ایڈز کا عالمی دن

کمیونٹیز کی قیادت ایڈز کی روک تھام میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔

شایان تمثیل
کمیونٹیز کی قیادت ایڈز کی روک تھام میں معاون ثابت ہوسکتی ہے۔
یکم دسمبر کو ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے اور امسال اس دن کے لیے عنوان ”کمیونٹیز کو قیادت کرنے دیں“ منتخب کیا گیا ہے۔ کراچی میں بھی یکم دسمبر کو اسی عنوان کے تحت جمعہ کی صبح 10 بجے سی ویو پر ایک آگاہی واک کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ایڈز کے عالمی دن سے پہلے ہی یو این ایڈز Lets Communities Lead کے عنوان کے ذریعے دنیا بھر کی حکومتوں سے مطالبہ کررہا ہے کہ وہ ایڈز کے خاتمے کے لیے جنگ کی قیادت کرنے کے لیے دنیا بھر میں نچلی سطح کی کمیونیٹیز کی طاقت کو استعمال کریں۔ UNAIDS کی ایک نئی رپورٹ کمیونٹیز کے اہم کردار کو ظاہر کرتی ہے، جبکہ یہ رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ کس طرح کم فنڈنگ اور نقصان دہ رکاوٹیں ان کی زندگی بچانے کے کام کو روک رہی ہیں اور ایڈز کے خاتمے میں رکاوٹ ہیں۔
آخری بار جب پال تھورن نے اپنے والدین کو دیکھا تو انھوں نے انفیکشن کے خوف سے وہ برتن پھینک دیے جس میں انھوں نے کھانا کھایا تھا۔ جب سنہ 1988 میں پال تھورن میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تو انھیں بطور نرس اپنی تربیت کا سلسلہ روکنا پڑا تھا۔ان کے مطابق میں نے ’اپنی زندگی کی 20 سے 30 سال خوف میں گزارے۔‘
اب برطانیہ میں مقیم پال اس بیماری کے بارے میں کم ہی سوچتے ہیں، سوائے دن میں ایک گولی لینے اور سال میں دو بار اپنے ڈاکٹر سے ملنے کے۔
ایچ آئی وی کا شکار ایسے لوگ جو علاج بھی کرواتے ہیں، وہ مکمل طور پر معمول کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور پرانے اور غلط خیالات کہ آپ کسی کی پلیٹ میں کھائیں گے تو اس سے اس مرض کی لپیٹ میں آ جائیں گے، اب فرسودہ ہو چکے ہیں۔ مگر نقصان دہ اور غلط قسم کی معلومات اب بھی سننے کو ملتی ہیں۔
ایچ آئی وی کے علاج کا دعویٰ اب بھی کیا جاتا ہے
کینیا سے تعلق رکھنے والی ڈورین مورا موراچا اپنی پیدائش سے ہی ایچ آئی وی میں مبتلا تھیں لیکن ان میں پہلی بار 2005 میں اس کی تشخیص ہوئی، جب وہ محض 13 سال کی تھیں۔
وہ ایک ٹی وی اشتہار دیکھ کر تنزانیہ میں ایک مقامی شخص کے پاس پہنچی تھیں جس نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ ایک ایسا معالج ہے کہ جو ڈورین اور ان کی ماں کے ایچ آئی وی کا علاج کر سکتا ہے۔
ان کے مطابق ’ہم نے وہ جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ دوائیں پی لیں جو وہ بیچ رہا تھا اور ہم یہ سمجھ کر واپس لوٹے کہ اب ہمیں ایچ آئی وی سے نجات مل چکی ہے۔‘
