عالمی یوم خواتین عورت مارچ! صنفی مساوات کا نعرہ

سحر حسن /راضیہ سید
معاشرے کی ترقی کا راز خواتین کو بھرپور انداز سے قومی دھارے میں شامل کرنے میں مضمر ہے۔ خواتین کو بااختیار بنانے کے بہت سے دعوے ہم دن رات سنتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔
اکیسویں صدی میں بھی ہم خواتین کی ترقی کو لے کر بہت پیچھے ہیں، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم نے صرف زبانی کلامی ہی سب کام کیے ہیں، دل سے خواتین کو بااختیار بنانے کے متعلق کبھی نہیں سوچا۔
آج خواتین بلاشبہ ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں لیکن خواتین کی ترقی استحصال کے ساتھ ہورہی ہے۔ ہر انسان اب تک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ خواتین اپنے حقوق کےلیے مسلسل جدوجہد کررہی ہیں اور مردوں کے مقابلے میں انھیں اپنا آپ منوانے کےلیے کئی گنا تگ و دو کرنا پڑ رہی ہے تو یہ غلط نہیں۔
ہر عورت کو ہر نئے دن ایک نئے محاذ کا سامنا ہے۔ عورت اگر بیٹی، بیوی، بہن ہے تو صرف اسی پر یکطرفہ ذمے داریاں عائد کردی گئی ہیں۔ عورت اگر خاتون خانہ ہے تو اس کے گھریلو امور میں مصروف رہنے کو کوئی کام ہی نہیں گردانتا اور اگر ملازمت پیشہ ہے اور قابل بھی تو وہاں بھی ایک نئی جنگ اس کی منتظر ہے۔
ملازمت میں ترقی کو اس کی شخصیت یا خوبصورتی سے جوڑ دینا بہت ہی آسان کلیہ بنا دیا گیا ہے۔ کردار کشی، جنسی اور آن لائن ہراسانی آج کی دنیا کا وتیرہ بن گیا ہے۔ اگرچہ میں تمام افراد کی بات نہیں کررہی لیکن ہمارے معاشرے کی اکثریت خواتین کو مردوں کے مساوی تو کیا انسان سمجھنے کے بھی قائل نہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خواتین کا عالمی دن منانے سے اس کے تمام تر حقوق پورے ہوجاتے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں! دیکھا جائے تو ہر دن عورت کا ہے۔ اس ماں کا دن ہے جو سارا دن کام کاج کرتی ہے، اپنے بچوں کا خیال رکھتی ہے۔ ہر دن اس بہن کا ہے جو جب بھی باہر نکلتی ہے اپنے باپ اور بھائی کی غیرت کا مان بن کر نکلتی ہے۔ ہر دن اس بیوی کا ہے جو گھریلو کام کاج کے ساتھ ملازمت کرکے اپنے شوہر کے شانہ بشانہ زندگی کی گاڑی چلا رہی ہے۔
پاکستان کے قانون وارثت کی دفعہ چار سو اٹھانوے اے کے مطابق بیوہ اور کنواری تمام خواتین کو جائیداد کے حقوق دیے گئے ہیں لیکن قوانین کی موجودگی سے مراد یہ نہیں کہ ان قوانین کا اطلاق بھی یقینی بنایا جارہا ہے۔ آج کے اس مہذب معاشرے میں مائیں بیٹوں کو اب تک اپنے سروں کا تاج سمجھتی ہیں، بچیوں کو شروع سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ تمھارا اصل گھر تمھارے شوہر کا گھر ہے، تو شروع سے ہی وہ مہمانوں کی طرح اپنے گھر میں رہتی ہیں۔ اور ایک طرح سے انھیں یہی سمجھا دیا جاتا ہے کہ گویا یہ بھائیوں کا ہی گھر ہے، تم اپنے حصے سے متعلق کوئی امید یا توقع مت رکھنا۔
پاکستان کے وراثتی قوانین کے مطابق خاتون کی چاہے شادی ہو یا نہ ہو، وہ بھائیوں کی موجودگی میں جائیداد کے آدھے حصے کی وارث ہے۔ اسی طرح اگر ایک بیوہ عورت شوہر کے مرنے کے بعد دوسری شادی کرتی ہے تو وہ بھی ناقابل واپسی جائیداد کی مالک ہے۔ کنواری اور بیوہ دونوں خواتین وراثت میں ملنے والی جائیداد فروخت بھی کرسکتی ہیں۔
