کیا مصنوعی ذہانت خطرناک ہو سکتی ہے؟ ’چیٹ جی پی ٹی‘ کی ایجاد نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک طوفان برپا کیا ہے

ایک ذہین انسان کی بنائی ہوئی تصاویر انسانی ذہانت کی عکاس
اس کے لیے ہم یہاں ڈاکٹر شعیب سعادت کی بنائی ہوئی مصنوعی تصاویر کا انتخاب پیش کررہے ہیں جن کو انہوں نے مصنوعی ذہانت کے مختلف سافٹ ویئرز کی مدد سے تیار کیا ہے۔
مصنوعی ذہانت اور حقیقی ذہانت کے امتزاج سے تصاویر بنانے والے اس فنکار کا پس منظر یہ ہے کہ وہ کیمرج یونیورسٹی، انگلینڈ میں تحقیق کے طالب علم ہیں اور پی ایچ ڈی کی سند کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ چونکہ ان کا پیشہ ورانہ پس منظر ڈیٹا سائنس کا ہے اس لیے ان کا ماننا ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت کے اصولوں کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں اور انہیں عام انسانی فہم کے مطابق ڈھالنے اور ترتیب دینے کی باریکیوں سے واقف ہیں۔
منفی اثرات سے بچنے کے لیے قوانین متعارف کرانا ضروری ہے۔
17مئی کو چیٹ جی پی ٹی کی مالک کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کے چیف ایگزیٹو سیم آلٹمین نے امریکی سینٹ کی کمیٹی کے سامنے یہ بیان دیا کہ مصنوعی ذہانت کو ریگولرائز کیا جانا چاہیے۔
وہ یہ بیان مصنوعی ذہانت کے ممکنہ خطرات کے حوالے سے بحث میں ریکارڈ کروا رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت کے نتیجے میں سامنے آنے والے امکانات کو پرنٹنگ پریس کی ایجاد کی طرح دنیا کو موثر طریقے سے تبدیل کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس بات پر انہوں نے بہرحال اتفاق کیا کہ اس کے ممکنہ خطرات سے نمٹنا بھی ضروری ہے۔ ایک امریکی سینیٹر نے بھی بالکل اسی طرح کے خطرے کی نشان دہی کی۔ ان کے خیال میں اس بات سے انکار نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے کافی انقلابی اثرات ہو سکتے ہیں لیکن یہ بالکل ایٹم بم کی طرح خطرناک بھی ہے۔
’چیٹ جی پی ٹی‘ کی ایجاد نے ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک طوفان برپا کیا ہے۔ 30 نومبر 2022ئ کو آغاز کرنے والے اس پلیٹ فارم نے ہر شعبہ ہائے زندگی پر اپنا اثر ڈالا ہے اور مختصر عرصے کے دوران ٹیکنالوجی، صحت، تعلیم، تجارت، کاروبار اور بینکنگ سے تعلق رکھنے والے صارفین کی تعداد 10کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔
’چیٹ جی پی ٹی‘ ایک طاقت ور اے آئی ٹول اور کمپیوٹر لینگوئج ماڈل ہے جو کہ انسانوں کی طرح گفتگو کر سکتا ہے اور سوالوں کے جواب دے سکتا ہے۔ اب یہ پروگرام تصاویر اور ویڈیوز کو بھی پراسیس کر سکتا ہے، سادہ کاغذ پر دیے گئے ڈیزائن کے مطابق ویب سائٹ ڈیزائن کر سکتا ہے۔ اس کو تین ارب لفظوں کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔
مصنوعی ذہانت کے مطابق وہ کیا ہے؟
’مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلجنس) سے مراد ایسے کمپیوٹر سسٹمز کی ترقی ہے جو ایسے کام انجام دے سکتے ہیں جن کے لیے عام طور پر انسانی ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے، جیسے بصری ادراک، تقریر کی شناخت، فیصلہ سازی، اور قدرتی زبان کی پروسیسنگ۔ مصنوعی ذہانت سسٹمز کو ڈیٹا سے سیکھنے، پیٹرن کی شناخت کرنے، اور اس ڈیٹا کی بنیاد پر پیشین گوئیاں یا فیصلے کرنے کے قابل بناتا ہے۔
’یہ اکثر مشین لرننگ الگورتھم کے استعمال سے حاصل کیا جاتا ہے جو مصنوعی ذہانت سسٹم کو نئے ڈیٹا کا مسلسل تجزیہ کرکے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی اجازت دیتا ہے۔ اس کی بہت سی مختلف اقسام ہیں، بشمول اصول پر مبنی نظام، نیورل نیٹ ورک، جینیاتی الگورتھم، اور ماہر نظام۔ یہ نظام صحت کی دیکھ بھال اور مالیات سے لےکر نقل و حمل اور مینوفیکچرنگ تک، ہمارے رہنے اور کام کرنے کے طریقے میں انقلاب لانے کی صلاحیت کے ساتھ وسیع پیمانے پر شعبوں پر لاگو کیے جاسکتے ہیں‘۔
مصنوعی ذہانت بمقابلہ حقیقی ذہانت
اب آپ خود بتائیے کہ اگر مصنوعی ذہانت کی مشین سے کہا جائے کہ سعادت حسن منٹو نے اپنی کہانیوں اور کرداروں کے لیے یہ کیوں کہا کہ ’میری کہانیاں اور کردار برہنہ اور ننگے ہیں۔ میں ان کو کپڑے نہیں پہنا سکتا کیونکہ آپ کا سماج ہی بدصورت ہے۔ وہی بدصورتی اور غلاظت میری کہانیوں میں دکھائی دیتی ہے۔ ویسے بھی کپڑے سلائی کرنا اور ملبوسات تیار کرنا درزی کا کام ہے، میں تو معاشرے کو اسی طرح پیش کروں گا جیسا وہ ہے‘۔ تو کیا یہ مصنوعی ذہانت اسی سطح پر آکر، جذبات کے بیان کی انہیں آمیزش کے ساتھ ایسی تحریر آپ کو لکھ کردے سکتی ہے؟
میرا جواب ہے نہیں، لیکن شاید بہت سارے دوست میرے اس جواب سے متفق نہیں ہوں گے۔ چلیں ہم اس پہلو کو ذرا کسی اور طرح دریافت کرتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کی موجودگی، آسانیوں اور سہولتوں کے باوجود کیوں ہمیں حقیقی ذہانت کی ضرورت رہے گی۔
اس میں فیڈ کیے گئے ڈیٹا کی یہ مقدار ظاہر کرتی ہے کہ یہ کام کتنے بڑے پیمانے پر کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ انسانوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بھی یہ مسلسل سیکھ رہا ہے اور خود کو اپ گریڈ کر رہا ہے۔ روزمرہ کے معمولی مسائل جیسا کہ ای میلز یا پیغامات لکھنے کے ساتھ ساتھ یہ پیچیدہ کام جیسا کہ آڈٹ وغیرہ کرنا بھی سر انجام دے رہا ہے۔
اس کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے کافی کمپنیز نے ’چیٹ جی پی ٹی‘ کو اپنے پروگرامز کا حصہ بنایا جیسا کہ مائیکروسافٹ کے ’بنگ‘ سرچ انجن کو اس کے ساتھ لنک کر دیا گیا ہے۔ سنیپ چیٹ نے جب اس کو اپنی ایپ میں شامل کیا تو اس کی شہرت مزید پھیل گئی۔
جہاں پہلے اس کو صرف پڑھے لکھے لوگ استعمال کر رہے تھے، اس ایپ میں آنے کے بعد عام لوگوں نے بھی اسے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس میں ایک بڑا عنصر اس کی مقامی زبانوں کو سمجھنے کی صلاحیت اور مزاح سے بھر پور جواب دینے کی اہلیت تھی۔ یہ رومن اردو میں بہت اچھے سے بات کر سکتا ہے۔
