سیاسی نظام پر عدم اعتماد یا سوشل میڈیا پر مہم

پاکستان بھر میں ماضی کے برعکس انتخابی گہما گہمی میں کمی کیوں؟

پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد میں صرف 18 دن باقی رہ گئے ہیں لیکن ماضی کے برعکس اس مرتبہ ملک کے سڑکوں، چوراہوں پر جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے بینرز اور پوسٹرز کچھ کم لگے دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر بھی اگر نظر دوڑائی جائے تو یہاں بھی ان سیاسی جماعتوں کے اشتہارات کی بھرمار دکھائی نہیں دیتی۔
اگر ماضی کے انتخابات کے وقت کو یاد کریں تو ٹی وی و اخبارات کے اشتہاروں میں کہیں بلے کا زور تھا، کہیں شیر کی دھاڑ تو کبھی تیر کا نشانہ مگر اس بار نہ کوئی اشتہارات کی بھرمار ہے اور نہ ہی جلسے جلوسوں اور انتخابی دفاتر کے باہر بیٹھے افراد کی گہما گہمی۔ مگر کیوں؟
ملک میں عام انتخابات کے انعقاد میں تین ہفتوں سے بھی کم وقت رہ جانے کے باوجود سیاسی کارکنوں اور عام لوگوں میں بھی جوش و خروش کچھ کم معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان میں تقریباً تمام ہی چھوٹی، بڑی سیاسی جماعتیں اور آزاد امیدوار انتخابی مہم کی تیاریوں کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن جلسوں سمیت سیاسی سرگرمیوں میں واضح کمی نظر آ رہی ہے۔
پاکستان میں بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اس مشاہدے سے جزوی طور پر اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ سیاسی رہنماوں اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سڑکوں اور گلیوں میں انتخابی گہما گہمی کم ہونے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں انتخابات سے متعلق لوگوں میں غیریقینی، لوگوں کا مبینہ طور پر سیاست سے اعتماد ا±ٹھ جانا، موسم کی سختی اور ایک بڑی سیاسی جماعت کا انتخابی دنگل سے بظاہر باہر ہونا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان اور سپریم کورٹ یہ واضح کر چکے ہیں کہ انتخابات آٹھ فروری کو ہی ہوں گے اور ان میں کسی قسم کا التوا نہیں ہوگا۔ پھر انتخابات کے حوالے سے بے یقینی کیوں پائی جاتی ہے؟
پاکستان کے ایوانِ بالا میں اب تک تین قراردادیں پیش کی گئیں جس میں انتخابات کو ملتوی کرنے کے لیے سکیورٹی کی خراب صورتحال اور موسم کی شدت کو جواز بنایا گیا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما قمر زمان کائرہ نے بتایا کہ ’آپ کا یہ مشاہدہ درست ہے کہ اس بار انتخابی گہما گہمی میں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے جس کی وجہ لوگوں میں انتخابات کے حوالے سے پھیلی ہوئی غیر یقینی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’لوگ اکثر ہم سے بھی پوچھ لیتے ہیں کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں؟ ہم انھیں بتاتے ہیں کہ ایسی کوئی وجہ ہمیں تو نظر نہیں آتی جس کے سبب الیکشن تاخیر کا شکار ہوں۔‘
واضح رہے کہ الیکشن سے قبل قوانین کے تحت تمام امیدواروں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کے لیے 54 دیے جاتے ہیں۔
’پنجاب میں سیاسی ہلچل اس لیے نہیں کیونکہ ہمارے مقابلے میں ہی کوئی نہیں‘
سیاسی شخصیات اور پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے افراد کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو انتخابی عمل سے متعلق درپیش مسائل بھی ایک وجہ ہے جس کے باعث الیکشن کا جوش و خروش ماضی کی طرح نظر نہیں آ رہا۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما اعظمیٰ بخاری نے پنجاب میں سیاسی جوش و خروش میں کمی کی سب سے بڑی وجہ موسم کی سختیوں اور ’سرد موسم‘ کو قرار دیا۔
