پاکستان میں سبز انقلاب کی اہمیت و ضرورت

راجہ کامران
سبز انقلاب کے ذریعے پاکستان دنیا کی غذا کا مرکز بن سکتا ہے۔
حضرت یوسف علیہ اسلام کے قصے میں جہاں متعدد واقعات بیان ہوئے، وہیں انسان کو اپنی غذا کے انتظام اور انصرام کو بہتر بنانے کا سبق بھی ہے۔ انسان کس طرح خوشحالی کے دنوں میں، جب غذا کی فراوانی ہو، غلہ جمع کرے اور پھر کس طرح قحط کے ایام میں اس غلے کی تقسیم کی جائے۔ یوسف علیہ السلام نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ گندم کو بہتر انتظام کے ذریعے سات سال تک انسانوں کی غذائی ضروریات کےلیے پورا کیا۔
انسانی تاریخ میں شہری زندگی کے مقابلے میں دیہی زندگی کی بہت اہمیت رہی ہے۔ غذائی اجناس دیہات میں پیدا ہوتیں اور شہروں میں استعمال ہوتیں۔ مگر تیزی سے تبدیل ہوتے حالات اور جدید طرز زندگی کی وجہ سے 2007 میں ایک انقلابی تبدیلی آئی، جس میں شہری آبادی نے انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیہی کو پیچھے چھوڑ دیا اور شہروں میں رہنے والوں کی تعداد دیہی آبادی سے بڑھ گئی۔
کسان ہمارے ملک کا وہ طبقہ ہے جس کے مسائل دن بدن بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اپنے حالات کی بہتری کےلیے کسان حکومت کی مدد سے کسی معجزے کا انتظار کرسکتا ہے یا خود آگے بڑھ کر اپنی کاشتکاری کو زیادہ فائدہ مند بناسکتا ہے۔ چونکہ بیج، کھاد، اسپرے وغیرہ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو ہم کنٹرول نہیں کرسکتے، اس لیے کاشتکاری کو فائدہ مند بنانے کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہمیں اپنے کھیت سے زیادہ آمدن حاصل کرنا ہوگی۔
ایک وقت تھا کہ کسان صرف روایتی فصلیں لگا کر اپنا گزربسر کر رہا تھا لیکن مہنگائی کے اس دور میں ہمیں روایتی فصلوں کے ساتھ ساتھ آمدنی کے دیگر ذرائع کی طرف بھی توجہ دینا ہوگی۔ زرعی شجرکاری کاشتکاروں کےلیے اضافی آمدن کا ایک ایسا ذریعہ ہے جس میں فصلوں کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے درخت بھی لگائے جاتے ہیں۔
ہمارے کاشتکاروں کی آمدنی کا بنیادی ذریعہ فصل کی فروخت ہے، جس کےلیے چھ مہینے یا سال بھر انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اگر فصل کے ساتھ درخت بھی لگادیے جائیں تو ضرورت پڑنے پر درخت بیج کر رقم حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس طرح پانچ سال بعد کاشتکار کےلیے فصل کے علاوہ اضافی آمدن کا ایک مستقل ذریعہ شروع ہوجائے گا۔ اگر درخت لگانے کے ساتھ کچھ بھیڑ، بکریاں بھی پال لی جائیں تو ایسا منافع بخش فارمنگ سسٹم تشکیل دیا جاسکتا ہے جس میں کاشتکار کےلیے فائدہ ہی فائدہ ہوگا۔اس سے نہ صرف دیہی علاقوں میں غربت میں کمی واقع ہوگی بلکہ ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے میں بھی مدد ملے گی۔
پاکستان میں ہر سال جب گندم پک کر تیار ہوتی ہے تو آندھی طوفان کی وجہ سے فصل گر جاتی ہے اور کاشتکار کو نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کھیت کے کنارے درخت لگے ہوں تو یہ ہواو¿ں کو روکنے اور آندھی کی شدت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ درختوں کی جڑیں نہ صرف آبی آلودگی میں کمی کا سبب ہوتی ہیں بلکہ زمینی کٹاو¿ کو روک کر زمین کی زرخیزی کو بھی محفوظ رکھتی ہیں۔ چونکہ درخت پرندوں کی آماجگاہ ہوتے ہیں اس لیے یہ بائیوڈائیورسٹی میں اضافے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ آرگینگ فارمنگ میں پرندوں کو خصوصی اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ یہ فصلوں کو نقصان پہنچانے والے کیڑوں کے ”بائیولوجیکل کنٹرول“ میں مدد کرتے ہیں۔ اسی طرح درختوں کے پتے اور پرندوں کا فضلہ بھی زمین میں قدرتی کھاد کا فائدہ دیتا ہے۔
