پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جانب سے تین سو یونٹس تک مفت بجلی فراہم کرنے کے انتخابی وعدے معاشی طور پر قابلِ عمل ہیں؟

پاکستان میں انتخابات کی آمد آمد ہے اور الیکشن سے چند ہفتے قبل سیاسی رہنماو¿ں کی جانب سے ووٹرز سے کیے گئے روایتی وعدے بھی دن بدن زور پکڑ رہے ہیں۔ ایسے ہی کئی وعدوں میں سے ایک بجلی کے مفت یونٹس کا وعدہ ہے۔
آئندہ ماہ آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نواز نے انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کو عدالت عظمیٰ کی جانب سے بلے کا نشان نہ ملنے کی وجہ سے اس کے حمایت یافتہ امیدوار آزاد حیثیت میں الیکشن لڑ رہے ہیں۔
پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ دنوں ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ پیپلز پارٹی حکومت بننے کے بعد 300 یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو بجلی مفت فراہم کرے گی۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی جانب سے بھی اعلان کیا گیا کہ حکومت بننے کے بعد ان کی کوشش ہو گی کہ صارفین کو 200 یونٹس استعمال کرنے پر بجلی مفت فراہم کی جائے۔
مریم نواز کے بعد شریف فیملی کے رکن اور مسلم لیگ نواز کے رہنما اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے صارفین کو بجلی کے تین سو یونٹس استعمال کرنے پر بجلی کی مفت فراہمی کا اعلان کیا ہے۔
ملک میں گذشتہ سال بننے والی نئی سیاسی جماعت است?حکام پاکستان پارٹی کے صدر علیم خان کی جانب سے دسمبر کے مہینے میں کہا گیا تھا کہ اگر ان کی پارٹی حکومت میں آتی ہے تو صارفین کو تین سو یونٹس تک بجلی مفت ملے گی
مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے بجلی کے بلوں میں ریلیف کے اعلانات اور انتخابی وعدوں کی وجہ ملک میں بجلی کے بلوں میں ہونے والا بے تحاشہ اضافہ ہے، جس میں گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔
واضح رہے کہ حمزہ شہباز شریف کی جانب سے ان کی وزارت اعلیٰ کے دور میں پنجاب میں بجلی صارفین کو سو یونٹس تک بجلی مفت دینے کا اعلان کیا گیا تھا تاہم جولائی 2022 میں ہونے والے ضمنی اتنخابات کی وجہ سے اس پر عملدر آمد روک دیا گیا تھا۔

سیاسی جماعتوں کے ان انتخابی وعدوں پر عام پاکستانی کیا کہتے ہیں؟
پاکسان میں ایک عام آدمی اس وقت بلند شرح مہنگائی کی وجہ سے پریشان ہے اور اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 29 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
مہنگائی کی اس بلند شرح کی ایک وجہ بجلی کے بلوں میں ہونےوالا بے تحاشہ اضافہ بھی ہے جس میں گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔
پاکستان میں آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے تحت ملک میں بجلی کا ’بیس ٹیرف‘ اس مالی سال کے شروع میں پانچ روپے فی یونٹ بڑھایا تھا جس کے بعد پورے ملک کا اوسط بجلی کا ٹیرف 29 روپے تک ہو گیا۔
اس ’بیس ٹیرف‘ کے علاوہ بجلی کے بل میں ہر ماہ بجلی بنانے کے لیے ایندھن کی لاگت کی ایڈجسٹمنٹ بھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ سہ ماہی بنیادوں پر بھی یہ ایڈجسٹمنٹ کی جاتی ہے جو بجلی کے بلوں میں بے تحاشہ اضافے کا سبب بنے ہیں۔
کراچی کے علاقے شیرشاہ میں کام کرنے والے منیر احمد بجلی کے بلوں میں اضافے سے پریشان ہیں تاہم سیاسی جماعتوں کی جانب سے بجلی کے استعمال میں ریلیف پر انھیں یقین نہیں ہے۔ ان کے مطابق ’یہ وہ لولی پاپ ہے جو ووٹ لینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