اعظمیٰ بخاری نے پاکستان تحریک انصاف کا نام لیے بغیر انتخابی گہما گہمی میں کمی کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں سیاسی ہلچل اس لیے بھی نہیں کیونکہ یہاں ہمارے مقابلے میں ہی کوئی نہیں، ایک دوسری جماعت ہے جو کہ گراونڈ پر موجود نہیں اور ان کے امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ بھی عظمیٰ بخاری کی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ’عمران خان صاحب نے کچھ ایسے اقدامات کیے جس سے ان کی جماعت کے خلاف ایکشن شروع ہوا اور یہ سب انھوں نے خود کمایا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اس سے ا±ن کا بھی نقصان ہوا، سیاست کا بھی نقصان ہوا اور یہ عمل ابھی تک جاری ہے۔‘
قمر زمان کائرہ کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت نے انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے لیکن پاکستان مسلم لیگ ن نے اپنی انتخابی مہم ابھی شروع کی ہے شاید اس لیے بھی انتخابی جوش و خروش کچھ کم نظر آ رہا ہے۔
واضح رہے سابق وزیراعظم عمران خان سائفر، توشہ خانہ، القادر ٹرسٹ سمیت دیگر کیسز کا سامنا ہے اور وہ راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
’لوگوں میں پری پول رگنگ کے خدشات ہیں‘
کراچی سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن اور شہر کے ایک صوبائی اسمبلی کے حلقے سے آزاد انتخابی امیدوار جبران ناصر کا کہنا ہے کہ لوگوں میں انتخابات سے قبل ’پری پول رِگنگ‘ کے خدشات موجود ہیں۔
’پری پول رِگنگ ایسی ہو رہی کہ لوگوں کو یہ تو نہیں پتہ کہ اگلا وزیراعظم کون ہوگا لیکن یہ ضرور پتا ہے کہ کون وزیراعظم نہیں ہوگا۔‘
جبران ناصر کے مطابق ’اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ پی ٹی آئی کے پاس لیول پلیئنگ فیلڈ موجود نہیں ہے اور یہ سب پی ٹی آئی کے وکیل چیف جسٹس کے سامنے بھی کہہ چکے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’یہ ایک آئینی، قانونی اور جمہوری مذاق ہی ہے کہ ایک جماعت کے لوگ آزاد حیثیت سے ایک پارٹی کے منشور تلے انتخابات لڑیں گے لیکن پارلیمنٹ میں پہنچنے کے بعد وہ آزاد ہوں گے کہ کون سی جماعت میں شمولیت اختیار کریں۔‘
واضح رہے الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قراد دیا تھا جس کے بعد جماعت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں بھی چیلنج کیا تھا جہاں عدالتِ اعظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا اور پی ٹی آئی کا انتخابی نشان ’بلا‘ ان سے چِھن گیا تھا اور پارٹی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے اعلان کیا تھا کہ اب ان کے لوگ بطور آزاد امیدوار انتخابات میں حصہ لیں گے۔
’انتخابی گہماگہمی کے لیے سیاسی مقابلہ ضروری ہے جو ہوتا نظر نہیں آ رہا‘
پاکستانی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ضیغم خان کا خیال ہے کہ انتخابی گہما گہمی کے لیے سیاسی مقابلہ ضروری ہے لیکن اس بار سیاسی مقابلہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
انھوں نے بتایا کہ ’سندھ میں کراچی اور دیگر شہری علاقوں کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کا سیاسی پلڑہ بھاری نظر آتا ہے۔ کچھ علاقوں میں ایم کیو ایم ہے اور کچھ علاقوں میں پیرپگارا اور وہیں مقابلہ ہوتا ہے جس سے سیاسی گہما گہمی نظر آتی ہے۔‘
ضیغم خان مزید کہتے ہیں کہ ’پنجاب کا صوبہ سندھ کے مقابلے میں تھوڑا مختلف اس لیے ہے کیونکہ وہاں ہمیشہ انتخابات میں دو بڑی پارٹیوں کا مقابلہ ہوتا آیا ہے۔‘
’پہلے یہ مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہوتا تھا اور پچھلے تقریباً دو انتخابات میں ہم نے یہ مقابلہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان ہوتا ہوا دیکھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی اس وقت سیاسی اکھاڑے میں موجود ہی نہیں۔
’پنجاب میں اب صرف ایک ہی پہلوان ہے، جب برابر کی ٹکر ہی نہیں تو سیاسی گہما گہمی کیسے نظر آئے گی؟‘
لوگوں کا سیاست سے ا±ٹھتا ہوا اعتماد یا سوشل میڈیا عدم دلچسپی کی وجہ؟