زرعی شجرکاری میں ہمیں چند باتوں کا خیال رکھنا چاہیے جس میں سب سے اہم درختوں کا انتخاب ہے۔ ہمیں ایسے درختوں کا انتخاب کرنا چاہیے جو مقامی ماحول سے مطابقت رکھتے ہوں۔ تیزی سے بڑھنے والے اور ایسے درختوں کو ترجیح دینی چاہیے جن کےلیے اضافی محنت کی ضرورت نہ ہو۔ ایسے درخت نہ لگائیں جن کا سایہ زیادہ ہو بلکہ سیدھے تنے والے درختوں کا انتخاب کریں تاکہ ان کے سائے کی وجہ سے فصل متاثر نہ ہو۔ درختوں کی وقتاً فوقتاً چھدرائی اور کٹائی کرتے رہیں تاکہ نشوونما اچھی ہو اور تنا بھی سیدھا رہے۔
زرعی شجرکاری میں عام طور پر کھیت کے کنارے شرقاً غرباً 20 فٹ کے فاصلے پر درخت لگائے جاتے ہیں، جن کی تعداد ایک ایکڑ میں کم از کم 40 ہوتی ہے۔ درخت لگاتے ہوئے الیلوپیتھک ایفیکٹ کا بھی خیال رکھنا چاہیے، جس کےلیے متعلقہ محکمہ کے ماہرین سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے۔
عام طور پر جنوبی اور وسطی پنجاب میں کھیتوں کے کناروں پر شیشم، پاپولر، سمبل اور شریں کے علاوہ کیکر کی ایسی اقسام بھی لگائی جاسکتی ہیں جو زیادہ سایہ دار نہ ہوں اور تیزی سے نشوونما پائیں۔ پھل دار درختوں میں جامن، بیری اور آم لگا کر آپ نہ صرف موسمی پھلوں سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں بلکہ اضافی آمدنی بھی کماسکتے ہیں۔
ہمارے ہمسایہ ممالک چین اور بھارت میں فصلوں کے ساتھ ہربل درخت لگانے کا رواج عام ہورہا ہے۔ ہماری آب و ہوا نیم، بکائن اور سوہانجنا کےلیے بہترین شمار ہوتی ہے، جنہیں کھیتوں کے کناروں پر بھی لگایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح املتاس اور ارجن بھی ایسے درخت ہیں جن کی پھلیاں، پتے اور چھال فارماسیوٹیکل میں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔آج کل سفیدہ کی کئی ماحول دوست اقسام آچکی ہیں، جن کے پتے اور تیل ادویات میں استعمال ہوتے ہیں۔
آبادی میں اضافے کی وجہ سے لکڑی کی مانگ میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، کیوں کہ فرنیچر، کھیلوں کا سامان اور کاغذ انڈسٹری کا زیادہ تر انحصار جنگلات پر ہے۔ آج بھی پاکستان کے 28 فیصد لوگ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لکڑی کو بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں۔ زرعی شجرکاری کو فروغ دے کر ہم قدرتی جنگلات کے کٹاو¿ کو روک سکتے ہیں۔اس طرح حاصل ہونے والی لکڑی نہ صرف مقامی آبادی کے ایندھن کی ضروریات کو پورا کرسکتی ہے بلکہ انڈسٹریز اور انفرااسٹرکچر بھی بہتر ہوسکتا ہے۔ موجودہ حکومت کے بلین ٹری سونامی پراجیکٹ میں ایگروفاریسٹری اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اپنی تقاریر میں زیتون کی کاشت میں دلچسپی کا اظہار بھی کرچکے ہیں۔ اس پراجیکٹ کے تحت نہ صرف زیتون بلکہ عود اور صندل جیسے قیمتی درخت لگا کر زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔
ہمارے کاشتکاروں کا عمومی خیال ہے کہ کھیتوں میں درخت لگانے سے فصل کی پیداوار میں کمی واقع ہوگی۔ اگرچہ جدید تحقیق نے اس مفروضے کو غلط ثابت کردیا ہے لیکن ریسرچ اداروں کو چاہیے کہ اس پر مزید تحقیقات کرتے ہوئے نمائشی پلاٹ لگائیں تاکہ عام کاشتکار اس ریسرچ سے فائدہ اٹھا سکیں۔ کپاس اور دھان جیسی فصلوں کے ساتھ درخت لگانے سے لیف رولر، ہاپر اور سفید مکھی جیسے کیڑوں کے حملے میں ممکنہ اضافہ ہوسکتا ہے۔ ان عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے ریسرچ کے بعد مکمل منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں منفی اثرات کا خدشہ نہ رہے۔
محکمہ جنگلات کی ذمے داری ہے کہ مقامی آب و ہوا کے مطابق درخت لگانے میں کاشتکاروں کو مدد فراہم کرے۔ اس مقصد کےلیے سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد مفید ثابت ہوسکتا ہے۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے کاشتکاروں کو ایگروفاریسٹری کی طرف راغب کرنا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ زرعی شجرکاری کےلیے علحیدہ پالیسی بنائی جائے یا نیشنل فاریسٹ پالیسی میں جگہ دی جائے۔ اس کے فروغ کےلیے کسانوں کو مالی امداد، مشینری اور نرسری لگانے کےلیے سہولیات بھی فراہم کی جائیں۔
طبی سہولتوں میں بہتری نے انسانوں کی اوسط زندہ رہنے کی عمر میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ انسانی آبادی کے اعدادوشمار پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ صنعتی انقلاب کے بعد سے انسانی آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ انسانی آبادی پہلی مرتبہ 1803 میں ایک ارب کی سطح پر پہنچی۔ اور انسانی آبادی 127 سال بعد یعنی 1930 میں 2 ارب ہوگئی۔ اور آبادی میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا رہا اور اس وقت کرہ? ارض پر 7 ارب سے زائد انسان آباد ہیں۔ اگر آبادی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو آئندہ 27 سال یعنی سال 2050 تک آبادی 10 ارب تک پہنچ جائے گی۔ جس سے خدشہ ہے کہ زمین پر انسانوں کےلیے غذا کا بندوبست کرنا ایک مشکل اور سب سے اہم مسئلہ بن جائے گا۔
انسانوں کا تیزی سے دیہی زندگی کی جگہ شہری زندگی کو اختیار کرنے اور آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے انسانوں کو غذا کی فراہمی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوتے جارہے ہیں۔ بعض ملکوں میں کاشت کےلیے زمین دستیاب نہیں۔ اس کے علاوہ زرعی شعبے میں افرادی قوت کی کمی بھی ہوتی جارہی ہے۔ انسانی غذا کی بنیاد گندم کے اناج پر ہے اور یہ گندم روس، یوکرین کے خطے میں بڑے پیمانے پر کاشت ہوتی ہے۔ جہاں سے دنیا کے مختلف ملک اپنی غذائی ضروریات کےلیے گندم کی خریداری کرتے ہیں۔ مگر روس اور یوکرین جنگ کی وجہ سے گندم کی فراہمی کا یہ ذریعہ بھی خطرات کا شکار ہوگیا ہے۔ ایسے میں پاکستان کے پاس یہ گنجائش موجود ہے کہ وہ دنیا کی غذا کا مرکز بن سکے۔
عالمی سطح پر شہروں کی جانب ہجرت کے باوجود پاکستان میں اس وقت بھی آبادی کا بڑا حصہ دیہی علاقوں میں رہتا ہے اور پاکستان میں 37.9 فیصد آبادی شہروں میں اور 62.1 فیصد دیہات میں آباد ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے پاکستان غذا کی قلت کے خدشات میں دنیا کےلیے اور خصوصاً اپنے خطے کےلیے غذا فراہم کرنے والا ایک مرکز بن سکتا ہے۔ زراعت کے ساتھ اہم چیز یہ بھی ہے کہ اس پر سرمایہ کاری کے نتائج بھی بہت جلد برآمد ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سابقہ حکومت نے پاکستان آرمی کے اشتراک سے پاکستان گرین انیشیٹو کے نام سے ایک زرعی انقلاب لانے کے پروگرام کا اعلان کیا تھا۔
