اسرائیل حماس عارضی جنگ بندی، مستقل حل ناگزیر

ضیا الرحمٰن ضیا
اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں پر جس قدر ظلم ڈھایا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔
فلسطینیوں پر اسرائیل مظالم کی ایک طویل تاریخ ہے لیکن گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر بہت زیادہ ظلم کر رہا ہے۔ ہزاروں فلسطینی شہید اور زخمی ہوچکے ہیں۔ کئی عمارتیں، مکانات، تعلیمی ادارے اور اسپتال تباہ ہوچکے ہیں۔ زخمیوں کے علاج کا کوئی انتظام نہیں۔ بہت سے لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، جن کےلیے رہائش ایک مستقل مسئلہ بن چکی ہے۔
اسرائیل نے اتنے مظالم کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا لیکن صرف چار روز کےلیے۔ خیر اس سے بھی اسلامی دنیا میں خوشی کی لہر دوڑ گئی جبکہ اسرائیل کے سارے گناہ دھل گئے۔ عالمی ادارے اور رہنما یہ بتائیں کہ کیا اسرائیل کے اس جنگ بندی کے عارضی اعلان سے فلسطین میں ہونے والے نقصان کی تلافی ہوجائے گی؟ کیا ہزاروں کی تعداد میں مارے گئے فلسطینیوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی؟ اس کے علاوہ جو نقصانات ہوئے ان کا کیا ہوگا؟ ان کا ازالہ کون کرے گا؟ یا صرف جنگ بندی کا اعلان ہی ہر زخم کا مرہم ہے۔
یہ بہت اچھی بات ہے کہ جنگ بندی ہوگئی ہے، کم از کم چند روز مزید نقصان تو نہیں ہوگا۔ لیکن یہ جنگ بندی بھی عارضی ہے کیونکہ اس سے قبل بھی کئی بار اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ ایساسلوک کیا اور پھر جنگ بندی ہوگئی۔ پھر جب دوبارہ ان کا جی چاہتا ہے تو وہ اسی طرح عوام پر بمباری شروع کردیتے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا جو نہیں ہے۔ اس چار روزہ جنگ بندی کے دوران بھی ان پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا، کسی بھی وقت ان کی درندگی جاگ گئی تو وہ پھر سے نہتے شہریوں پر بم برسانا شروع کردیں گے۔
اگر کوئی اسلامی ملک اپنے دفاع کےلیے ہتھیار بنائے یا خریدے تو اسے طرح طرح کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن اسرائیل ہتھیار بنائے، فروخت کرے، نہتے شہریوں کا قتل عام کرے، اسے کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ بہرحال جنگ بندی تو عارضی ہے، یہ مسئلہ مستقل حل چاہتا ہے۔ مزید کتنا عرصہ فلسطینی اسی طرح اسرائیل کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے؟ اب تو عالمی برادری کو ترس کھا لینا چاہیے۔ ایک ایک مقام پر پڑی سیکڑوں کی تعداد میں لاشیں بھی عالمی رہنماو¿ں کا ضمیر نہیں جھنجھوڑ سکیں۔ فلسطین میں معصوم بچوں کا قتل عام ہوا اس پر بھی کسی سورما کا دل نہیں پگھلا، کیونکہ وہ امریکا یا برطانیہ سے تعلق تو نہیں رکھتے کہ عالمی ادارے ان پر ترس کھا کر انہیں بچانے کی کوشش کرتے۔ وہ تو فلسطین کے مسلمان بچے ہیں، جن کی دنیا میں کوئی حیثیت ہی نہیں۔ ان کی اس حالت کو دیکھ کر عالمی برادری کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور مسئلہ فلسطین کا مستقل حل نکالنا چاہیے۔
اسرائیل کا جنگ بندی کا اعلان عارضی ہے جو فقط چار روز کےلیے ہے، اس کے بعد نہ جانے اسرائیل مزید کیا ستم ڈھائے گا۔ اسی طرح اسرائیل کسی معاہدے کا پابند نہیں ہے، وہ کسی بھی وقت دوبارہ بمباری شروع کرسکتا ہے۔ مئی 2021 میں بھی اسرائیل نے نہتے فلسطینیوں کا لہو بہانے کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا تھا، جس پر فلسطینیوں نے جشن منایا اور اسرائیل نے جشن منانے والے شہریوں پر ہی حملہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ اس کے کسی اعلان یا معاہدے پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے قبل کہ دوبارہ ایسی کوئی صورتحال پیش آئے، عالمی اداروں کو متحرک ہونا ہوگا۔ سب سے پہلے تو اسلامی ممالک اس کےلیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور مل جل کر اس مسئلے پر ایک لائحہ عمل ترتیب دیں اور مشترکہ طور پر اقوام متحدہ پر دباو¿ ڈالیں کہ وہ فلسطین کے مسئلے کو ہنگامی بنیادوں پر حل کرائے اور فلسطینیوں کو آزادی دلا کر ایک آزاد و خودمختار ریاست بنانے میں ان کی مدد کرے۔ اپنے امن دستے فلسطین میں تعینات کرے جن میں اسلامی ممالک کے فوجیوں کی تعداد زیادہ ہو، جو وہاں کے تباہ حال شہریوں کی بحالی کا انتظام کریں۔ ان کی رہائش، کھانے اور علاج معالجے کا خیال رکھیں اور اسرائیل کو دوبارہ حملہ کرنے سے باز رکھیں۔
اس بار اسرائیل نے فلسطینی مسلمانوں پر جس قدر ظلم ڈھایا ہے تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی اور امت مسلمہ نے جس قدر بے حسی کا ثبوت دیا ہے تاریخ میں اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ یہ امت مسلمہ کے عیاش حکمرانوں کےلیے خطرے کی گھنٹی ہے جسے محسوس کرنے کی ضرورت ہے۔ کم از کم اب ہی متحد ہوجائیں اور مسئلہ فلسطین کا کوئی حل نکالیں کیونکہ عالمی طاقتیں فلسطین کو مکمل طور پر اسرائیل میں ضم کرنا چاہتی ہیں اور اس ریاست کا نام و نشان مٹا دینا چاہتی ہیں۔ جس کا واضح مقصد اسرائیل کو عرب ممالک کے درمیان ایک طاقتور ریاست بنا کر مسلمانوں کو مزید کمزور کرنا ہے۔
لہٰذا مسلم ممالک کے سربراہان وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور اپنی عیاشیوں اور بدمستیوں سے باہر نکل کر کچھ دیر کےلیے امت مسلمہ کے مستقبل کی فکر بھی کرلیں کہ یہ قوم کس طرف جارہی ہے اور اسے کس گڑھے کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔ اس کےلیے ایک بھرپور تحریک چلائیں، او آئی سی کو بھی متحرک کریں اور اسے اس کا مقصد یاد دلائیں اور اس کے پرچم تلے اکٹھے ہوکر ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔ اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں کے ساتھ ساتھ بڑے ممالک جو اسرائیل کی پشت پناہی کررہے ہیں، ان پر دباو¿ ڈالیں کہ اسرائیل کو ناپاک عزائم سے باز رکھتے ہوئے فلسطین کو مکمل طور پر آزادی اور خودمختاری دلائیں۔ اس تحریک کی کامیابی کے بعد نہ صرف فلسطین بلکہ پوری امت مسلمہ کے وقار میں اضافہ ہوگا اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے تحفظ کا ایک راستہ میسر آجائے گا۔
نے کی کوشش کی تھی۔
یہ ایک متنازعہ رائے تھی جس پر لوگوں کا شدید ردعمل آیا تھا جس کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ تبصرہ ناگوار تھا اور وہ رفعت کو دوبارہ تبصرے کے لیے مدعو نہیں کریں گے
’رفعت کے لیے انگریزی زبان آلہ آزادی تھا‘
رفعت العریری کے بارے میں سوشل میڈیا پر ان کے رفقا، شاگرد اور دوست بات کر رہے ہیں۔
ان کے ایک شاگرد اور قریبی رفیق جہاد ابو سلیم نے انھیں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’انگریزی زبان ان کا جنون تھا لیکن انھوں نے اسے سماج سے لاتعلق ہونے کے لیے نہیں سکھایا، یہ رجحان تیسری دنیا میں انگریزی بولنے والے اپر اور مڈل کلام میں بہت عام ہے۔
’رفعت کے لیے انگریزی زبان آل? آزادی تھی، غزہ کے لمبے محاصرے سے آزاد ہونے کا طریقہ، ایک ٹیلی پورٹیشن ڈیوائس جسے غزہ کے فکری، علمی اور ثقافتی ناکہ بندی اور اسرائیل کی جانب سے کھڑی کی گئی فصیلوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔‘
ایلکس کرارفورڈ نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ’غزہ کے مشہور ماہر تعلیم اور شاعروں میں سے ایک اسرائیلی فضائی حملے میں اپنے گھروالوں سمیت مارے گئے ہیں۔
’رفعت العرعیر کے الفاظ ’ہم ناامید ہیں، ہمارے پاس کھونے کو کچھ نہیں‘ پریشان کن ہیں۔‘
اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔
ایک صارف نے رفعت کی تصویر شائع کر کے لکھا کہ ’ہمیں کوئی خاموش نہیں کر سکے گا۔ کوئی چیز ہمیں توڑ نہیں سکے گی۔ اور جب ہم مریں گے، ہم اپنے پیچھے کہانیاں اور وراثت چھوڑیں گے جو ہمارے بچوں کو اسی راہ کی طرف رہنمائی کریں گے: آزادی اور اس کے سوا کچھ نہیں۔‘
ایک صارف ڈین کوہن نے لکھا کہ ’وہ انگریزی ادب اور شاعری کا استعمال کر کے اپنے طالب علموں کو صیہونیت اور یہودی مذہب میں فرق کی تعلیم دیتے تھے اور لوگوں کو سوچ اور فکر سے آراستہ کرتے تھے۔‘
ان کے ایک دوست معصب نے ابو طحہٰ نے لکھا کہ ’میرا دل ٹوٹ گیا ہے میرے دوست اور رفیق رفعت العرعیر چند منٹ قبل اپنے خاندان سمیت ہلاک ہو گئے ہیں۔ میں اس کا یقین نہیں کرنا چاہتا۔ ہم دونوں مل کر سٹرابیریز چنا کرتے تھے۔‘
غزہ کی تازہ ترین صورتحال کیا ہے؟
غزہ کے جنوبی شہر خان یونس میں حماس اور اسرائیلی فوج کے درمیان لڑائی جاری ہے۔
یہ وہ علاقہ ہے جہاں اس جنگ کی ابتدا میں اسرائیل نے شمالی غزہ میں رہنے والے لوگوں کو جانے کا حکم دیا تھا اور اب جنوبی غزہ میں شدید لڑائی سے اپنی جانیں بچانے کے لیے کئی ہزار عام شہریوں نے رفح کا رخ کر لیا ہے۔
خان یونس میں ہونے والے واقعات کے بارے میں ہم زیادہ تفصیلات نہیں دے سک رہے۔ بدھ کو اسرائیلی فوج نے کہا تھا کہ ان کی فوج شہر کا محاصرہ کر رہی ہے۔ جمعرات فوج کی طرف سے کہا گیا کہ انھوں نے ’حماس کے دہشتگردوں کو ہلاک کیا ہے اور درجنوں دہشتگردی سے منسلک اہداف کو نشانہ بنایا ہے۔
ہمیں خبر رساں اداروں کی طرف سے شہر کی تصاویر مل رہی ہیں لیکن ان میں سے بہت ساری تصویروں بعز قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں لہذا ہم انھیں یہاں نہیں دکھا رہے۔
ان تصویروں میں زخمیوں کو ہسپتال لے کر جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، کچھ میں لوگوں کی بڑی تعداد فرش پر لیٹ کر طبی امداد کا انتظار کر رہی ہے، ان میں چھوٹے بچے اور خواتین بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
غزہ میں شہر میں کھانا ختم اور بجلی بند ہو چکی ہے اس کے علاوہ پانی کی بھی شدید قلعت ہے۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی تصویروں میں اسرائیلی فوجیوں کے سامنے درجنوں فلسطینیو کو انڈرویئر کے علاوہ برہنہ دیکھا گیا ہے، دیگر تصویروں میں فلسطینی قیدیوں کو ٹرک میں منتقل کیے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق ان زیر ہراست افراد کو حماس کے جنگجو قرار دیا جا رہا ہے جنھوں نے اپنے آپ کو اسرائیلی افواج کے ہوالے کیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے ان تصویروں کے اوپر تو کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن ترجمان ڈینیل ہگیری نے کہا کہ اسرائیلی اہلکاروں نے ’سینکڑوں مشتباہ دہشتگردوں کو حراست میں لیا اور ان کی تفتیش کی۔ گذشتہ 24 گھنٹوں میں ان میں سے کہیں نے اپنے آپ کو ہمارے افواج کے ہوالے کیا۔‘
دوسری جانب یہ اطلاعات سامنے آئی ہیں کہ العربی الجدید کے جانے مانے صحافی ضیا الکحلوت کو بھی ایک تصویر میں دیکھا گیا۔
العربی الجدید نے اسرائیل کے اس اقدام کی شدید مزمت کی۔ انھوں نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ شمالی غزہ کے شہر بیت لاھیا میں ضیا ان کے بھائیوں، رشتہ داروں کی بڑی تعداد کو زیرحراست لیا گیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ان افراد کے کپڑے اتارے گئے ان کے ساتھ شرمناک سلوک کیا گیا۔ اسرائیلی حکام سے ضیا الکحلوت کو حراست میں لیے جانے کے متعلق سوال کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے سابق چیف اور موجودہ ایمرجنسی حکومت کے وزیر غادی آئزن کوٹ کے بیٹے اسرائیل کے ریزرو فوجی غال آئزن کوٹ اسرائیلی فوج کے غزہ میں آپریشن کے دوران مارے گئے۔
اطلاعات ہیں کہ شمالی غزہ کے جبالیا ریفیوجی کیمپ کی سرنگ میں ہونے والے دھماکے میں ان کی ہلاکت ہوئی۔