتا ہے جب وافر مقدار میں پانی واٹر سسٹم میں آجاتا ہے۔
ان ماہرین کے مطابق ملک میں پانی ذخیرہ کرنے اور اسے تقسیم کرنے کا نظام دو اداروں، واپڈا اور ارسا، کے درمیان بٹا ہوا ہے جو بہت سارے مسائل کو جنم دیتا ہے۔
ملک میں پانی کی تقسیم کا نظام؟
پاکستان میں صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کے لیے سنہ 1991 میں ایک معاہدہ کیا گیا تھا، جس کے تحت چاروں صوبوں کو ربیع اور خریف کی فصلوں کے لیے ایک خاص تناسب سے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔
انڈس رِیور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کی ویب سائٹ پر موجود سنہ 1991 معاہدے کے مندرجات کے مطابق پنجاب کو پانی کی تقسیم میں 55.94 ملین ایکڑ فٹ کوٹہ ملا، جس میں خریف سیزن کے لیے 37.07 اور ربیع سیزن کے لیے 18.87 ملین ایکڑ فٹ کوٹہ شامل تھا۔
سندھ کا کوٹہ 48.76 ملین ایکڑ فٹ ہے جس میں خریف کے لیے 33.94 اور ربیع کے لیے 14.82 ملین ایکڑ فٹ کوٹہ ہے۔
خیبر پختونخوا کا کوٹہ 5.78 ملین ایکڑ فٹ اور بلوچستان کا کوٹہ 3.87 ملین ایکڑ فٹ مقرر کیا گیا۔ اس معاہدے کے تحت مختلف مہینوں میں پانی کی تقسیم کا پورا نظام وضع کیا گیا۔
سندھ میں پانی کی کمی کی وجہ پنجاب میں پانی کے غلط استعمال کو قرار دیا جاتا ہے۔
آباد گار بورڈ کے وائس چیئرمین محمود نواز شاہ نے، جو اس موضوع پر تسلسل سے آواز اٹھار ہے ہیں، بی بی سی نیوز کو بتایا کہ پہلے تو اس بات کا احساس نہیں ہو رہا تھا کہ پانی کم ہے اب احساس ہوا کہ پانی کم ہے۔ انھوں نے پانی کہیں تو جا رہا ہے لیکن سندھ نہیں آ رہا۔
انھوں نے بتایا کہ سندھ کو 10000 کیوسک کم پانی مل رہا ہے اس کا مطلب ہے کہ اس کا استعمال اپ سٹریم یعنی پنجاب میں ہو رہا ہے۔ انھوں نے کہا پنجاب کے نظام سے سندھ کو ملنے والا پانی اس وقت صفر ہے اور دریائے سندھ کے سسٹم سے ملنے والے پانی میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ جب سسٹم میں پانی کی کمی ہوتی ہے تو سندھ میں آنے والے پانی میں تو کمی ہو جاتی ہے لیکن پنجاب میں پانی زیادہ ہوتا ہے۔
لاہور میں مقیم پانی کے شعبے کے ماہر ڈاکٹر حسن عباس نے اس سلسلے میں بی بی سی نیوز کو بتایا کہ موجود ہ سیزن میں ہر سال پانی کی کمی کا سامنا ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ تربیلا ڈیم میں پانی روک لیا جاتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ان مہینوں میں تقریباً 1.9 ملین ایکڑ فٹ پانی تربیلا میں روک لیا جاتا ہے۔
ڈیم سے پانی کا اخراج کم ہوتا ہے اور سندھ اور پنجاب کے درمیان تنازع کھڑا ہو جاتا ہے۔ جب مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں تو سسٹم میں پانی کی وافر مقدار آجاتی ہے تو پھر یہ تنازع دم توڑ جاتا ہے۔
ڈاکٹر حسن نے بتایا کہ سنہ 1948 میں ہندوستان نے پاکستان سے کہا کہ اس کے مغربی دریاو¿ں کا پانی سمندر میں گر جاتا ہے اور اس نے مشرقی دریاو¿ں پر پانی روکنا شروع کیا اور پاکستان سے کہا کہ وہ مغربی دریاو¿ں سے مشرقی دریاو¿ں میں پانی ڈالے۔
اس مقصد کے لیے لنک کینال کا تصور سامنے آیا اور چشمہ جہلم لنک کینال اسی تصور کا حصہ ہے کہ جب سندھ سے جہلم میں پانی ڈالنے کے لیے اس کی کھدائی کی گئی۔