لیکن اس سب کی باوجود خواتین ساری زندگی کورٹ کچہری کے چکر ہی لگاتی رہتی ہیں اور ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی۔
ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر دو گھنٹے میں ایک ریپ کا کیس سامنے آرہا ہے جبکہ ہر آٹھ گھنٹے کے بعد ایک اجتماعی زیادتی کا اندوہناک سانحہ پیش آرہا ہے۔ اب کچھ بات اگر عورت مارچ کے حوالے سے ہوجائے تو مجھے یہ کہنے میں کوئی حرج نہیں کہ عورت مارچ نے خواتین کے حقوق دلانے کے بجائے خواتین کے اصل مسائل سے پہلوتہی کی ہے۔ عورت مارچ کے نام نہاد لبرل ازم کے نعروں کی گونج نے خواتین کو حقوق تو نہیں دلائے بلکہ لایعنی و بے مقصد اور قابل مذمت ایشوز کو ضرور جنم دے دیا ہے۔
سڑکوں پر پلے کارڈز اٹھائی گنتی کی چند خواتین نوے فیصد خواتین کی نمائندگی نہیں کرتیں اور نہ ہی نوے فیصد خواتین یہ جانتی ہیں کہ یہ نام نہاد نعرے ان کے مسائل ہیں۔
صنفی تفریق کے باعث روشن خیالی کا پیکر نظر آنے والے سماج میں بھی خواتین کا شمار کمزور طبقات میں ہوتا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت کسی نہ کسی قسم کے تشدد کا شکار ضرور ہوتی ہے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک میں یہ تناسب سب سے زیادہ ہے۔
دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح ہمارے یہاں بھی خواتین کو مختلف طرح کے تشدد کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے اور بہت سی خواتین سماجی لعن طعن کے ڈر سے خود پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف ا?واز بھی نہیں اٹھا پاتی ہیں۔ خواتین کو ہراساں کرنے، مارنے پیٹنے، زدوکوب کرنے کے واقعات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اچھرہ بازار میں خاتون کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ اس کی تازہ مثال ہے۔ ہمارے سماج میں عورتوں پر تشدد کی سب سے بڑی وجہ ہمارا مخصوص سماجی ڈھانچہ ہے جو عورتوں کو صنفی مساوات کا حق دینے سے انکار کرتا ہے۔ طاقت کے بل بوتے پر کمزور طبقے کی حق تلفی روز کا معمول ہے۔
ہمارا معاشرہ دراصل مجموعی طور پر قبائلی اور جاگیردارانہ سوچ کے شکنجے میں قید ہے۔ سماجی تفریق کا چلن عام ہے۔ عورتوں کو کمزور طبقہ سمجھا جاتا ہے۔ ہر سطح پر ان کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ گھر کے اہم فیصلوں میں انہیں شامل نہیں کیا جاتا۔ گھر اور باہر قدم قدم پر انہیں روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کی شخصیت سے اعتماد چھین لیا جاتا ہے تاکہ عورتیں تمام عمر مردوں کی غلام (باندی) و محکوم بنی رہیں اور مرد ان پر حکومت کرتے رہیں۔