پاکستان میں کچھ دن تو سوشل میڈیا پر اس کا خوب چرچا رہا۔ ہر کوئی ’چیٹ جی پی ٹی‘ کے ساتھ بات کر کے اس کے اسکرین شاٹس شئیر کر رہا تھا۔ کافی لوگوں کے لیے یہ نا قابل یقین اور حیران کن تھا۔
میرے ایک دوست کے نزدیک اس سب کے پیچھے کوئی انسان بیٹھے تھے جو اس کو چلا رہے تھے۔ کافی تگ ودو کے بعد میں اس کو یہ سمجھانے میں کامیاب ہو ا کہ ایسا کچھ نہیں ہے اور یہ خودکار طریقے سے کام کرنے والا سوفٹ وئیر ہے۔
اگرچہ ایجادات کسی بھی ترقی یافتہ معاشرے کا امتیاز ہوتی ہیں، لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ان کو کنٹرول کیا جائے۔ اس وقت یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے جب اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ ’اے آئی‘ مشین، اپنے اور انسان کے تعلق کو آقا اور غلام کے تعلق میں بدل سکتی ہے۔
یہ تصویر اس وقت کچھ واضح ہوتی ہے جب ہم انسان اور موبائل کے تعلق کو دیکھتے ہیں۔ صبح بستر سے اٹھنے سے لے کر رات سونے تک ہم اپنا زیادہ تر وقت فون پر گزار رہے ہوتے ہیں۔ اپنی چھوٹی سے کے کر بڑی ضروریات تک کے لیے ہم بہت حد تک اس پر انحصار کر تے ہیں۔
یہ ہماری زندگی کے دوسرے پہلوو?ں کو بھی متاثر کرتا ہے کیونکہ موبائل فون کے استعمال میں کوئی اصول و ضوابط یا ریگولیشنز نہیں ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر مصنوعی ذہانت کے لیے بروقت قوانین نہ بنائے گئے تو یہ بڑی حد تک ہم پر بہت جلد غالب آ جائے گی۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ مصنوعی ذہانت کے بہت سے فوائد ہیں لیکن دوسری طرف اگر اس کو ریگولرائز نہیں کیا جاتا تو اس کے سیاسی، معاشرتی، معاشی اور عسکری میدانوں میں نقصانات بھی ہیں۔ سیاسی میدان میں یہ چیٹ بوٹس مختلف امیدواروں کی عوامی مقبولیت کا اندازہ لگانے میں مدد دے سکتے ہیں۔
اے آئی مختلف سیاسی رہنماو¿ں کو باخبر کمپین چلانے، ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاونٹس چلانے، لوگوں سے بات چیت کرنے، ان کے سوالات کے جواب دینے، اور مطلوبہ مواد تیار کرنے میں مدد کرسکتی ہے۔ جنریٹو اے آئی عوامی حمایت کا اندازہ لگا سکتی ہے اور انتخابات کے نتائج سے قبل از وقت آگاہ کر سکتی ہے۔
یہ مصنوعی ذہانت کے میدان سیاست میں کچھ مثبت استعمالات ہیں ، تاہم ان ریگولیٹد اے آئی (بغیر ضابطے کے) سیاسی رہنماو¿ں کی کردار کشی، عوامی رائے کو متاثر کرنے، اور حقائق کو مسخ کر کے کسی کی حمایت اور کسی کی مخالفت میں استعمال ہو سکتی ہے۔
جب چیٹ جی پی ٹی سے سیاسی کمیونیکیشن اور جمہوریت پر مصنوعی ذہانت کے اثرات کے بارے پوچھا گیا تو اس کے خیال میں اے آئی میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ تزویراتی اور سیاسی کمیونیکیشن پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ نتیجتاً یہ بات ضروری ہو جاتی ہے کہ اے آئی کو استعمال کرتے وقت اخلاقیات کو مدنظر رکھا جائے اور پالیسی ساز ان خطرات کو مدنظر رکھیں۔ ’چیٹ جی پی ٹی‘ کے یہ جواب دینے کی وجہ یہ تھی کہ ڈیٹا کی مدد سے اسے تشکیل دیا گیا ہے۔