انھوں نے کہا اس کا مقصد تو یہ تھا کہ جب سیلابی سیزن میں پانی زیادہ ہو تو اسے پانی کو سندھ سے جہلم منتقل کیا جائے تاہم اس کے بعد اسے عام دنوں میں کھولا جانے لگا جس کی وجہ سے سندھ کے اعتراض سامنے آئے۔
انھوں نے کہا پھر گریٹر تھل کینال نکالی گئی جو غیر آباد علاقے کو آباد کرنے کے لیے نکالی گئی جس پر اعتراض آیا کہ پہلے سے آباد سندھ میں اس کی وجہ سے پانی کی کمی ہوئی۔
سابق ممبر ارسا ادریس راجپوت نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ اس وقت تربیلا ڈیم کی سرنگوں پر کام ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اخراج رکا ہوا ہے اور منگلا ڈیم میں پانی ڈیڈ لیول پر ہے، جس کی وجہ سے پانی سسٹم میں کم ہے اور سندھ کی جانب سے پنجاب میں زیادہ پانی استعمال کرنے پر اعتراض سامنے آیا ہے۔
ان کے مطابق ہر دس دن کے لیے پانی مختص کیا جاتا ہے اور 11 مئی سے 20 مئی کے دس دنوں میں سندھ کے لیے 50000 کیوسک پانی کا کوٹہ دیا گیا تھا۔ تاہم پانی کی کمی کی وجہ سے ارسا نے سندھ اور پنجاب دونوں کے پانی کے کوٹے میں 15 فیصد کمی کر دی۔ ان کے مطابق اس حساب سے سندھ کا حصہ 42500 کیوسک بنتا ہے تاہم سندھ کے اپنے اعدادوشمار کے مطابق صوبے میں واقع پہلے بیراج یعنی گدو بیراج پر پانی کا بہاو¿ 46000 کیوسک ہے۔
ممبر پنجاب نے کہا پنجاب سے تو پانی جا رہا ہے اب آگے صوبے کا کام ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک پانی کی تقسیم کو صحیح طریقے سے یقینی بنائے۔ ممبر پنجاب نے کہا کہ پنجاب میں پنجند کے مقام پر اس وقت 16000 کیوسک پانی ہے جو کوٹے سے 70 فیصد کم ہے۔
سندھ کی جانب سے پنجاب میں پانی کے غلط استعمال کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ اس بارے میں ادریس راجپوت نے کہا کہ اگر سندھ کی جانب سے یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ پنجاب میں سندھ کے حصے کا پانی استعمال ہو رہا ہے تو یہ بلاوجہ نہیں۔
انھوں نے کہا کہ اس میں سیاست نہیں ہو رہی کیونکہ واقعی سندھ میں پانی کی کمی ہے اور جس کا اثر اس صوبے کی زراعت پر پڑ رہا ہے۔
تاہم انھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ارسا سے اوپر ایک سپریم باڈی مشترکہ مفادات کونسل ہے جس میں سندھ کو تحریری طور پر شکایت دینی پڑے گی جو ان کی اطلاع کے مطابق اب تک نہیں دی گئی۔
ادریس راجپوت نے کہا کہ پانی کے تنازعے پر فیصلہ ارسا میں اکثریتی ووٹ پر ہوتا ہے جس میں پنجاب کو اکثر خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حمایت حاصل ہوتی ہے کیونکہ پنجاب نے پانی کی کمی کی صورت میں دونوں چھوٹے صوبوں کے حصے کے پانی میں کمی نہ کرنے کی حمایت کی تھی۔
انھوں نے کہا اس مسئلے پر کیا سیاست ہو رہی ہے اس کا جواب دینا ان کا کام نہیں۔ تاہم انھوں نے کہا کہ وہ اعداد و شمار کی بنیاد پر بات کرتے ہیں اور ان کے مطابق پنجاب میں پانی کی چور ی نہیں ہو رہی۔
پانی کہاں جاتا ہے؟
سندھ کی جانب سے پنجاب میں پانی چوری کے الزامات پر بات کرتے ہوئے محمود نواز شاہ نے کہا کہ وہ چوری جیسا سخت لفظ استعمال نہیں کریں گے تاہم یہ بات صحیح ہے کہ پنجاب میں زیادہ پانی استعمال ہو رہا ہے جو وہاں زیر کاشت رقبے میں اضافے سے واضح ہے۔
