پاکستان میں مذہبی اقلیتیں سیاسی تنہائی کے خاتمے کی منتظر

آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کی گہما گہمی سے بے نیاز 50 سالہ اشرف مسیح اپنی زندگی کو دوبارہ پٹڑی پر ڈالنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔
وہ فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ کے علاقے عیسیٰ نگری کے رہائشی ہیں اور 16 اگست 2023ئ کو توہین مذہب کے مبینہ واقعہ کے بعد ہونے والے احتجاج میں جلائے جانے والے گرجا گھروں اور مکانات میں ان کا گھر بھی شامل تھا۔
وہ بتاتے ہیں کہ احتجاج شروع ہونے سے پہلے وہ اپنے بیوی، بچوں سمیت گھر چھوڑ کر چلے گئے تھے جس کی وجہ سے ان کی جانیں تو بچ گئیں لیکن گھر اور اس میں موجود سامان جل جانے کی وجہ سے وہ زندگی بھر کی جمع پونجی سے محروم ہو گئے۔”حکومت نے جو چند لاکھ روپے کی امداد دی تھی اس سے گھر کی مرمت بھی مکمل نہیں ہو سکی ہے، ہم اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اب بھی دوسروں کے محتاج ہیں۔”
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق ان فسادات میں مسیحی برادری کے 19 چرچ اور 86 گھروں کو نذر آتش کیا گیا تھا، اس بارے میں ضلع انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ گرجا گھروں کی سرکاری خرچ پر تزئین و آرائش اور بحالی مکمل کی جا چکی ہے اور جن گھروں کو نذر آتش کیا گیا تھا ان کے رہائشیوں کو فی گھرانہ 20 لاکھ روپے امداد مہیا کی جا چکی ہے، تاہم اس حوالے سے تصدیق شدہ تفصیلات کے حصول کے لئے ڈپٹی کمشنر کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت دی گئی درخواست کا تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے اور اس کے خلاف پنجاب انفارمیشن کمیشن میں اپیل زیر سماعت ہے۔
دوسری طرف پولیس نے ان فسادات میں ملوث ایک ہزار سے زائد ملزموں کے خلاف 22 ایف آئی آر درج کی تھیں لیکن پانچ ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود نہ تو کسی ملزم کو سزا ہو سکی ہے اور نہ ہی تحصیل انتظامیہ یا پولیس کے کسی افسر کے خلاف فرائض میں غفلت برتنے پر کوئی محکمانہ کارروائی کی گئی ہے۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت فیصل آباد پولیس سے حاصل کی گئی معلومات کے مطابق جڑانوالہ فسادات میں ملوث 14 ملزم جسمانی ریمانڈ پر ہیں، 265 جوڈیشل ہو چکے ہیں جبکہ 140 ملزموں کی شناخت پریڈ کے بعد 64 افراد کو عدم شناخت کی بنا پر رہا کر دیا گیا ہے، علاوہ ازیں 263 ملزموں نے بعداز گرفتاری ضمانت دائر کی تھی جن میں سے 204 ضمانت پر رہا ہو چکے ہیں جبکہ 44 کی درخواست ضمانت خارج ہو چکی ہے اور ضمانت کے 15 کیس زیر سماعت ہیں۔
اشرف مسیح کے مطابق ان فسادات کے بعد مقامی سیاسی نمائندوں اور اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پر رکن اسمبلی بننے والے کرسچن نمائندوں نے میڈیا میں بیانات جاری کرنے اور متاثرین کے ساتھ تصویریں بنوانے سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔”اقلیتی نمائندے اسمبلی کے فورم پر ہمارے حقوق کی بات کرنے سے ڈرتے ہیں اور مسلم نمائندوں کو اس سے کوئی غرض ہی نہیں ہے کہ ہم کن حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔”
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے 20 جون 2022ءکو جاری کی گئی ووٹر لسٹوں کے مطابق پاکستان میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کی مجموعی تعداد 39 لاکھ 56 ہزار 336 ہے جن میں 21 لاکھ 52 ہزار 143 مرد اور 18 لاکھ 4193 خواتین شامل ہیں، ان میں سے 22 لاکھ 17 ہزار 141 ووٹرز سندھ، 16 لاکھ 41 ہزار 835 پنجاب، 46 ہزار 115 خیبر پختونخوا اور 51 ہزار 245 غیر مسلم ووٹرز کا تعلق بلوچستان سے ہے۔