جوں جوں ہر روز زیادہ سے زیادہ ڈیٹا تخلیق ہو رہا ہے ، یہ پروگرامز اور زیادہ ذہین ہوتے جائیں گے۔ یہ سیاسی رہنماو¿ں کی جھوٹی، جعلی یا مسخ شدہ تصاویر بنا سکتا ہے جیسا کہ کچھ روز قبل یوکرینی صدر ولادی میر زیلنسکی کی روس کے سامنے سرنڈر کرنے کی ویڈیو بنائی گئی تھی۔
اے آئی اور چیٹ بوٹس کو غلط معلومات اور جعلی خبروں کو پھیلانے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور اسے عوام میں پھیلانے کے لیے سوشل میڈیا کے الگورتھم میں ہیرا پھیری کی جا سکتی ہے۔ یہ عوامی تحفظ کے حوالے سے ناقابل یقین حد تک تشویشناک بات ہے۔
مزید یہ کہ اے آئی معاشی میدان میں پیداواری صلاحیت اور کارکردگی بڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ دس سالوں کے دوران جنریٹو اے آئی سے سالانہ عالمی جی ڈی پی میں 7.0 فیصد اضافہ متوقع ہے۔
جنریٹو اے آئی ماڈلز جیسا کہ گوگل کابارڈ اور چیٹ جی پی ٹی کے پاس اعلیٰ درجے کی ذہانت ہے جو کہ زیادہ تر انسانوں کے پاس نہیں ہوتی۔ یہ چیز ایک اور خطرے کو جنم دیتی ہے۔ کیا اے آئی انسانی ملازمتوں پر قبضہ کر سکتی ہے؟ اگرچہ اے آئی بہت سے شعبوں میں انسانوں کی مدد کر رہی ہے لیکن یہ خطرہ مسلسل موجود ہے کہ یہ انسانوں کا متبادل ثابت ہو گی۔
جب عام ڈرائیورز نے ایک وقت میں اوبر اور کریم کی وجہ سے ملازمتوں سے ہاتھ دھوئے تھے، اس بات کا امکان ہے کہ خودکار کاروں کی آمد سے اوبر اور کریم کے ڈرائیور ملازمت سے محروم ہو جائیں گے
مصنوعی ذہانت مکمل طور پر انسانوں کی جگہ نہ بھی لے لیکن یہ نئی تکنیکی اور غیر تکنیکی ملازمتیں تخلیق کرتے ہوئے کچھ ملازمتوں کو بے کار بنا سکتی ہے۔ جو لوگ ان تبدیلیوں کو اپنانے یا سیکھنے کے لیے تیار نہیں وہ خسارے میں رہیں گے۔
اسی طرح چیٹ جی پی ٹی مختلف سماجی شعبوں میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ سب سے نمایاں تعلیمی شعبے میں اس کا استعمال ہے۔ طلباء بڑے پیمانے پر اسے اپنی اسائنمنٹس بنانے یا مضامین کا خلاصہ کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اس سے جہاں طلباءپر بوجھ کم ہوا ہے وہیں پروفیسرز پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ اے آئی سے تیار کردہ مواد کو انسانوں کی لکھی ہوئے تحریر سے فرق کرنا مشکل ہے۔ یونیورسٹی آف کیمبرج کی تحقیق کے مطابق اے آئی پر مکمل انحصار تعلیمی شعبے کو متنازع بنا دے گا اور مصنوعی ذہانت اس کی سالمیت کے لیے خطرہ ہوگی۔
ان کے خیال میں محض آئیڈیاز تخلیق کرنے کے لیے اس کا استعمال تو مددگار ہو سکتا ہے لیکن کلی طور پر اس پر منحصر ہونا غلط ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ درسگاہوں میں ایمانداری اور میرٹ کو یقینی بنانے کے لیے ان ٹولز کو ریگولرائز کیا جائے۔
اگرچہ سویلین معاملات میں تو اے آئی کا استعمال بہت حد تک ہے، یہ عسکری شعبے میں بھی بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع کے ایک اہلکار کے مطابق اے آئی ملٹری سوفٹ وئیرز کو تیار کرنے میں بہت مدد کر سکتی ہے۔
