فلسطین لہو لہو

مہوش فضل
9 اکتوبر سے شروع ہونے والے حملوں میں ہزاروں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں
دنیا کی مجموعی آبادی 9 ارب کے قریب ہے، جن میں مسلم امہ کی تعداد دنیا بھر میں 2 ارب سے تجاوز کرچکی ہے۔ دنیا بھر میں 26 اسلامی ممالک ہیں۔ اتنی بڑی تعداد میں مسلم ممالک ہونے کے باوجود غزہ کے فلسطینی مسلمان چند لاکھ اسرائیلیوں کے ہاتھوں مظالم برداشت کررہے ہیں۔ کیا یہ امت مسلمہ کی ذات پر ایک سوالیہ نشان نہیں؟ کہاں سوئے ہیں یہ مسلم ممالک جو آواز تک نہیں بلند کرسکتے؟ کیا یہ بے ضمیر ہیں یا اپنے احساسات کہیں گروی رکھ چکے؟
معصوم فلسطینیوں پر اسرائیلی جارحیت پر اقوام عالم خاص طور پر مسلم ممالک کی خاموشی کسی تشویش کا باعث نہیں بلکہ سب کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ ارض فلسطین لہو لہو ہے۔ میرا فلسطین لہو لہو ہے۔
فلسطین اور اسرائیل کے درمیاں تنازعے کی تاریخ تقریباً ایک صدی پرانی ہے۔ یہ برطانوی سامراج کا دنیا کو دیا گیا وہ کاری زخم ہے جو رس رس کر آج ناسور بن گیا ہے۔ پچھلے 75 سال سے ہم خاموش تماشائی بنے بس وقت کا انتظار کررہے ہیں اور آج جب پانی سر سے گزر گیا، تو افسوس کے سوا کچھ نہیں کرسکتے۔ اسرائیلی لڑاکا طیاروں کی گھن گرج، غزہ اور مغربی کنارے بسنے والوں پر بارود کی بارش ہو، گولیوں کی تڑتڑاہٹ ہو، بمباری سے ملبے کا ڈھیر بنتی عمارتیں ہوں یا سسک سسک کر مرجانے والے مظلوم فلسطینی، یہ سلسلہ 1948 میں ارض مقدس پر صہیونی ریاست کے ناجائز قیام سے لے کر آج تک جاری ہے۔ 75 سال میں عورتوں اور بچوں سمیت تقریباً 60 لاکھ سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں۔
برطانوی سیکرٹری خارجہ جیمز بالفور نے ایک خط لکھ کر مشرق وسطیٰ میں ظلم و ناانصافی کی وہ فصل کاشت کی جسے اعلان بالفور کہا جاتا ہے۔ اس میں صہیونیوں کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام میں مدد کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی۔ 1935 میں ارض مقدس میں یہودیوں کی تعداد 3 ہزار تھی جو کہ بڑھتی چلی گئی۔ اسرائیل کے ناجائز قیام کو عربوں نے کبھی تسلیم نہیں کیا۔ اس کا اندازہ تین عرب اسرائیل جنگوں سے کیا جاسکتا ہے۔
او آئی سی سمیت مسلم ممالک کی سفارتی کوششوں کے باوجود اسرائیلی صہیونی فوج نے گھروں، اسکولوں، عمارتوں، اسپتالوں کے بعد اقوام متحدہ کے زیر نگرانی پناہ گزین کیمپوں پر بھی حملہ کردیا۔ اسرائیلی فوج نے معصوم فلسطینیوں کے خون سے ہولی کھیلی۔ اب تک سات ہزار سے زائد فلسطینی شہید جبکہ عورتوں اور بچوں سمیت 13 ہزار سے زائد فلسطینی زخمی ہوچکے ہیں۔ اور اب اسرائیل زمینی حملے کی تیاریوں میں بھی کوشاں ہے۔