اس کے بعد انھوں نے اس مرض کی منتقلی کو روکنے والی دوا (اینٹی ریٹرووائرلز) لینی بند کر دی جس سے پھر ان کا مدافعتی نظام کمزور ہو گیا جس کے نتیجے میں وہ جلدی بیماریوں اور نمونیا میں مبتلا ہو گئیں۔
ان کا وائرل لوڈ یعنی خون میں ایچ آئی وی کی تعداد اتنی بڑھ گئی کہ انھیں ڈاکٹر نے بتایا کہ اگر ا±نھیں کوئی اور انفیکشن ہوا تو اس سے وہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو سکتی ہیں۔
اب ان پر ایک بات واضح ہو گئی کہ وہ جعلی معالج بس ایک فراڈ تھا۔
لیکن متعدی امراض کی ڈاکٹر اور انٹرنیشنل ایڈز سوسائٹی کی صدر ڈاکٹر ادیبہ قمرالزمان کے مطابق ایچ آئی وی کے علاج سے متعلق بڑا دعویٰ عام ہے۔
فی الحال ایچ آئی وی کی کوئی ویکسین یا علاج موجود نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس وائرس سے صحت یاب ہونے والے لوگوں کے بارے میں حالیہ کہانیوں سے امیدیں ضرور بڑھ گئی ہیں۔ رواں ماہ ارجنٹائن میں ایک خاتون تاریخ کی دوسری ایسی شخصیت بن گئی ہیں جو بظاہر اپنے مدافعتی نظام کے ذریعے ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو چکی ہیں۔
’آپ ہمیشہ ہی یہ وائرس منتقل کرنے کا ذریعہ بنی رہیں گی‘
گھانا سے تعلق رکھنے والی جوائس مینسہ اب اس داغ سے بچنے کے لیے جرمنی چلی گئی ہیں۔ ا±ن کا کہنا ہے کہ اپنی صحت کے بارے میں غلط فہمیوں کی وجہ سے وہ اپنی ملازمت، تعلقات سے محروم ہوئیں اور پھر اپنا آبائی ملک چھوڑنے پر بھی مجبور ہو گئیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اس بدنما داغ کی بنیاد ایک غلط نظریے پر رکھی گئی ہے کہ اگر ایک بار جب کسی کو ایچ آئی وی ہو جائے تو ہمیشہ یہ خطرہ رہتا ہے کہ وہ اسے اپنے شریک حیات یا بچے کو منتقل کر سکتی ہیں۔
جب کوئی شخص اپنے کسی رشتے دار یا پارٹنر کے سامنے اپنی ایچ آئی وی کے مرض کا انکشاف کرتا ہے تو ایسے میں لوگوں میں یہ غلط فہمی پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ 100 فیصد محفوظ نہیں ہے، ایک بار جب آپ میں اس بیماری کی تشخیص ہو جائے تو پھر آپ ہمیشہ اس مرض میں مبتلا رہتے ہیں‘۔
درحقیقت ایک بار جب کوئی ایسا مریض طویل عرصے کے لیے اینٹی ریٹرو وائرل دوائیاں لیتا ہے تو اس کے خون میں کسی وائرس کی تشخیص نہیں ہو سکتی اور اس وائرس کی منتقلی کے بارے میں صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
علاج کے دوران جوائس کے چار بچے تھے، جن میں سے کسی کو بھی وائرس نہیں ہوا۔
ماں سے بچے میں منتقلی مناسب علاج سے روکی جا سکتی ہے اور چونکہ اس کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے تو یہی وجہ ہے کہ سنہ 2010 کے بعد سے دنیا بھر میں واقعات نصف ہو گئے ہیں۔
اس کے باوجود گھانا میں ا±ن کی بیٹی کو اس غلط فہمی کی بنیاد پر سکول سے نکال دیا گیا کہ اسے بھی وائرس تھا اور یہ کہ اب اگر اسے سکول سے گھر نہ بھیجا گیا تو اس سے دوسرے بچے بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