پاکستان مسلم لیگ ن کی رہنما اعظمی بخاری اور کراچی سے آزاد امیدوار جبران ناصر کہتے ہیں کہ انتخابی گہما گہمی کا اندازہ صرف سڑکوں پر ہونے والی سرگرمیاں دیکھ کر لگانا بھی درست نہیں۔
اعظمیٰ بخاری نےبتایا کہ ’زمانہ اب جدید ہو چکا ہے اور سیاسی جماعتیں لوگوں تک رسائی کے لیے سوشل میڈیا سمیت دیگر تکنیکوں کا استعمال کرتی ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’اس وقت کسی بھی پارٹی کے پاس منشور دستاویزی صورت میں موجود نہیں لیکن پاکستان مسلم لیگ ن ماہرین اور ٹیکنوکریٹس کی مدد سے تیار کردہ منشور 27 جنوری کو ایک بڑی تقریب میں متعارف کروائے گی۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریکِ لبیک پاکستان اور دیگر جماعتیں اپنے منشوروں کا اعلان کر چکی ہیں، تاہم بیان کے دستاویزی شکل میں ہونے یا نہ ہونے کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکا۔
جبران ناصر کہتے ہیں کہ ’ٹیکنالوجی کے دور میں ضروری نہیں کہ اب انتخابات کے سلسلے میں کارنر میٹنگز گلیوں یا سڑکوں میں ہی ہو۔‘
’اس جدید دور میں ہوسکتا ہے کہ کارنر میٹنگز واٹس ایپ گروپ میں ہو رہی ہوں یا امیدوار انسٹاگرام یا سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے پیغام ووٹرز تک پہنچا رہے ہوں۔‘
پاکستانی پیپلز پارٹی پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ انتخابی گہما گہمی نہ ہونے کا سبب سیاست میں لوگوں کی عدم دلچسپی کو بھِی سمجھتے ہیں۔
’کچھ ایسا لگ رہا ہے اور اگر یہ تاثر درست ہوا تو یہ بڑی غلط بات ہوگی، تکلیف دہ بات ہوگی کہ لوگوں کا سیاست سے تعلق ا±ٹھ رہا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بھی ہوا ہے کہ ہم نے سیاست کو ب±را بھلا کہنا شروع کر دیا اور ہم سیاست کو بدنام کرتے گئے۔‘
وہ کہتے ہیں ’سیاست سے لوگوں کا اعتماد اٹھنے کے کسی حد تک قصوروار سیاستدان بھی ہیں کسی حد تک ہے لیکن تمام ذمہ داری نہیں ہے۔‘
جب سیاست میں عدم دلچسپی سے متعلق سوال جبران ناصر سے کیا گیا تو ا±ن کا کہنا تھا کہ وہ کراچی کے ایک صوبائی حلقے پی ایس 110 سے امیدوار ہیں اور ان کا انتخابی منشور ’سروس ڈیلیوری‘ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایک موبائل فون ایپ کے ذریعے حلقے کے عوام کو 25 گھنٹے ان کے منتخب نمائندے تک رسائی دینا چاہتے ہیں۔‘
جبران ناصر مزید کہتے ہیں کہ سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ دوسرے لوگوں کا احتساب کرنے سے پہلے خود کو احتساب کے لیے پیش کریں اور ’عوامی خدمت کے ذریعے لوگوں کا اعتماد انتخابات اور سیاست پر بحال کریں اور یہ سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار ضیغم خان کا خیال ہے کہ ملک اس وقت ایک ’سیاسی بحران‘ کا شکار ہے اور لوگ سمجھتے ہیں کہ ’ان کے مسائل اور پریشانیاں حل نہیں ہو رہیں۔‘
لیکن وہ اس تاثر سے اتفاق نہیں کرتے کہ لوگوں کا اعتماد سیاسی عمل سے مکمل طور پر اٹھ چکا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس سوال کا جواب الیکشن میں ہی ملے گا اگر ووٹر ٹرن آوٹ کم ہوا تو یہ بات کہی جا سکے گی کہ لوگوں کا اعتماد کم ہوا ہے۔ لیکن ذاتی طور پر مجھے نہیں لگتا کہ ووٹر ٹرن آو¿ٹ اس حد تک کم ہوگا۔‘
الیکشن 2024: پاکستان کے عام انتخابات سے جڑے اہم حقائق اور سوالات
پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد اب چند ہفتوں کی دوری پر ہے۔ یہ ملک کی تاریخ میں بارویں عام انتخابات ہیں جس کے نتیجے میں عوام کو حق رائے دہی کے تحت اپنے نمائندے اسمبلیوں میں بھیجنے کا موقع ملے گا۔
ان انتخابات کے حوالے سے چند اہم حقائق اور سوالات کا جواب اس رپورٹ میں دیا گیا ہے۔
الیکشن کب ہوں گے؟
رواں برس آٹھ فروری کو پاکستان میں عام انتخابات کا انعقاد ہونے جا رہا ہے جس کے نتیجے میں ملک میں نئی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کا قیام عمل میں آئے گا۔
