کیا خاموشی ہمیں بچا لے گی؟ غاصب اسرائیل، فلسطینی جذبے کو شکست نہیں دے سکتا

مسلم دنیا نے فلسطین کے جذبہ حریت کی حمایت تو کی لیکن کسی نے جنگ میں ان کی معاونت نہیں کی۔
حماس نے اسرائیل پر گزشتہ دنوں حملہ کیا جس کے بعد اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کو مسلسل نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسرائیلی فوج ظلم و بربریت کی ہر روز ایک نئی داستان رقم کررہی ہے۔ اسرائیلی حملوں میں انسانی حقوق کا خیال بھی نہیں کیا جارہا اور اسپتال تک کو نشانہ بناکر سیکڑوں افراد کو شہید کیا گیا۔ اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والوں میں کمسن بچے بھی شامل ہیں جنہیں یہ تک علم نہیں کہ اسرائیل اور فلسطین ہے کیا اور ان کے درمیان تنازع کیا ہے۔
امریکا، بھارت اور ان جیسے کئی دیگر عالمی دہشتگرد اسرائیلی حملوں کو یہ کہہ کر درست قرار دے رہے ہیں کہ جنگ کی ابتدا فلسطینی حریت پسند تنظیم حماس نے کی۔ ایک لمحے کو اس معاملے کے پس منظر کا جائزہ لیجئے، ایک طرف اسرائیل ہے جو کہ ایک ملک نہیں بلکہ ایک بین الاقوامی قبضہ گروپ کا آلہ کار ہے۔ اسرائیل نامی قبضہ گروپ نے مسلمانوں کی ریاست کے ایک حصے پر قبضہ کر رکھا ہے۔ حماس اور اہل فلسطین اگر حملہ کرتے بھی ہیں تو اپنی زمین وا گزار کرانے کےلیے۔ اس کے باوجود مسلم دنیا کے ایک رہنما فضل الرحمٰن جن کا تعلق پاکستان سے ہے، وہ فلسطینوں اور حماس کے مجاہدین سے کہتے ہیں کہ انسانی حققوق کا خیال رکھا جائے۔ یہی تو اسلام کی تعلیم ہے کہ جنگ میں عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور ان افراد کو نشانہ نہ بنایا جائے جو جنگ کا حصہ نہیں۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ مسلم دنیا نے فلسطین کے جذبہ حریت کی حمایت تو کی لیکن کسی نے جنگ میں ان کی معاونت نہیں کی۔ کسی نے اسلحہ فراہم نہیں کیا، کسی نے افرادی قوت فراہم نہیں کی۔
دوسری جانب اسرائیل کی حمایت کرنے والی طاقتیں ظلم و بربریت کی داستان رقم کرنے میں کھل کر اس کی معاونت کررہی ہیں۔ امریکا نے جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیلی وزیراعظم سے کئی بار رابطہ کیا اور اسلحے سے بھرا جہاز بھی اسرائیل بھجوایا۔ امریکی صدر نے امریکی بحریہ کا سب سے جدید طیارہ بھی اسرائیل بھجوانے کا حکم دیا۔ جہاں مسلم حکمران فلسطین کا نام لینے سے قبل بھی دس بار سوچ رہے ہیں، وہیں امریکی سیکریٹری خارجہ اسرائیل کا دورہ بھی کر آئے ہیں۔ اقوام متحدہ نامی ایک بے مقصد تنظیم کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر بھی امریکا اسرائیل کی اقوام متحدہ میں ہر طرح کی حمایت کھل کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا نے اقوام متحدہ میں 80 سے زائد بار ویٹو کا حق استعمال کیا ہے، جن میں سے چالیس سے زائد بار یہ حق اسرائیل کے تحفظ اور ناجائز دفاع میں استعمال کیا ہے۔
