زرعی مزدور عورتوں کی مشقت سخت، لیکن معاوضہ قلیل

بلال حبیب
شہر سے 12 کلومیٹر دور گاو¿ں سنی پل کی رہنے والی فضیلت بی بی کے ہاتھوں پہ پڑے نشان بتاتے ہیں کہ وہ کسی سخت محنت و مشقت کی وجہ سے ہیں۔ چالیس سالہ فضیلت بی بی 2 بچوں کی ماں ہے، اس کے 45 سالہ شوہر امتیاز احمد جو کہ بطور ڈرائیور شہر میں ایک بڑے گھر کا ملازم تھا دو سال پہلے ایک حادثے میں ایک ٹانگ محروم ہو گیا اور وہ اب کسی کام کے قابل نہیں رہا، لیکن فضیلت بی بی ہمت سے کام لیتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامی زمیندار کے ہاں بطور زرعی مزدور کام کرنے لگی۔ کیونکہ جمع پونجی شوہر کے علاج معالجے میں خرچ ہوگئی اور بات فاقوں تک پہنچ گئی اس لیے مجبورا کام کے لیے نکلنا پڑا۔ فضیلت نے بتایا کہ اس کے ساتھ اور بھی عورتیں کھیتوں میں کام کرتی ہیں لیکن انہیں ان کی محنت کے برعکس معاوضہ ملتا ہے جس سے دو وقت کی روٹی بھی پوری ہو جائے تو غنیمت ہے۔ بعض اوقات تو طے شدہ معاوضے میں بھی ادھار کر لیا جاتا ہے اور کبھی تھوڑا سا آٹا اور گندم دے کر ٹال دیا جاتا ہے۔ فضیلت نے بتایا کہ سردیوں کے یخ بستہ ٹھنڈے مہینوں میں فصلوں کی بوائی سے لے کر گرمی کی تیز دھوپ میں فصلوں کی کٹائی تک، وہ اور اس کی ساتھی خواتین محنت کرتی ہیں لیکن ہمیں اجرت مردوں کے مقابلے میں کم دی جاتی ہے۔ فی ایکڑ مزدوری ایک ہزار روپے اگر ہو تو ہمیں 5 سو روپیہ ہی دی جاتی ہے۔ جبکہ مہنگائی جس حساب سے بڑھتی ہے اس حساب سے ہمارا معاوضہ نہیں بڑھتا۔
صحت کے حوالے سے فضیلت نے بتایا کہ مسلسل مشقت سے اسکا جسم اور ہڈیاں درد کرتی رہتی ہیں اور وہ خود کو بوڑھا محسوس کرتی ہے۔
شہر سے 3 کلو میٹر دور بستی کہور خان کی 24 سالہ ریکھا بی بی جو کہ اپنے بوڑھے والدین کے لیے سہارا ہے کے مطابق ہماری صبح کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب گاو¿ں کی اکثریت سو رہی ہوتی ہے۔ گھر کے جانوروں کے لیے پہلے چارے کا بندوبست کرنا پڑتا ہے پھر ناشتہ کی تیاری ہوتی ہے۔ ریکھا بتاتی ہیں کہ گھر گرہستی سے لے کر مال مویشیوں کی دیکھ بھال، فصلوں کی بوائی، کٹائی، چھڑائی اور صفائی، سب طرح کی مشقت میں خواتین مرودوں کے برابر کی شریک ہوتی ہیں۔ غربت ، کم اجرت اور بے پناہ کام کے باوجود کھیتوں میں کام کرنےوالی خواتین کی محنت کو تسلیم بھی نہیں کیا جاتا۔ یہاں کھیتوں میں کام کرنے والی اکثریت خواتین ہوتی ہیں لیکن ہمیں اس محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا، کبھی فی من کے حساب سے پیسے ملتے ہیں تو کبھی فی ایکڑ کے حساب سے جبکہ ہم محنت مردوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کرتے ہیں۔ ہمیں گھر سے بعض اوقات 25 سے 30 کلومیٹر دور بھی جا کر کام کرنا پڑتا ہے لیکن معاوضہ وہی رہتا ہے۔ بیماری کی صورت میں چھٹی کرنے پر دیہاڑی نہیں ملتی اور نہ ہی علاج کے پیسے ہمیں دئیے جاتے ہیں۔
مزدور ٹریڈ یونین و کسان رہنما محمود الحسن کے مطابق ہاری خواتین کا جنوبی پنجاب کے زمیندار سب سے زیادہ استحصال کرتے ہیں۔ مرد مزدور کو جس کام کے 100 روپے مزدوری دی جاتی ہے اسی کام کے لئیے عورت مزدور کو 50 روپے مزدوری بھی نہیں دی جاتی، خواتین ہاری کو ان کی مشقت کے برابر معاوضہ نہ دینا ان کا معاشی قتل ہے، کم آمدنی کی وجہ سے وہ غذائی قلت کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ پسماندہ زندگی گذارنے کی وجہ سے جلد وبائی امراض کا شکار ہو جاتی ہیں انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ آزاد اور مستند ذرائع سے ہاری خواتین کا سروے کروائے اور ان کی مشقت کے مطابق اجرت طے کر کے اس پر عمل درآمد بھی کروائے اور اگر اس سلسلے میں قانونی سازی کرنی پڑے تو باقاعدہ قانونی سازی کروا کر انہیں اس معاشی استحصال سے بچایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہاری خواتین کی مشقت کو جائز حق دینے کے عمل کو اپنے پارٹی منشور کا حصہ بنائیں اور سول سوسائٹی بھی ان کے حقوق کیلئے آواز بلند کریں۔
انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والے سوشل ورکر اشوک کمار کے مطابق نواحی علاقے کی بستی کہور خان میں 250 سے زائد خاندان ہندو برادری سے تعلق رکھتے ہیں جن کی خواتین زرعی مزدور ہیں۔ اشوک کا کہنا تھا کہ یہاں زرعی مزدور خواتین کا کھیت میں کام کرنے کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں۔ اگر کوئی زمیندار 400 روپے فی من کپاس چنائی کی مزدوری دے رہا ہے تو اگر مزدور خواتین زیادہ آ جائیں تو 300 روپے فی من ریٹ کر دے گا۔ اسی طرح گندم کی کٹائی کے لئیے جو فی من 2 سو روپے مزدوری دیتے تھے اب وہ مزدوری 2 من گندم کی کٹائی پر دیتے ہیں۔ گندم کا ریٹ تو بڑھا ہے لیکن مزدوری نہیں بڑھی۔
وفاقی ادارہ شماریات کی 2018ئ میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق زرعی شعبے میں کام کرنے والی ہر 100 میں سے 56 خواتین ہر ہفتے 50 گھنٹوں سے زیادہ کام کرتی ہیں جبکہ ہر 100 میں سے صرف 22 مرد زرعی مزدوروں کو ہر ہفتے اتنے گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود مرد زرعی مزدوروں کی اوسط ماہانہ اجرت 12 ہزار 7 سو روپے ہے جبکہ زرعی مزدور خواتین ہر ماہ اوسطاً صرف 7 ہزار 5 سو روپے کما پاتی ہیں۔ مجموعی طور پر وہ مردوں سے دو گنا سے بھی زیادہ کام کرتی ہیں لیکن ایک مرد کے کمائے ہوئے سو روپے کے مقابلے میں صرف 59 روپے کما پاتی ہیں۔
انسانی اور مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے گزشتہ تین دہائیوں سے کام کرنے والے عبدالرب فاروقی کے مطابق جنوبی پنجاب کی زرعی مزدور خواتین “پنجاب ویمن ایگری کلچرل ورکرز ایکٹ” سے محروم ہیں۔ فاروقی چاہتے ہیں کہ ان زراعت پیشہ خواتین کی رجسٹریشن ہو اور ان کے لئیے قانون بنے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک ابتدائی مسودہ تحریر بھی کیا ہے جس کو کسی بڑے فورم پر جلد پیش کیا جائے گا۔
فاروقی نے بتایا کہ وومن ایگریکلچرل ورکرز یعنی کسان عورتیں یا زرعی مزدور خواتین جو کھیتوں میں کام کرتی ہیں کہ بے شمار مسائل ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ ان کی اجرت کا ہے انہیں بہت کم اجرت دی جاتی ہے۔ ان خواتین کہ ہاتھ ہمیں کھانا بنا کے دے رہے ہوتے ہیں اور ہم ہی ان ہاتھوں کو نہیں پہچانتے۔ جتنے سروے ہوتے ہیں ان میں خواتین کے کاموں کو کام ہی تسلیم نہیں کیا جاتا۔ ان کے لئیے قانون بننا چاہیے تاکہ ان کو تحفظ کا احساس ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ وومن ایگریکلچرل ایکٹ بنا ہوا ہے جبکہ پنجاب میں نہیں بنا۔ اب چونکہ پنجاب کی نئی وزیر اعلی مریم نواز ایک خاتون ہیں تو ہماری ان سے درخواست ہے کہ ان استحصال زدہ ہاری خواتین کے حقوق بارے قانون پاس کروائیں تاکہ تاریخ اس حوالے سے انہیں یاد کرے۔ قانون سازی سے ایک فائدہ یہ ہو گا کہ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کو ان کے حقوق کا پتہ ہو گا دوسرا زمیندار بھی ان کے معاشی استحصال سے قانون کی گرفت میں آ سکیں گے.
ڈسٹرکٹ آفیسر لیبر محمد نعیم کے مطابق پنجاب میں زرعی مزدوروں کے حوالے سے کوئی قانون سازی نہیں ہوسکی ہے جس کی وجہ سے وہ ان کے معاملات کو نہیں دیکھ سکتے۔ ماضی میں اس بارے میں اقدامات کے حوالے سے بات تو ہوئی ہے لیکن قانون سازی نہیں ہو سکی۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف کمرشل ایکٹیوٹی میں شامل مزدوروں کے بارے میں وہ جانچ پڑتال کر سکتے ہیں۔