فضائی آلودگی ایک عالمی خطرہ ہے

انسان نے جتنی ترقی ان سو سال میں کی ہے اتنی انہوں نے پچھلے کئی سو برسوں میں نہیں کی۔ ترقی کی یہ رفتار اس قدر تیز ہے کہ اگر سو سال پہلے والا بندہ غلطی سے اس دنیا میں آجائے تو موجودہ ٹیکنالوجی اور گرد و غبار دیکھ کر حیران تو دور پریشان ہوجائے، کیونکہ اس کی قیمت ہم نے اپنی زندگیوں کو گروی رکھ کر چکائی ہے اور آج یہ زہر ماحولیاتی آلودگی یا اسموگ کی صورت ہم سب کی نس نس میں بس چکا ہے۔
وہ ہوا جہاں ہم سانس لیتے ہیں اس میں زہریلی گیسیں اس قدر زیادہ ہوگئی ہیں کہ انہوں نے اوزون کی تہہ کو ہی تباہ کردیا ہے، جس کی وجہ سے شہر کی ہوا آلودہ ہوکر اسموگ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ ایک نئی تحقیق کے مطابق موجودہ دور میں پیدا ہونے والے بچوں کی زندگی ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اوسطاً 20 ماہ کم ہوسکتی ہے اور اس کے زیادہ اثرات جنوبی ایشیا میں ہوں گے۔
دی اسٹیٹ آف گلوبل ایئر کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ملیریا، ٹریفک حادثات، غذائی کمی یا الکوحل کے بعد قبل از وقت اموات کی پانچویں سب سے بڑی وجہ ماحولیاتی آلودگی یا اسموگ ہے۔
تحقیق میں مشرقی ایشیا کے بارے میں انکشاف ہوا ہے کہ وہاں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے بچوں کی زندگیاں اندازاً 23 ماہ تک کم، جبکہ شمالی امریکا اور ایشیا پیسیفک کے ترقی یافتہ حصوں میں بچوں کی زندگی میں 20 ہفتوں کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے سرکاری سطح پر قوانین بنانے کے باوجود چین میں ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہونے والی اموات دیگر ممالک کی نسبت سب سے زیادہ ہیں، جہاں صرف 2017 میں آلودگی کی وجہ سے آٹھ لاکھ 52 ہزار اموات ہوئیں۔
ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات کے حوالے سے سرفہرست پانچ ممالک ایشیا کے ہیں، جن میں چین، بھارت، پاکستان، انڈونیشیا اور بنگلہ دیش شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 2017 سے لے کر اب تک جتنی اموات ہوئیں ان کا اندازہ لگانا ناممکن ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایک مطالعے سے پتا چلا کہ گھروں میں یا باہر مضر ہوا سے ہر سال 15 سال سے کم عمر چھ لاکھ بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بچے بڑی عمر کے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے سانس لیتے ہیں لہٰذا ان کے پھیپھڑوں کے متاثر ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈیٹا سے پتا چلتا ہے کہ روزانہ 15 سال سے کم عمر بچے 93 فیصد انتہائی مہلک ہوا میں سانس لیتے ہیں۔
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس وقت ہر شےخوبصورت تھی یا خوبصورت لگتی تھی۔ شہر، قصبے، گاو¿ں، ندی نالے، چشمے، نہریں، ندیاں، دریا، پہاڑ، سڑکیں، کچے پکے راستے پگڈنڈیاں اور کھیت ، سب کچھ حسین تھا۔ماحول، صاف ستھرا، موسم اپنے وقت پر بدلتے، کسان وقت پر فصل بوتے وقت پر کاٹتے۔ سب کچھ فطرت کے اصولوں کے مطابق تھا۔ اس لیے انسان خوش تھے۔ لیکن اب افسوس ہوتا ہے کہ کئی دہائیاں گزرنے کے بعد پاکستان اب پہلے جیسا نہیں رہا۔ پہلے آسمان میں ستاروں کی جھلملاہٹ صاف نظر آتی تھی لیکن اب تو ستارے دیکھنے سے بھی بمشکل نظر آتے اب پاکستان کی فضائیں زہریلی ہو چکی ہیں صاف شفاف ہوا آلودہ ہو چکی ، ندیاں چشمے اور دریا ، بد بودار ہو چکے ، زہریلی گیسوں اور دھوئیں نے آسمان کے محفوظ خطوں کو پھاڑنا شروع کر دیا اور سموگ کی شکل اختیار کر لی ہے جس سے خوفناک بیماریاں، تیز رفتاری سے پھیل رہی ہیں شہریوں کو سانس لینے میں دشواری ہو رہی ہے۔ہم اور ہمارے سیاست دان شروع میں تو آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے لیکن اب حالات بد سے بدتر ہو گئے ہیں پنجاب میں خاص طور پر لاہور میں صورتحال کافی نازک ہو چکی پہلے پہل دھند ہوتی تھی لیکن اس میں شفافیت تھی لیکن اب یہ زہر آلود نہ ہوچکی ہے اور آئندہ برس اس کے پھیلاو¿ اور زہر میں مزید اضافہ ہو گا اور یہ انتہائی الارمنگ سچﺅیشن ہےفضا ئی آلودگی یا سموگ کے پھیلاو¿ میں ہم سب ذمہ دار ہیں یہ ایک عالمی مسئلہ بھی ہےلیکن ہم عالمی حالات تو بدل نہیں سکتے اس لیے بہتر ہو گا کہ پہلےاپنے گھر پر توجہ دیں اور ایسے انتظامات کریں جن سے یہ ابتر صورتِ حال بہتر ہو سکے حکومت کو بھی شاید اب ہوش آ گیا ہے وہ بھی اقدامات کرنے میں مصروف عمل ہیں لیکن ہر ممکن کوشش کے باوجود قدرت کے کاموں میں مداخلت نہیں کی جا سکتی خدا ہم سے راضی ہو جائے تو شاید برسات ہو اور تغیر میں کچھ بہتری آئے۔ اس کےعلاوہ کچھ فوری نوعیت منصوبے بنائے جا سکتے ہیں آج کل گاو¿ں ، قصبوں اور شہروں تک گاڑیاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ گاڑیوں کا چلنا محال ہو چکا ہے اس بے ہنگم ٹریفک سے ڈیزل، پٹرول اور گیس کے اخراج ہونے سے فضا اس قدر آلودہ ہو چکی ہے کہ ماسک پہننا ضروری قرار دیا جا چکا ہے۔گاو¿ں میں فصلوں کی کٹائی کے بعد جلانے والا عمل بھی سموگ یا فضائی آلودگی کا سبب بنتا ہے، بھٹوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں انتہائی زہریلا ہوتا ہے جو کہ سانس کی بہت سی بیماریوں کا سبب بنتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مضر صحت دھویں والی فیکٹریوں اور بھٹوں کو شہروں سے دور بنایا جائے۔ اس کے علاوہ سڑکوں ، شاہراہوں پر، پبلک ٹرانسپورٹ لائی جائے ،اس عمل سے گاڑیوں، موٹرسائیکلوں کی تعداد میں کمی واقع ہو گی اور سڑکوں پر رش بھی کم ہو جائے گاسکولوں ،کا لجوں،یونیورسٹیوں کو بسیں مہیا کی جائیں تا کہ طالب علم گاڑیوں ، موٹر سائیکلوں کی بجائے بسوں میں سفر کریں
ماہرین کے مطابق پاکستان کو اہم ماحولیاتی چیلنجز کا سامنا ہے، بڑھتی ہوئی آلودگی کی وجہ سے جہاں شہریوں کے بیمار ہونے کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے، وہاں ہر شہری اوسطاً اپنی مجموعی عمر کے تین سال اس آلودگی کی وجہ سے کم جی رہا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی کی کئی وجوہ ہیں، جیسے درختوں کا کٹاو¿، بڑھتی ہوئی ٹریفک کی وجہ سے دھوئیں اور گرد کے اخراج میں اضافہ، کوڑے کے ڈھیر کو آگ لگانا، کارخانوں کی زہریلی گیسوں کے اخراج میں اضافہ، بجلی، گیس کے بڑھتے ہوئے استعمال سے حدت میں اضافہ، وغیرہ۔
پاکستان میں فضائی آلودگی یا اسموگ تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کی ذمے داری کسی حد تک شہریوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان، ایران اور منگولیا کا شمار دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ پلاسٹک کی ایک بڑی خاصیت یہ ہے کہ اسے مختلف اشکال میں باآسانی ڈھالا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیاد? گھریلو اشیائ پلاسٹک سے بنائی جاتی ہیں۔ محکمہ ماحولیات کے مطابق افسوس کی بات یہ ہے کہ پلاسٹک بیگ نہ تو زمین میں گل سڑ کر کوڑا کرکٹ بنتے ہیں، نہ ان کا وجود ختم ہوتا ہے اور نہ ہی زمین کا حصہ بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ پلاسٹک بیگ بنانے والی نئی فیکٹریاں بنانے پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پلاسٹک بیگ تیار کرنے کےلیے اسپتالوں میں استعمال ہونے والی سرنجیں، گلوکوز کی بوتلیں اور شہر سے اٹھایا جانے والا پلاسٹک کا کچرا استعمال کیا جاتا ہے۔ ری سائیکل کیا جانے والا پلاسٹک 80 ڈگری سنٹی گریڈ پر بنایا جاتا ہے جو کچرے میں موجود بیکٹریا اور جراثیموں کو ختم کرنے کےلیے ناکافی ہے۔
پلاسٹک بیگ صدیوں زمین میں پڑے رہنے یا دفنانے کے باوجود بھی تحلیل نہیں ہوتے، اگر جلایا جائے تو فضائی آلودگی کا باعث بن کر کئی بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔
پچھلے کچھ برسوں سے ہر سال سردیوں میں کچھ دنوں کےلیے پاکستان اور بھارت میں ماحولیاتی آلودگی کی ایک نئی قسم سے لوگوں کو سامنا کرنا پڑرہا ہے، جسے اسموگ کہتے ہیں۔ اسموگ سے ماحولیاتی آلودگی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا ہے، جس سے ہوا کی کوالٹی بہت خراب ہوجاتی ہے اور اسموگ سے متاثرہ آلودہ علاقوں میں بسنے والے لوگ گلے اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی بڑھنے کی ایک بڑی وجہ پٹرولیم مصنوعات اور مختلف نوعیت کے کیمیکلز کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ ان سے ایسی گیسز پیدا ہوتی ہیں جو ہماری زمین کی فضا کےلیے مناسب نہیں۔
کوئی ماحولیات کی آلودگی کو سنجیدہ لینے کو تیار نہیں، لوگ بے دھڑک کوڑا گلی محلوں میں پھینک رہے ہیں، گلیوں اور سڑکوں پر تجاوزات قائم ہورہی ہیں، کوڑے کے ڈھیر کو آگ لگا کر ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کیا جارہا ہے، درخت کاٹے جارہے ہیں۔ فیکٹریوں سے نکلنے والے زہریلے دھوئیں پر پابندی نہیں لگائی جارہی۔
یہ مسئلہ چونکہ کسی ایک ملک اور قوم کا نہیں بلکہ یہ پوری دنیا اور اس میں بسنے والی تمام نسلوں کی بقا کا ہے، اس لیے سب کو باہم مل کر اس کا حل نکالنا چاہیے۔