ہمارے یہاں بہت سے عورت مخالف رسم و رواج پرانے زمانے سے رائج ہیں جو عورتوں کو ذہنی کرب سے دوچار کیے رکھتے ہیں۔ زرعی سماج میں عورتیں اب بھی مال مویشیوں کے زمرے میں آتی ہیں۔ بعض اوقات انہیں خاندانی دشمنیاں نمٹانے کےلیے ہرجانے کے طور پر مخالفین کے سپرد کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح کم عمری کی جبری شادیاں، پرانے وقتوں کے مطابق حق مہر لکھوانا، وٹہ سٹہ، بیوی کی رائے لیے بغیر زبردستی کے اسقاطِ حمل، جہیز نہ ملنے کی صورت میں بیویوں کے اعضا بیچ دینا، غیرت کے نام پر قتل ”کاروکاری“، ونی، سوارہ، قرآن سے شادی وغیرہ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
پاکستان میں عورتوں کے مساوی حقوق کےلیے وقتاً فوقتاً قانون سازی بھی کی جاتی ہے، جن میں ”کام کی جگہ پر عورتوں کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون“ اور ”عورت دشمن روایات پر پابندی“ کے قانون قابلِ ذکر ہیں۔ مگر قانون سازی کا خاطر خواہ فائدہ عام عورتوں کو نہیں پہنچ پاتا۔ قانون پر عمل درآمد میں اکثر پیچیدگیاں آڑے آجاتی ہیں۔ طاقتور دندناتے پھرتے ہیں اور کمزور طبقہ انصاف کےلیے روتا اور سسکتا رہ جاتا ہے۔
خواتین کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ انہیں زندگی کے ہر معاملے میں نظر انداز کیا جاتا ہے۔ اکثر قبائلی نظام میں بسنے والی دیہی اور شہری عورتیں اب بھی دورِ جاہلیت کی گھسی پٹی روایات کے مطابق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ وہ صبح سے رات گئے تک گھر اور باہر جبری مشقت کرتی ہیں۔ گھر، شوہر اور بچوں کی سیکڑوں ذمے داریاں تن تنہا نبھاتی ہیں۔ چوبیس گھنٹے بلامعاوضہ نوکری کرتی ہیں، ساتھ ہی کھیتوں میں کام کرتی ہیں، مال مویشی پالتی ہیں، سلائی کڑھائی کرتی ہیں، فیکٹریوں اور دفاتر میں بھی کام کرتی ہیں اور گھر کی کفالت میں اپنا حصہ ڈالتی ہیں مگر ان کی یہ تمام تر خاموش محنت مشقت کام کے زمرے میں نہیں آتی۔ ان کی تمام تر خدمات کا صلہ گھر کے مرد لے جاتے ہیں۔
عورتوں کو وراثت کا حق نہیں دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات گھر کے سرپرست جائیداد تقسیم ہوجانے کے خوف سے اپنی بہنوں، بیٹیوں کی شادیاں نہیں کرواتے، یوں شادی کی عمر گزر جاتی ہے۔ ان کے بالوں میں چاندی اتر آتی ہے اور وہ بوڑھی ہو کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سماج میں خواتین کا استحصال بچپن سے ہی شروع ہوجاتا ہے۔ کم عمری میں وہ اپنی ماو¿ں کو آخر میں کھانا کھاتے دیکھتی ہیں۔ بیٹوں کی خوراک کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ صنفی امتیاز عمر کے مختلف ادوار میں گھر اور باہر ہر جگہ برتا جاتا ہے۔ وہ اگر پڑھنا چاہتی ہیں تو ان کی تعلیم پر توجہ دینا والدین کی پہلی ترجیح نہیں ہوتی۔ ماں باپ یہی کہتے ہیں کہ تمھیں پڑھ لکھ کر کیا کرنا ہے، کل شادی ہوکر پرائے گھر چلی جاو¿ گی، ہمیں تم سے کون سی نوکری کروانی ہے، پڑھ لکھ کر بھی ہانڈی چولہا ہی کرنا ہے۔ اگر وہ پڑھ لکھ جاتی ہیں تو ملازمت کرنے سے روکا جاتا ہے۔ اگر میرٹ پر ملازمت مل بھی جائے تو وہاں اکثر پسند ناپسند کی وجہ سے ان کی زندگی تنگ کردی جاتی ہے۔ غیر موافق ماحول ان کے کام کرنے کی جگہ پر رکاوٹیں کھڑی کردیتا ہے۔ مل مزدور اور دفاتر میں نوکری کرنے والی عورتوں کو جوائننگ لیٹر اور جاب سیکیورٹی نہیں دی جاتی۔ انہیں جب چاہیں کام سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس طرح ملازمت پیشہ عورتیں اپنے بہت سے حقوق سے محروم رہ جاتی ہیں۔
