کمسن گھریلو ملازمین پر تشدد کے ملزموں کو سزا کی شرح ایک فیصد سے بھی کم

فیصل آباد کے نواحی گاو¿ں ستیانہ کی رہائشی 13 سالہ نجمہ مدینہ ٹاو¿ن کے ایک گھر میں گزشتہ تین سال سے بطور گھریلو ملازمہ کام کر رہی ہیں۔
ان کے دن کا آغاز صبح سورج نکلنے سے بھی پہلے ہو جاتا ہے اور اس کے بعد وہ رات گئے تک گھر کی صفائی، جھاڑو پوچا ، برتن دھونے، روٹیاں پکانے اور دیگر گھریلو کاموں کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اپنی مالکن کی 8 سالہ بیٹی اور پانچ سالہ بیٹے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری بھی ادا کرتی ہیں۔
نجمہ کے مطابق انہیں اس ملازمت کے عوض گھر والوں کا بچا ہوا کھانا کھانے اور رات کو بچوں کے کمرے کے باہر چٹائی بچھا کر سونے کے علاوہ کوئی سہولت میسر نہیں ہے جبکہ تنخواہ کے نام پر ان کے گھر والوں کو ماہانہ پانچ ہزار روپے ادا کئے جاتے ہیں۔
“مہینوں بعد بڑی مشکل سے ایک دو دن کی چھٹی ملتی ہے، چھوٹی چھوٹی باتوں پر باجی کی جھڑکیاں سننا پڑتی ہیں لیکن زیادہ تذلیل اس وقت محسوس ہوتی ہے جب ان کے بچے بھی مجھے غلاموں کی طرح مارپیٹ اور بدتمیزی کا نشانہ بناتے ہیں۔”
نجمہ کے والد وفات پا چکے ہیں جبکہ ان کی والدہ اور بڑی بہن بھی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں۔
شہر کے اس خوشحال رہائشی علاقے کے بڑے بڑے گھروں اور بلند دروازوں کے پیچھے نجمہ جیسے درجنوں بچے نوکروں کے طور پر کام کرتے ہیں جن کے ساتھ بدسلوکی اور مار پیٹ کے واقعات تسلسل سے میڈیا میں رپورٹ ہونے کے باوجود زیادہ تر ملزمان سزاو¿ں سے محفوظ رہتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ یکم مئی 2023ء کو خیابان کالونی کے ایک گھر میں پیش آیا تھا جہاں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ٹیم نے پولیس کے ہمراہ ایک گھر پر چھاپہ مار کر تشدد زدہ کمسن بہنوں 11 سالہ ایمان فاطمہ اور آٹھ سالہ زہرہ کو بازیاب کیا تھا جہاں وہ بالترتیب چار ہزار اور تین ہزار روپے ماہوار پر بطور گھریلو ملازمہ کام کرتی تھیں۔
پولیس رپورٹ کے مطابق دونوں بہنوں کے جسم پر تشدد اور زخموں کے متعدد نشانات کے علاوہ چہروں پر بھی مار پیٹ کے نشانات واضح تھے جبکہ ایک بچی کی آنکھیں سوجھی ہوئی تھیں، متاثرہ بچیوں کی طرف سے پولیس کو دیئے گئے بیان کے مطابق مالکان انہیں روٹی چرانے اور گھریلو کام ٹھیک نہ کرنے کے الزام پر اکثر تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ گرم چھری سے جسم داغتے تھے۔
پولیس نے چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی درخواست پر گھر کے مالک وقار اور اس کے بھائی بلال کو ان کی بیویوں سمیت حراست میں لے کر مقدمہ درج کیا اور میڈیکولیگل کے بعد متاثرہ لڑکیوں کو چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی تحویل میں دیدیا تھا۔
تاہم اگلے روز عدالت میں پہلی پیشی کے موقع پر ہی متاثرہ بہنوں اور ان کی والدہ نے چائلد پروٹیکشن بیورو اور پولیس کو دیئے گئے بیانات سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے ایف آئی آر میں ملزموں پر لگائے گئے الزامات سے انکار کر دیا جس پر عدالت نے اسی روز ملزموں کو رہا کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔
اسی طرح 28 مارچ 2023ئ کو تھانہ گلبرک کی پولیس نے 10 سالہ گھریلو ملازم لڑکے علی کو تشدد کے بعد گلے میں پھندہ ڈال کر قتل کر کے واقعہ کو خودکشی کا رنگ دینے کے الزام میں گھر کے مالک بلال اور شعبان کے علاوہ مقتول کو ملازم رکھوانے والے شہباز اور اس کی بیوی شبنم کیخلاف مقدمہ درج کیا تھا۔
تاہم اس مقدمہ کے تفتیشی افسر سب انسپکٹر محمد سرفراز کے مطابق ملزموں کو مقتول کے ورثائ کی جانب سے معاف کئے جانے کی وجہ سے عدالت نے رہا کر دیا تھا۔
پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے تحت فیصل آباد پولیس سے حاصل کئے گئے اعداد وشمار کے مطابق دی پنجاب ڈیسٹیوٹ اینڈ نیگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ 2004 کے تحت جنوری 2018ئ سے جولائی 2023ئ تک کے عرصے میں چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی مدعیت میں 22 مقدمات درج کر کے 53 ملزموں کو گرفتار کیا گیا۔
تاہم ان میں سے 21 مقدمات کے متاثرین عدالتوں میں پیشی کے موقع پر پولیس کو دیئے گئے بیانات سے منحرف ہوگئے جس کی بنا پر عدالتوں نے گرفتار ملزمان کو رہا کر دیا۔
واضح رہے کہ دی پنجاب ڈیسٹیوٹ اینڈ نیگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ 2004 کے سیکشن 34 کے تحت اگر کوئی شخص 18 سال سے کم عمر کسی بے سہارا یا نظر انداز کئے گئے بچے کو اپنی تحویل میں رکھتا ہے یا اس ایکٹ کی دیگر دفعات کی خلاف ورزی کا مرتکب پایا جاتا ہے تو اسے کم از کم تین ماہ اور زیادہ سے زیادہ پانچ سال تک قید کی سزا کے علاوہ دس ہزار سے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
دی پنجاب ڈیسٹیوٹ اینڈ نیگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ 2004 کے تحت بے سہارا اور نظر انداز بچوں کی حفاظت اور قانونی امداد کے لئے قائم کئے گئے ادارے چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو کی چیئرپرسن سارہ احمد نے بتایا ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے رواں سال جنوری سے اگست 2023ئ تک کے عرصے میں 4660 بچوں کو ریسکیو کیا ہے۔
“لاہور میں اب تک 1005 بچوں کو ریسکیو کیا گیا ہے، گوجرانوالہ میں 739، فیصل آباد میں 683، راولپنڈی میں 568، سیالکوٹ میں 570، ملتان میں 481، بہاولپور میں 195، ساہیوال میں 373 اور رحیم یارخان میں 44 بچوں کو ریسکیو کیا گیا ہے۔”
انہوں نے مزید بتایا کہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران چائلڈ پروٹیکشن بیورو نے تشدد اور استحصال کا شکار 42 بچوں کو تحویل میں لیا ہے جبکہ چار ہزار سے زائد بے سہارا اور لاوارث بچوں کو والدین تک پہنچایا ہے، جب سے یہ ادارہ بنا ہے مجموعی طور پر 70 ہزار کے قریب بچوں کو ریسکیو کیا جا چکا ہے جن میں گھروں سے بھاگے ہوئے، گمشدہ، بھیک مانگنے والے، گھروں میں یا مختلف ورکشاپس اور دکانوں پر کام کرنے والے بے سہارا بچے شامل ہیں۔
“گزشتہ تین سال کے دوران گھریلو تشدد کا شکار 437 بچوں کو ریسکیو کیا گیا ہے اور اس وقت تین سو سے زائد کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں لیکن تاحال کسی میں ملزموں کو سزا نہیں ہوئی ہے۔”
سارہ احمد کے مطابق ریسکیو کئے گئے بچوں کی جسمانی وذہنی صحت کی بحالی، کھانے، پینے، رہائش اور تعلیم کا انتظام چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورز میں ہی کیا جاتا ہے اور اس کے علاوہ انہیں مختلف ٹیکنیکل سکلز بھی سکھائی جاتی ہیں، اس وقت پنجاب کے دس شہروں میں چائلڈ پروٹیکشن بیورز قائم ہیں جبکہ دیگر اضلاع میں بھی بیوروز کے قیام کے لئے صوبائی کابینہ نے منظوری دیدی ہوئی ہے جس پر نئی حکومت بننے کے بعد پیشرفت شروع ہونے کی امید ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو فیصل آباد کے لیگل ایڈوائزر محمد عادل ایڈووکیٹ نے بتایا کہ اس ایکٹ کے تحت ملزموں کو سزا ہونے کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔
“عام طور پر جب عدالت میں کیس کا ٹرائل شروع ہوتا ہے تو متاثرہ بچے اور ان کے والدین شہادت کے لئے پیش ہی نہیں ہوتے ہیں، اگر کسی کیس میں متاثرہ بچے اور ان کے والدین پیش ہو بھی جائیں تو وہ اپنے بیانات سے منحرف ہو جاتے ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ جب سے دی پنجاب ڈیسٹیوٹ اینڈ نیگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ 2004 نافذ ہوا ہے پورے صوبے میں صرف ایک کیس میں ملزموں کو سزا ہوئی ہے،” ابھی دو ماہ پہلے ہی فیصل آباد میں ایک گھریلو ملازمہ بچی پر تشدد کا جرم ثابت ہونے پر ملزم اویس مجاہد اور اس کی بہن سونیا کو دو سال قید کی سزا کے علاوہ متاثرہ بچی کو چار لاکھ روپے ہرجانہ ادا کرنے کی سزا سنائی گئی ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے اسلام آباد کی عدالت نے طیبہ تشدد کیس میں ایک سول جج اور ان کی بیوی کو سزا سنائی تھی۔
واضح رہے کہ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سے تعلق رکھنے والی کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کا واقعہ دسمبر 2016ئ میں اسلام آباد میں پیش آیا تھا جس پر عدالت نے اپریل 2018ئ میں سابق ایڈیشنل سیشن جج راجہ خرم علی اور ان کی اہلیہ ماہین ظفر کو ایک، ایک سال قید اور پچاس، پچاس ہزار روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔
عادل ایڈووکیٹ نے بتایا کہ یکم مئی 2023ئ کو بازیاب کروائی گئی متاثرہ بہنیں ایمان فاطمہ اور زہرہ عدالت کے سامنے 164 کے تحت دیئے گئے بیان سے منحرف ہو گئی تھیں،انہوں نے عدالت میں بیان دیا تھا کہ ان کی بجائے اس گھر میں ان کی والدہ ملازمت کرتی تھیں اور وہ تشدد کی بجائے کھیلتے ہوئے سیڑھیوں سے گر کر زخمی ہوگئی تھیں۔
“ہم متاثرہ بچوں اوران کے والدین کی ماہر نفسیات کے ذریعے کونسلنگ کرتے ہیں کہ اگر آپ اپنے بیان پر قائم رہیں گے تو ملزموں کو سزا بھی ملے گی اور آپ کو ہرجانہ بھی دلوایا جائے گا لیکن وہ دو تین سال ٹرائل مکمل ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے ملزموں سے ملنے والے فوری مالی فائدے کے حصول کو ترجیح دیتے ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کم عمر بچہ کسی گھر میں بطور گھریلو ملازم کام کر رہا ہے تو اس پر کارروائی کرنے کی ذمہ داری لیبر ڈیپارٹمنٹ پر عائد ہوتی ہے لیکن اگر کوئی گھریلو ملازم بچہ تشدد اور استحصال کا شکار ہے تو اس پر چائلد پروٹیکشن بیورو کارروائی کرنے کا مجاز ہے، گھریلو ملازمت کے نام پر جاری چائلڈ لیبر کی روک تھام کیلئے پنجاب حکومت نے 2019ئ میں دی پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ئ متعارف کروایا تھا۔
اس ایکٹ کے سیکشن 3 کے مطابق 15 سال سے کم عمر کے کسی بچے کو کسی بھی گھر میں ملازم رکھنے کی اجازت نہیں ہے، خلاف ورزی کی صورت میں 12 سال سے کم عمر کے بچے کو ملازم رکھنے والے فرد کو ایک ماہ تک قید جبکہ 15 سال سے کم عمر کے بچے کو ملازم رکھنے کی صورت میں 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔
اس قانون کے تحت 15 سال سے زیادہ لیکن 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو صرف ہلکے کام کے لئے گھریلو ملازم رکھا جا سکتا ہے، ہلکے کام کی تعریف ایکٹ میں ان الفاظ میں کی گئی ہے کہ “ایسی تمام سرگرمیاں جو بچے کی صحت، سلامتی اور تعلیم پر منفی اثر نہ ڈالتی ہوں۔”
اس بارے میں رائٹ ٹوانفارمیشن ایکٹ کے تحت لیبر ڈیپارٹمنٹ فیصل آباد کو دی گئی درخواست کے جواب میں بتایا گیا ہے کہ دی پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ئ کے سیکشن 35 کے تحت 15 سال سے کم عمر بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے والے شہریوں کے خلاف کارروائی کے لئے ابھی تک لیبر انسپکٹرز کو نوٹیفائی ہی نہیں کیا گیا ہے۔
اس قانون کے سیکشن 36 میں یہ پابندی بھی عائد کی گئی ہے کہ کسی شکایت کے موصول ہونے یا سیکشن 25 کے تحت تشکیل دی گئی ڈسپویٹ ریزولوشن کمیٹی کی ڈائریکشن کے بغیر کسی گھر کی انسپکشن نہیں کی جا سکتی ہے،تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ اس ایکٹ کے تحت تاحال حکومت کی طرف سے ڈسپویٹ ریزولوشن کمیٹیوں کی تشکیل بھی نہیں کی جا سکی ہے۔
پنجاب چائلڈ لیبر سروے 20-2019ئ کے مطابق چائلد لیبر کے طور پر کام کرنے والے پانچ سے 14 سال تک کی عمر کے بچوں کی تعداد 38 لاکھ سے زائد ہے، ان میں سے 48 فیصد بچے نامناسب ماحول اور 9 فیصد بچے خطرناک صنعتوں یا پیشوں سے وابستہ ہیں جبکہ 13 فیصد بچے رات کے اوقات میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق چائلڈ لیبر کے طور پر گھروں میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد دو فیصد ہے اور ان کی مجموعی تعداد 76 ہزار سے زائد ہے۔
بچوں کے تحفظ کے لئے کام کرنے والی سماجی تنظیم ساحل کی آخری ششماہی رپورٹ کے مطابق جنوری سے جون 2023ئ کے دوارن مجموعی طور پر 2227 بچوں کو جسمانی و جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں 1207 لڑکیاں اور 1020 لڑکے شامل ہیں۔
ساحل کے لیگل ایڈوائزر امتیاز احمد سومرہ نے بتایا ہے کہ گھریلو ملازم کے طور پر کام کرنے والے بچوں پر تشدد اور استحصال کے کیسز میڈیا میں بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی درست تعداد کا اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔
“رضوانہ تشدد کیس بھی میڈیا کی وجہ سے رپورٹ ہوا ہے اور اس سے پہلے بھی ایک سول جج کے گھر پر تشدد کا نشانہ بننے والی بچی طیبہ کا کیس میڈیا کی وجہ سے رپورٹ ہوا تھا، اس کے علاوہ حکومتی سطح پر اس طرح کے واقعات کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کا کوئی میکانزم موجود نہیں ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں میں بچوں کے استحصال کے کیس بہت کم رپورٹ ہوتے ہیں اور اگر کوئی کیس رپورٹ ہو بھی جائے تو اسے پولیس یا عدالت میں جانے سے پہلے ہی دبا دیا جاتا ہے۔
“بچوں کے ساتھ بدسلوکی پاکستان میں عام ہے اور غربت کی وجہ سے متاثرین کے لئے قانونی مدد کا حصول ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، اس حوالے سے دستیاب معلومات کے مطابق جنسی، جسمانی یا جذباتی استحصال کا شکار 70 فیصد بچے قانون تک رسائی سے محروم رہتے ہیں۔”
انہوں نے بتایا کہ دی پنجاب ڈیسٹیوٹ اینڈ نیگلیکٹڈ ایکٹ 2004 اور دی پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019 کے مقابلے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 328 اے زیادہ موثر ثابت ہو سکتی ہے جو کہ بچوں کے خلاف تشدد و دیگر جرائم کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔
“2016 میں تعزیرات پاکستان میں ترمیم کر کے دفعہ 328 اے کو متعارف کرایا گیا تھا جس میں ایسے جرم کو ناقابل ضمانت قرار دیا گیا تھا، اس دفعہ کے تحت بچوں کے ساتھ ظلم کا ارتکاب کرنے والے کسی بھی شخص کو ایک سے تین سال تک قید اور 25 سے 50 ہزار روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ حکومت نے قانون تو بنا دیئے ہیں لیکن اس کی اونر شپ نہیں لی جاتی جس کی وجہ سے کسی قانون پر بھی مکمل طور پر عملدرآمد نہیں ہو رہا ہے۔
ڈومیسٹک ورکرز اور خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی سماجی تنظیم وومن ان سٹرگل فار ایمپاورمنٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر بشری خالق نے بتایا ہے کہ ان کی تنظیم کی طرف سے جنوری 2019 سے فروری 2021ئ تک جمع کئے گئے اعدادوشمار کے مطابق صرف پنجاب میں گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے خلاف جسمانی اور جنسی تشدد کے 74 کیس رپورٹ ہوئے جن میں سے 15 واقعات میں متاثرہ بچے تشدد کی زیادتی کے باعث دم توڑ گئے یا انہیں قتل کر دیا گیا۔
” پاکستان کے ہر چوتھے گھر میں بچے بطور گھریلو ملازم کام کر رہے ہیں، ان پر تشدد بھی ہوتا ہے، انہیں جنسی استحصال اور زیادتی کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے اور اکثر واقعات میں ایسے بچوں کی اموات بھی ہو جاتی ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ اس غیر قانونی اور غیر انسانی فعال کو روکنے کے لئے جب تک بچوں کو گھریلو ملازم رکھنے کے عمل کو ہر سطح پر جرم قرار نہیں دیا جائے گا اس طرح کے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ہے۔
چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی طرف سے ریسکیو کئے گئے بچوں کی نفسیاتی و ذہنی صحت کی بحالی کے لئے کام کرنے والی چائلد سائیکالوجسٹ ماریہ حسین نے بتایا ہے کہ تشدد اور استحصال کا شکار بچے عموما لمبے عرصے تک نفسیاتی مسائل کا شکار رہتے ہیں۔
“ایسے بچے مستقل طور پر اعتماد کی کمی، بے چینی، افسردگی اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں دوسرے بچوں کے ساتھ گھلنے ملنے میں بھی مشکل پیش آتی ہے۔”
انہوں نے بتایا کہ جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار بچوں کی بحالی کے لئے اقدامات ان کی عمر اور مسئلے کی نوعیت کے لحاظ سے مختلف ہوتے ہیں، “ایسے بچوں کی نفسیاتی بحالی کے لئے ان کی سائیکو تھراپی کی جاتی ہے تاکہ ان کا اعتماد بحال ہو سکے اور وہ ایک نارمل انسان کی طرح زندگی گزار سکیں۔”
انہوں نے بتایا کہ ایسے بچوں کے والدین اور دیگر اہلخانہ کی بھی کونسلنگ کی جاتی ہے تاکہ وہ بچے کو درپیش مسائل کو سمجھ کر اس کی ذہنی صحت کا خیال رکھ سکیں۔
الائیڈ ہسپتال II (ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال فیصل آباد) میں تعینات ماہر نفسیات جواہرہ احسان نے بتایا کہ جسمانی و جنسی تشدد کے شکار بچے لمبے عرصے تک ٹراما کا شکار رہتے ہیں اور اگر ان کی نفسیاتی بحالی کا کام بروقت شروع نہ کیا جائے تو ان کے خودکشی کرنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے۔
جواہرہ احسان کے مطابق تشدد کا شکار بچوں کو سب سے پہلے تحفظ کا احساس دلانا چاہیے اور انہیں ٹراما سے بچانے کے لیے بار بار پچھلے واقعات ان کے سامنے دہرانے سے گریز کرنا چاہیے۔