دنیا کے سب سے جدید ترین ٹیکنالوجی اور اسلحہ سے لیس ایٹمی طاقت اور دنیا کے نظام کو درپردہ چلانے کے دعویدار چار گھنٹوں کے دوران ان فلسطینی مجاہدین سے ذلت آمیز شکست کھا گئے کہ جن کے پاس کھانے کو مکمل خوراک بھی نہیں۔
مٹھی بھر مزاحمت کاروں نے مشرق وسطیٰ میں بدمعاشی مچانے والے اسرائیل کو ایسی نکیل ڈالی کہ جس کی پشت پر جرمنی، فرانس، اٹلی، امریکا اور برطانیہ جیسی طاقتیں موجود تھیں، حتیٰ کہ خود اقوام متحدہ جس چھوٹے سے ناجائز ملک کے سامنے بے بس نظر آتی ہے لیکن چند سو فلسطینی مزاحمت کاروں نے اس غیر قانونی صہیونی ریاست اسرائیل کو زمین، سمندر، فضا حتیٰ کہ بین القوامی سطح پر بھی شکست فاش سے ہمکنار کیا کہ اب اسرائیل کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں اور اپنی خفت مٹانے کےلیے آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا سہارا لے کر بچوں اور خواتین کی سربریدہ لاشیں بناکر اور انتہائی بربریت کی تصاویر تیار کرکے عالمی سطح پر حمایت حاصل کرنے کی ناکام کوششیں کررہا ہے۔
یہ سچ ہے کہ چند سو فلسطینی مزاحمت کاروں نے اسرائیل کی قسمت میں اب کبھی نہ مٹنے والی ذلت لکھ دی۔ سات اکتوبر کو صبح پانچ بجے حماس کے جانبازوں نے اسرائیل پر تینوں محاذوں سے ایسا حملہ کیا کہ عالمی سطح پر خود کو ناقابل تسخیر قرار دینے والے صہیونی ملک کو چاروں خانے چت کردیا۔ مزاحمت کاروں نے غزہ کے بارڈر سے ملحقہ باڑ، جس کو اسرائیلی سمجھتے تھے کہ حماس کیا دنیا کی کوئی دوسری جدید ترین فوج بھی آسانی سے پار نہیں کرسکتی اور ان کا ایسا سمجھنا خیر درست بھی تھا کیونکہ وہاں سیکیورٹی کے انتظامات ہی اس معیار کے تھے۔ وہاں پہلے ایک آ ہنی باڑ، پھر موشن سینسر، کیمرے، کنکریٹ کی دیوار، جو 14 سے 16 فٹ تک گہرائی میں بنائی گئی تھی، اس کے بعد فوجی پٹرولنگ کےلیے بنایا گیا روڈ اور پھر اس کے بعد مانیٹرنگ ٹاورز اور اس کے بعد فوجی چوکیاں موجود تھیں۔
اس قدر سخت انتظامات کے بعد اسرائیلیوں کا اطمینان جائز بھی تھا۔ ان تمام کے بعد ان کا عالمی غرور ان کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی موساد، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کسی بھی ملک میں گھس کر اپنا ہدف حاصل کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی، لیکن ہوا کیا؟
گزشتہ ساڑھے سولہ سال سے بدترین معاشی ناکہ بندی کا شکار مقبوضہ فلسطین کے محصور شہر غزہ کے مٹھی بھر جنگجوو¿ں نے اس عالمی بدمعاش کا غرور ایسے خاک میں ملادیا کہ اسرائیل کو اب تک سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ وہ اس پر ردعمل کیا دے اور اسی ذلت کے احساس میں اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری شروع کی۔ اسرائیل نے غزہ پر 10 روز میں دس ہزار بم گرائے۔ یہاں یہ بات بتاتا چلوں کہ افغانستان میں امریکا نے اتنے بم ایک سال میں اور شام کی جنگ میں تمام نیٹو ممالک نے 2011 سے 2020 تک 7 ہزار 700 بم گرائے تھے لیکن اسرائیل نے اپنی ذلت آمیز شکست کو چھپانے اور اپنی خفت مٹانے کےلیے صرف 10 روز کے دوران 10 ہزار کے قریب بم گرائے۔ اسرائیل اپنی بربریت میں اتنا آگے بڑھ گیا کہ اس نے اسپتالوں تک کو نشانہ بنانے سے گریز نہیں کیا۔ لیکن اس کے باوجود اسرائیل اس جذبے کو شکست دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔
اسرائیل مغربی ایشیا کا سب سے تیزی سے ترقی کرنے والا ترقی یافتہ ملک ہے، جس کے پاس دنیا میں 17 ویں سب سے زیادہ غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر ہیں اور مشرق وسطیٰ میں فی کس مالیاتی اثاثوں کے لحاظ سے دنیا بھر میں 10 واں ملک ہے۔ غیر قانونی صہیونی ریاست کی معیشت ویسے تو ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ دیگر شعبہ جات میں بھی منفرد مقام رکھتی ہے لیکن یہ ملک پوری دنیا میں اسلحہ پروڈکشن اور سپلائی میں نواں سب سے بڑا ملک ہے۔ اسلحے کی فروخت اسرائیل کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ صہیونی ریاست کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس میں مشرق وسطیٰ میں سب سے زیاددہ ارب پتی شخصیات موجود ہیں۔ گزشتہ چند سال میں صہیونی ریاست نے ترقی یافتہ ممالک میں سب سے زیادہ جی ڈی پی کی شرح نمو حاصل کی ہے۔
ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کی معیشت پر نظر رکھنے والے عالمی جریدے دی اکانومسٹ نے 2022 میں غیر قانونی صہیونی ریاست کو ترقی یافتہ ممالک میں چوتھی کامیاب ترین معیشت قرار دیا تھا۔ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے 2023 میں غیر قانونی صہیونی ریاست کی جی ڈی پی 564 بلین امریکی ڈالر اور اس کی فی کس جی ڈی پی 58,270 امریکی ڈالر (دنیا میں 13 ویں سب سے زیادہ) کا تخمینہ لگایا تھا۔ اسرائیل کو 2010 میں اقتصادی تعاون اور ترقی کی تنظیم (OECD) میں شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی۔
اسرائیل نے امریکا، یورپی یونین، یورپی فری ٹریڈ ایسوسی ایشن، میکسیکو، ترکی، یوکرین، کینیڈا، مصر اور اردن کے ساتھ بھی آزاد تجارتی معاہدے کیے ہیں۔ صہیونی ریاست 2007 میں، پہلا غیر لاطینی – امریکی ملک بن گیا جس نے مرکوسور تجارتی بلاک کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے پر دستخط کیے۔ یہاں یہ تفصیلات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اسرائیل اگر خود کو ناقابل تسخیر قرار دیتا ہے تو اس میں وہ خصوصیات اور صلاحیتیں موجود ہیں جس کی بنیاد پر کسی ملک کو ناقابل تسخیر قرار دیا جاسکتا ہے۔
اسرائیل دنیا میں وار ٹیکنالوجی، اسٹرٹیجک ٹیکنالوجی اور جاسوسی کی ٹیکنالوجی کے حوالے سے بھی پہلے نمبر پر آتا ہے جو پوری دنیا کو اپنی یہ ٹیکنالوجی انتہائی مہنگے داموں فروخت کرتا ہے۔
اسرائیل کے معروف اخبار ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق صہیونی ریاست کی اسلحہ سے حاصل برآمدات کی آمدنی عالمی ک±ل کا 2.4 فیصد بنتی ہے، جس کے وصول کنند گان میں بھارت، آذربائیجان اور ویتنام سرفہرست ہیں۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی تازہ ترین رپورٹ، جس میں 2017 سے 2021 تک ہتھیاروں کی تجارت کی پیمائش کی گئی، کہا گیا ہے کہ یورپ کو ہتھیاروں کی تجارت میں اضافہ ہوا، خلیجی ریاستیں درآمد کنندگان میں سب سے آگے ہیں اور اسرائیل ان کو ہتھیار فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