علاوہ ازیں فیصل آباد میں مذہبی اقلیتوں سے تعق رکھنے والے ووٹرز کی مجموعی تعداد ایک لاکھ 80 ہزار 986 ہے جن میں 99 ہزار 802 مرد اور 81 ہزار 184 خواتین ووٹرز شامل ہیں، ان میں سے 84 ہزار 986 ووٹرز تحصیل سٹی، 38 ہزار 804 تحصیل صدر، 22 ہزار 220 تحصیل سمندری، 21 ہزار 434 تحصیل جڑانوالہ، 11 ہزار 534 تحصیل چک جھمرہ اور 2008 ووٹر تحصیل تاندلیانوالہ میں رہائش پذیر ہیں۔
تاہم جڑانوالہ کی عیسیٰ نگری کے رہائشی اشرف مسیح کی طرح زیادہ تر غیر مسلم ووٹرز آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں بھی مذہبی اقلیتوں کی موثر نمائندگی کے حوالے سے مایوس دکھائی دیتے ہیں، مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ووٹرز کی اس مایوسی کو ختم کرنے اور عام انتخابات میں اقلیتوں کی شمولیت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ انہیں درپیش مسائل کو اجاگر کرنے کے لئے مینارٹی فورم پاکستان کی طرف سے ملک بھر میں “میں بھی پاکستان ہوں” کے عنوان سے آگاہی مہم چلائی جا رہی ہے۔
سنٹر فار سوشل جسٹس کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پیٹر جیکب کے مطابق اس ملک گیر مہم میں بظاہر مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی بات کی جا رہی ہے لیکن حقیقت میں یہ تمام شہریوں کے لئے محفوظ اور نفرت سے پاک ایک روشن خیال پاکستان بنانے کی کوشش ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس مہم کے تحت جن بنیادی نکات پر فوکس کیا گیا ہے ان میں قائد اعظم کی 11 اگست 1947ئ کی تقریر کو قومی نصاب میں شامل کرنے اور آئین کے آرٹیکل 22 اے کے تحت اکثریتی مذہب کی تعلیم اقلیتی طلبہ پر لاگو نہ کرنے، کم عمری کی شادی اور جبری تبدیلی مذہب کی روک تھام اور اقلیتوں کے بااختیار وفاقی و صوبائی کمیشن قائم کرنے کے لئے قانون سازی کے مطالبات شامل ہیں۔
“اس مہم کے تحت ملک بھر کے شہروں اور دیہات میں پبلک مقامات پر آگاہی بینرز لگائے جا رہے ہیں، انتخابی اجتماعات میں اقلیتوں کو درپیش مسائل کو موضوع بحث بنانے کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور لوگوں کو موٹیویٹ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنے رائے پر مبنی ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کریں۔”
ان کا کہنا تھا کہ اگر مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ووٹرز الیکشن میں فعال طور پر حصہ لیں گے تو منتخب نمائندے بھی ان کے مطالبات پورے کرنے میں سنجیدگی دکھائیں گے۔
پیٹر جیکب کہتے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کے لئے جب سے جداگانہ انتخاب کا طریقہ ختم ہوا ہے “ایک فرد، ایک ووٹ” کا تقاضا پورا ہو رہا ہے اور وہ مخلوط انتخاب کے نظام کو بہتر سمجھتے ہیں، گزشتہ بیس سال کے دوران پاکستان میں مجموعی طور پر جمہوری نظام بہتری کی بجائے ابتری کا شکار ہے اس لئے مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی میں بہتری کا الگ سے تجزیہ غیر منصفانہ ہے۔
“مذہبی اقلیتوں کے بہت سے لوگ اب بھی مذہبی شناخت کو بنیاد بنا کر نمایاں ہونا چاہتے ہیں جو بہتر حکمت عملی نہیں ہے، اس کی بجائے مخصوص نشستوں پر انتخاب کے لئے امیدواروں کا پارٹی کی سطح پر الیکشن اسمبلی اور پارٹی میں ان کی حیثیت کو بہتر بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ دوہرے ووٹ کا مطالبہ بین المذاہب تقسیم میں اضافہ کرے گا جبکہ اقلیتوں کی بکھری ہوئی آبادی کو دیکھتے ہوئے الگ حلقہ بندیوں کی تشکیل بھی ایک مسئلہ ہو گا ،”بہتر یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں مذہبی اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پر نمائندوں کا انتخاب قابلیت کی بنیاد پر کریں تاکہ وہ قانون ساز اداروں میں بہتر نمائندگی کر سکیں۔”مخلوط انتخاب کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں جنرل نشستوں پر بھی غیر مسلم امیدواروں کو ٹکٹ جاری کریں تاکہ ان کی قومی دھارے میں شمولیت یقینی بنائی جا سکے۔