چند برسوں سے خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقد ہونے والے ”عورت مارچ“ پر شدید واویلا مچایا جارہا ہے۔ حالاں کہ ہمارے ہاں ہر جگہ عورتوں کا استحصال روز کا معمول ہے۔ اس ضمن میں خواتین اپنے خلاف ہونے والے ہر ظلم و زیادتی پر آواز اٹھانے کا پورا حق رکھتی ہیں۔ عورتوں کے حقوق، تحفظ و ترقی کےلیے سرگرم ادارے بھی پاکستان میں عورتوں کی مجموعی صورت حال سے مطمئن نظر نہیں آتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں، ریاست انہیں تحفظ فراہم نہیں کررہی ہے۔ ان کے مفاد میں بنائے گئے قوانین پر عمل درا?مد نہیں ہوتا ہے۔ انتظامیہ، عدلیہ اور پولیس اس سلسلے میں اپنا مو¿ثر کردار ادا نہیں کرپارہے ہیں۔ سو عورت مارچ صنفی برابری کا ایک مزاحمتی نعرہ بن گیا ہے اور اب یہ نعرہ ایک مزاحمتی تحریک کا روپ دھار چکا ہے۔
ذرا سوچیے! عورتیں بھی انسان ہیں۔ وہ بھی زندگی جینے کےلیے ایک آزاد فرد جتنی آزادی چاہتی ہیں۔ وہ بھی سماجی و معاشی سطح پر برابری کے حقوق چاہتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ صنف کی بنیاد پر قدم قدم پر ان کا سماجی و معاشی استحصال نہ کیا جائے تاکہ وہ بھی امن و سکون کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔
خواتین کے مسائل میں ناخواندگی، بے روزگاری، کاروکاری، وراثتی حقوق سے محرومی، کم عمری کی شادی اور جبری نکاح جیسے مسائل شامل ہیں۔ لیکن ان کا ذکر عورت مارچ کے بینرز میں کہیں نہیں ہوتا۔
اس ایک دن کے ڈھونگ کا کیا فائدہ؟ ہمارے ڈرامے ہیں تو وہاں خواتین کا استحصال دکھایا جاتا ہے۔ طلاق، تھپڑ اور غیر ازدواجی تعلقات ہمارے پورے ڈراموں میں یہی کہانی ہوتی ہے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ ہماری نوے فیصد خواتین جو ڈرامہ دیکھ رہی ہیں وہ کیا سیکھ رہی ہیں؟ کیا ان ڈراموں میں خواتین کے حقیقی مسائل کی طرف نشان دہی کی گئی ہے؟ یقینی طور پر نہیں۔
اس سب صورتحال کا ذمے دار کون ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ میں، ا?پ اور ہم سب۔ کیونکہ ہم سب مل کر ہی یہ معاشرہ بنا رہے ہیں۔ چاہے ہم ادیب ہیں یا شاعر، ڈاکٹر یا انجینئر، استاد یا بالفرض ہمارا تعلق زندگی کے کسی بھی شعبے سے ہو، ہمارے ہر عمل کا براہ راست اثر اس معاشرے پر پڑتا ہے۔ ا?ج اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ خواتین کو معاشرے میں وہ عزت اور مقام نہیں مل رہا جس کی وہ مستحق ہے تو اس میں ہم سب کی گھریلو تربیت بھی کہیں نہ کہیں ضرور اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔
ہمیں اپنی عورت کو اگر بااختیار بنانا ہے تو سب سے پہلے ایک عورت کو ہی بطور ماں ایک مرد یعنی بیٹے کی تربیت کرنا ہوگی۔ بہترین خانگی تربیت کی وجہ سے ہی ہم ترقی کی منازل طے کرسکتے ہیں۔