انھوں نے کہا کہ سندھ میں پانی کی قلت ہے اور جو کپاس کی فصل تیرہ چودہ لاکھ ایکٹر رقبے پر لگنی تھی وہ صرف پچاس فیصد رقبے پر لگی۔ اسی طرح گنے کی فصل بھی پانی کی کمی کا شکار ہے اور آم کی فصل جسے اس وقت پانی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بری صورت حال کا شکار ہو چکی ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس نے اس سلسلے میں بتایا کہ پانی کا ترقیاتی ماڈل اس کی بڑی وجہ ہے جس میں پانی کے نظام میں اوپر کے حصے پر واقع صوبہ فائدے میں ہوتا ہے اور جو صوبہ سسٹم کے آخر میں واقع ہے اسے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انھوں نے جب انگریزی دور میں سنہ 1850 کی دہائی میں یہ نظام متعارف کرایا گیا تو اس میں پانی چوری کا نام نہیں دیا گیا بلکہ پانی کے نامناسب استعمال کی بات کی گئی جو آج بھی رائج ہے۔
انھوں نے پانی کے اس غلط استعمال پر صرف جرمانہ ہوتا ہے اور اس جرمانے کی عدم ادائیگی پر بھی پانی کی فراہمی روکی نہیں جاتی۔
انھوں نے کہا جب پانی کم ہوتا ہے تو لازمی طور پر اوپر کے حصے میں واقع علاقے میں پانی چوری ہو گا اور اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے کہ پانی کم ہے تو پنجاب میں اس کا زیادہ استعمال ہو رہا ہے اور سندھ اس کہ وجہ سے شکایت کر رہا ہے۔
مبینہ طور پر چوری شدہ پانی کے استعمال کے بارے میں ڈاکٹر حسن عباس نے کہا جو علاقے پانی کے نظام کے اوپر کی سطح پر واقع ہیں وہ پانی کی کمی کی صورت میں یہ پانی حاصل کرتے ہیں۔
انھوں نے کہا بہت کم کینال ہوتی ہیں کہ ان کے آخری حصے تک پانی پورا پہنچے کیونکہ اوپر کے حصے میں رہنے والے اکثر زیادہ فصلیں اٹھاتے ہیں اور ان کی پیداوار بھی زیادہ ہوتی ہے۔
انھوں نے پانی کے ترقیاتی ماڈل کو سب سے بڑی وجہ قرار دیا، جس میں نیچے کے حصے میں رہنے والا پانی کمی کی صورت میں نقصان اٹھا رہا ہوتا ہے اور یہی اس وقت بھی ہو رہا ہے کہ سسٹم میں پانی کی کمی کی وجہ سے سندھ میں پانی کم پہنچ رہا ہے اور پنجاب میں اس کے استعمال کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔
کیا سرکاری ادارے پانی کے غلط استعمال میں ملوث ہوتے ہیں؟
اس سلسلے میں پنجاب اور سندھ میں جب زرعی شعبے وابستہ افراد سے بات کی گئی تو انھوں نے بتایا کہ جب فصلوں کی بوائی کا سیزن شروع ہوتا ہے تو ایک طریقہ کار جسے ‘واش’ کہا جاتا ہے اس کے تحت کسانوں سے پیسے اکٹھے کیے جاتے ہیں جو افراد زیادہ پیسے دیتے ہیں انھیں زیادہ پانی سپلائی کیا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ نہروں کے ڈیزائن میں ایک موگھا ہوتا ہے، جس کے دہانے پر موجود اینٹوں کو نکال کر ان افراد کو نوازا جاتا ہے جو زیادہ پیسے دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا موگھا کی ایک اینٹ نکالنے سے پانی کا بہاو¿ زیادہ ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر حسن عباس نے اس سلسلے میں بتایا کہ ایسے واقعات ان کے علم میں بھی ہیں کہ جن میں موگھا کے ذریعے پانی کے بہاو¿ کو اپنی پسند و ناپسند کے ذریعے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