سات اکتوبر 2023 سے پہلے اسرائیل دنیا میں ایک غیر معمولی صلاحیتوں کا ملک مانا جاتا تھا اور اس کی معیشت ان ٹیکنالوجی کی فروخت پر منحصر تھی، اس کی قلعی حماس کے چند سو جنگجوو¿ں نے کھول دی ہے۔
اس تمام تر ٹیکنالوجی کے ساتھ امریکا سمیت مغربی دنیا کی غیر معمولی حمایت کے باوجود غزہ کے محصور فلسطینیوں نے محض چار گھنٹوں کے دوران دنیا کے سامنے اسرائیل کی شان و شوکت کو بری طرح تباہ کردیا۔ یہاں فلسطینیوں کے ہاتھوں اس دس دن کے دوران ہونے والے ناقابل تلافی نقصان کی مختصر تفصیلات دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
حماس کے 15 سو کے قریب جانبازوں نے غیر قانونی صہیونی ریاست پر حملہ کیا جن کے پاس صرف مشین گنز تھیں، حماس کے عسکری ونگ شہید عزالدین القسام بریگیڈ نے مسجد اقصیٰ کی مسلسل بے حرمتی اور مسجد اقصیٰ کو ڈھائے جانے کی صہیونی سازش اور مغربی کنارے سمیت غزہ میں نہتے فلسطینیوں کو قتل کرنے کے ساتھ ساتھ بغیر کسی جرم کے انتظامی حراست کی غیر قانوی پالیسی کے تحت برسوں کےلیے قید کرنے کے خلاف طوفان الاقصیٰ آپریشن کا اعلان کیا اور سات اکتوبر 2023 کو صبح پانچ بجے القسام بریگیڈ کے جانبازوں نے غیر قانونی صہیونی ریاست اسرائیل پر تین محاذوں، فضا، زمین اور سمندر کے راستے حملہ کردیا۔
اس آپریشن میں القسام کے جانبازوں نے اب تک کی معلومات کے مطابق 300 اسرائیلی فوجیوں سمیت 1900 صہیونی آبادکاروں کو جہنم واصل کیا۔ اب تک بہت سے فوجی لاپتہ اور بہت سے شدید زخمی ہیں، جس کے بعد اسرائیلی فوج کا جانی نقصان 500 سے تجاوز کرکے بتایا جارہا ہے۔ پانچ ہزار کے قریب فوجی اور صہیونی آبادکا رزخمی ہیں۔ امریکی، برطانوی اور فرانسیسیوں سمیت 250 کے قریب اسرائیلی فوجی اور اسرائیلی شہری مجاہدین کی قید میں، جن میں 64 فوجی اور 13 اعلیٰ درجے کے فوجی افسر بتائے جارہے ہیں۔ مجاہدین کی جانب سے اب تک صہیونی ریاست میں 10000 کے قریب راکٹ فائر کیے جاچکے ہیں جس نے ایشدود، حیفا، سدیروت، اسقلان، تل ابیت اور یروشلم کو بے تحاشا نقصان پہنچایا ہے۔ اسرائیل کے مرکزی ایئرپورٹ بین گوریان کو بھی نشانہ بنایا گیا جس کے بعد فی الحال ایئرپورٹ کو بند کردیا گیا۔
مزاحمت کاروں کے حملوں کے باعث چھ لاکھ کے قریب اسرائیلی شہری غیر قانونی صہیونی بستیوں کو چھوڑ گئے۔ ان میں سے زیادہ تر یا تو اپنے گھروں سے محروم ہوگئے ہیں یا پھر حماس کے راکٹوں سے بچنے کےلیے اپنے گھروں کو چھوڑ کر شیلٹر ہاو¿س میں رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق سابق اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ سمیت 3 لاکھ اسرائیلی ملک سے فرار ہوچکے ہیں۔