ایان گرین برطانیہ میں ایک خیراتی ادارے ’ٹیرنس ہگنز ٹرسٹ‘ کے چیف ایگزیکٹو ہیں اور ایچ آئی وی کا شکار ہیں۔ ا±ن کا کہنا ہے کہ ’ایچ آئی وی کے ساتھ رہنے والے لوگوں کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تو یہ ہے کہ اور یقینی طور پر میرا تجربہ بھی یہ ہے کہ آپ اکثر خود کو بیماری پھیلانے کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
’کئی برس سے، میں وائرس کی کسی اور میں منتقلی سے متعلق گھبراتا تھا۔ اب یہ جان کر کہ میرے لیے وائرس کو منتقل کرنا ناممکن ہے، اب یہ ایک تسلی کا ذریعہ بن چکا ہے۔‘
ایچ آئی وی اب موت کی وجہ نہیں رہا اور وائرس سے متاثرہ افراد نارمل اور صحت مند زندگی گزار سکتے ہیں۔ آگاہی مہم چلانے والوں میں سے بعض کا خیال ہے کہ یہ تصورات بھی اب ایک اور مشکل پیدا کر رہے ہیں۔ڈاکٹر قمرالزمان کہتی ہیں کہ ’ایچ آئی وی کے علاج اور روک تھام کے آلات میں حیرت انگیز پیش رفت ہوئی ہے لیکن یہ تاثر کہ ایڈز ختم ہو چکا ہے، احتیاطی تدابیر کے طور یہ بہت زیادہ مددگار نہیں ہے اور یقینی طور پر یہ ایچ آئی وی کا علاج ڈھونڈنے پر تحقیق پر ہونے والی سرمایہ کاری کو بھی متاثر کرے گا۔‘
ایچ آئی وی وہ وائرس ہے جو مدافعتی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے اور اگر اس کا علاج نہ کیا جائے تو پھر یہ ایڈز کا سبب بن سکتا ہے ایک ایسی بیماری جہاں جسم معمولی انفیکشن سے بھی لڑ نہیں سکتا۔
سنہ 2020 میں دنیا بھر میں تقریباً تین کروڑ 80 لاکھ افراد ایچ آئی وی کے ساتھ رہ رہے تھے اور تقریباً سات لاکھ افراد ایڈز سے متعلقہ بیماریوں سے ہلاک ہوئے جو کہ وائرس کے علاج نہ ہونے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔پال تھورن کا خیال ہے کہ نوجوان لوگ اسے بوڑھوں کی حد تک ایک بیماری کے طور پر دیکھتے ہیں، جس کے بارے میں ٹیرنس ہیگنس ٹرسٹ کے ایان گرین نے اس پر بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں میں ’عام طور پر کم بیداری ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایچ آئی وی ماضی کی کوئی چیز ہے‘۔
‘میں ایسا شخص نہیں ہوں جسے ایچ آئی وی ہو جاتا ہے’
جس طرح نوجوان لوگ اسے بوڑھے شخص کی بیماری کے طور پر دیکھتے ہیں، بہت سے لوگ اس وائرس کو صرف ہم جنس پرست مردوں کو متاثر کرنے والی بیماری کے طور پر دیکھتے ہیں۔
خیراتی ادارے ’فرنٹ لائن ایڈز‘ کی کرسٹین سٹیگلنگ کے مطابق دنیا بھر میں ایچ آئی وی میں مبتلا افراد میں سے نصف سے زیادہ خواتین ہیں اور یہ عالمی سطح پر تولیدی عمر کی خواتین کا سب سے بڑا قاتل ہے۔
لیکن چند خواتین جن سے انھوں نے بات کی وہ اپنے خطرے سے آگاہ تھیں۔
اس کے ساتھ مشغول ہونا ایک بہت اہم ’ڈیٹا پوائنٹ‘ ہے کیونکہ جو خواتین اس عمر کے گروپ میں ہیں اور وہ خواتین جو حاملہ ہونا چاہتی ہیں انھیں غیر محفوظ جنسی تعلقات کے بارے میں مشکل گفتگو کرنی پڑتی ہے۔