“سندھ میں پیپلز پارٹی نے گزشتہ الیکشن میں کچھ حلقوں سے جنرل نشستوں پر غیر مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیئے تھے اور ان میں سے تین امیدوار کامیاب بھی ہوئے تھے، اس مرتبہ پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کی طرف سے ایک مسیحی کو پنجاب اسمبلی کے حلقے میں امیدوار بنایا گیا ہے۔” دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی اس معاملے میں پیپلز پارٹی کی پیروی کرنی چاہیے تاکہ معاشرے میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کو کم کیا جا سکے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے آئین میں سینٹ، قومی اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں مذہی اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستیں مختص کرکے اقلیتوں کی سیاست میں شمولیت کی ضمانت دی گئی ہے، آئین کے آرٹیکل 51(4) کے تحت اقلیتوں کے لیے قومی اسمبلی میں دس نشستیں مختص ہیں جبکہ آرٹیکل 106 کے تحت سندھ اسمبلی میں نو، پنجاب اسمبلی میں آٹھ، خیبر پختونخواہ اسمبلی میں چار اور بلوچستان اسمبلی میں مذہبی اقلیتوں کے لئے تین نشستیں مختص ہیں۔
علاوہ ازیں الیکشن ایکٹ 2017ئ کے سیکشن 48 میں مذہبی اقلیتوں کو مرکزی دھارے میں شامل کرنے کے لئے متعلقہ اداروں کو غیر مسلموں کے اندراج کے لیے خصوصی اقدامات کرنے کی ہدایت کی گئی ہے،اسی طرح سیکشن 104 میں سیاسی جماعتوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی کے ساتھ غیر مسلم امیدواروں کی ترجیحی فہرست جمع کروائیں اور مخصوص نشستوں کو پ±ر کرنے کے لیے تفصیلی طریقہ کار بھی فراہم کریں، تاہم زیادہ تر سیاسی جماعتوں میں مخصوص نشستوں پر نامزدگی کے لئے کوئی واضح طے شدہ طریقہ کار نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن کمیشن میں جمع کروائی جانے والی غیر مسلم امیدواروں کی ترجیحی فہرستیں کارکردگی سے زیادہ سیاسی جماعتوں کی قیادت کی پسند پر مبنی ہوتی ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ گزشتہ قومی اسمبلی کی طرف سے الیکشن ایکٹ 2017 میں کی جانے والی 54 ترامیم میں سے ایک ترمیم بھی مذہبی اقلیتوں کی انتخابی عمل میں نمائندگی یا شمولیت کو بہتر بنانے کے بارے میں نہیں ہے۔
علاوہ ازیں انتخابی اصلاحات کے لئے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کے اراکین میں بھی کسی غیر مسلم رکن پارلیمنٹ کو شامل نہیں کیا گیا تھا، انتخابی اصلاحات کے لئے تشکیل دی گئی پارلیمانی کمیٹی کی کارکردگی جاننے کے لئے رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت بھیجی گئی درخواست کے جواب میں قومی اسمبلی کے سیکرٹری نے قائمہ کمیٹیوں کی کارروائیوں کو خفیہ ریکارڈ بتاتے ہوئے درخواست کردہ معلومات فراہم کرنے سے انکار کر دیا ہے جس پر پاکستان انفارمیشن کمیشن میں اپیل زیر سماعت ہے۔
واضح رہے کہ قیام پاکستان سے قبل 1916ئ میں انگریز راج کے دوران مسلم سیاسی قیادت کے مطالبے پر لکھنو ڈیکلریشن کے تحت برصغیر میں پہلی مرتبہ مسلمانوں کے لئے جداگانہ انتخاب کا طریقہ متعارف کروایا گیا تھا۔اس نظام کے تحت مسلمانوں کے لئے مرکز میں 30 فیصد، پنجاب میں 50 فیصد اور بنگال میں 40 فیصد نشستیں مختص کی گئی تھیں،تاہم قیام پاکستان کے بعد بننے والی پہلی آئین ساز اسمبلی کے اراکین میں شامل 10 غیر مسلم نمائند وں نے مذہبی اقلیتوں کی نمائندگی کے لئے مخلوط انتخاب کا طریقہ اختیار کرنے کی حمایت کی تھی۔