انسانی وجود کے پیچیدہ نقش میں خواتین طویل عرصے سے بغیر کسی رکاوٹ کے مختلف کرداروں کے درمیان خوب صورتی، لچک اور عزم کے ساتھ خود کو ڈھالتی رہی ہیں۔ بچوں کی پرورش کرنے سے لے کر پیشہ ورانہ ذمے داریوں تک، مختلف امور کی دیکھ بھال سے لے کر رہنما کا کردار نبھانے تک خواتین اپنی روزمرہ کی زندگی میں متعدد ذمے داریاں نبھاتی ہیں اور ان کے ہر کردار کے ساتھ اپنے اپنے مسائل اور کامیابیاں جڑی ہوئی ہیں۔ خواتین کے مختلف کرداروں کا جائزہ لیتے ہوئے یہ ضروری ہے کہ ان کی انتھک کوششوں کو تسلیم کیا جائے اور معاشرے میں ان کی بے مثل خدمات کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے۔
پرورش اور دیکھ بھال
خواتین کے بہت سے کرداروں میں پرورش اور دیکھ بھال کرنے والے کردار کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ ماں، بیٹی، بہن یا دوست کے روپ میں خواتین اکثر اپنے پیاروں اور عزیزوں کی پرورش اور دیکھ بھال کی ذمے داری اٹھاتی ہیں۔ گھر کا کوئی بھی کام لیجیے، صبح پ±و پھٹے سے ا?دھی رات تک یہ گھر کے بڑوں اور بچوں کی راحت اور اچھی صحت کی خاطر خود کو مشکل میں ڈالے رکھتی ہیں۔ یہ کردار جذباتی اور جسمانی نگہداشت دونوں پر محیط ہے، جس میں صبر، ہم دردی، ایثار اور بے لوثی کی ضرورت ہوتی ہے۔
ذاتی خواہشات کے ساتھ دیکھ بھال کے فرائض کو متوازن کرنا مشکل ہوسکتا ہے۔ یہ سماجی توقع کہ خواتین کو اپنی ضروریات پر نگہداشت کو ترجیح دینی چاہیے، احساسِ جرم، کم زوری اور احساسِ شکست کا باعث بن سکتی ہے۔ مزید برآں! مناسب سہارے اور وسائل کی کمی اس کردار میں خواتین کو درپیش مسائل بڑھا سکتی ہے۔
تاہم! دوسری طرف خواتین اپنی نگہداشت کے کردار میں جو محبت اور ہم دردی شامل کرتی ہیں، وہ بے پایاں ہے۔ محفوظ اور پروان چڑھانے والے ماحول پیدا کرنے کی ان کی صلاحیت ایسے بندھنوں کو فروغ دیتی ہے جو مضبوط خاندانوں اور معاشروں کی بنیاد ہے۔
پیشہ ورانہ طرزِ زندگی
دورِ حاضر میں خواتین رکاوٹوں کو توڑ کر مختلف پیشہ ورانہ شعبوں میں مخالف جنس پر سبقت لے رہی ہیں۔ کمرہ? جماعت سے لے کر جلسہ گاہ تک، سائنسی تجربہ گاہوں سے لے کر عدالتوں میں منصفی تک، جراحی سے لے کر خلاو¿ں پر راج کرنے تک خواتین متنوع شعبوں میں دقیانوسی تصورات کو ختم کرتے ہوئے اور مختلف امور میں جدت کے ساتھ نمایاں پیش رفت کر رہی ہیں۔
خواتین کو اپنے پیشہ ورانہ کاموں میں اکثر صنفی تعصب، غیر مساوی مواقع اور چادر اور چار دیواری کے عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حقوق نسواں اور خاندانی ذمے داریوں کی معاشرتی توقعات کے ساتھ پیشہ ورانہ مستقبل کی خواہشات کو متوازن کرنا خواتین کےلیے اہم مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ نیز کام کی جگہ کے مختلف محرکات سے احسن انداز میں نمٹنے اور مساوی سلوک کے حصول کو یقینی بنانے کےلیے لچک اور عزم کی ضرورت ہوتی ہے۔
خواتین اپنی پیشہ ورانہ کوششوں میں جس عزم، ذہانت اور استقامت کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ قابلِ تعریف ہے۔ مختلف سرگرمیوں میں ان کی شراکتیں نہ صرف کام کی جگہوں کو تقویت دیتی ہیں بلکہ خواتین کی آنے والی نسلوں کےلیے بغیر کسی پابندی کے اپنے خوابوں کو آگے بڑھانے کی راہ بھی ہموار کرتی ہیں۔
