پاکستان میں لڑکیوں کی شادی کی کم از کم عمر؟ کم عمری کی شادی پر سزا؟

یونیسف کے مطابق کون سے صوبہ میں کم عمری کی جبری شادی کی شرح سب سے زیادہ ہے
ہیومن رائٹس میڈیا نیٹ ورک کی چشم کشا رپورٹ

کم عمری کی شادی پاکستان میں اور خاص کر دیہی علاقوں میں رواج بن چکی ہے، دیہی علاقوں میں اس لعنت کی سب سے زیادہ شرح صوبہ سندھ میں ہے یہ رواج غیر متناسب طور پر لڑکیوں کو متاثر کرتا ہے۔ یونیسیف کی 2018 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں تقریباً 18 فیصد لڑکیوں کی شادی 18 سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے جو کہ سری لنکا کے بعد جنوبی ایشیا میں کم عمری کی شادیوں کی بڑی شرح ہے۔ کم عمری کی شادی اکثر دیہی علاقوں میں ہوتی ہے اور کم آمدنی والے گھرانوں میں جہاں تعلیم بہت کم ہے، اس کی بنیادی وجہ غربت بھی ہے۔
کم عمری کی شادی پر پابندی کے حوالے سے سب سے پہلے چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ 28 ستمبر 1928 کو انڈیا کی امپیریل لیجسلیٹو کونسل میں پاس ہوا، اور یہ باقاعدہ قانون یکم اکتوبر 1929 کو بنا، اس قانون نے لڑکیوں کی شادی کی عمر 14 سال اور لڑکوں کی 18 سال مقرر کی۔ 1949 میں، برصغیر کی آزادی کے بعد، اس میں ترمیم کر کے لڑکیوں کے لیے 15، اور بعد ازاں?1978 میں لڑکیوں کے لیے 18 اور لڑکوں کے لیے 21 کر دیا گیا۔
اس قانون میں دی گئی عمر سے کم عمر بچوں کی شادی پر سزا ایک ماہ قید یا ایک ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں شامل تھیں-
پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد بھی یہ قانون برائے نام موجود رہا اور قانون پر عمل درآمد اور ان میں سزاو¿ں کی شرح پر کبھی غور ہی نہیں کیا گیا-
چونکہ پاکستان میں کم عمری کی شادیاں زیادہ تر دیہی علاقوں میں سر انجام پاتی تھیں اور بہت سی شادیاں ایسی بھی ہوتی تھیں جو قتل کے بدلے یعنی قصاص کے طور پر کروائی جاتی تھیں اور اس نظام کو چلانے والے علاقے کے سردار، وڈیرے اور جاگیر دار ہوتے تھے، جو پارلیمنٹ میں بھی اپنے علاقوں کی نمائندگی کرتے تھے، اس لئے انہوں نے کبھی بھی اس قانون کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہونے دی-
وقت گزرنے کے ساتھ جب میڈیا کے ذریعے ایسے واقعات سامنے آتے گئے، تو پھر بیرون دنیا کو دکھانے کے لئے اس ملک کے پالیسی سازوں نے پہلے 2016 میں قومی اسمبلی میں? بل پیش کئے جانے کا مسودہ تیار کیا جس میں چائلڈ میرج ریسٹرینٹ کی چند شقوں میں تبدیلی لائی گئی اور یہ شقیں خاص کر سزاو¿ں سے متعلق تھیں لیکن چونکہ یہ قانون اس ملک کے وڈیرہ اور سردار پر مشتمل پارلیمنٹرین کی رٹ کا چیلنج کرتا تھا اس لئے اسے دونوں ایوانوں سے پاس کر کے قانون بنانے میں بھی کسی نے دلچسپی نہیں دکھائی-
بہرکیف !?2019 میں سینیٹ سے یہ ترمیمات منظور ہو کر ترمیمی قانون چائلڈ ریسٹرینٹ ایکٹ 2019 بن گیا، ان میں جو خاص ردوبدل کیا گیا وہ صرف شق نمبر 5 میں دی گئی سزاو¿ں سے متعلق تھا جس میں جرم کی سزا ایک ماہ سے بڑھا کر زیادہ سے زیادہ تین سال اور کم از دو سال رکھی گئی جبکہ جرمانہ کی شرح ایک ہزار سے بڑھا کر زیادہ سے زیادہ دو لاکھ اور کم از کم ایک لاکھ کی گئی-
ان جرائم کو سنجیدہ ہی نہیں? لیا گیا اور یہ جرائم قابل ضمانت دفعات قراردئیے گئے کیونکہ تعزیر پاکستان کے قانون میں تین سال تک کی سزا کے تمام جرائم ویسے ہی قابل ضمانت ہوتے ہیں،
