آٹھ لاکھ پاکستانیوں کا خون اور ہماری سردمہری

ڈاکٹر عبید علی
لاکھوں پاکستانی آج بھی بنگلہ دیشی کیمپوں میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔کوئی ہماری ہم بے وطنوں کی بھی سنے۔ بنگالی جشن آزادی مناتے ہیں، وہ سینے پر تمغے سجاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ شکست بانجھ ہوتی ہے مگر اپنوں کو چھوڑا نہیں جاتا۔ پھر دسمبر آرہا ہے، چلیے پھر زندگی کی خاموش آواز سنتے ہیں۔
شاید وہ بہت ضدی تھے۔ شاید وہ عظیم بنگال سے موروثی طور پر زیادہ مخلص تھے۔ شاید وہ کٹر مذہبی تھے، شاید اہل بنگال کے مسلمانوں کو اسلام کا نام ایک مضبوط سہارے کے طور پر نظر آیا تھا۔ شاید وہ کلکتہ (اپنے وقت کا دوسرا لندن) کی ساری رونقوں کا حقدار صرف اہل بنگال کو سمجھتے تھے۔ شاید وہ نواب سراج الدولہ کے ورثے کو بھولنے پر آمادہ نہ تھے۔ شاید ہندو بنگالی پہلے ہندو تھے، شاید مسلمان بنگالی پہلے بنگالی تھے۔ نہرو نہ لاہور چھوڑنے پر راضی تھے اور نہ ہی کلکتہ۔
داد دیجیے معماروں کو کہ کیا نقشہ بنایا تھا، پانی سے گھرے مغربی پاکستان سے دور ایک بنگال کے آدھے ٹکڑے کا نام مشرقی پاکستان تھا۔ یوں سمجھیے کہ اپنوں کا گھر دوسرے محلے میں اور پڑوس میں دشمن تاک لگائے بیٹھا تھا۔ ہمیں کسی دشمن کی کیا ضرورت، ہم تو خود چنگاری اور پٹرول لیے پھرتے تھے۔ کبھی روشنی کے نام پر اپنوں کا گھر، کبھی اپنا ہی گھر نذر آتش کیا کرتے تھے۔ کبھی اردو کا جھگڑا نکال کر دھونس جماتے تو کبھی طعنہ زنی کے نشتر برساتے تو کبھی بدعنوانی کے سدباب کے نام پر تضحیک کرتے تو کبھی چنگیز خان والا تشدد۔ پاکستان بنانے میں لازوال کردار ادا کرنے والوں کو حقیر جاننا اور جوتے کی نوک پر رکھنا تاریخ پر ادھار کا بوجھ بڑھاتا جارہا تھا۔
بانی پاکستان کی دعوت پر خوشحال زندگی چھوڑ کر تعمیر پاکستان کے جذبے سے آئے ہوئے مکین وہاں بہاری کے نام سے پکارے جاتے تھے۔ اب تصور کیجئے جو خواب ملت لے کر دانستاً آئے ہوں وہ کیسے نظریے کے خلاف شکست قبول کرتے۔ اہلیت اور آنے والوں کے مضبوط ارادوں سے مصور بنگلہ دیش اچھی طرح واقف تھے۔ دوسری طرف جہالت، بے وقوفی، بے اعتنائی، ناانصافی، نظر اندازی، بے رحمی، مغربی پاکستان کے قائدین نے اپنا کردار بنا رکھا تھا۔
یہ معمہ ہی ہے کہ ایوب خان کی نفرت میں فاطمہ جناح کی حمایت کی گئی تھی یا جناح صاحب سے عقیدت میں۔ اردو قومی زبان ہوگی، بانی پاکستان محمد علی جناح پر وہ تنقید نہیں کرتے مگر یقیناً دل میں شاید کچھ بوجھ محسوس کرتے ہوں۔ قومی زبان بنگلہ چاہیے ”راشو بھاشا، بنگلہ چائی“ اردو زبان نہیں چلے گا، بنگلہ زبان چلے گا ”اردو بھاشا چولبے نا، بنگلہ بھاشا چولبے“۔ بالآخر فروری 1954 میں قومی اسمبلی نے اردو کے علاوہ بنگلہ کو دوسری قومی زبان بنانے کے حق میں قرارداد منظور کی تھی۔ ہر طرف بنگلہ زبان اسکولوں، کالجوں میں رائج تھی، اردو زبان کےلیے محدود اسکول و کالج۔ لیکن معیار تعلیم اور اہلیت کا فرق شاید کہیں دراڑیں ڈال رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کے رہائشی، سقوط پاکستان کے عینی گواہ اور آج کل امریکا میں مقیم ڈاکٹر وارثی اپنے جوابی تبصرے میں لکھتے ہیں:
