پی آئی اے بدترین بحران سے دوچار

پی آئی اے کو بحران سے نکالنے کے لیے بات چیت شروع
پاکستان کی قومی ایئرلائن کو بحران سے نکالنے کا منصوبہ تیار کرنے کے لیے حکومت اور کمرشیل بینکوں کے نمائندوں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے۔ مذاکرات کا مقصد پی آئی اے کو مزید چھ ماہ تک محدود پروازوں کے ساتھ آپریشنل رکھنا ہے۔
پاکستان کی وزارت نجکاری کے ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں مقررہ کمیٹی نے لگاتار دو میٹنگیں کی ہیں۔ یہ 12 رکنی کمیٹی وفاقی حکومت اور کمرشیل بینکوں کے نمائندوں کی مساوی تعداد پر مشتمل ہے۔ کمیٹی کو پی آئی اے کو دیے جانے والے قرض کی نئی ساخت کو حتمی شکل دینے کا کام سونپا گیا ہے۔ اسے دو ہفتے کے اندر اپنی تجاویز پیش کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
نجکاری کمیشن کے نئے سکریٹری عثمان باجوہ کو کمیٹی کا کنوینر بنایا گیا ہے۔ اس کمیٹی میں وزارت خزانہ، پی آئی اے اور چھ کمرشیل بینکوں کے نمائندے شامل ہیں۔ ان چھ بینکوں نے اگست کے اواخر تک پی آئی اے کو مجموعی طورپر 230 ارب روپے کے قرضے فراہم کیے ہیں۔
پی آئی اے بدترین بحران سے دوچار، آپریشنز دوبارہ متاثر
پاکستانی میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں کے مطابق کمیٹی کو پی آئی اے کی جانب سے فوری طورپر 15ارب روپے کے قرضے کے لیے منصوبہ تیار کرنے کی ذمہ داری بھی سونپی گئی ہے، تاکہ ایندھن کے اخراجات سمیت اس کی فوری ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔
ذرائع کے مطابق پی آئی اے کے موجودہ روٹس کو آپریشنل رکھنے کے لیے ایندھن کی ماہانہ لاگت کا تخمینہ 8.5 ارب روپے لگایا گیا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر پیشہ ورانہ طریقے سے پی آئی اے کا نظم و نسق اس قومی ایئر لائن کی تاریخ کے بدترین بحران کا سبب ہےتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر پیشہ ورانہ طریقے سے پی آئی اے کا نظم و نسق اس قومی ایئر لائن کی تاریخ کے بدترین بحران کا سبب ہے
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر پیشہ ورانہ طریقے سے پی آئی اے کا نظم و نسق اس قومی ایئر لائن کی تاریخ کے بدترین بحران کا سبب ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo
پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 713 ارب روپے
رپورٹوں کے مطابق پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 713 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے، جس میں 285 ارب روپے کے قرضوں کی براہ راست ضمانت وفاقی حکومت نے دی ہے۔ اس میں وہ رقم شامل نہیں ہے جو پی آئی اے کے ذیلی اداروں نے بطور قرض لیے ہیں۔
پی آئی اے کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ بنیادی صورت حال میں، قومی ایئرلائنز کا قرضہ اور واجبات دو ٹریلین روپے تک پہنچ جائیں گے اورسن 2030 تک اس کا سالانہ خسارہ بڑھ کر 259ارب روپے ہوجائے گا۔ کمرشیل بینک خسارے سے دوچار پی آئی اے کو نئے قرض فراہم کرنے سے گریز کررہے ہیں۔
پی آئی اے کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسے آپریشنل رہنے کے لیے فوری طورپر 15ارب روپے کی ضرورت ہے اور ضروری فنڈ ز کے حصول کے لیے بات چیت ہورہی ہے۔ فی الحال اس بات کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پی آئی اے کو کم از کم مزید چھ ماہ تک محدود پروازوں کے ساتھ آپریشنل رکھا جائے۔
ایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے پچھلے دس دنوں میں پی آئی اے کی 300 سے زائد پروازیں منسوخ کردی گئیںایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے پچھلے دس دنوں میں پی آئی اے کی 300 سے زائد پروازیں منسوخ کردی گئیں
ایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے پچھلے دس دنوں میں پی آئی اے کی 300 سے زائد پروازیں منسوخ کردی گئیںتصویر: Ahmad Kamal/Xinhua/picture alliance
گزشتہ دس دنوں میں 300 سے زائد پروازیں منسوخ
دریں اثنا پی آئی اے کے ترجمان نے بتایا کہ ایندھن کی عدم دستیابی کی وجہ سے پچھلے دس دنوں میں 300 سے زائد پروازیں منسوخ کردی گئیں۔
ایندھن کی قلت کے باعث پی آئی اے کی درجنوں پروازیں منسوخ
پاکستان اسٹیٹ آئل نے واجب الادا رقوم کی ادائیگی نہ کرنے کی وجہ سے ایندھن کی فراہمی میں کمی کردی ہے۔ اس کی وجہ سے پی آئی اے کو 14اکتوبر سے بین الاقوامی روٹس پر 134سمیت 322 پروازیں منسوخ کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔
پی آئی اے کے ترجمان نے بتایا کہ منگل کے روز بھی 27 ڈومیسٹک سمیت 51 پروازیں منسوخ کردی گئیں۔
پروازوں کی اتنے بڑے پیمانے پر منسوخی کے سبب ہزاروں مسافروں کو کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر پیشہ ورانہ طریقے سے پی آئی اے کا نظم و نسق اس قومی ایئر لائن کی تاریخ کے بدترین بحران کا سبب ہے۔پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کامجموعی خسارہ 712.8 ارب روپے تک پہنچ گیا، معاشی طور پر پاکستان کو بحال اور فعال کرنے کےلئے بڑے فیصلے کرنے کا فیصلہ ،پی آئی اے کو بین الاقوامی طریقہ کار کے طرز پر پرائیوٹائز کیا جائے گا ،پاکستان میں اس وقت تین SOEs کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے، جن میں سر فہرست پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ہے ، جون2023تک پی آئی اے کا مجموعی خسارہ 712.8 ارب روپے تک جا پہنچا ہے ، پی آئی اے کو صرف چلائے رکھنے کا مالی نقصان 156 ارب روپے ہے، یہ رقم حکومت پاکستان کو ہر حال میں ادا کرنی پڑتی ہے، اِن تمام اخراجات اور نقصانات کے علاوہ پی آئی اے کے سر 435 عرب روپے کا قرض بھی واجب الادا ہے ، ایک محتاط اندازے کے مطابق پی آئی اے اپنے آپریشنز کو جاری رکھنے کے لئے روزانہ 50 کروڑ روپے کا مالی نقصان اٹھا رہی ہے، صرف پی آئی اے ٹیکس پیئرزکو پچھلے دس سالوں میں 7 بلین یو ایس ڈالرز کا نقصان پہنچا چکی ہے، اتنی رقم میں پاکستان عوام کے لئے 1 ڈیم، 10 یونیورسٹیاں، 5000 ہسپتال، ML-1 ریلوے ٹریک کی 100 فیصد اپگریڈیشن اور 80 کینسر ہسپتال بنا سکتا تھا، پی آئی اے مختلف سیاسی وجوہات کی وجہ سے، ریاستی خزانے پر نا قابل برداشت حد تک بوجھ ڈالتا رہا ہے، اس مالی نقصان سے نجات حاصل کرنے کے لئے پی آئی اے کو بین الاقوامی طریقہ کار کے طرز پر صاف و شفاف طور پر پرائیوٹائز کرنا ناگزیر ہو چکا ہے، حبیب بینک ، یونائیٹڈ بینک ، سیمنٹ سیکٹر اور ٹیلی کام سیکٹر کی مثال ہمارے سامنے ہے جو کہ پرایویٹائز ہونے کے بعد منافع بخش ہو چکے ہیں، پاکستان کو اپنے آپ کو معاشی طور پر بحال اور فعال کرنے کے لئے اب یہ بڑے فیصلے کرنے ہونگے، حکومت وقت کو پی آئی اے کے پرائیویٹائیزیشن کے عمل کو تیزی سے مکمل کرنا ہوگا تاکہ ملک کو مزید خسارے سے بچایا جا سکے۔