تاہم انھوں نے کہا اس سے بڑی سطح پر ڈیموں میں پانی کے ذخیرہ کرنے اور اس کے اخراج پر سرکاری اداروں کے کام کا طریقہ کار ہے۔ انھوں نے کہا کہ واپڈا کا کام ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کا کام ہے جب کہ ارسا کا کام پانی کے اخراج سے شروع ہوتا ہے۔ انھوں نے کہ یہ کام دو اتھارٹیز کرتی ہیں۔
انھوں نے کہا یہ ماڈل آمرانہ ماڈل ہے اس میں اتھارٹی کا لفظ ہے یعنی اپنی مرضی مسلط کرنا ہے۔ اس کے بجائے اسے سروس ہونا چاہیے کہ جو ملک اور عوام کی ضرورت کو مد نظر کر یہ کام کرے۔
حکومتیں، ادارے اور عوامی نمائندے اپنی جگہ، لیکن کبھی ہم نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کی ہے کہ ہم پانی بچانے میں کیا کردار ادا کررہے ہیں؟ پانی بچانے میں کوئی کردار ادا بھی کر رہے ہیں یا صرف ضائع کرنا ہی ہماری ڈیوٹی میں شامل ہے؟ گاڑی واش کرتے وقت جس بے احتیاطی اور بے دریغ پن کا مظاہرہ کرتے ہیں، اتنے پانی میں تو پورا گھر دھویا جاسکتا ہے۔ گھر کے دھونے کے برابر پانی تو ہم بلاضرورت صبح و شام اپنے گھر یا دکان کے سامنے مٹی بٹھانے کےلیے ویسے ہی بہا کر ضائع کردیتے ہیں۔
کبھی اتنا خیال ہی نہیں آیا کہ یہ قیمتی اور پینے کے قابل پانی جو ہم بہا کر ضائع کررہے ہیں، ملک کے بیشتر حصوں میں نایاب ہے۔ کبھی دماغ نے اتنا کام ہی نہیں کیا کہ پانی بچائیں گے تو ہریالی بچے گی، انسان بچے گا، زندگی بچے گی۔
بحیثیت قومِ شتر بے مہار ہم کھلی آنکھوں سے اپنے طرف آتی ہوئی پریشانی و تباہی کو بے وقوفی سے دیکھنے میں مگن ہیں۔ ہماری زندگی کے روزمرہ معمولات میں شامل ہی نہیں کہ صبح جب ٹوتھ برش کریں تو دانت برش کرتے وقت نل بند کردیں۔ ٹوتھ برش منہ میں ہوتا ہے، لیکن پانی کا نل یونہی کھلا ہوتا ہے۔ جتنی دیر ہم برش کرتے ہیں، نل کھلا رکھتے ہیں اور پانی ضائع ہوتا رہتا ہے۔ یہ لاپرواہی بند کرنا ہوگی۔ منہ دھونے، نہانے کےلیے بھی پانی کی اتنی ہی مقدار استعمال کریں، جتنی ضروری ہے۔
یاد رکھیے! ہمارے ہمسائے بھارت نے پاکستان کی طرف آنے والے دریاو¿ں پر ڈیم بنا بنا کر اپنی زراعت کو اور پانی کو اپنے لیے محفوظ کرلیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ہم نے قومی سطح پر کچھ بھی نہیں کیا، سوائے مختلف مجوزہ ڈیموں کی مخالفت کرنے کے۔ ان ڈیمز کی تعمیر کو سیاست کی نذر کردیا گیا۔ سمجھ سے باہر ہے کہ اگر کسی ڈیم کا فائدہ پورے پاکستان کو ہے تو اس کی مخالفت کرنے والے کس طرح پاکستان کے خیر خواہ ہیں؟
حالات نازک مرحلے میں داخل ہوچکے ہیں۔ اگر آج، ابھی اور اسی وقت ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے، پانی بچانے کی کوشش کو ذاتی زندگی کا حصہ نہ بنایا تو یقین رکھیے کسی بھی دشمن کو ہم پر ایٹم بم، ہائیڈروجن بم وغیرہ پھینکنے کی بالکل بھی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ کیونکہ ہم پانی کی کمی کی بدولت خشک سالی، قحط اور تباہ حالی کا شکار ہوچکے ہوں گے۔
اس ممکنہ تباہی کا سامنا کرنے سے بچنے کے لیے آئیے ہم سب مل کر عہد کریں کہ آج ابھی اور اسی وقت سے ہم سب پانی بچائیں گے۔ اپنی نسلوں کو پیاس سے مرنے سے بچائیں گے۔ پاکستان بچائیں گے۔