مہنگا دودھ، 20 کروڑ روپے روزانہ کا ڈاکہ

مہنگا دودھ، 20 کروڑ روپے روزانہ کا ڈاکہ
دودھ فروشوں نے ایک طویل عرصے سے ظلم و ستم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، مگر کمشنر کراچی اپنے ٹھنڈے اے سی کمرے میں سکون سے براجمان رہتے ہیں، انہیں اہلیانِ کراچی کے ساتھ جاری لوٹ مار کی کوئی پروا ہی نہیں ہے۔ کمشنر کراچی کی اسی بےخودی اور بے خبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے لگام، زور آور دودھ مافیا نے دودھ کے نرخ میں ازخود 10 روپے اضافہ کر کے دودھ 220 روپے فی لیٹر کر دیا ہے، مگر حیرت انگیز طور پر کمشنر کراچی، ان کے ماتحت ضلعی کمشنر صاحبان یا ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنرز کی طرف سے کسی قسم کی کوئی ہل جل نظر نہیں آتی، نہ اس حوالے سے تاحال کسی قسم کی کوئی کارروائی یا بیان سامنے آیا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران دودھ کے نرخوں میں یہ تیسری بار اضافہ کیا گیا ہے۔ موجودہ اضافے کے ساتھ ہی کراچی میں دودھ کے نرخوں نے ڈبل سنچری مکمل کرنے کے بعد مزید آگے بڑھنا شروع کر دیا ہے، مگر اس مافیا کو روکنے اور لگام ڈالنے والا کوئی نہیں، جبکہ کمشنر کراچی کے ساتھ ساتھ صوبے میں دو انتہائی طاقت ور شخصیات وزیر اعلیٰ اور گورنر سندھ بھی موجود ہیں، مگر شاید متذکرہ شخصیات کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں دودھ کی کھپت 50 لاکھ لیٹر روزانہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی والے روزانہ 50 لاکھ لیٹر دودھ، 220 روپے فی لیٹر کے حساب سے تقریباً ایک ارب 10 کروڑ روپے میں خریدتے ہیں۔ جبکہ انتہائی تعجب انگیز بات یہ ہے کہ کراچی میں دودھ کا سرکاری نرخ 180 روپے فی لیٹر ہے، جو کمشنر کراچی نے 16 دسمبر 2022 کو جاری کیا تھا اور یہ نرخ آج بھی نافذ العمل ہے، کیوں کہ اس کے بعد سے کوئی نیا نوٹیفکیشن تاحال جاری نہیں کیا گیا۔ کمشنر کراچی کی طرف سے مقرر کردہ نرخ کے بجائے اپنے من پسند نرخ پر دودھ فروخت کرنے سے ایک جانب دودھ فروشوں کی ہٹ دھرمی، من مانی اور قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے کا اظہار ہوتا ہے، دوسری جانب یہ بات سامنے آتی ہے کہ کمشنر کراچی صرف نرخ مقرر کر سکتے ہیں، مگر ان پر applementation کروانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ باالفاظ دیگر کمشنر کراچی کا کام مختلف اشیائ کے صرف نرخ مقرر کرنا ہے، ان نرخوں پر عمل درآمد کروانا ان کا کام نہیں ہے۔
اگر کمشنر کراچی کی جانب سے مقرر کردہ دودھ کے نرخ 180 روپے فی لیٹر کو ہی درست اور قانونی تسلیم کیا جائے تو اس طرح دودھ فروش ہر لیٹر پر 40 روپے اضافی وصول کر رہے ہیں، یوں روزانہ 50 لاکھ لیٹر دودھ کی کھپت کے حساب سے 20 کروڑ روپے کا اہلیانِ کراچی کی جیبوں پر روزانہ ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور یہ سب کمشنر کراچی، وزیر اعلیٰ، گورنر سندھ کی عین ناک کے نیچے ہو رہا ہے، مگر دودھ فروش مافیا کو لگام دینے والا کوئی نہیں۔