اسرائیلی دفاعی نظام آئرن ڈوم، جس کو اسرائیل صرف مخصوص ممالک کو فروخت کرنے کو تیار تھا اور جس کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ 99 فیصد کامیابی سے اپنے ہدف کو حاصل کرتا ہے، مزاحمت کاروں کے حملوں کے باعث اس کی کاردگی صرف 19 فیصد رہی جو کہ کسی چھوٹے ترقی پذیر ملک کے دفاعی نظام سے بھی بہت پیچھے ہے۔
القسام کے جانبازوں نے غیر قانونی صہیونی افواج کی چھوٹی بڑی 21 فوجی چھاو¿نیاں، 18 فوجی ٹینک، 29 فوجی بکتر بند گاڑیاں اور لبنان و غزہ کی سرحد پر نصب متعدد ریڈار اور سینسر ٹاورز کو مکمل تباہ کردیا ہے۔ جانبازوں نے صہیونی فوج کے تین فوجی ہیلی کاپٹرز کو بھی تباہ کیا جس میں سے ایک میں 50 فوجی سوار تھے۔ یہ غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے غیر قانونی قیام کے بعد سے اب تک کا سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان ہے جو تاحال جاری ہے۔
میں یہاں اسرائیلی افواج کے ہاتھوں غزہ میں ہونے والی وحشیانہ بمباری اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی اور مالی نقصان کا ذکر نہیں کروں گا، کیونکہ غزہ کا نقصان گزشتہ 70 سال سے روزانہ کی بنیاد پر ہورہا ہے۔ غزہ مقبوضہ فلسطین کا وہ محصور شہر ہے جہاں 22 لاکھ کی آبادی میں آٹھ لاکھ لوگ بے روز گار ہیں اور باقی تمام آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ایسے مجبور شہر کا ایک ملٹری بیسٹ کے ہاتھوں نقصان ہونا طے ہے لیکن ایسے افراد کے ہاتھوں جن کے پاس دو وقت کی روٹی بھی میسر نہ ہو، ان کے ہاتھوں ایک بہت بڑی فوجی طاقت کو اتنا زبردست نقصان تاریخ میں لکھے جانے کے قابل ہے۔
حماس کے جنگجوو¿ں کے ہاتھوں تاریخی شکست پر اسرائیل اپنی ہزیمت مٹانے کےلیے دنیا بھر کی جانب سے جنگ بندی اور عام شہریوں کے قتل عام کو فوری طور پر روکے جانے کے مطالبے کو نظر انداز کرتے ہوئے غزہ پر مسلسل بمباری جاری رکھے ہوئے ہے۔ اسرائیل نے غزہ کے شمالی علاقے کے گیارہ لاکھ سے زائد افراد کو 24 گھنٹوں کے دوران اپنے گھروں کو چھوڑ کر جنوبی علاقے میں نقل مکانی کا حکم دیا تھا اور نقل مکانی کرنے والے بچوں اور خواتین پر دانستہ بمباری کرکے ایک بار پھر سنگین جنگی جرائم کا مرتکب ہوا۔ اس بدترین انسانی حقوق کی خلاف وزری کے بعد اسرائیلی نے غزہ پر زمینی حملے کا اعلان کیا۔ آخری اطلاعات تک اسرائیل غزہ میں زمینی حملہ کرکے حماس کو مکمل طور پر ختم کرنے کے عزم کا اعلان کرچکا ہے لیکن دوسری جانب حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ نے اسرائیل کو غزہ میں خوش آمدید کہتے ہوئے غزہ میں جلد آنے کی دعوت دی ہے۔
القسام بریگیڈ کے ترجمان ابو عبیدہ نے ایک ویڈیو پیغام میں اسرائیل کو کہا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ اسرائیلی فوج زمینی راستے کو استعمال کرتے ہوئے غزہ میں داخل ہو تاکہ ہم غزہ کو صہیونی فوج کا قبرستان بناسکیں۔ لیکن گیارہ روز گزر جانے کے باجود اسرائیلی فوج غزہ میں داخل ہونے کی جرآت نہیں کررہی۔
