ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا

تزئین حسن
1903 میں ایک امریکی سیاح الیزورتھ ہنٹنگٹن نے سرینگر سے کارگل اور لداخ کے ذریعے مشرقی ترکستان (چین کے زیر کنٹرول سنکیانگ) کا سفر کیا۔ وہاں چھ ماہ گزارنے کے بعد اس کا کہنا تھا کہ مشرقی ترکستان میں غلّہ، میوہ جات، معدنیات وافر مقدار میں پائی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ہیرا اور سونا بھی پایا جاتا ہے، لیکن خوش حال ہونے کے باوجود یہاں کے لوگوں کی سوچ بہت محدود ہے۔ انہیں نئے آئیڈیاز سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ لوگ اپنے گھر اور کھیت سے آگے اجتماعی مفاد کے کسی کام کےلیے مشکل سے ہی کچھ سوچنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔
مشرقی ترکستان (سنکیانگ)، چین کے زیر حکومت دوسرے علاقوں کے مقابلے میں انتہائی زرخیزعلاقہ ہے۔ اس کا رقبہ چین کے رقبے کا اٹھارہ فیصد اور آبادی چین کی ڈیڑھ ارب کی آبادی کے مقابلے میں صرف 26 ملین ہے۔ اس کی سرحدیں پاکستان سمیت آٹھ ممالک اور جموں کشمیر، گلگت بلتستان اور تبت کے متنازع علاقوں سے ملتی ہیں۔ اس کا محل وقوع انتہائی اسٹرٹیجک ہے اور اسی وجہ سے چین کا گلوبل منصوبہ بیلٹ اینڈ روڈ اس خطے سے ہوکر گزرتا ہے۔
قدیم زمانوں سے ہی اس کے شہر کاشغر، یارقند، خوتن کے تجارتی مراکز یورپ کو چین سے ملانے والی قدیم شاہراہ ریشم کا حصہ تھے، لیکن یہ سب فوائد اور دولت ہوتے ہوئے بھی یہاں کے باسیوں میں اپنا دفاع کرنے کی طاقت نہیں تھی۔ آج وہاں ہمارے ایغور بھائی چین کا بدترین ظلم برداشت کر رہے ہیں۔ یہ تاریخ کا بدترین مذہبی ظلم اور استبداد ہے جو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مظلوم ایغور بھائیوں پر مسلط ہے۔ اس معاملے کا سطحی سا جائزہ بھی یہ بات واضح کرتا ہے کہ جس جرم کی سزا ایغور عوام بھگت رہے ہیں وہ جرم ضعیفی ہے۔
پامیر کے اس پار مغربی ترکستان یعنی موجودہ روس سے آزاد شدہ وسط ایشیائی ریاستوں کا بھی یہی حال تھا جو بعد ازاں ایک ایک کرکے کمیونسٹ روس کی جھولی میں گرتی چلی گئیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہزاروں کی تعداد میں علوم کے مرکز یعنی مدرسے موجود تھے، لیکن اس تعلیمی نظام میں جو دین اور دنیا دونوں کی ضروریات کو پورا کرنے کےلیے ڈیزائن کیا گیا تھا، دیگر بہت سے دنیوی معاملات کی طرح ملکی دفاع کے تقاضوں کو پورا کرنے کی اہلیت نہیں تھی۔ جہاد کا نظریہ تو موجود تھا مگر اس کی دوررس تیاری کےلیے علم اور تحقیق کا کوئی کلچر مسلم دنیا میں پندرھویں، سولہویں، سترھویں صدی میں موجود نہیں تھا۔ حالانکہ ترکستان وہ خطہ تھا جنہوں نے قرون وسطیٰ میں عالم اسلام کو سائنس اور حدیث و فقہہ کی دنیا میں امام بخاری، ابن سینا، رازی، طبری جیسی نادر روزگار ہستیاں فراہم کیں۔ آج چین نہ صرف مشرقی ترکستان کی تمام دولت پر قابض ہے بلکہ ان مظلوموں کو سانس بھی نہیں لینے دے رہا۔ ان کا قصور کوئی اور نہیں صرف جرم ضعیفی ہے۔
ہندوستان، سلطنت عثمانیہ اور مسلم دنیا کے دوسرے حصے بھی اسی جرم ضعیفی کا شکار رہے اور ایک عہدہ استثنیٰ کو چھوڑ کر آج بھی بحیثیت مجموعی پوری مسلم دنیا اسی مرض کا شکار ہے۔ آج ایک سو اسی کروڑ کی تعداد کے باوجود کشمیر، فلسطین، برما، ہندوستان ہر جگہ مسلمان سب سے زیادہ مظلوم قومیں ہیں۔ لیکن اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ ہم آج بھی بنی اسرائیل کی طرح اس فخر اور غرور کا شکار ہیں کہ ہمارا محض مسلمان ہونا ہی ہمیں خدا کا چہیتا اور دنیا کی عظیم قوم بنانے کےلیے کافی ہے۔ صنعت اور تجارت کے میدان میں جب ہم مغرب اور چین کی کامیابیوں پر دانتوں میں انگلی دیتے ہیں تو ہمارے خطیب ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ اس ترقی سے کچھ نہیں ہوتا تم ہی اللہ کے چہیتے ہو اور تمہیں ان تمام قوموں پر برتری حاصل ہے اور مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ ہم بیک وقت مغرب سے احساس کمتری کا بھی شکار ہیں اور احساس برتری سے بھی پھول رہے ہیں۔