چونکہ یونیسیف کی رپورٹ میں کم عمری کی شادیوں کی لعنت سب سے زیادہ سندھ میں قرار دی گئی اس لئے سندھ حکومت نے اس حوالے سے صوبائی سطح پر سندھ چائلٹ میرجز ایکٹ 2013 کا مسودہ تیار کیا گیا جسے 28 اپریل 2014 کو سندھ اسمبلی نے منظور کر لیا اور گورنر سندھ نے 10 جون 2014 کو اس کی توثیق کر کے اسے صوبائی قانون کی شکل دے دی-
یہ ایکٹ بھی دراصل قومی سطح پر چائلڈ ریسٹرینٹ ایکٹ کا چربہ قرار دیا جا سکتا ہے، اور اس میں سزائیں بھی وہی رکھی گئی ہیں جو 2019 کی وفاقی ترمیم میں مقرر کی گئی تھیں- اور اس میں مرد یا عورت دونوں کی 18 سال سے کم عمری کی شادی کو جرم قرار دیا گیا ہے- سندھ چائلڈ میرجیز ایکٹ میں البتہ اس جرم کو قابل تعزیز اور ناقابل ضمانت قرار دیا گیا ہے- اور یہ جرائم ناقابل مصالحت یعنی ناقابل راضی نامہ بھی قرار دیئے گئے ہیں-
طریقہ کار:
ضابطہ کے سیکشن 190 میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود،
فرسٹ کلاس جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت کے علاوہ کوئی دوسری عدالت یہ کیس نہیں چلائے گی
اس ایکٹ کی خلاف ورزی میں یعنی مقررہ عمر کی حد سے کم اگر کوئی شادی ہونے جا رہی ہے تو عدالت درخواست پر حکم امتناعی یعنی اسٹے آرڈر جاری کرے گی اور جو بھی فریق اس حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرے گا اسے الگ سے ایک سال قید اور جرمانہ کی سزا بھگتنا ہو گی-
عدالت اس معاملے میں جب نوٹس جاری کرے تو تمام فریقین کو عدالت کے روبرو ذاتی یا اپنے وکیل کے ہمراہ صفائی کا حق فراہم کیا جائے گا- اور عدالت کو یہ کارروائی 90 دنوں میں مکمل کر کے فیصلہ صادر کرنے کی مہلت دی گئی ہے-
سندھ چائلڈ میرجیز ریسٹرینٹ ایکٹ میں کم عمر بچی سے شادی کرنے والے کو تین سال قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب قرار دیا گیا ہے تو اس کے سہولت کاروں یعنی ماں باپ خواہ وہ لڑکی کے ہی کیوں نہ ہوں، نکاح خواہ اور اس نکاح کے دیگر سہولت کاروں کو بھی جرم ثابت ہونے پر یہی سزائیں دی جائیں گی-
کم عمری کی شادی کے پس منظر میں دیکھا جائے تو غربت، ناخواندگی، انسانی حقوق مخالف سماجی اور ثقافتی طرز عمل اس کے عوامل ہیں۔
کم عمری کی شادی کے پھیلاو¿ کے مضمرات اور اس کے بعد اس کم عمر ماں کا حمل، بالآخر نوعمر لڑکی کی صحت کو متاثر کرتا ہے۔ عام طور پر بچے پیدا کرنے کے لیے دلہنوں پر بہت زیادہ دباو¿ ڈالا جاتا ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں، 15 اور 18 سال کی عمر کے درمیان نوجوان لڑکیوں کی موت کی سب سے بڑی وجہ جلد حمل قرار دیا گیا ہے۔ کم عمری کی شادی کے حوالے سے قانون تو اپنی جگہ موجود ہے لیکن جب تک دیہی علاقوں میں جاگیرداروں، وڈیروں اور سرداروں کا نظام چلتا رہے گا اس وقت تک ان جرائم پر رپورٹ کرنے والا بھی کوئی نہیں ہوگا اور رپورٹ اگر کہیں سے ہو بھی جاتی ہے تو یہی جاگیردار، وڈیرے اور سردار اسمبلیوں میں براجمان ہیں جو اپنے اپنے علاقوں میں اپنی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کو تو نشان عبرت بنا دیتے ہیں لیکن قانون پر عمل درآمد نہیں ہونے دیتے، یہی وجہ ہے کہ آج تک کوئی ایسا قابل ذکر کیس سامنے نہیں آ سکا ہے جس میں کم عمری کی شادی کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا ملی ہو، ہمارے ملک میں بھی ایسے قوانین اور ترمیمات محض عالمی تنظیموں اور ترقی یافتہ ممالک کی آنکھوں میںدھول جھونکنے اور اس بہانے غیرملکی امداد حآصل کرنے اور پھر انہیں ہضم کرنے کی غرض سے بنائے جاتے ہیں اور یہ صرف کاغذوں میں زندہ رہتے ہیں ، عملی طور پر ان کا کوئی وجودنہیںہوتا-
بہ تعاون
انٹرنیشنل کمیشن آن ہیومن رائٹس