’یہ بہت مشکل ہے کیونکہ جو جماعتیں یہ اعلانات کر رہی ہیں وہ گذشہ سولہ ماہ کی حکومت میں اتحادی تھیں اور ان کے دور میں بجلی کےبلوں میں سے سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔‘
بلدیہ ٹاون کراچی کے رہائشی طارق شیخ نے گھر پر سولر سسٹم لگایا ہوا ہے تاکہ بجلی کے بل میں کمی آ سکے۔
طارق شیخ اسے صرف انتخابی اعلان سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’موجودہ حالات میں بجلی مفت فراہمی تو دور کی بات ہے اگر یہ دو سو سے تین سو یونٹس استعمال کرنے والی صارفین کو ڈیڑھ دو سال پہلے کے ٹیرف پر بجلی فراہم کر سکیں تو یہ بھی بڑی بات ہے۔‘
کیا 300 یونٹس تک بجلی فراہمی ممکن ہے یا صرف یہ ایک سیاسی نعرہ ہے؟
پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تین سو یونٹس تک مفت بجلی فراہمی کے اعلانات پر جہاں عام آدمی یقین نہیں کر رہا تو دوسری جانب توانائی کے شعبے کے ماہرین کے مطابق یہ ممکن ہے اور اسے صرف ایک سیاسی نعرہ ہی سمجھنا چاہیے۔
توانائی کے شعبے میں کام کرنے والے ادارے ریوینیوبلز فرسٹ میں کام کرنے والے ماہر توانائی مصطفیٰ امجد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس اعلان کو حقیقت کے منافی قرار دیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں بجلی کے شعبے کی جو صورتحال ہے اس میں تو ایسے کسی وعدے پر عمل ممکن ہی نہیں ہے۔
انھوں نے کہا کم بجلی کے یونٹس استعمال کرنے والوں کو دو صورتوں میں مفت بجلی دی جا سکتی ہے کہ حکومت یا تو اپنے وسائل سے بجلی کمپنیوں کو پیسے دے کر لوگوں کو مفت بجلی فراہم کرے یا پھر ’کراس سبسڈی‘ کے ذریعے یہ بجلی فراہم کی جا سکے یعنی دوسرے شعبوں کے لیے بجلی کے قیمت زیادہ کر کے تین سو یونٹس والوں کو بجلی فراہم کی جا سکے۔
انھوں نے کہا کہ یہ اس لیے بھی ناقابل عمل ہے کہ پاکستان کے بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ 2700 ارب تک پہنچ چکا ہے۔ اب ایسی صورت میں اس شعبے کے اندر سکت نہیں کہ لوگوں کو مفت بجلی فراہم کی جا سکے۔
انرجی شعبے کے ماہر راو¿ عامر نے بھی مفت بجلی فراہمی کے اعلانات کو غیر حقیقی قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ ’کراس سبسڈی‘ کے ذریعے یہ بجلی نہیں دی جا سکتی کیونکہ انڈسٹری پہلے ہی شور مچا رہی ہے کہ ان کا ٹیرف اتنا زیادہ ہو چکا ہے کہ ان کے لیے اس میں کام کرنا مشکل ہو گیا ہے اور انھیں زیادہ لاگت کی وجہ سے عالمی مارکیٹ میں اپنے مصنوعات بیچنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
دوسری جانب حکومت کے اپنے وسائل بھی بہت محدود ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس سال پاکستان کو ساڑھے نو ہزار تک ریونیو اکٹھا کرنا ہے، جس میں سے 8500 ارب روپے تو بیرونی اور اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی میں چلا جائے گا۔
عامر نے کہا کہ ’اگر ان اعلانات کے مطابق حکومتی خزانے سے رقم کا تخمینہ لگایا جائے تو وہ سالانہ ساڑھے سات سو ارب روپے بنتا ہے جس کے لیے وسائل نہیں ہیں کہ لوگوں کو مفت بجلی دی جا سکے۔‘
پاکستان میں تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کتنی ہے؟
سیاسی جماعتوں کی جانب سے تین سو یونٹس تک بجلی مفت فراہم کرنے کے انتخابی وعدوں کے بعد یہ دیکھنا ہو گا کہ ملک میں تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کتنی ہے۔
ملک میں بجلی کی پیداوار کی گنجائش تو چالیس ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے۔ تاہم بجلی اس سے کم پیدا کی جاتی ہے۔
گرمیوں میں بجلی کی طلب 25 ہزار میگاواٹ ہوتی ہے جبکہ سردیوں میں اس کی طلب دس ہزار تک گر جاتی ہے۔