ان کے مطابق اس سے قبل ڈویلپرز اور کوڈرز کو اس کے لیے قائل کرنا کافی مشکل ہوتا تھا۔ فیصلہ سازی، تدابیر اختیار کرنے، دفاعی حکمت عملی بنانے اور مختلف سینسرز سے حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کرنے میں اے آئی مددگار ہو سکتی ہے۔ اسے ابھرتی ہوئی عسکری ٹیکنالوجیز جیسے کہ ڈرون، میزائل، جیٹ، ٹینک وغیرہ میں بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
مہلک خود کار ہتھیاروں کے نظام میں جنریٹیو اے آئی کا استعمال سب سے زیادہ خطرناک ہوگا کیونکہ یہ ہتھیار ایک بار فعال ہونے کے بعد خودکار طور پر لوگوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔
اس سے احتساب، ذمہ داری اور شفافیت کے بارے میں خوف پیدا ہوتا ہے کہ کون ذمہ دار ہو گا اور کس کا احتساب ہو گا۔ اس لیے اس کو ریگولیٹ کرنا بہت ضروری ہو جاتا ہے، کیونکہ وقت کے ساتھ اے آئی زیادہ ذہین ہو سکتی ہے اور انسانوں کو نظرانداز کرتے ہوئے آزادانہ اقدامات کر سکتی ہے۔
اگرچہ اٹلی نے چیٹ جی پی ٹی پر پابندی لگا ئی تھی جو کہ اب ہٹا لی ہے، لیکن بہت سے ممالک جنریٹو اے آئی کو ریگولیٹ کرنے والے قوانین متعارف کرانے سے گریزاں ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے قوانین انہیں ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے دھکیل سکتے ہیں۔ تیز رفتار ترقی کے دور میں، ٹیکنالوجی پر پابندی لگانے کی بات چیت غیر متعلقہ اور غیر منطقی ہے اور تکنیکی طور پر ترقی یافتہ ریاستوں کے مفاد میں نہیں ہے۔
لہذا، پابندی کے بجائے ضوابط اور قوانین پر زور دینا ضروری ہے، جیسا کہ اوپن اے آئی کے سی ای او اور سیلیکون ویلی کے دوسرے ممبران نے کیا ہے۔ سینڈفورڈ یونیورسٹی کے 2023ئ کے انڈیکس کے مطابق، عالمی سطح پر تقریباً 37 بل قانون کی شکل میں پاس کیے گئے، لیکن یہ قوانین قومی سطح پر مصنوعی ذہانت کے محدود پہلوو?ں کو ریگولیٹ کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر اے آئی میں مقابلہ بڑھ رہا ہے اور اس کو ریگولرائز کرنے والی آوازیں پست ہو رہی ہیں یا بہت کم ہیں جس کا مستقبل میں نا قابل تلافی نقصان اٹھانا پڑھ سکتا ہے۔ باقاعدہ قوانین اور ریگولیشنز ہی اس بات کو یقینی بنا سکتی ہیں کہ اے آئی کا استعمال مثبت اور انسانیت کے لیے فائدہ مند ہو، ناں کہ ایٹم بم کی طرح تباہ کن۔
مصنوعی ذہانت کا تیسرا مرحلہ کیا ہے اور اسے ’انتہائی خطرناک‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟
نومبر 2022 کے آخر میں اپنے آغاز کے بعد سے چیٹ جی پی ٹی، ایک ایسا چیٹ بوٹ جو مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے سوالات کے جواب دیتا ہے یا صارفین کے مطالبے پر متن تیار کرتا ہے، تاریخ میں سب سے تیزی سے بڑھتی ہوئی انٹرنیٹ ایپلی کیشن بن گیا۔
صرف دو ماہ میں دس کروڑ فعال صارفین اس تک رسائی حاصل کر چکے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی نگرانی کرنے والی کمپنی ’سینسر ٹاو¿ن‘ کے اعداد و شمار کے مطابق ٹک ٹاک کو اس سنگ میل تک پہنچنے میں نو مہینے لگے جبکہ انسٹاگرام کو ڈھائی سال کا عرصہ لگا۔