اگرچہ بہت بڑی پیش رفت ہوئی ہے مگر غلط معلومات اب بھی پھیل جاتی ہیں اور لوگوں کو ملازمتوں، رشتوں، صحیح علاج یا یہاں تک کہ تشخیص کے بغیر چھوڑ سکتی ہیں۔
اس امر میں کوئی شک نہیں کہ فرنٹ لائن پر موجود نچلی سطح پر بکھری ہوئی مختلف کمیونٹیز کو اگر حکومتوں اور عطیہ دہندگان کی طرف سے مکمل تعاون حاصل ہو تو ایڈز کو 2030 تک صحت عامہ کے خطرے کے طور پر ختم کیا جاسکتا ہے۔
یو این ایڈز کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ونی بیانیما نے کمیونٹیز کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ”دنیا بھر میں کمیونٹیز نے ثابت کیا ہے کہ وہ تیار، آمادہ اور رہنمائی کرنے کے قابل ہیں، لیکن انھیں اپنے کام میں رکاوٹ بننے والے عوامل کو دور کرنے کی ضرورت ہے، جبکہ انھیں مناسب طریقے سے وسائل فراہم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ اکثر فیصلہ سازوں کی طرف سے کمیونٹیز کو لیڈروں کے طور پر پہچانے جانے اور ان کی حمایت کرنے کے بجائے انھیں ہی مسائل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ کمیونٹیز راستے میں رکاوٹ نہیں بلکہ وہ ایڈز کے خاتمے کا راستہ روشن کرتی ہیں“۔
سول سوسائٹی کی تنظیم STOPAIDS کے زیر اہتمام ورلڈ ایڈز ڈے کے موقع پر لندن میں شروع کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح کمیونٹیز ترقی کےلیے محرک رہی ہیں۔ سڑکوں سے لے کر، عدالتوں اور پارلیمنٹ تک کمیونٹی کی وکالت نے پالیسی میں اہم تبدیلیاں حاصل کی ہیں۔ کمیونٹیز کی مہم نے عام آدمی تک ایچ آئی وی ادویہ تک رسائی میں مدد کی، جس کے نتیجے میں HIV سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں 1995 میں علاج کی لاگت 25,000 امریکی ڈالر فی شخص سے 70 امریکی ڈالر سے بھی کم ہوگئی۔
ایڈز کیا ہے اور اس کا پھیلاو¿ کیسے ہوتا ہے، اس موضوع پر آگاہی مہم ایک عرصے سے جاری ہے، لیکن اس کے باوجود پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت ایک لاکھ 33 ہزار533 افراد ایڈز کا شکار ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ صرف رجسٹرڈ لوگوں کی تعداد ہے۔ ایڈز جیسی مہلک بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے۔ کیونکہ ہمارے ملک میں ایڈز جیسی بیماریوں کی جانب سے اب بھی پہلوتہی برتی جاتی ہے اور عوامی سطح پر ایڈز کی شناخت کے ٹیسٹ بھی نہیں کرائے جاتے۔ ایڈز کی تشخیح کی راہ میں حائل سب سے اہم مسئلہ اس بیماری کا ”جنسی طور پر منتقل ہونا“ بھی ہے۔ جبکہ یہ واحد وجہ نہیں جو اس مرض کے پھیلاو¿ کا باعث بن رہی ہے لیکن عمومی سوچ اس بیماری کو صرف ”جنسی افعال“ سے نتھی کرکے علاج کے راستوں کو مسدود کردیتی ہے۔