معاشروں کےلیے رہنما اور تبدیلی کی سفیر
خواتین دنیا بھر میں سماجی تبدیلی اور کمیونٹی کی ترقی کے اقدامات کو چلانے میں سب سے آگے ہیں۔ چاہے نچلی سطح پر سرگرمی، تحریک یا غیر منافع بخش اور سول سوسائٹی کی تنظیموں میں قائدانہ کردار کے ذریعے خواتین اپنی برادریوں میں مثبت تبدیلی کےلیے عامل ہیں۔ کمیونٹی اور سیاسی تنظیموں میں شرکت کرکے وہ صنفی مساوات، خواتین کے حقوق اور خواتین کی صحت کے مسائل کے حوالے سے معاشرے کو ا?گاہ کرتی ہیں۔
ان کی اہم شراکت کے باوجود، قیادت کے کردار میں خواتین کو اکثر شکوک و شبہات، مزاحمت اور صنفی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پیچیدہ قوتوں کے محرکات کو چلاتے ہوئے معاشرتی دقیانوسی تصورات اور تعصبات پر قابو پانے کےلیے بے پناہ ہمت اور لچک کی ضرورت ہوتی ہے۔ جوش اور لگن والی خواتین اپنے کردار کو کمیونٹی رہنما کے طور پر امید کی تحریک اور تبدیلی کو ہوا دیتی ہیں۔ سماجی انصاف اور مساوات کےلیے ان کی غیر متزلزل وابستگی سب کی شمولیت اور خوش حال معاشرے کو فروغ دیتی ہے۔
خانگی امور اور مالیاتی ذمے داریاں
اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے علاوہ خواتین اکثر گھریلو ذمے داریوں جیسے کھانا پکانا، صفائی ستھرائی اور گھریلو معاشیات کو سنبھالتی ہیں۔ اپنی پیشہ ورانہ ذمے داریوں کے مشکل تقاضوں کے باوجود زیادہ تر خواتین گھر واپس آنے پر اپنے خاندانوں کی فلاح و بہبود اور راحت کو یقینی بناتے ہوئے بغیر کسی رکاوٹ کے گھریلو کردار ادا کرتی ہیں۔ شام کو تھکے ہارے واپس گھر پہنچ کر وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کے بجائے بغیر کسی وقفے کے گھریلو ذمے داریوں کی تکمیل میں لگ جاتی ہیں۔
گھریلو فرائض کے ساتھ پیشہ ورانہ ذمے داریوں کو متوازن کرنا بہت زیادہ دشوار ہوسکتا ہے۔ خواتین اکثر اپنے مستقبل کی خواہشات کے تعاقب کے دوران گھر کے مالیاتی انتظام، گھر کی دیکھ بھال، اور اپنے پیاروں کی فلاح و بہبود کو یقینی بنانے کی کوششوں میں خود کو وقف کردیتی ہیں۔ خواتین پیشہ ورانہ اور گھریلو ذمے داریوں کو نبھانے میں جس لگن اور لچک کا مظاہرہ کرتی ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ اپنی ذمے داریوں میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گھر میں محبت، اپنائیت اور ہم آہنگی کا ماحول پیدا کرنے کی صلاحیت ان کی طاقت اور عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
خواتین اپنی روزمرہ کی زندگی میں جو کثیرالجہتی کردار ادا کرتی ہیں ان میں لچک، قوت، خوبی اور ہمدردی شامل ہے۔ خواتین کی حوصلہ افزائی اور ان کی انمول شراکت کو تسلیم کرکے ہم ترقی کو تیز کرسکتے ہیں اور سب کےلیے مساوی اور جامع معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔ آئیے! ہم خواتین کے تنوع اور کامیابیوں کا جشن منائیں، ایک ایسے مستقبل کی طرف کوشاں ہوں جہاں ان کی آواز سنی جائے، ان کے حقوق کا احترام کیا جائے اور ان کی صلاحیتوں کا پوری طرح ادراک ہو۔