فروری میں اس ریکارڈ کے بارے میں بتانے والے یو بی ایس کے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ ’20 برس سے ہم انٹرنیٹ کو ٹریک کر رہے ہیں، ہمیں اس سے زیادہ کسی انٹرنیٹ ایپلی کیشن کی تیز رفتار ترقی یاد نہیں۔‘
مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کی جانب سے نومبر کے اواخر میں چیٹ جی پی ٹی کے نام سے ایک چیٹ باٹ لانچ کیا گیا تھا۔ اس کی مقبولیت نے ٹیکنالوجی کے اثرات کے بارے میں ہر قسم کی بحث اور قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔
یہ اے آئی کی وہ شاخ ہے جو صارف کی ہدایات کے جواب میں موجودہ ڈیٹا (عام طور پر انٹرنیٹ سے لی جاتی ہے) سے اصل مواد تیار کرنے کے لیے وقف ہے۔
چیٹ جی پی ٹی دراصل کمپنی کی جانب سے مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر بنائے سافٹ ویئرز میں تازہ ترین اضافہ ہے جسے کمپنی کی جانب سے جینرویٹو پری ٹرینڈ ٹرانسفورمر یا جی پی ٹی کہا جا رہا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی سے اگر آپ کوئی بھی سوال پوچھیں تو یہ آپ کو اس حوالے سے ایک مفصل اور بہتر جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چاہے آپ اس سے کوئی نظم لکھوائیں یا اپنے سکول کی اسائنمنٹ میں رہنمائی حاصل کریں، یہ سافٹ ویئر آپ کو اکثر مایوس نہیں کرے گا۔
اوپن اے آئی کا کہنا تھا کہ اس چیٹ فارمیٹ میں مصنوعی ذہانت کو ’سوالات پوچھنے، اپنی غلطی تسلیم کرنے، غلط سوچ کو چیلنج کرنے اور غیر مناسب سوالات کو مسترد کرنے کی بھی آزادی ہوتی ہے۔‘
مضمون، شاعری اور لطیفوں سے لے کر کمپیوٹر کوڈز تک اور ڈائیگرام، تصاویر، کسی بھی طرز کا آرٹ ورک اور بہت کچھ اس کے ذریعے تیار کیا جا سکتا ہے۔
اس کا دائرہ کار ان طلبا سے شروع ہو کر، جو انھیں اپنا ہوم ورک کرنے کے لیے اسے استعمال کرتے ہیں، ان سیاست دانوں تک بھی پھیلا ہوا ہے جو اپنی تقریریں اس کی مدد سے تیار کرتے ہیں۔
اس رجحان نے انسانی وسائل میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ ٹکینالوجی کی دنیا میں ’آئی بی ایم‘ جیسی بڑی کمپنیوں نے تقریباً آٹھ ہزار ملازمتوں کے خاتمے کا اعلان کیا ہے۔ اب وہ یہ کام مصنوعی ذہانت کی مدد سے لیں گے۔
سرمایہ کاری بینک گولڈمین سیکس کی ایک رپورٹ میں مارچ کے آخر میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ مصنوعی ذہانت آج کل انسانی ملازمتوں کے ایک چوتھائی حصے کی جگہ لے سکتی ہے حالانکہ اس سے زیادہ پیداواری اور نئی ملازمتیں بھی پیدا ہوں گی۔
اگر یہ تمام تبدیلیاں آپ پر حاوی ہو جاتی ہیں تو اپنے آپ کو ایک ایسی حقیقت کے لیے تیار کریں جو اور بھی پریشان کن ہو سکتی ہے اور یہ ہے کہ اس کے تمام اثرات کے ساتھ جو ہم اب تجربہ کر رہے ہیں، وہ اے آئی کی ترقی کا صرف پہلا مرحلہ ہے۔
ماہرین کے مطابق دوسرا مرحلہ، بہت زیادہ انقلابی ہو گا اور جلد سامنے آ سکتا ہے جبکہ تیسرا اور آخری مرحلہ اتنا جدید ہے کہ یہ دنیا کو مکمل طور پر بدل دے گا، یہاں تک کہ انسانی وجود کی قیمت پر۔
﴾﴿