پاکستان میں کئی ایسی این جی اوز کام کررہی ہیں جو عوامی سطح پر ایڈز کی آگاہی اور مفت علاج کے لیے فعال ہیں۔ ”پرواز“ ، ”ہمراز“ اور اس جیسی دیگر این جی اوز ہیں جو مردوں کی صحت اور دیگر کمیونٹیز بشمول ٹرانس جینڈرز کےلیے بھی عوامی سطح پر مدد اور مفت علاج کی سہولتیں فراہم کررہی ہیں۔ لیکن ان این جی اوز پر مخصوص چھاپ لگا کر ان کے مثبت کاموں میں بھی رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں جس کی وجہ سے عوامی سہولت کے ان پروگراموں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یو این ایڈز کا یہ نعرہ کہ ”کمیونٹیز کو قیادت کرنے دو“ اس لیے بھی مثبت ہے کیونکہ اس کے ذریعے دیگر کمیونٹیز کو بھی فعال ہونے اور سامنے آنے کا موقع ملے گا۔
کمیونٹیز کی قیادت میں HIV پروگراموں میں سرمایہ کاری تبدیلی کے فوائد فراہم کرتی ہے۔ یہ تنظیمیں نہ صرف صحت عامہ سے متعلق آگاہی پروگرام منعقد کررہی ہیں، بلکہ ایڈز سے بچاو¿ اور اس کے علاج کےلیے ادویہ اور دیگر سامان بھی مفت فراہم کررہی ہیں۔ کمیونٹی پر مبنی تنظیموں کے ذریعے فراہم کیے گئے پروگرام ایچ آئی وی کے علاج تک رسائی میں 64 فیصد اضافے، ایچ آئی وی سے بچاو¿ کی خدمات کے استعمال کے امکانات کو دگنا کرنے، اور لوگوں میں حفاظتی اشیا کے مسلسل استعمال میں کئی گنا اضافہ کررہے ہیں۔ ان پروگراموں کی خاص بات یہ ہے کہ افراد یہاں سے مفت میں رازداری کے ساتھ ایڈز کی تشخیص کا ٹیسٹ اور ادویہ حاصل کرسکتے ہیں۔ کراچی میں کام کرنے والی دو این جی اوز بطور خاص قابل ستائش ہیں، جن میں سے ایک ”پرواز“ ہے، جب کہ دوسری اہم این جی او ”ہمراز“ کے نام سے صحت عامہ کی یہ خدمت سرانجام دے رہی ہے۔ اگر آپ میں سے کوئی بھی ایچ آئی وی کا مفت ٹیسٹ اور ادویہ بشمول احتیاطی اشیا حاصل کرنا چاہے تو طارق روڈ، کراچی پر ”پرواز“ کے دفتر یا ”ہمراز“ نزد عزیز بھٹی پارک کا وزٹ کرسکتا ہے۔
آپ سب سے درخواست ہے کہ ایڈز کے عالمی دن کے موقع پر یکم دسمبر بروز جمعہ، صبح دس بجے کراچی سی ویو پر آگاہی واک میں لازمی شرکت کیجئے، جو کہ سی ویو بیچ کلفٹن پر مکڈونلڈز سے چنکی منکی تک منعقد ہوگی۔
یہاں ایڈز سے متعلقہ معلومات شامل کرنا بھی ضروری ہیں، کیونکہ ایڈز جیسی مہلک بیماری اب بھی عوامی آگاہی کی محتاج ہے جبکہ عوام میں ایڈز سے متعلق کئی غلط معلومات بھی پھیلی ہوئی ہیں۔
ایچ آئی وی اور ایڈز میں کیا فرق ہے؟
ایچ آئی وی مدافعتی نظام کے خلیات کو متاثر اور تباہ کردیتا ہے، جس کی وجہ سے دوسری بیماریوں سے لڑنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ایچ آئی وی کی وجہ سے مدافعتی نظام کا شدید کمزور ہونا حاصل شدہ مامون نقص علامت (ایڈز) کا باعث بن سکتا ہے۔ ایڈز ایچ آئی وی انفیکشن کا آخری اور سب سے سنگین مرحلہ ہے۔ ایڈز کے مریضوں میں بعض سفید خون کے خلیات کی سطح بہت کم ہوتی ہے اور مدافعتی نظام شدید کمزور ہوتا ہے۔ انہیں دوسری بیماریاں ہوسکتی ہیں جو ایڈز کی نشاندہی کرتی ہیں۔
علاج کے بغیر، ایچ آئی وی انفیکشن تقریباً 10 سال کے اندر ایڈز تک پہنچ جاتا ہے۔ ایچ آئی وی اور ایڈز میں فرق یہ ہے کہ ایچ آئی وی ایک وائرس ہے جو آپ کے مدافعتی نظام کو کمزور کرتا ہے۔ ایڈز ایک ایسی حالت ہے جو ایچ آئی وی انفیکشن کے نتیجے میں ہوسکتی ہے جب آپ کا مدافعتی نظام شدید کمزور ہوجاتا ہے۔
اگر آپ ایچ آئی وی سے متاثر نہیں ہیں تو آپ کو ایڈز نہیں ہوسکتا۔
ایچ آئی وی کا علاج کیا ہے؟
ایچ آئی وی ہونے والے لوگوں کو دی جانے والی اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی وائرس کو جسم میں بڑھنے سے روکتی ہے۔ یہ انہیں عام آبادی کے مقابلے زندگی کے معیار اور متوقع عمر سے لطف اندوز ہونے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم، علاج مناسب طریقے سے اور ڈاکٹر کی نگرانی کے تحت کیا جانا چاہیے۔
انفیکشن کے مراحل
ایچ آئی وی انفیکشن کئی مراحل سے گزرتا ہے، ہر ایک کی خصوصیات مختلف طبی خصوصیات اور مدافعتی نظام پر پڑتی ہے۔ ایچ آئی وی انفیکشن کے مراحل درج ذیل ہیں:
بنیادی انفیکشن: علامات شدید فلو جیسی ہوتی ہیں، عام طور پر وائرس کے سامنے آنے کے 2-4 ہفتے بعد۔ وہ صرف 50 فیصد معاملات میں ظاہر ہوتے ہیں۔
بغیر علامات کے: کوئی علامات نہیں ہیں، وائرس مسلسل کاپیاں بنارہا ہے، اور مدافعتی نظام اب بھی صحت مند ہے۔
علامتی: علامات میں رات کو پسینہ آنا، توانائی کی کمی، جلد کا پھٹنا اور مسوڑھوں کی حساسیت شامل ہیں۔ مدافعتی نظام کو معمولی نقصان۔
ایڈز: مدافعتی نظام کا کوئی دفاع نہیں ہے۔ انفیکشن جسم پر قابو پا جاتی ہیں۔
ایچ آئی وی کیسے منتقل ہوتا ہے؟
ایچ آئی وی جنسی رابطے کے ذریعے، آلودہ خون کے ساتھ براہ راست رابطے کے ذریعے اور حمل کے دوران ماں سے بچے میں منتقل ہوتا ہے۔
ایچ آئی وی کی منتقلی کے دوسرے راستے:
انجکشن سے دوا لیتے وقت انجکشن کا اشتراک یعنی دوسروں کا استعمال شدہ انجکشن کا استعمال
ٹیٹو، کان چھیدنے، وغیرہ
وائرس سے آلودہ خون کی منتقلی
بچے کی پیدائش کے وقت متاثرہ ماں کے ذریعے
احتیاط اور روک تھام
ایچ آئی وی کی منتقلی کو کم کرنے کےلیے احتیاطی اقدامات ضروری ہیں۔ یہاں کچھ اہم روک تھام کے اقدامات ہیں:
محفوظ جنسی افعال: جنسی سرگرمی کے دوران حفاظتی طریقے استعمال کرنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ اپنے خاندان کے اندر جنسی صحت کے بارے میں کھلے اور ایماندارانہ رابطے کو فروغ دیں۔
باقاعدگی سے ٹیسٹنگ: خاندانی ممبران کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ ایچ آئی وی اور دیگر بیماریوں کے زیادہ خطرے میں باقاعدگی سے ٹیسٹ کروائیں۔
سوئی کی حفاظت: اگر خاندان کے افراد طبی مقاصد کےلیے سوئیاں استعمال کرتے ہیں، جیسے کہ انسولین کے انجکشن، تو یقینی بنائیں کہ وہ سوئیوں کو صحیح طریقے سے سنبھالنے اور ٹھکانے لگانے کےلیے محفوظ طریقوں پر عمل کریں۔
خون کی حفاظت: ان ذاتی اشیائ کو شیئر کرنے سے گریز کریں جو خون کے ساتھ رابطے میں آسکتی ہیں، جیسے استرا یا ٹوتھ برش۔
ماں سے بچے میں منتقلی کی روک تھام: اگر خاندان کا کوئی فرد حاملہ ہے اور ایچ آئی وی کے ساتھ رہ رہا ہے، تو یہ ضروری ہے کہ مناسب طبی دیکھ بھال حاصل کی جائے اور تجویز کردہ اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی (اے آر ٹی) پر عمل کیا جائے تاکہ بچے میں وائرس کی منتقلی کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔
U=U (واضح نہ ہونے والا، نہ پھیلنے والا): اس سے مراد نسبتاً نئی سائنسی اصطلاح ہے جو ہر اس چیز کو بدلتی ہے جس کے بارے میں ہم سوچتے تھے کہ ہم HIV کے بارے میں جانتے تھے اور وائرس کیسے منتقل ہوتا ہے۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ HIV کے ساتھ رہنے والا ایک شخص جو اینٹی ریٹرو وائرل تھراپی حاصل کرتا ہے اور اس نے ناقابل شناخت حاصل کیا ہے۔ کم از کم 6 ماہ تک ان کے خون میں وائرل لوڈ، غیر محفوظ جنسی ملاپ کے دوران بھی عملی طور پر کسی جنسی ساتھی کو وائرس منتقل نہیں کرسکتے۔
پی ای پی (پوسٹ ایکسپوزر پروفیلیکسس): پوسٹ ایکسپوڑر پروفیلیکسس (پی ای پی) اینٹی ریٹرو وائرل ادویات کے ساتھ ایک ماہ کا علاج ہے، جو ایچ آئی وی کے ساتھ آلودگی کو روک سکتا ہے۔ مو¿ثر ہونے کےلیے، اسے جلد از جلد، اور کسی بھی صورت میں، 3 دن کے اندر، وائرس کے ممکنہ نمائش کے بعد دیا جانا چاہیے۔ متعلقہ ضابطے کے مطابق، تمام اسپتالوں کو ان صورتوں کےلیے اینٹی ریٹرو وائرل ادویات کا ذخیرہ رکھنا چاہیے۔ تاہم، اگر آپ کو متعدی امراض کے یونٹ والے اسپتال تک رسائی حاصل ہے، تو یہ مشورہ دیا جائے گا کہ آپ دورہ کریں اور ڈاکٹر سے اپنے کیس پر بات کریں۔ اگر ڈاکٹر کو یقین ہے کہ آپ کےلیے پروفیلیکٹک تھراپی لینے کی کوئی وجہ ہے، تو اسپتال مفت میں دواو¿ں کا علاج فراہم کرے گا۔
پری ای پی (پری ایکسپوڑر پروفیلیکسس): یہ ایک گولی کے ساتھ علاج ہے جو عام طور پر روزانہ لی جاتی ہے اور تقریباً 99 فیصد کی کامیابی کی شرح کے ساتھ ایچ آئی وی سے حفاظت کرتی ہے۔ یہ ان لوگوں کے ذریعہ لیا جاتا ہے جو ایچ آئی وی منفی ہیں، ان کے منفی رہنے کےلیے۔ PrEP اسی قسم کی ایک اینٹی ریٹرو وائرل دوا ہے جو ایچ آئی وی پازیٹو لوگوں کو ان کے علاج کے حصے کے طور پر دی جاتی ہے۔ اگر PrEP حاصل کرنے والے شخص کو ایچ آئی وی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو دوائیں جسم کے خلیوں میں وائرس کے داخل ہونے اور اس کی نقل کو روکیں گی۔ یہ جسم میں HIV کی تنصیب کو روکتا ہے، اس طرح PrEP لینے والے شخص کو HIV سے روکتا ہے۔ یہ دنیا بھر کے کئی ممالک بشمول پاکستان میں بھی دستیاب ہے۔
﴾﴿