توانائی کے شعبے کے ماہر عامر راو¿ کے مطابق موجودہ مالی سال میں بجلی کے بلوں کی مد میں تین ہزار ارب روپے اکٹھے کرنے ہیں اور یہ رقم گھریلو، صنعتی، زرعی اور کمرشل صارفین سے بجلی کے بلوں کی صورت میں اکٹھی کی جائے گی۔
اسلام آباد میں مقیم معاشی امور کے سینیئر صحافی شہباز رانا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پاکستان میں تین سو یونٹس تک بجلی استعمال کرنے والے صارفین مجموعی صارفین کی تعداد کا دو تہائی ہیں اور حکومت نے اس سال بجلی کے بلوں کی مد میں تین ہزار ارب اکٹھا کرنا ہے۔‘
اس کا مطلب ہے کہ تین سو یونٹس تک بجلی مفت کرنے پر دو ہزار ارب روپے دینے پڑیں گے۔
انھوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کی جانب سے تین سو یونٹس تک بجلی مفت دینے کے اعلانات لولی پاپ سے زیادہ حیثیت کے حامل نہیں۔‘
شہباز رانا نے آئی ایم ایف پروگرام میں رہتے ہوئے تین سو یونٹس تک بجلی مفت فراہم کرنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی ایم ایف کو بھی اگر نظر انداز کر لیں تو یہ ویسے ہی مالی طور پر ممکن نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف تو اس شعبے میں ایک ارب روپے کی سبسڈی دینے کی اجازت نہیں دے گا، دو ہزار ارب روپے کی رقم تو بہت بڑی بات ہے۔‘
تین سو یونٹس تک بجلی مفت دینے پر مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کا مو¿قف کیا ہے؟
مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے تین سو یونٹس تک بجلی دینے کے اعلانات کے بعد جب ان دونوں جماعتوں کے رہنماو¿ں سے بات کی گئی تو مسلم لیگ نواز کے رہنماو¿ں کی جانب سے وفاقی بجٹ سے اس کے قابل عمل ہونے کو مشکل قرار دیا گیا ہے۔
مسلم لیگ نواز کے سیکریٹری جنرل اور سابق وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وفاقی حکومت کے پاس وسائل نہیں ہیں کہ وہ سبسڈی دے سکے تاہم صوبوں کی سطح پر دی جا سکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’اس کی ایک مثال سابقہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز کے دور کی ہے، جب انھوں نے سو یونٹس تک بجلی مفت دینے کا اعلان کیا تھا جس کے لیے رقم صوبائی بجٹ سے دی جانی تھی۔‘
احسن اقبال نے کہا کہ ’حکومت میں آنے کے بعد مسلم لیگ نواز کی کوشش ہو گی کہ بجلی سستی پیدا کی جا سکے تاکہ غریب طبقات کو سستی بجلی مہیا کی جا سکے اور سولرائزیشن کے ذریعے انھیں سہولت دی جا سکے۔‘
نواز لیگ کے سینیٹر افنان اللہ خان نے کہا کہ ’دو سو یونٹس تک بجلی مفت فراہم کرنے کی جو بات کی ہے اس کا طریقہ مختلف ہے اور یہ اصل میں سولرائزیشن کے ذریعے بجلی فراہم کرنے کی بات کی گئی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وفاق کے وسائل سے سبسڈی نہیں دینی چاہیے کیونکہ دو کروڑ کے لگ بھگ صارفین کو کیسے بجلی مفت دی جا سکتی ہے۔‘
پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما سینیٹر تاج حیدر اپنی پارٹی قیادت کی جانب سے کیے جانے والے اعلانات کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’یہ ممکن ہے اور سندھ میں تھر کے علاقے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے سو یونٹ تک بجلی فراہم کی گئی تھی۔‘
انھوں نے کہا کہ ’بلاول بھٹو نے جو اعلان کیا ہے اس میں سولر اور ونڈ اور تھر کے کوئلے کے ذریعے بجلی بنانے کی لاگت کو کافی کم کرنے کی بات کی گئی ہے کہ جب لاگت بہت کم ہو جائے گی اور یہ بجلی مقامی ایندھن سے پیدا ہو رہی ہو گی تو اس کا فائدہ کم بجلی استعمال کرنے والے صارفین کو پہنچایا جا سکے گا۔‘