گزشتہ روز امریکا نے القسام کے عزائم کو بھانپتے ہوئے اسرائیل کو غزہ میں زمینی کارروائی سے منع کرتے ہوئے کہا تھا کہ غزہ پر زمینی کارروائی اسرائیل کےلیے نقصان دہ ہوگی اور اب سب ہی جانتے ہیں کہ اسرائیل حماس کو شکست دینے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ اسرائیل نے حماس کو ختم کرنے کےلیے 2008 میں لبنان سے بدترین شکست کھانے کے بعد بھی قسم کھائی تھی، پھر 2011 میں قسم کھائی، پھر 2014 اور 2018 کے بعد بھی کئی ایسے مواقع آئے جس میں اسرائیل نے حماس کو روئے زمین سے ختم کرنے کی قسم کھائی لیکن اس کے بعد آج جس تاریخی شکست کا سامنا کیا ہے امید ہے کہ اسرائیل مستقبل میں حماس سے ٹکرانے کی غلطی نہیں کرے گا۔
اسرائیل ہے کیا؟ کیا یہ کوئی سپر پاور ہے؟ اسرائیل کی کل آبادی صرف 80 لاکھ ہے جبکہ مسلمان ایک عشاریہ آٹھ بلین ہیں۔ مسلم اقوام نے اپنے تحفظ کےلیے کئی ممالک کی مشترکہ افواج بھی جوڑ رکھی ہیں۔ مسلم ممالک ایٹمی قوت بھی ہیں۔ مسلم ممالک کے پاس پیسے کی کوئی کمی نہیں اور نہ ان کے پاس وسائل کی کمی ہے۔ ہاں اگر کمی ہے تو ایمان کی اور جنگ بدر کے 313 مجاہدین والے جذبے کی۔ یہی وہ چند اسباب ہیں جن کے باعث دنیا بھر کے مسلمان باتوں یا بددعاو¿ں سے فلسطین کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اول تو یہ سمجھنا کہ مسلمان کچھ نہیں کرسکتے، وہ دنیا میں مظلوم ہیں، تو اس سے بڑا ڈھونگ کوئی نہ ہوگا۔ وسائل و اسباب کے باجود مسلم حکمرانوں کی یہ خاموشی و گمشدگی صرف قرضوں میں ڈوبنے کی وجہ سے یا اپنی تجارت بچانے کی وجہ سے ہے۔ اسرائیل اور اس کے حمایتیوں نے یا تو مسلم ممالک کو قرضہ دے کر سر نِگوں کر رکھا ہے یا پھر ان سے تجارتی معاہدے کرکے انہیں مظلوم مسلمانوں سے منہ موڑنے پر مجبور کیا ہوا ہے۔
اسرائیلیوں حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے، کیا وہ حماس کا حصہ تھے؟ اگر نہیں تو پھر عالمی طاقتوں کی بے حسی کیا ظاہر کرتی ہے؟ مسلم حکمران فلسطین کی عملی مدد تو کیا کرتے وہ تو ان حملوں کو رکوانے کےلیے بھی کوئِی بھاگ دوڑ کرتے دکھائی نہیں دے رہے۔ بیانات اور لفظی جدوجہد سے تو اسرائیل حملوں سے باز آنے سے رہا۔ اسرائیل کتنا طاقتور ہے، اسرائیل کا دفاعی سسٹم کس قدر منظم ہے، ان ساری باتوں سے تو حماس کے حملوں نے پردہ اٹھا دیا۔ مسلم حکمران اگر آج اس نیت سے خاموش ہیں یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں کہ امریکا اور اسرائیل ان کو کوئی نقصان نہ پہنچادیں تو یاد رکھیے گریٹر اسرائیل کا خواب انہیں کسی ناپاک عزم سے باز نہیں رکھے گا۔ آج قبلہ اول پر قبضہ ہے۔ اگر مسلم حکمران اسی طرح مسنگ پرسن کی طرح گمشدہ رہے تو خدا نہ کرے کل یہ پیش قدمی قبلہ دوم کی جانب بھی ہوسکتی ہے۔ افغانستان، عراق، شام، لبنان، فلسطین اور دیگر مسلم ریاستوں میں خون کی ہولی کھیلنے والے کیوں کر وسائل سے مالا مال مسلم دنیا کے دیگر ممالک پر حملے سے باز رہیں گے؟
یہ بے حسی پوری مسلم امہ کےلیے انتہائی خطرناک ہے۔ یہ وقت ایک ہونے اور مشترکہ کوششوں کا ہے۔ اہل فلسطین پر ہونے والے مظالم کا حساب تو ہمیں آخرت میں دینا ہی ہوگا لیکن خاموش رہنے کا خمیازہ شاید ہمیں دنیا میں ہی بھگتنا پڑے گا۔