”قائداعظم تو ایک سال بعد ہی انتقال کرچکے تھے، دراصل بنگالی لیڈر شروع ہی سے ایک الگ آزاد بنگال بنانا چاہتے تھے لیکن تحریک پاکستان نے انہیں اس کا موقع نہیں دیا۔ میں بہت کچھ پڑھ چکا ہوں، پچھلے پچاس سال سے یہ پروپیگنڈے دیکھ رہا ہوں، جب 1956 میں بنگلہ کو اردو کے ساتھ قومی زبان قرار دے دیا گیا، پاکستان کے کرنسی نوٹ اور دیگر جگہوں پر اردو کے ساتھ ساتھ بنگلہ بھی لکھی جانے لگی تو پھر اس مسئلے کو ختم ہوجانا چاہیے تھا، لیکن بات کچھ اور تھی۔ ننانوے فیصد اردو بولنے والے گھرانوں کے بچے بنگلہ لکھ، پڑھ اور بول رہے تھے، اور یہ سب کچھ صرف دس بارہ سال میں ہونا شروع ہوگیا تھا۔ تو اب یہ زبان کا مسئلہ صرف ایک بہانہ تھا، اور کچھ نہیں۔ یہ بس کہانیاں ہیں کہ بہت دیر ہوچکی تھی۔ قوموں کی زندگی میں دس پندرہ سال چند لمحوں سے زیادہ نہیں ہوتے۔ اصل وجہ ایوب خان کی آمریت تھی، جس نے جمہوری عمل کو منجمد کردیا اور شرپسند عناصر جن کی آنکھ میں پاکستان ایک کانٹا تھا اور اب بھی ہے، انہیں موقع مل گیا اور مجیب جیسا تیسرے درجے کا لیڈر ا±ن کے ہاتھ آگیا اور ہندوو¿ں نے اپنا مسلمانوں کے خلاف بغض نکال لیا۔ ان کے خیال میں یہ اکھنڈ بھارت کی طرف ایک قدم تھا۔ ایوب کی آمریت، بھٹو کی شاطرانہ خودغرضی، یحییٰ کی شراب میں ڈوبی زندگی اور مجیب کی کوتاہ نظری، ان سب نے اس سانحے کو جنم دیا۔“
عام بنگالیوں میں نفرت کی یہ لہر چڑھانے کےلیے بہت محنت کی گئی تھی۔ ڈاکٹر وارثی یاد کرتے ہیں کہ 1967-68 تک تو محلے میں بنگالی اور بہاری بچے ایک ساتھ کھیلتے تھے۔ ہماری بیٹھک میں والد صاحب کے بنگالی بہاری سارے ہی دوست جمع ہوتے تھے، بس آخر کے چند سال میں آگ لگنا شروع ہوئی۔ 1956 تک معاملہ بہت مختلف تھا، عوام میں ایک دوسرے کے خلاف کچھ بھی نہیں تھا۔ ایوب خان کے دوسرے دور میں اور فاطمہ جناح کے خلاف دھاندلی نے بہت کچھ بدلنا شروع کردیا تھا1971 سے آج تک مستقل محصورین پاکستان کےلیے آواز بلند کرنے والے امریکا میں مقیم احتشام ارشد نظامی اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ پتہ نہیں پاکستانیوں کو کب اس کرب کا احساس ہوگا کہ اس ملک کو بچانے کےلیے غیربنگالیوں اور پاکستان کے حامی بنگالیوں نے کتنی قربانیاں دی ہیں اور آج بھی حب الوطنی کا خراج دے رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان سے خون کا دریا پار کرکے آنے والے خالد پرویز لکھتے ہیں، پاکستان کی محبت میں 1946 میں پاکستان بنایا گھر بار و جانوں کی قربانی دی۔ اور یہ محبت ایسی خون میں رچی بسی کہ جب 1971 میں جوئے بنگلہ کا نعرہ لگا تو اسے یک دم مسترد کردیا اور بھرپور اواز میں پاکستان زندہ باد کہا اور اس کے بعد ایک دفعہ پھر پاکستان کی محبت میں جان و مال کا نذرانہ پیش کیا اور پاک آرمی کے شانہ بشانہ ہوگئے اور ثابت کیا کہ ہم ہی ہیں وہ سچے پاکستانی۔ اور اس سچائی اور حب الوطنی کی سزا بنگلہ دیش کے کیمپوں میں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔ کاش کہ پاکستان کے ارباب اختیار بھی محب وطن پاکستانی ہوتے تو ضرور اپنے دوستوں کو پہچان لیتے اور یہ کیمپوں سے واپس آچکے ہوتے۔
آپ آواز بلند نہ کیجئے اس قتل عام پر، محصورین پاکستان کے حق میں۔ جو یہاں آگئے ہیں انھیں خوب ستائیں، جینے نہ دیں، جو کیمپوں کی کسمپرسی کی زندگی میں محصور ہیں انھیں مرنے کےلیے چھوڑے رکھیں۔ کامل چچا کے تبصرے پر مضمون کو روکتا ہوں کہ قتل عام اردو بولنے والوں کا ہوا اور اجتماعی قبر اور لاشوں کو، بنگالیوں کا بتا کر بیانیہ اپنایا گیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے تحقیقاتی کمیٹی بنائی لیکن کسی بھی بنگالی نے قتل عام کےلیے اپنے عزیزوں کا کلیم نہیں کیا، آخرکار بے نتیجہ بند کردیا گیا۔ حق مارنے والے کبھی فلاح نہیں پاسکتے ہیں، ہمیشہ آہوں کا پیچھا کرنا پڑے گا۔ آخر اللہ تعالیٰ کو بھی جواب دینا ہے، ایمان ہے اس پر؟