تاہم یہ انتخابات کافی متنازع حالات میں منعقد ہو رہے ہیں جن میں سے ایک التوا کا معاملہ ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں سنہ 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی کی مدت 13 اگست 2018 سے شروع ہوئی تھی اور اس کی پانچ سال کی مقررہ مدت 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے مکمل ہونا تھی۔ تاہم اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے مقررہ مدت سے قبل ہی نو اگست کو اسمبلی تحلیل کر دی تھی جس کے بعد سے اب تک ملک میں نگران حکومت کام کر رہی ہے۔
آئین کے تحت عام انتخابات اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن بعد ہونا تھے تاہم سابقہ حکومت کی جانب سے مردم شماری کی منظوری کے بعد الیکشن کا انعقاد التوا کا شکار ہوا۔
عمران خان کی جماعت تحریک انصاف نے جنوری 2023 میں دو صوبوں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں اسمبلیاں تحلیل کر دی تھیں اور اس وقت سے وہاں نگران حکومتوں قائم ہیں۔
کتنی سیٹوں پر انتخابات لڑے جائیں گے؟
پاکستان الیکشن کمیشن کے مطابق ملک بھر سے قومی اسمبلی کی 266 نشستیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی عام نشستوں کے 593 حلقے ہوں گے۔
سنہ 2018 کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل نشستیں 272 تھیں جبکہ صوبائی اسمبلیوں کی کل نشستیں 577 تھیں۔
خواتین کے لیے مخصوص ساٹھ اور اقلیتوں کی دس مخصوص نشستوں کو ملا کر اب قومی اسمبلی کی مجموعی 342 نشستیں کم ہو کر 336 رہ گئی ہیں۔
گذشتہ الیکشن کے مقابلے میں اس تبدیلی کی ایک اہم وجہ قبائلی علاقوں کا خیبرپختونخوا میں انضمام ہے۔
25 ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کر دیا گیا اور پھر اس کی 12 نشستیں کم کر کے چھ کر دی گئیں اور وہ خیبر پختونخوا کے کوٹے میں شامل کر دی گئیں۔
یوں اس صوبے کا قومی اسمبلی کا کوٹہ 39 نشستوں سے بڑھ کر 45 تک پہنچ گیا مگر قومی اسمبلی کی مجموعی نشتیں 342 سے کم ہو کر 336 رہ گئیں۔
یعنی قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کرنے اور وفاق میں حکومت بنانے کے لیے 169 سیٹیں درکار ہوں گی۔
کون سی بڑی جماعتیں الیکشن میں حصہ لیں گی؟
پاکستان تحریک انصاف، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی سمیت متعدد سیاسی جماعتیں ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ تاہم یہ تین جماعتیں 2018 کے الیکشن میں بالترتیب پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر تھیں۔ گذشتہ عام انتخابات میں چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ آزاد امیدواروں نے حاصل کیے تھے۔
اس بار الیکشن کمیشن کے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلے کے بعد تحریک انصاف کو بلے کا نشان نہیں مل سکا تو اس جماعت کے تمام امیدوار آزاد حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیں گے یوں پی ٹی آئی اسمبلیوں میں مخصوص نشستوں سے بھی محروم رہے گی جس کے لیے ان کا کسی دوسری جماعت سے الحاق ممکنہ ہے۔
اگر 2018 کے انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیا جائے تو قومی اسمبلی میں تحریک انصاف نے مجموعی طور پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے جن کی تعداد ایک کروڑ اڑسٹھ لاکھ اٹھاون ہزار نو سو تھی۔
دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ نواز نے ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ چھیانوے ہزار تین سو چھپن ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ پیپلز پارٹی انہتر لاکھ آٹھ سو پندرہ ووٹ کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھی۔ آزاد امیدواران نے ساٹھ لاکھ سے زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ متحدہ مجلس عمل پچیس لاکھ ووٹ حاصل کر کے پانچویں نمبر پر تھی۔