پاکستان گرین انیشیٹو میں ملکی زراعت کو تیزی سے فروغ دینے کےلیے ملک کے بنجر اور بے آباد صحرائی علاقوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ پاکستان کے جی ڈی پی کا 23 فیصد زراعت پر مشتمل ہے۔ جو کہ پاکستان کے پاس دستیاب وسائل جیسا کہ افرادی قوت، نہری نظام، دستیاب زمین کے مقابلے بہت ہی کم ہے۔
ملک میں موسمی حالات کے لحاظ سے 12 جغرافیائی خطے موجود ہیں۔ ایک طرف 1000 کلومیٹرطویل ساحلی پٹی، پنجاب اور سندھ کے میدانی علاقے، اور دنیا کے بڑے گلیشیئرز تک موجود ہیں۔ اس لیے ملک میں تقریباً ہر قسم کی فصل، کاشت ہوسکتی ہے۔
زرعی زمین کی دستیابی
پاکستان گرین انشیٹیو کے پاس 7 کروڑ 96 لاکھ ہیکٹر زمین زراعت کےلیے دستیاب ہے۔ جس میں سے 2 کروڑ 41 لاکھ ہیکٹر زیر کاشت ہے اور حکومت کے پاس 91 لاکھ ہیکٹر زمین بے آباد پڑی ہے۔ اور اسی بے آباد زمین میں سے 48 لاکھ ہیکٹر پاکستان گرین انیشیٹو کےلیے منتخب کیا گیا ہے۔ منصوبے میں شامل زمین کا مجموعی رقبہ 18200 اسکوئر کلومیٹر ہے جوکہ 42 ملکوں کے مجموعی رقبے سے زیادہ بڑا ہے۔ منصوبے کےلیے زمین کی چاروں صوبوں میں نشاندہی کردی گئی ہے۔ خبیرپختونخوا میں 12 لاکھ ایکڑ، بلوچستان 10 لاکھ ایکڑ، سندھ 13 لاکھ ایکڑ اور پنجاب میں 13 لاکھ ایکڑ زمین مختص کی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں چولستان میں زراعت کا تجربہ کیا گیا ہے جو کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
زرعی اجناس اور مصنوعات کی برآمدات کے مواقع
گرین پاکستان انیشٹیو میں جن فصلوں کو اہمیت دی جارہی ہے، ان میں کپاس، گندم، مکئی، سورج مکھی، چاول، دالیں، مرچیں اور جانوروں کا چارہ شامل ہیں۔ ان فصلوں کے ذریعے نہ صرف مقامی غذائی اور صنعتی ضروریات کو پورا کیا جائے گا بلکہ یہاں اضافی پیداوار کو دنیا کے مخلتف ملکوں کو برآمد بھی کیا جائے گا۔
پاکستان کے خطے میں زرعی اجناس کی برآمد کے بہت مواقع موجود ہیں۔ سعودی عرب سالانہ 21.6 ارب ڈالر کی اجناس درآمد کرتا ہے، جس میں پاکستان کی برآمدات صرف 23 کروڑ ڈالر ہیں۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات 18.3 ارب ڈالر کی غذائی مصنوعات درآمد کرتا ہے جس میں پاکستان کا حصہ صرف 60 کروڑ ڈالر ہے۔ چین 134.3 ارب ڈالر کی غذائی اجناس اور مصنوعات درآمد کرتا ہے جس میں پاکستان حصہ صرف 2.8 ارب ڈالر ہے۔ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کےلیے سبزیاں، پھل، گوشت، ڈیری مصنوعات، تمباکو اور مچھلی کے علاوہ بڑے پیمانے پر تیار اور غذائی مصنوعات کی درآمد کرتے ہیں، یعنی پاکستان کے پاس افرادی قوت، زمین اور مارکیٹ قریب ہی موجود ہے۔
زراعت کے فروغ کےلیے حکومتی مراعات اور فنڈز
اس حوالے سے حکومت نے مالی سال 2023-24 کے بجٹ میں کسان پیکیج کے تحت 1800 سے 2250 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ ایگرو بیس انڈسٹری کےلیے 5 سال تک ٹیکس چھوٹ، شمسی توانائی کےلیے 30 ارب روپے، پانی کے تحفظ کےلیے 10 ارب روپے اور فرٹیلائزر سبسڈی کےلیے 6 ارب روپے مختص کیے ہیں۔ اس کے علاوہ زرعی آلات، بیج اوردیگر مصنوعات کےلیے سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ دی ہے۔
جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کا استعمال
جدید سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے استعمال سے زرعی ڈیٹا بیس بھی بنایا جارہا ہے۔ اس کو فارم آن پام یعنی آپ کی ہیتھلی پر آپ کے فارم کی مکمل معلومات ہوگی۔ اس مقصد کےلیے ایس آئی ایف سی کے تحت لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم بھی تیار کیا گیا ہے، جس میں زمین کے ہر رقبے کی ڈیجیٹل نقشے میں نشاندہی کردی گئی ہے۔ اور سرمایہ کار دنیا میں کہیں بھی ہو وہ اپنے فارم کی تازہ ترین صورتحال معلوم کرسکتا ہے بلکہ موسمی حالات کے تحت مناسب فیصلہ سازی بھی کرسکتا ہے۔ اس منصوبے میں شامل سرمایہ کاروں کو کاربن کریڈٹ مارکیٹ تک رسائی ہوگی۔
سرمایہ کاری کے مواقع
پاکستان گرین انیشیٹو کے اعلان کے ساتھ ہی ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں نے اس منصوبے میں سرمایہ کاری کےلیے معاہدے کرلیے ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے 1 لاکھ 40 ہزار ایکڑ جبکہ 10 ملکی سرمایہ کاروں اور کمپنیوں نے 2 لاکھ 24 ہزار ایکڑ زمین پر کاشت کےلیے معاہدہ کرلیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تیل، پام آئل اور کنولا کی کاشت کےلیے بھی زمین کےلیے کمپنیوں نے رابطہ کیا ہے۔
پاکستان گرین انیشیٹو میں سرمایہ کاری کے ہمہ جہت مواقع موجود ہیں۔ اس حوالے سے وضع کردہ فریم ورک میں غیر ملکی سرمایہ کاروں اور بڑے کارپوریٹ سرمایہ کاروں کے علاوہ ایسے افراد جو بڑے پیمانے پر خود کاشت کرنا چاہیں، مویشی پروری اور چھوٹے کسانوں کےلیے مواقع موجود ہیں۔ بڑے فارمرز کے اثرات چھوٹے فارمرز پر بھی پڑیں گے۔ پاکستان کی 95 فیصد زمین 12.5 ایکڑ سے کم زمین والے کسانوں کے پاس ہے۔
اس حوالے سے سرمایہ کاری کرنے کےلیے بھی مختلف طرح کے ماڈلز کو اپنایا گیا ہے۔ اس منصوبے میں سرمایہ کاری کےلیے ایس آئی ایف سی سنگل ونڈو آپریشن فراہم کررہی ہے۔ اور آئین میں 175 ای کی شق شامل کردی گئی ہے۔ سرمایہ کاری کرنے والوں کو منصوبے پر قانونی اختیار دیا جائے گا۔ اگر کوئی فرد ایس ای سی پی میں رجسٹر کرنے یا بغیر رجسٹریشن کے مشترکہ منصوبہ کرنا چاہے، اس کو بھی سہولت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ کنٹریکٹر ماڈل بھی ہے۔ جس کو بلڈ آپریٹ اینڈ ٹرانسفر کے تحت سہولت دی جائے گی۔ اس کے علاوہ سرمایہ کار ماڈل ہے، جس کے پاس پیسے ہیں وہ مشترکہ منصوبہ شروع کرسکتا ہے۔
پاکستان گرین انیشیٹو ایسے علاقے میں روبہ عمل لایا جارہا ہے جہاں اس وقت کسی قسم کا انفرااسٹرکچر حتیٰ کہ سڑکیں بھی موجود نہیں۔ اس حوالے سے ایک جدید زرعی اور زرعی صنعت سے متعلق انفرااسٹرکچر بنانا ہوگا۔ سرمایہ کار براہ راست زراعت میں سرمایہ کاری کے علاوہ زراعت سے متعلق انفرااسٹرکچر میں بھی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔
زرعی اجناس کا ذخیرہ کرنا
پاکستان گرین انیشیٹو میں پیدا ہونے والی اجناس کو ذخیرہ کرنے کا مکمل اور نیا انفرااسٹرکچر قائم کرنا ہوگا۔ اجناس کو ذخیرہ کرنے کےلیے اب باردانہ کے بجائے جدید سائیلوس بنائے جاتے ہیں۔ ان سائیلوس میں گندم، چاول، مکئی اور دالوں کو محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اور ان سائیلوس میں درجہ حرارت، آکسیجن نمی اور دیگر امور کو اس طرح کنٹرول کیا جاتا ہے کہ اجناس کو کیڑوں اور فنگس لگنے سے بچایا جاسکتا ہے۔ پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ بنانے کےلیے کولڈ اسٹوریج بھی بنانا ہوں گے۔