کراچی میں دودھ اور اس سے بننے والا دہی، چائے، کریم، پنیر، کھویا، لسی، دیسی گھی وغیرہ بنتے اور فروخت ہوتے ہیں.کراچی میں مختلف باڑوں، کراچی کے مضافات گردو نواح سے بھینسوں، گائے وغیرہ کا تقریباً 25 لاکھ لیٹر دودھ فروخت کے لئے لایا جاتا ہے، جس میں کم وبیش 3 سے 5 لاکھ لیٹر پانی ملایا جاتا ہے۔ 10 لاکھ لیٹر دودھ پاو¿ڈر سے تیار کیا جاتاہے، جبکہ تقریباً 5 سے 10 لاکھ لیٹر دودھ کیمیکل سے تیار کرکے کراچی والوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ سندھ سرکار اور کمشنر کراچی نے سرکاری نرخ فی لیٹر دودھ 180 روپے سکہ رائج الوقت مقرر کیا ہے۔اگر دودھ سرکاری نرخ پر فروخت ہو تو 90 کروڑ روپے روزانہ کی فروخت ہوتی ہے
دودھ کا کراچی میں سرکاری نرخ فی لیٹر 180 روپے ہے، مگر 220 روپے لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے، اس طرح 40 روپے فی لیٹر اضافی لئے جارہے ہیں۔ یوں عوام کی جیبوں پر 20 کروڑ روپے کا روزانہ دن دہاڑے ڈاکہ ڈالا جا ریا ہے اور یہ ڈا کہ وہی سسٹم ڈالتا ہے، جو شہر میں 14 ارب کی نام نہاد سڑکیں بناتا ہے، پورے شہر میں لاکھوں روپے کے گٹر کے ڈھکن نہیں لگاتا، غیر قانونی بلڈنگیں بنوا کر اربوں روپے کھا جاتا ہے، لیکن مانتا نہیں۔ دودھ کو مختلف مذاہبِ میں نور مانا جاتا ہے، مگر ہمارا سسٹم نور کو بھی نہیں بخشتا، نور میں ملاوٹ سے 40 کروڑ روپے سسٹم کھاتا ہے۔
گزشتہ 15 دنوں کے دوران ڈیزل کی قیمت 35 روپے فی لیٹر گرنے سے ٹرانسپورٹیشن کی لاگت میں خاطر خواہ کمی کے باوجود تازہ دودھ کی قیمت میں 10 روپے فی لیٹر اضافے نے صارفین کو حیران، پریشان، بلکہ مشتعل کر دیا ہے۔ رواں برس فروری میں بھی اسٹیک ہولڈرز نے کھلے دودھ کی فی لیٹر قیمت 20 روپے بڑھا دی تھی۔ کمشنر کراچی کی جانب سے 16 دسمبر 2022 کو دودھ کی سرکاری قیمت 170 روپے سے بڑھا کر 180 روپے فی لیٹر کر دی گئی تھی، تاہم خوردہ فروشوں نے سرکاری نرخوں پر دودھ بیچنے سے انکار کرتے ہوئے اس وقت بھی دودھ 190 روپے فی لیٹر فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔ حالانکہ 16 دسمبر 2022 کا نوٹی فکیشن اب بھی نافذ العمل ہے، مگر اس کی حیثیت کاغذ کے معمولی ٹکڑے سے زیادہ نہیں اور دودھ صارفین کو اضافی قیمت کا دھچکا ملنے کا سلسلہ جاری ہے اور بے خوف و خطر دودھ کی فی لیٹر قیمت 220 روپے کردی گئی ہے، مگر کمشنر کراچی صارفین کا تحفظ کرنے میں بری طرح بے بس نظر آتے ہیں۔ کیا دودھ صارفین کی جانب سے ایسے مواقع پر لگایا جانے والا یہ الزام درست ہے کہ کمشنر کراچی اپنے حصے کی منہ مانگی رقم وصول کر لینے کے بعد خاموشی سے دودھ کے نرخ بڑھانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔
دودھ کے نرخوں میں حالیہ اضافے کے حوالے سے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کراچی ملک ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے میڈیا کوآرڈینیٹر وحید کا کہنا تھا کہ کراچی میں 70 فیصد دکانوں پر دودھ 220 روپے فی لیٹر فروخت کیا جارہا ہے، جبکہ دیگر بھی اس کی پیروی کریں گے، تاہم دہی اور لسی کی فروخت اب بھی پرانی قیمتوں پر کی جارہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ فارمرز نے 37.5 لیٹر دودھ کی قیمت 7 ہزار 70 روپے (باڑوں کے گیٹ پر) مقرر کر دی ہے، جو فروری 2023 میں 6 ہزار 750 روپے تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈیری فارمرز دودھ کی فی لیٹر قیمت 30 روپے بڑھانا چاہتے تھے، لیکن خوردہ فروشوں کی مزاحمت کی وجہ سے قیمت میں 10 روپے اضافہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیری فارمرز نے قیمتوں میں اضافے کو جانوروں کے چارے کی لاگت سے منسلک کیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ڈیزل کی قیمت میں 35 روپے کمی کے باوجود دودھ کی قیمت میں کیوں اضافہ کیا گیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اسٹیک ہولڈرز کو یہ نہیں پتا کہ 15 دن بعد ڈیزل کی قیمت بڑھے گی یا اس میں کمی ہوگی؟ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے اتفاق ہے کہ اگر ڈیزل کی قیمت میں مزید کمی یا طویل عرصے تک کوئی تبدیلی نہ ہوئی تو اس کا اثر صارفین کو منتقل کیا جائے گا۔
ملک ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر کا کہنا تھا کہ کمشنر کراچی نے 16 دسمبر 2022 کو ڈیری فارمر اور دودھ کی تھوک قیمت 163 روپے اور 170 روپے مقرر کی تھی، لیکن ریٹیلرز کو مقررہ قیمت پر دودھ نہیں مل رہا، اس بات کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس صورتحال میں جہاں حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کےدرمیان اختلاف ہے، وہاں صارفین کو نہ صرف دودھ کے نرخوں کے حوالے سے، بلکہ ان اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے بھی سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے، جو سرکاری نرخوں پر دستیاب نہیں ہیں۔ کوآرڈینیٹر کا کہنا تھا کہ کراچی میں دودھ کی مجموعی کھپت تقریباً 50 لاکھ لیٹر یومیہ ہے، جس میں خشک، ڈبے والا اور فلیورڈ ملک بھی شامل ہے۔ ریٹیلرز ایسوسی ایشن والوں کی باتیں اپنی جگہ، مگر اس ساری صورتحال میں کمشنر کراچی کے کردار کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے، لہٰذا سوال تو بنتا ہے کہ کمشنر کراچی اس بار ڈنڈا اٹھا کر ڈیری فارمز والوں کو کوئی سبق سکھائیں گے یا پھر اب تک کی مشق کے مطابق اس بار بھی انہیں اپنی من مانی کرنے دیں گے؟
سائیں سرکار نے فضائی سفروں پر 10 کروڑ پھونک ڈالے
اسلام کی رو سے کسی شخص کو کوئی عہدہ یا زمہ داری اللّہ کی مخلوق، باالفاظ دیگر عوام کی “خدمت” کے لئے دی جاتی ہے، مگر وطن عزیز میں عہدہ یا اختیار ملنے کا مطلب اپنی، اپنے اہلِ خانہ، اعزہ، احباب ودوستوں کی “خدمت” کرنا سمجھا جاتا ہےاور حاصل شدہ عہدے سے اپنی ذات کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کی تازہ ترین مثال وزیر اعلیٰ سندھ کے 10 کروڑ روپے سے زائد کی فضائی اخراجات کی سامنے آنے والی تفصیل ہے، جو نہ صرف نہایت ہوش ربا، بلکہ نہایت شرم ناک اور تشویش ناک بھی ہے، کیوں کہ یہ اس صوبے کے وزیر اعلیٰ کے فضائی سفروں پر کئے گئے اخراجات ہیں، جس کی راج دھانی میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثرہ لوگ ہونے والی تباہی، بربادی اور نقصانات کے ازالے کے اب بھی منتظر ہیں، جہاں اندرون سندھ بسنے والے غریب ہاری آج بھی زندگی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، جہاں کے لوگوں کا اوڑھنا بچھونا فاقہ اور غربت ہے۔ نہایت تعجب کی بات ہے کہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے لوگ کیا احساس سے عاری ہوتے ہیں؟ کیا ان کی آنکھوں میں کسی جانور کا بال گھس جاتا ہے، جو ان سے ان کی بینائی چھین لیتا ہے، جس کے باعث انہیں جھونپڑیوں میں بسنے والے مجبور و فاقہ مست لوگ نظر ہی نہیں آتے؟ شاید اقتدار، عہدہ و اختیار انسان کے ضمیر کو سلا کر حیرت انگیز طور پر اسے کچھ دیکھنے، سننے اور سمجھنے سے محروم کر دیتا ہے، جب ہی تو سندھ دھرتی کے راجہ مراد علی شاہ نے رواں سال سندھ کے فضائی اخراجات پر مجموعی طور پر 10 کروڑ، 24 لاکھ، 18 ہزار 949 روپے خرچ کئے، جبکہ چیف پائلٹ نے سیکرٹری محکمہ جنرل ایڈمنسٹریشن سےمزید فضائی اخراجات کے لئے 3 کروڑ 50 لاکھ روپے مانگ لئے ہیں اور اس کے لئے سیکرٹری محکمہ جنرل ایڈمنسٹریشن کو مراسلہ بھی ارسال کر دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ فضائی سفر جاری رکھنے کے لئے رقم جاری کرنا لازم ہے۔چیف پائلٹ نے مراسلے میں بتایا کہ رواں سال وزیر اعلیٰ سندھ کے فضائی اخراجات پر 10 کروڑ، 24 لاکھ، 18 ہزار، 949 روپے خرچ ہوئے۔ ہیلی کاپٹر کی مرمت اور ایندھن کے لئے 3 کروڑ 85 لاکھ روپے جاری نہیں ہوئے۔ چیف پائلٹ نے مراسلے میں بتایا کہ ہیلی کاپٹر، پلین چارجز، ایندھن اور مرمت کے لئے 10 کروڑ 47 لاکھ، 67 ہزار روپے مختص کئے گئے تھے، اس رقم میں سے 10 کروڑ، 24 لاکھ، 18 ہزار، 949 روپے خرچ کیے گئے۔ 23 لاکھ، 48 ہزار، 51 روپے کی رقم بیلنس میں موجود تھی، جبکہ 3 کروڑ، 63 لاکھ، 17 ہزار 208 روپے کے بل ابھی زیر التوا ہیں۔
کراچی میں غیر قانونی پارکنگ سے کروڑوں روپے بھتہ وصولی
کراچی شہر میں مختلف مقامات پر پارک کی جانے والی گاڑیوں سے غیر قانونی طور پر وصول کی جانے والی پارکنگ فیس کے متعلق بڑے عرصے سے شکایات سامنے آرہی ہیں، مگر اس حوالے سے عدالت عالیہ سندھ کے حکم کے باوجود سندھ حکومت یا بلدیہ عظمیٰ کراچی کے زمہ داروں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ تازہ ترین ہوش رہا رپورٹ کے مطابق شہر کراچی میں 150 سے زائد غیر قانونی پارکنگ سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کیا جا رہا ہے۔بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اعداد و شمار کے مطابق چارجڈ پارکنگ کے حوالے سے کے ایم سی کے تحت شہر بھر میں صرف 34 منظور شدہ پارکنگ سائٹس قائم ہیں، جبکہ 16 تجرباتی پارکنگ سائٹس ان کے علاوہ ہیں۔ اسی طرح ضلعی میونسپل کارپوریشنز شرقی، غربی، وسطی،جنوبی، کیماڑی اور کورنگی کے تحت چلنے والی پارکنگ سائٹس کی بات کی جائے تو بلا مبالغہ قانونی و غیر قانونی 200 سے زائد پارکنگ سائٹس قائم ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایک جانب شہر بھر میں کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کے تحت چلنے والی پارکنگ سائٹس سے کے ایم سی اور ڈی ایم سی کے ملازمین وصولیاں کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف غیر قانونی پارکنگ سائٹس سے بھی کے ایم سی اور ڈی ایم سیز ملازمین و افسران کی ایما پر دیہاڑی دار افراد کو وصولیوں پر لگایا گیا ہے، جن کی مدد کیلئے علاقائی آپریشنل و ٹریفک پولیس کے اہلکار و افسران ہفتہ وار وصولیوں کی مد میں دن رات خدمات فراہم کرتے ہیں
غیر قانونی پارکنگ سائٹس پر تعینات عملہ موٹر سائیکل پارکنگ کی فیس 20 سے 30 روپے، جبکہ کار و دیگر گاڑیوں کی پارکنگ فیس 100 روپے سے 150 روپے تک وصول کر رہا ہے۔ اس ضمن میں اگر کوئی شہری قانونی پارکنگ فیس ادا کرنے پر بضد رہتا ہے تو پارکنگ پر تعینات عملہ نہ صرف شہریوں کو ذاتی طور پر ہراساں کرتا ہے، بلکہ موقع پر موجود ٹریفک پولیس کے اہلکاروں اور ضرورت پڑنے پرعلاقائی آپریشنل پولیس سے مدد لیتا ہے،جو عام شہریوں کے بجائے مبینہ طور پر مافیاز کو ہی سپورٹ کرتے ہیں۔ شہر کے کاروباری مراکز کے بعد سب سے مہنگی پارکنگ سائٹس پوش ایریاز میں قائم ہیں، جو پارکنگ مافیا کیلئے سونے کی کان ثابت ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں شہر کی سب سے مہنگی پارکنگ سائٹس کلفٹن، ڈیفنس، بن قاسم پارک، ہائپر اسٹار، ساحل سمندر، گلشن اقبال اور گلستان جوہر کے علاقوں میں قائم ہیں۔ جہاں قیمتی گاڑیوں کی پارکنگ اور حفاظت کی مد میں پارکنگ پر تعینات عملہ شہریوں سے من مانے پیسے وصول کرتا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ پارکنگ سائٹس بھی مبینہ طور پر متعلقہ ڈی ایم سیز، کنٹومنٹس اور کے ایم سی افسران کی سرپرستی میں چلائی جاتی ہیں اور ان پارکنگ سائٹس سے حاصل ہونے والی خطیر رقم میں سے بھی تمام سرپرستوں کو نیچے سے اوپر تک باقاعدگی سے حصہ پہنچتا ہے۔ چشم کشا رپورٹ کے مطابق شہر بھر کی تمام قانونی و غیر قانونی پارکنگ سائٹس سے روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی کمائی مجموعی طور پر ماہانہ کروڑوں روپے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان سونے کی کانوں سے انتظامیہ ہر حال میں چشم پوشی اختیار کئے رکھتی ہے۔
شہر کے مصروف ترین کاروباری مرکز صدر میں قائم معروف موبائل مارکیٹ کے اطراف ضلعی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے لگائی جانے والی پارکنگ کے ٹھیکیدار و عملے کی جانب سے شہریوں سے پارکنگ کی مد میں زائد پیسے وصول کئے جاتے ہیں اگر پارکنگ فیس کی پرچی طلب کی جائے تو عملہ انتہائی بد تمیزی سے جواب دیتا ہے کہ پرچی کسی کو نہیں دی جاتی۔ سروے سے معلوم ہوا ہے کہ کراچی کے 11 ٹریفک سیکشنز میں 65 چارجڈ پارکنگ ہیں۔ مذکورہ منظور شدہ پارکنگ سائٹس میں نبی بخش پولیس اسٹیشن کی حدود میں گل پلازہ، مارسٹن روڈ، سینٹرل پلازہ سے رینو سینٹر، وحید مراد روڈ تک کی حدود پہلی پارکنگ سائٹ میں گنی جاتی ہے۔ مریم مارکیٹ، نیو جامع مال، بزانجی اسٹریٹ، غریب نواز دسترخوان نزد سول اسپتال کی حدود تک پارکنگ سائٹ دوسری پارکنگ سائٹ، جبکہ برنس وارڈ سول اسپتال اور سیلانی دسترخوان چاند بی بی روڈ تک تیسری پارکنگ سائٹ حدود مانی جاتی ہیں۔عید گاہ تھانہ کی حدود میں علی محمد دینا روڈ کے بالمقابل لنڈا بازار والی پارکنگ سائٹ، رسالہ تھانہ کی حدود میں مولانا محمد علی جوہر پارک (ککری گراﺅنڈ) کے قریب امبیکمنٹ روڈ سے میزان بینک لی مارکیٹ برانچ اور نواب مہابت علی خان جی روڈ لیاری کی پارکنگ سائٹ، کھارادر پولیس اسٹیشن کی حدود میں مچھی میانی مارکیٹ، جی الانہ روڈ کی پارکنگ سائٹ، میٹھادر پولیس اسٹیشن کی حدود میں نکل روڈ اور بولٹن مارکیٹ پارکنگ سائٹس، آرام باغ تھانہ کی حدود میں برہانی اسپتال کے سامنے والی پارکنگ، باٹا شاپ، نواب منزل اور آرام باغ روڈ سے میٹروپولس گورنمنٹ سیکنڈری اسکول کی حدود تک قائم پارکنگ سائٹ، ایلینڈر روڈ، پاور ہاﺅس نزد خیر آباد ہوٹل، بی ماﺅنٹ روڈ، پی آئی ڈی سی اور انٹرنل اسٹریٹ والی پارکنگ، سول لائن تھانہ کی حدود میں امپیریل کورٹ بلڈنگ کے دونوں اطراف کی پارکنگ، کراچی کلب اور سیف الدین ٹرسٹ بلڈنگ کی پارکنگ سائٹس، بوٹ بیسن تھانہ کی حدود میں پارک ٹاور، باغ ابن قاسم، کلفٹن ایدھی اسٹریٹ کی پارکنگ، بوٹ بیسن اسٹینڈر چارٹرد کے سامنے سے موٹاس سپر مارٹ تک کی پارکنگ، ایمرالڈ ٹاور کلفٹن نزد دو تلوار کی پارکنگ، ڈرائیونگ لائسنس برانچ سمیت حاتم علوی روڈ کی اندرونی سڑکوں پر قائم پارکنگ سائٹس، ریڈ ایپل سے چائنہ ٹاﺅن کلفٹن، بلاک 5 کی پارکنگ، بوٹ بیسن سروس روڈ پر قائم کوکو چین والی پارکنگ، فریئر تھانہ کی حدود میں شیل ہاﺅس کلفٹن کی پارکنگ، پی ایس او ہاﺅس کے سامنے والی پارکنگ سائٹ، آرٹلری تھانہ کی حدود میں زینب مارکیٹ، دی سینٹر صدر اور زیب النسا اسٹریٹ کی پارکنگز، فاطمہ جناح روڈ پر ایٹریم مال کے سامنے ریوو اور ریکس سینٹر کی پارکنگ، پریڈی تھانہ کی حدود میں کوآپریٹو مارکیٹ و عبداللہ ہارون روڈ کی پارکنگز، راجہ غضنفر علی روڈ بوہری بازار صدرکی پارکنگز، ریگل ٹریڈ اسکوائر، اسکن اسپتال صدر، پریڈی اسٹریٹ کیمرا مارکیٹ، کریم سینٹر، کیفے جارج فوڈ مینشن، شاہراہ لیاقت صدر کی پارکنگز، موبائل مارکیٹ عبداللہ ہارون روڈ (اطراف کی تمام سڑکوں و موبائل مال کی پارکنگز)، جہانگیر پارک کے سامنے اور عقب والی پارکنگز، زینب مارکیٹ سگنل سے جدہ سینٹر تک کی پارکنگ، میگزین لائن سیلانی سینٹر والی گلی کی پارکنگ، این ایم آئی اسپتال صدر، ایمپریس مارکیٹ اور رینبو سینٹر تک کی تمام پارکنگز شامل ہیں۔
مذکورہ پارکنگ سائٹ سے یومیہ لاکھوں روپے غیر قانونی طور پر شہریوں سے وصول کئے جارہے ہیں اور پارکنگ مافیا کے ساتھ ساتھ متعلقہ ادارے عدالتی احکامات کی دھجیاں بکھیر تے نظر آتے ہیں۔ اہلیانِ کراچی کو لوٹنے کا یہ سلسلہ کب رکے گا اور کون روکے گا؟ اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