تاہم تحریک انصاف کو ماضی کے انتخابات کے مقابلے میں اس بار مشکلات کا سامنا ہے۔ پارٹی سربراہ عمران خان جیل میں قید ہیں اور انھیں مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ عمران خان اس بار الیکشن کی دوڑ میں شامل ہو سکیں گے یا نہیں اس حوالے سے ابھی فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے۔
ووٹ کون ڈال سکتا ہے؟
الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان کے بارہ کروڑ انہتر لاکھ اسی ہزار دو سو بہتر افراد بطور ووٹر رجسٹر ہیں۔
الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 26 کے مطابق ایک شخص انتخابی علاقے میں بطور ووٹر اندراج کا حقدار ہو گا اگر وہ؛
(1) پاکستان کا شہری ہے
(2) عمر 18 سال سے کم نہ ہو
(3) انتخابی فہرستوں کی تیاری، نظرثانی یا تصحیح کے لیے دعوو¿ں، اعتراضات اور درخواستوں کو مدعو کرنے کے لیے مقرر کردہ آخری دن تک کسی بھی وقت نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ رکھتا ہو
(4) کسی مجاز عدالت کی طرف سے اسے ناقص دماغ قرار نہ دیا گیا ہو
(5) سیکشن 27 کے تحت انتخابی
وضاحت/نوٹ: نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی طرف سے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ کو بطور ووٹر رجسٹریشن کے مقصد کے لیے یا الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے درست سمجھا جائے گا، باوجود اس کے کہ اس کی میعاد ختم ہو جائے۔
اپنا ووٹ کیسے چیک کیا جا سکتا ہے؟
ووٹ کی تصدیق کرنا بے حد آسان ہے، شاید ووٹنگ کے عمل میں سب سے آسان کام یہی ہے۔
ای سی پی کی ویب سائٹ کے مطابق ووٹنگ لسٹ میں اپنی رجسٹریشن چیک کرنے کے دو طریقے ہیں۔ مگر ہم آپ کی معلومات کے لیے آپ کو ایک تیسرا طریقہ بھی بتائیں گے۔
پہلا طریقہ: ایس ایم ایس (SMS) سروس
الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نادرا کے تعاون سے عوام کو ایس ایم ایس (SMS) سروس فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے شہری اپنی رجسٹریشن چیک کر سکتے ہیں۔
1۔ عوام شناختی کارڈ نمبر درج کر کے اور 8300 نمبر پر ٹیکسٹ میسج بھیج کر معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔
2۔ ایس ایم ایس کے جواب میں خود کار پیغام موصول ہو گا جس میں تین چیزیں ہوں گی، انتخابی علاقے کا نام، بلاک کوڈ اور سیریل نمبر۔
دوسرا طریقہ: ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے دفاتر میں موجود لسٹ
ہر رجسٹرڈ ووٹر اپنے متعلقہ ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے دفتر میں جا کر اپنی تفصیلات دیکھ سکتا ہے، جہاں حتمی ووٹر لسٹ دستیاب ہے۔ چاروں صوبوں میں ڈی ای سی کے دفاتر کے پتے یا رابطے کی معلومات الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دیکھی جا سکتی ہیں۔
تیسرا طریقہ: ڈسپلے سینٹرز میں موجود لسٹ
ووٹرز ڈسپلے سنٹرز جا کر فہرستوں میں اپنے نام بھی چیک کر سکتے ہیں۔ البتہ یہ مراکز سارا سال دستیاب نہیں ہوتے۔ ڈسپلے سینٹرز وہ مراکز ہیں جنھیں ای سی پی ملک کے مختلف علاقوں میں جب بھی ضرورت محسوس کرتا ہے تو تقریباً 21 دنوں کے لیے قائم کرتا ہے۔
جہاں تک پنجاب اور کے پی کے 2023 کے صوبائی انتخابات کا تعلق ہے تو اب ڈسپلے سینٹرز قائم نہیں کیے جائیں گے۔ ان ڈسپلے سینٹرز اور ڈسپلے پیریڈ کے بارے میں مزید تفصیل نیچے لکھی گئی ہے تاکہ قارئین بہتر طور پر سمجھ سکیں۔
الیکشن کا نتیجہ کب آئے گا؟
آٹھ فروری کو انتخابی عمل مکمل ہونے کے ساتھ ہی ووٹوں کی گنتی کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ پہلے پولنگ سٹیشن کا نتیجہ مرتب کیا جائے گا اور مرحلہ وار الیکشن کمیشن کی جانب سے ہر حلقے کا انفرادی نتیجہ شائع کیا جائے گا۔
عام طور پر اس عمل کو مکمل ہونے میں چوبیس گھنٹوں تک کا وقت لگ جاتا ہے۔ تاہم دو ہزار اٹھارہ کے انتخابات کے بعد نتائج سامنے آنے میں غیر معمولی تاخیر ہوئی تھی جس پر اس وقت کے الیکشن کمیشن کا موقف تھا کہ نتائج کو مرتب کرنے والے آر ٹی ایس سسٹم نے کام چھوڑ دیا تھا۔