ہمارے عقیدوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مسلمان معصوم اور بہادر ہیں اور دوسرے بہت چالاک ہیں۔ ہم تو محض اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔ ہماری تاریخ جس انداز میں لکھی گئی ہے، وہ ہمیں دنیا کو دیکھنے کا سادہ سا فلسفہ بتاتی ہے، وہ یہ ہے کہ ہم صرف اس لیے شکست کھاتے ہیں کہ ہمارے درمیان غدار تھے جنہوں نے دوسروں کا ساتھ دیا، ورنہ آج ہم شکست خوردہ نہ ہوتے۔ ہم مسلمان ہیں اس لیے باقی دنیا ہم پر ظلم کرتی ہے اور دنیا کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ دیکھا جائے تو یہ جہالت اور اخلاقی انحطاط کی اوج ثریا ہے۔ ہم اب بھی اپنے زوال کی اصل وجہ یعنی ’تحقیق سے دوری‘ سے نظریں چرا رہے ہیں۔ اقبال کوئی ایک صدی پہلے کہہ گئے
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا
افسوس ان سو سال میں ہم اب زمیں پر بھی نہیں رہے۔ دین کی غلط تشریح کرنے والوں کے پیچھے اندھوں کی طرح چلنے کے نتیجے میں اب ہم پاتال کی گہرائیوں میں کھڑے دنیا کا نظارہ کرتے ہیں تو ہمیں ہر چیز گدلی نظر آتی ہے اور ہم جہالت کے اس کنویں میں محبوس ان گدلے نظاروں کو دیکھ کر مغرب کی تباہی کی پیش گوئیاں کرتے ہیں اور اپنے تئیں اپنے لیڈران اور اسکالرز کو دنیا کے سب سے بڑے دانشوران سمجھ کر ان کی نظریاتی پیروی میں لگ جاتے ہیں۔ ہم اسی پاتال میں سانس لیتے اسی کو اپنی جنت سمجھنے لگتے ہیں۔
ہم مسلمان ہیں اس لیے اچھے ہیں، باقی دنیا ہم پر ظلم کررہی ہے وہ بری ہے۔ ہم جب تک اس مغالطے سے نہیں نکلیں گے اسی طرح پٹتے رہیں گے۔ بھارت، امریکا، اسرائیل، چین، برما دراصل اللہ کے عذاب کی شکلیں ہیں۔ اس عذاب سے نکلنے کےلیے جذباتی نعروں اور دہائیوں کی نہیں، اپنے احساس کمتری اور برتری کو ایک طرف رکھ کر طاقت پکڑنے اور اقوام عالم میں باعزت مقام حاصل کرنے کےلیے ایک دوررس اسٹریٹجی کی ضرورت ہے اور اس کا راستہ تحقیق کے میدان میں چیونٹی کی طرح محنت کرنے کے علاوہ کچھ اور نہیں۔ قرآن جس صبر کو کامیابی کی شرط قرار دیتا ہے میرے نزدیک وہ آج کے دور میں اس کے علاوہ کچھ اور نہیں۔
لیکن ہم بحیثیت قوم اس محنت والے حل پر راضی نہیں۔ ہمیں لال قلعہ پر سبز پرچم لہرانے کا دعویٰ کرنے والوں کی باتیں زیادہ بھاتی ہیں جن سے ہمیں بڑی میٹھی سہانی نیند آتی ہے۔ لیکن جب کشمیر، فلسطین، برما میں مسلمانوں پر زیادتی کی انتہا ہوتی ہے تو تھوڑی دیر کےلیے ہم گہری نیند سے جاگ بھی جاتے ہیں، اور بوکھلا بوکھلا کر ایک دوسرے سے اس کا حل دریافت کرتے ہیں۔
ایسے میں لیڈران کو پھر قوم کو اکٹھا کرنے کا اور حکمرانوں کو برا بھلا کہنے کا موقع مل جاتا ہے۔ فیس بک پر ایک دوسرے کو جذباتی نعروں سے مزین پوسٹس فارورڈ کرنے کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔ اس فیس بکی جہاد کے دوران کہیں بین الاقوامی قوانین یاد دلا کر ہم اپنے آپ کو اخلاق کے اعلیٰ منصب پر فائز محسوس کرتے ہیں اور ان کی حیوانیت پر نوحہ کناں ہوتے ہیں، لیکن یہ نہیں سوچتے کہ اس صورت حال سے نکلنے کا کوئی باعزت حل ہے یا نہیں؟
اس وقت پاکستان اور خصوصاً مسلم دنیا جس صورت حال سے گزر رہی ہے، اس کا کوئی شارٹ ٹرم حل نہیں۔ ہم جتنی جلدی تحقیق کے لانگ ٹرم اور دقیق محنت کے متقاضی حل کو اپنا لیں، اتنا ہی اچھا ہے۔ لیکن قیادت چاہے دینی ہو یا سیکولر، کہیں بھی تحقیق کی اہمیت و افادیت کا احساس نظر نہیں آتا۔

ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا