دسمبرانسانی حقوق کا عالمی دن 10

نگران وزیراعظم انوار الحق نے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ پاکستان، بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے خاتمے کے اپنے مطالبے اور بھارت کے ظلم، قبضے اور جبر کے خلاف کشمیری عوام کی منصفانہ جدوجہد کی اخلاقی، سفارتی اور سیاسی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتا ہے۔
دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا گیا اور انسانی حقوق کی چیمپئن ہونے کی دعویدار عالمی اور علاقائی تنظیموں اور اسی طرح انسانی حقوق کے اپنے تئیں رکھوالے ممالک کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذکر گیا، مذمتی قراردادیں منظور کی گئیں اور انسانی حقوق کی پاسداری کے عہد کی تجدید کی گئی، مگرگزشتہ سات دہائیوں سے انسانی حقوق سے محروم کشمیری اور فلسطینی عوام کی اشک شوئی کے لیے بھی انسانی حقوق کے کسی عالمی فورم پر آواز اٹھتی سنائی نہیں دی، جس سے انسانی حقوق کے حوالے سے دنیا کے دہرے معیارکا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے، گزشتہ روز امریکا نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل کی قرارداد ویٹو کردی ہے۔
دس دسمبر 1948ءکو اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کا عالمی چارٹر منظورکیا تھا اور اسی کے تحت ہر سال 10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔
حقوق انسانی کے حوالے سے عالمی دن منایا گیا۔ تمام تر بنی نو انسانوں کے آزاد و مساوی ہونے کے تخیل کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دس دسمبر سن 1948 کو یعنی آج سے 68 برس قبل دس دسمبر کو ہر برس حقوق انسانی کے دن کے طور پر منائے جانے کی منظوری دی تھی۔ترکی نے سن 1949 کے ماہ ِ اپریل میں اقوام متحدہ کے اس حوالے سے بیان کو سرکاری طور پر قبول کیا تھا۔
حقوق انسانی کے دن کو عالمی سطح پر انسانی حقوق کے شعور کو ا±جاگر کرنے کے زیر مقصدمنائے جانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران حرص کے چنگل میں پھنسنے والے ڈکٹیٹررز کی جانب سے کرہ ارض کو کسی کھائی کے کنارے دھکیلنے ، کروڑوں انسانو ں کے جنگوں، جلا وطنی، نسل کشی اور قتل عام کا سامنا کرنے نے پیدائشی طور پر حاصل کردہ انسانی حق کو عالمی برادری کی جانب سے تسلیم کیے جانے اور اسے تحفظ میں لینے کا موقع فراہم کیا۔ عصر حاضر میں اگروسیع پیمانے کی جنگیں نہیں ہو رہیں تو بھی عراق اور شام کی طرح کے کئی ایک ممالک میں جھڑپوں اور تصادم کے دوران واضح طور پر حقوق انسانی کو پاو¿ں تلے روندھے جانے کے خلاف اقوام متحدہ اور دیگر عالمی تنظیمیں اپنی آواز یں بلندکرتے ہوئے ان کا سد باب کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ہماری دیرینہ تمنا ہے کہ چاہے دنیا کے کسی مقام پر بھی کیوں نہ ہو جھڑپوں اور دہشت گردی سے رونما ہونے والی انسانی حقوق کی پامالی کا جلد ا زجلد خاتمہ ہو۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا میں انسانی حقوق کی صورتحال دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے تمام مذاہب میں دیے جانے والے حقوق اکٹھے کیے اور اس بنیاد پر 1948ئ میں 30 نکاتی انسانی حقوق کا عالمی چارٹر (UDHR) تیار کیا جس پر اقوام متحدہ کے رکن ممالک نے دستخط کیے اور پاکستان نے بھی اسی سال ہی دستخط کردیے تھے۔
اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے لیے اس چارٹرکی پاسداری لازمی قرارپائی تھی۔ اصولی طور پر انسان نے اس قدر مادی اور سائنسی ترقی کی ہے کہ اب بات انسانوں کے حقوق سے آگے کرہ ارض کی دوسری مخلوقات جانوروں اور پرندوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کو یقینی بنانے تک پہنچ جانی چاہیے تھی۔
نظری اعتبار سے شاید بڑی حد تک بات وہیں جا پہنچی ہے کہ اب انسانوں کے حقوق سے آگے نکل کر جانوروں کے حقوق کے تحفظ کی تدابیر سوچی اور اختیار کی جا رہی ہیں مگر انسانوں کے حقوق کا معاملہ کہیں ہوا میں ہی معلق رہ گیا ہے۔
طویل ماہ و سال پر مبنی تاریخ پر نظر دوڑائیں کہ عالمی سطح پر انسانی حقوق کا نعرہ تو بلند کیا گیا اور ان حقوق کے لیے دنیا بھر میں تنظیمیں اور کمیشن قائم ہوئے۔ ان تنظیموں کی فنڈنگ بھی عالمی اداروں اور طاقتور ملکوں کی طرف سے ہوتی رہی۔ میڈیا میں انسانی حقوق کا غلغلہ بلند رہا مگر انسانی حقوق کی پاسداری اور انسانوں کی عزت و تکریم کا معاملہ عمل کی دنیا میں محض ایک خواب، ایک نعرہ اور ایک حسین تصور ہی رہا۔
اقوام متحدہ کے چارٹر میں یہ بات درج ہے کہ اگر کوئی ملک یا قوم کسی دوسرے ملک پر قبضہ کرے گا تو فریق ثانی اپنے ملک اور زمین کو غاصب ملک یا قوم سے چھڑانے یا آزاد کرانے کے لیے مسلح جدوجہد کا حق رکھتا ہے۔
یہ جدوجہد بین الااقوامی قوانین کے دائرے میں سمجھی جائے گی اور اس کی حمایت کرنا اقوام متحدہ کی اخلاقی اور قانونی ذمے داری قرار پائے گی۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو فلسطین اورکشمیر سمیت ایسے تمام علاقے جوکسی نے بھی غصب کیے ہیں اور اگر وہاں کے لوگ اپنی آزادی کی جنگ جس طرح بھی لڑ رہے ہیں وہ جنگ قانونی اور آئینی ہے۔
آج تمام اسلامی دنیا میں قبرستان کی سی خاموشی چھائی ہے، ہونا تو یہ چاہیے کہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف نہ صرف زبانی بلکہ عملی قدم بھی اٹھایا جائے تو ایسا ہی ہوگا جیسا امریکا نے مشرقی تیمور کے لیے کیا تھا اگر مشرقی تیمور میں اٹھایا گیا قدم قانونی اور آئینی تھا تو فلسطین اور کشمیر میں یہ قدم اٹھاتے ہوئے اقوام متحدہ کو کیوں ہچکچاہٹ محسوس ہورہی ہے، مگر مسئلہ اپنے اپنے مفادات کا ہے جو کہ امریکا اور یورپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔
فلسطینی عوام تو صیہونی طاقتوں کے جبرکے تحت امریکی معاونت سے اپنے خطہ ارضی سے محروم ہوئے جہاں بزور اسرائیلی ریاست کا وجود عمل میں لایا گیا اور اسے شہ دیکر مشرق وسطیٰ میں عرب ریاستوں کے مقابل کھڑا کیا گیا جب کہ امریکا نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے تحت اسرائیل کی مکمل سرپرستی کی۔
اسی بنیاد پر اسرائیلی فوجوں نے فلسطینیوں کی آزادی کی آواز دبانے کے لیے ان پر ظلم کا ہر حربہ آزمایا ہے اور بیت المقدس میں مسلمانوں کے قبلہ اول کو بھی نہیں بخشا جہاں بے بس اور نہتے فلسطینیوں پر ہمہ وقت اسرائیلی مظالم کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ان پر آئے روزگولیوں کی بوچھاڑ کی جاتی ہے۔
امریکا نے تو اسرائیل کے لیے اپنا سفارتخانہ یروشلم منتقل کرکے مسلم دشمنی پر مبنی اپنے عزائم کا اعلانیہ اظہار کیا جس کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے رسمی مذمت کی اور امریکا سے اپنا فیصلہ واپس لینے کے مطالبہ پر مبنی قرارداد منظورکی مگر سابق امریکی صدر ٹرمپ نے اس قرارداد کو نظرانداز کیا اور اسرائیل کی سرپرستی کے ایجنڈے کو آگے بڑھایا جب کہ انسانی حقوق کی علمبردار عالمی قیادتوں اور فورمز کو رسمی مذمت کی بھی توفیق نہ ہوئی۔
فلسطینی عوام آج بھی آزادی کی تڑپ میں اسرائیلی مظالم برداشت کر رہے ہیں مگر انسانی حقوق کے تحفظ کے نعرے لگانے والی قیادتوں اور تنظیموں کو فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ کی کبھی فکر لاحق نہیں ہوئی۔
گزشتہ 76 سال سے بھارتی تسلط سے آزادی کی جدوجہد کرنے اور بے پایاں جانی اور مالی قربانیاں دینے والے کشمیری عوام پر تو بھارتی سیکیورٹی فورسز کے مظالم کی انتہا ہو چکی ہے جن کے بھارتی ہندو قیادت کے ایمائ پر پہلے 1947میں قیام پاکستان کے وقت ہی وادی کشمیر پر غیرقانونی تسلط جما کر حقوق اور ان کی آزادیاں سلب کی گئیں اور پھر انھیں بھارتی آئین کی دفعات 270 اور 35 اے کے تحت حاصل خصوصی حیثیت سے بھی 5 اگست 2019کو ہندو انتہا پسند مودی سرکار نے آئین کی متذکرہ دفعات حذف کرا کے محروم کر دیا۔
یہ طرفہ تماشہ ہے کہ نمایندہ عالمی ادارے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اپنی قرارداد کے ذریعے کشمیریوں کے حق خودارادیت کو تسلیم کیا اور بھارت کو مقبوضہ وادی میں استصواب کے اہتمام کی ہدایت کی، پھر متعدد قراردادوں کے ذریعے بھارت سے اپنے اس تقاضے کا اعادہ کیا مگر بھارت ان قراردادوں کو روبہ عمل لانے کے لیے آج تک ٹس سے مس نہیں ہوا جب کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے فکرمند عالمی قیادتوں بشمول امریکا اور نمایندہ عالمی اداروں بشمول اقوام متحدہ کو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم بند کرانے کے لیے اپنا موثر کردار ادا کرنے کی آج تک توفیق نہیں ہوئی اور 76سال گزرنے کے باوجود بھارت میں اقلیتیں اور اس کے غیرقانونی زیر قبضہ کشمیر میں عوام بھارتی فوجوں کے مظالم کا سامنا کرتے ہوئے اپنی جانیں نچھاورکررہے ہیں۔
بھارتی افواج نے ایک طرف مقبوضہ کشمیر کو کھلی جیل میں تبدیل کر رکھا ہے تو دوسری جانب بھارتی اقلیتوں کو بھی ریاستی دہشت گردی کا سامنا ہے جن کے بنیادی حقوق اور مذہبی آزادیاں مسلسل پامال ہو رہی ہیں۔
پاکستان تو بلاشبہ سات دہائیوں سے کشمیریوں کی جدوجہد کے ہم آہنگ ہے اور ان کی بھارتی تسلط سے آزادی کے لیے ہر متعلقہ فورم پر اور اقوام عالم میں آواز بلند کرتا رہتا ہے۔ اسی بنیاد پر بھارت نے پاکستان کے ساتھ شروع دن سے اب تک دشمنی اختیار کر رکھی ہے جو اسے سانحہ سقوط ڈھاکا سے دوچارکرنے کے بعد باقی ماندہ پاکستان کی سلامتی کے بھی درپے ہے جب کہ پاکستان کشمیری عوام کی دامے، درمے، سخنے اور سفارتی سطح پر بھی معاونت جاری رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان نے تو بھارت کے ساتھ مذاکرات کے دروازے کبھی بند نہیں کیے مگر بھارت مذاکرات کی ہر میز رعونت کے ساتھ الٹاتا رہا ہے جب کہ محاصرے کے دوران بھی کشمیریوں پر بھارتی مظالم کا سلسلہ دراز ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھارت میں جو بھی حکومت ہو، اس کے ہاتھوں وہاں کشمیریوں اور اقلیتوں کے حقوق سلب ہی رہیں گے۔
بھارت جب تک کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی ترک نہیں کرتا، اس سے پاکستان دشمنی ترک کرنے اور علاقائی امن و سلامتی کی فضا ہموار کرنے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ اقوام عالم کو بہرصورت علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی خاطر بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھنا ہوگا اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے یو این قراردادوں پر عملدرآمد کرانا ہوگا۔ اس سے ہٹ کر انسانی حقوق کے تحفظ کی بات محض لیپا پوتی ہے۔
عالمی رویوں سے ثابت ہو رہا ہے کہ انسانی حقوق کے نعرے محض نعرے ہیں، عملاً کچھ نہیں۔ اس کے برعکس اگر کوئی ملک تجارت، اقتصادیات، نظریات اور مقاصد کی بنا پر عالمی طاقتوں کا محبوب نظر اور مرکز التفافات ہے تو اسے عام محاورے کی طرح انسانی حقوق کے معاملے میں سات خون معاف ہیں۔
یہ دورکی کوڑی بھی نہیں ہمارے گردوپیش اور ہمسائیگی میں یہ دہرے معیار اور متضاد رویے با آسانی دیکھے اور محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ اس طرح رفتہ رفتہ انسانی حقوق کے تصور کی حقیقی روح ختم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ رویہ ثابت کر رہا ہے کہ انسانی حقوق کا نعرہ محض ایک فسانہ ہے اور اسے حقیقت کی منزل تک پہنچنے کے لیے ابھی بہت وقت درکار ہے۔
10 دسمبر عالمی کیلنڈر پر ایک اہم دن ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی دن۔ 1950 میں قائم کیا گیا، یہ دن ہر انسان کے بنیادی حقوق اور آزادیوں کو برقرار رکھنے کے لیے ہمارے مشترکہ عزم کی ایک پرجوش یاد دہانی کے طور پر کام کرتا ہے۔ جیسا کہ ہم 2023 میں انسانی حقوق کے عالمی دن کو منا رہے ہیں، اس موقع کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر ایسی دنیا میں جو پیچیدہ چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیں جو انصاف، مساوات اور انسانی وقار کے لیے اجتماعی لگن کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کا عالمی دن اقوام، تنظیموں اور افراد کو انسانی حقوق کے فروغ اور تحفظ میں ہونے والی پیش رفت پر غور کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ کامیابیوں کا جشن منانے، پیشرفت کو تسلیم کرنے، اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم سماجی کارکنوں اور عام شہریوں کی انتھک کوششوں کو تسلیم کرنے کا لمحہ ہے۔ اگرچہ بلاشبہ پیش رفت ہوئی ہے، عالمی سطح پر بے شمار چیلنجز بدستور موجود ہیں۔ امتیازی سلوک، تشدد، عدم مساوات، اور بنیادی آزادیوں کو دبانے جیسے مسائل سرحدوں کے پار آبادیوں کو متاثر کرتے رہتے ہیں۔
انسانی حقوق کا دن منانا عمل کو فروغ دیتا ہے، معاشروں پر زور دیتا ہے کہ وہ نئے عزم اور عزم کے ساتھ ان چیلنجوں کا مقابلہ کریں۔ انسانی حقوق کے عالمی دن 2023 کا عنوان، ”بحران کے وقت میں انسانی حقوق کا دفاع“ ، ایک ایسی دنیا میں گہرائی سے گونجتا ہے جو صحت عامہ کے بحرانوں، سیاسی عدم استحکام اور ماحولیاتی ہنگامی صورتحال سمیت بے مثال چیلنجوں سے دوچار ہے۔ یہ غیر یقینی صورتحال کے دوران کمزور آبادیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ضروری پر زور دیتا ہے۔
انسانی حقوق کا عالمی دن ایک علامتی اشارے سے زیادہ ہے۔ یہ ٹھوس اقدامات کی کال کا عزم ہے۔ یہ افراد کو نا انصافی کے خلاف آواز اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے، حکومتوں کو ایسے قوانین بنانے اور نافذ کرنے کی ترغیب دیتی ہے جو انسانی حقوق اور برادریوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ شمولیت اور افہام و تفہیم کو فروغ دیں۔ افراد کو ان کے حقوق کے علم کے ساتھ با اختیار بنا کر، ہم ایک زیادہ منصفانہ اور منصفانہ دنیا کی بنیاد بناتے ہیں۔
تعلیم انسانی حقوق کے حصول میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ یہ آگاہی اور سمجھ کے ذریعے ہی ہے کہ معاشرے تعصب کو چیلنج کر سکتے ہیں، نظامی امتیاز کو ختم کر سکتے ہیں، اور احترام کے رجحان کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اس دن، تعلیمی اقدامات اور مہمات تبدیلی کے آغاز کی ضرورت ہے، جو افراد کو اپنے اثر و رسوخ کے دائرہ میں انسانی حقوق کے حامی بننے کی ترغیب دیتی ہیں۔ انسانیت کو درپیش چیلنجز سرحدوں سے تجاوز کرتے ہوئے بین الاقوامی تعاون کو ضروری بناتے ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی دن پر، اقوام کو ایک ساتھ کام کرنے، بہترین طریقوں کا تبادلہ کرنے، اور ایک ایسی دنیا کی تلاش میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی ان کی مشترکہ ذمہ داری کی یاد دلائی جاتی ہے جہاں تمام افراد کے حقوق کا احترام، تحفظ اور پورا کیا جاتا ہے۔ جیسا کہ ہم 10 دسمبر 2023 کو انسانی حقوق کا عالمی دن منا رہے ہیں، آئیے ہم انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ میں درج اصولوں کا تعین اور اپنے عزم کا اعادہ کریں۔ انسانی حقوق کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے، عملی طور پر انصاف اور مساوات کے لیے کام کرتے ہوئے، ہم ایک ایسی دنیا بنانے کے لیے جاری عالمی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالیں جہاں ہر شخص وقار اور آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکے۔ ایسا کرتے ہوئے، ہم انسانی حقوق کے عالمی دن کا دل و جان سے احترام کرنے کا ثبوت دیتے ہیں اور ایک زیادہ منصفانہ اور ہمدرد و روشن خیال مستقبل کی بنیاد رکھتے ہیں۔