بعدازاں 1956 میں بننے والے پہلے اور 1962 میں بننے والے دوسرے آئین کے علاوہ 1973 میں بننے والے متفقہ آئین میں بھی مذہبی اقلیتوں کے لئے مخلوط انتخاب کا طریقہ ہی طے کیا گیا تھا جبکہ 1970ئ میں “ایک آدمی، ایک ووٹ” کی بنیاد پر ہونے والے پہلے عام انتخابات میں بھی مذہبی اقلیتوں نے مخلوط انتخاب کے تحت الیکشن میں حصہ لیا تھا،اس کے بعد 1977ئ میں مخلوط انتخاب کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں کے لئے قومی اسمبلی میں چھ مخصوص نشستیں بھی مختص کی گئی تھیں۔
جنرل ضیائ الحق کے دور آمریت میں 1985ئ کے غیر جماعتی انتخابات کے وقت یہ نظام ختم کر کے مذہبی اقلیتوں کے لئے جداگانہ انتخاب کا نظام رائج کر دیا گیا جو کہ 1997 کے عام انتخابات تک جاری رہا، بعدازاں 2002ئ میں جنرل مشرف کے دور آمریت میں جداگانہ انتخاب کا طریقہ ختم کر کے دوبارہ مخلوط انتخاب اور مخصوص نشستوں کا نظام رائج کر دیا گیا جو تاحال جاری ہے۔
اگرچہ یہ نظام منتخب ایوانوں میں غیر مسلم ارکان کی موجودگی کے ساتھ ساتھ اس بات کو بھی یقینی بناتا ہے کہ اکثریتی جماعت کو غیر مسلموں کی نمائندگی پر اجارہ داری حاصل نہ ہو، تاہم بہت سے غیر مسلم ووٹرز مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والے غیر مسلم نمائندوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ مذہبی اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کا فائدہ غیر مسلم اشرافیہ اٹھا رہی ہے، اس طرح قانون ساز اسمبلیوں میں مذہبی اقلیتوں کی موثر نمائندگی کا مسئلہ تاحال اقلیتی نمائندوں کے انتخاب کے طریقہ کار کے گرد گھوم رہا ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے لئے “میکنگ الیکشنز کریڈیبل” کے عنوان سے لکھی گئی خصوصی رپورٹ کے مصنف سینئر صحافی اور الیکشن مبصر طاہر مہدی کے مطابق اس مسئلے کو انڈیا میں رائج پسماندہ طبقات کی سیاسی نمائندگی کے نظام کو اپنا کر حل کیا جا سکتا ہے۔
“543 رکنی بھارتی پارلیمنٹ (لوک سبھا) میں دلتوں کے لیے 84 اور شیڈولڈ کاسٹ کے لیے 47 نشستیں مخصوص ہیں۔ تمام نشستیں جغرافیائی حلقوں سے مطابقت رکھتی ہیں جو یکساں اصولوں اور طریقہ کار کے تحت مختص کی جاتی ہیں اور پھر زیادہ سے زیادہ نشستیں دلتوں اور شیڈولڈ کاسٹ کی سب سے زیادہ آبادی والے حلقوں کے لیے مخصوص کی جاتی ہیں۔ ان حلقوں میں انتخابات ایک شخص ایک ووٹ کے اصول کے تحت ہی ہوتے ہیں۔” یہ نظام ووٹروں کو ذات پات یا مذہب کی بنیاد پر تقسیم کیے بغیر منتخب ایوانوں میں پسماندہ افراد کی موجودگی کو یقینی بناتا ہے۔
علاوہ ازیں یہ نظام سیاسی جماعتوں کو بھی مجبور کرتا ہے کہ وہ پسماندہ طبقات کی اپنی سیاسی جماعت میں شمولیت یقینی بنائیں جس کے نتیجے میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے حلقوں میں زیادہ بامعنی طور پر کام کرنے اور اپنا سیاسی کیریئر بنانے میں مدد ملے گی۔
انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے وکیل عاطف جمیل ایڈووکیٹ سمجھتے ہیں کہ مذہبی اقلیتیں پاکستان میں طویل عرصے سے سیاسی تنہائی کا شکار ہیں جسے ختم کرنے کے لئے انتخابی عمل اور آئین میں اصلاحات کی شدت سے ضرورت ہے، “مذہبی اقلیتوں کو اسمبلیوں میں حقیقی نمائندگی کی ضرورت ہے جو چند مخصوص افراد کی مخصوص نشستوں پر بار بار تقرری سے ممکن نہیں ہے، پاکستان اس وقت تک جمہوری معاشرہ نہیں بن سکتا ہے جب تک کہ ریاست اور مذہب کو الگ الگ نہیں کیا جاتا ہے۔”ایک مخصوص مدت کے لیے مشترکہ انتخابی حلقوں کے تحت مخصوص نشستوں پر اقلیتی اراکین کو منتخب کرنے کے لیے خصوصی اقدامات کیے جا سکتے ہیں جس سے مذہبی شدت پسندی میں بھی کمی آئے گی۔”
ان کا ماننا ہے کہ اس عمل سے جہاں قانون ساز اسمبلیوں میں مذہبی اقلیتوں کی موثر نمائندگی یقینی بنائی جا سکتی ہے وہیں ان اقدامات سے پاکستان میں جمہوریت اور سماجی و مذہبی ہم آہنگی کو بھی فروغ ملے گا۔