زرعی آبپاشی
دنیا میں میٹھا پانی، دنیا کے مجموعی پانی کا 2.5 فیصد ہے۔ اس میٹھے پانی کا 72 فیصد پانی گلیشیئرز میں منجمند جبکہ 27 فیصد زیر زمین ہے۔ دریاو¿ں اور نہروں میں میٹھے پانی کا صرف ایک فیصد دستیاب ہے۔ اس لیے پاکستان گرین انیشیٹو میں روایتی نہری نظام سے ہٹ کر پائپ لائنوں کے ذریعے ان صحرائی علاقوں میں پانی پہنچایا جائے گا۔ چولستان کے صحرا میں دنیا کا ایک بڑا ایکوافر موجود ہے۔ اس کے زیر زمین پانی کو بروئے کام لایا جارہا ہے، اس کےلیے جدید آبپاشی کا نظام قائم کیا جارہا ہے۔
ایک ملین ایکڑ پانی معیشت میں ایک ارب ڈالر کی اجناس پیدا کی جاسکتی ہیں۔ اور جدید طریقہ کار استعمال کرکے پانی کی بچت بھی کی جائے گی۔ پاکستان گرین انیشیٹو میں فصلوں کو پانی دینے کے روایتی طریقہ کار (جس کو فلڈ ایریگیشن کہتے ہیں) کے بجائے جدید طریقہ کار اپنایا جائے گا۔ اور اس کےلیے ڈرپ ایریگیشن، اور رین فال ایریگیشن کا نظام دیا جائے گا۔ جبکہ زیر زمین ایکوافر سے پانی حاصل کرنے کےلیے سولر ٹیوب ویل استعمال ہوں گے۔ ان تمام آلات کی تیاری، فروخت اور دیکھ بھال کے نظام میں سرمایہ کاری کی جاسکے گی۔
ایندھن کی فراہمی
پاکستان گرین انیشیٹو میں بڑے پیمانے پر زرعی مشینری اور آلات کا استعمال ہوگا، جس کےلیے کاربن اور گرین ایندھن کی ضرورت بھی ہوگی۔ اس حوالے سے بھی انفرااسٹرکچر میں سرمایہ کاری کرنے کے امکانات ہیں۔
رہائش
بڑے پیمانے پر ہونے والی زرعی سرگرمی کےلیے افرادی قوت کو آباد علاقوں سے غیر آباد صحرائی بنجر علاقوں میں منتقل کرنا ہوگا۔ اس لیے مشترکہ رہائش کی ایسی سہولت بنائی جائے جس کو محنت کش ازخود یا متعلقہ کمپنی کرائے پر حاصل کرسکے۔
پاکستان گرین انیشیٹو ایک دستاویز نہیں بلکہ اس پر عملی طور پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ اور چولستان کے علاقے میں زمین کو ہموار کرنے کے علاوہ بعض علاقوں میں گندم اور جانوروں کے چارے کی آزمائشی پیداوار بھی حاصل کرلی گئی ہے۔ مگر اس بڑے منصوبے میں غیر ملکی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ مقامی سرمایہ کاری کو بھی فروغ حاصل ہوگا۔ اس منصوبے کی کامیابی بھی مقامی سرمایہ کاروں کی دلچسپی سے منسلک ہے۔ مگر اس منصوبہ سازوں کو سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان اسٹاک ایکس چینج اور پاکستان مرکنٹائل ایکس چینج کو بھی استعمال کرنا ہوگا۔ انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے لیے پاکستان گرین انیشیٹو انفرااسٹرکچر کمپنی قائم کرنا ہوگی، جو کہ اس غیر آباد علاقے میں انفرااسٹرکچر کی منصوبہ بندی کرے گی۔ اور یہ کمپنی پاکستان اسٹاک ایکس چینج پاکستان گرین انشیٹیو بانڈ کا اجرا بھی کرسکتی ہے۔ جس کو بعد ازاں شیئرز میں تبدیل کرکے پاکستان گرین انیشیٹو انفرااسٹرکچر کمپنی میں شراکت دار بنادیا جائے۔ تاکہ سرمائے کو اس منصوبے کی جانب راغب کیا جاسکے۔ سرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھانے کےلیے اس منصوبے سے متعلق اعدادوشمار بھی ماہانہ بنیادوں پر جاری کرنے کا عمل بھی شروع کرنا ہوگا۔