او آئی سی، اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری کی نہ صرف جنگ بندی کی کوششیں ناکام ہوگئیں بلکہ سفارتی کوششیں بھی بے نتیجہ رہیں۔ اسرائیلی جارحیت کو برطانیہ، یورپ اور امریکی پشت پناہی حاصل ہے۔ اسرائیل کسی عالمی قانون کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے معصوم فلسطینی بچوں اور عورتوں کا کھلے عام خون بہا کر فلسطینیوں کی نسلی کشی میں مصروف ہے۔
فلسطین کی سرزمین پہلی بار خون سے رنگین نہیں ہوئی۔ گزشتہ پندرہ سال میں فلسطینیوں کو چار بار جنگی حالات سے دوچار کیا گیا۔ 27 دسمبر 2008 میں اسرائیل نے کاسٹ لیڈ آپریشن کے نام سے غزہ میں فضائی حملے اور پیادہ دستوں سے لڑائی شروع کی۔ اس جنگ میں ایک ہزار 440 فلسطینی شہید اور 13 اسرائیلی مارے گئے۔ کلاو¿ڈپلر کے نام سے 14 نومبر 2012 میں اسرائیل نے آپریشن کیا، جو 8 دن جاری رہا۔ اس جنگ میں 177 فلسطینی شہد جبکہ 6 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ پروٹیکٹو ایجز کے نام سے تیسرا آپریشن 8 جولائی 2014 میں کیا گیا۔ اس آپریشن میں اسرائیل نے غزہ پر راکٹ داغے اور سرنگوں کو تباہ کیا۔ اس جنگ میں خواتین اور بچوں سمیت 2 ہزار 251 فلسطینی شہید ہوئے۔ اسرائیل کے 68 فوجیوں سمیت 74 اسرائیلی مارے گئے۔ الیون ڈے وار کے نام سے چوتھا آپریشن 2021 میں شروع کیا گیا۔ اس جنگ میں 248 فلسطینی شہید ہوئے، شہید ہونے والوں میں 66 بچے بھی شامل تھے۔ اس جنگ میں اسرائیل کے ایک فوجی سمیت 13 افراد ہلاک ہوئے۔ اور یہ سلسلہ ابھی تک ختم نہیں ہوا۔
9 اکتوبر سے شروع ہونے والے بمبار حملوں میں ہزاروں فلسطینی اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ اسرائیل نے ہر طرف سے رکاوٹیں لگادی ہیں۔ کھانے، پانی اور ادویہ کی فراہمی مکمل طور پر بند کردی گئی ہے۔ اس وقت فلسطین جہنم جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔ اس وقت جتنے فلسطینی شہید ہوئے ان میں 60 فیصد تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ یہاں موجود ہر فرد کرب کی انتہا سے گزر رہا ہے۔ پناہ لیں تو کہاں لیں؟ کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ اسرائیل نے جس قدر بربریت پھیلا رکھی ہے اس ظلم و زیادتی کو دیکھ کر ہر آنکھ اشکبار ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایک طرف فلسطین کی زمین خون اگل رہی ہے، وہاں کے اسپتالوں تک کو تہس نہس کیا جارہا ہے اور پاکستانی سیاستدان اپنی سیاست چمکانے میں لگے ہوئے ہیں۔ سیاستدان تو دور ہمارے پاکستانی عوام گونگے اور بہرے ہوچکے ہیں۔ یہ مفاد پرست لوگ قبلہ اول مسجد اقصیٰ کو بھی شاید ایسے ہی فراموش کردیں گے۔ جن کو ظلم کی کہانی کے خلاف آواز اٹھانے کا وقت نہیں، جو اپنے لیے آواز بلند نہیں کرسکتے، وہ ان نہتے معصوم فلسطینیوں کےلیے کیا آواز بلند کریں گے؟ ایسی ہی قوموں پر زوال آتے ہیں، ایسی ہی قومیں تباہ کردی جاتی ہیں۔