پاکستان میں سوا کروڑ بچے جبری مشقت پر مجبور

ہر سال 12جون کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں چائلڈ لیبر کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بچوں سے مزدوری لینے کے رجحان کا خاتمہ کرکے انہیں مشقت کی اذیتوں سے نجات دلا کر اسکول کا راستہ دکھانا اور معاشرے کا مفید شہری بنانے کے لئے شعور اجاگر کرنا ہے۔ اس دن سماجی تنظیموں اور اداروں کی جانب سے سیمینارز، واکس اور تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے، تاکہ محنت کش بچوں کے مسائل حکومت اور دیگر ذمہ داران تک مﺅثر طریقے سے پہنچائے جاسکیں۔چائلڈ لیبر کے خاتمے کے عالمی دن کی بنیاد انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن (ILO) کی جانب سے 2002ئ میں رکھی گئی تھی، جس کے بعد سے یہ دن منانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقی کے اہداف میں سے ٹارگٹ 8.7 سال 2025ئ تک چائلڈ لیبر کو اس کی تمام شکلوں میں ختم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ چائلڈ لیبر میں بچوں کی قطعی تعداد کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ چائلڈ لیبر میں 8 کروڑ 40 لاکھ بچے درحقیقت درمیانی آمدنی والے ممالک اور 20 لاکھ اعلیٰ آمدنی والے ممالک میں رہتے ہیں۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر کے خلاف قوانین تو موجود ہیں، لیکن یا تو یہ ناکافی اور غیر مﺅثر ہیں یا پھر ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے مطابق جو شخص بھی 16سال سے کم عمر بچوں کو ملازمت پر رکھتا یا اس کی اجازت دیتا ہے تو اسے 20 ہزار روپے تک جرمانہ یا ایک سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، یہ دونوں سزائیں اکٹھی بھی دی جا سکتی ہیں۔
ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے حصہ سوم اور سیکشن 7 کے مطابق، کسی بھی بچے یا نابالغ سے ایک دن میں 7 گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کروایا جا سکتا (اس میں آرام کا ایک گھنٹہ بھی شامل ہے،گویا اصل میں 6 گھنٹے کا ہی کام کروایا جائے گا) اور کام کی ترتیب یوں رکھی جانا ضروری ہے کہ مسلسل کام کے ہر 3 گھنٹے بعد کم ازکم ایک گھنٹہ آرام کا وقفہ دینا ضروری ہے۔
مندرجہ بالا قوانین پاکستان میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991 اور ایمپلائمنٹ آف چلڈرن رولز 1995 کے تحت موجود ہیں، مگر دوسری جانب زمینی حقائق یہ ہیں کہ پاکستان کی کل آبادی کے 16 فیصد بچے جبری مشقت کرنے پر مجبور ہیں، قومی کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ایک کروڑ 25 لاکھ بچے محنت و مشقت کرنے پر مجبور ہیں اور یہ تناسب ہمارے ملک کے بچوں کی مجموعی آبادی کا 16 فی صد ہے۔ اگرچہ بچوں کو مشقت سے روکنے اور تشدد سے بچانے کیلئے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، جس کے لئے بچوں کے تحفظ سے متعلق وفاقی اور صوبائی سطح پر قوانین میں ہم آہنگی لانے کی ضرورت ہے۔
تصویر کے دوسرے رخ کے طور پر اس مسئلہ کا یہ پہلو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ جبری مشقت اور محنت مزدوری کرنے والے بچوں میں غالب اکثریت ایسے بچوں کی ہوتی ہے جن کے ماں باپ معاشی مجبوریوں کے ہاتھوں بے بس ہو کر انہیں اس رخ پر ڈالتے ہیں۔ ورنہ کوئی ماں باپ، بالخصوص ماں اپنے معصوم بچوں کو محنت و مشقت اور تکلیف و اذیت میں ڈالنا پسند نہیں کرتی۔ آپ کو معاشرہ میں معذور اور مجبور ماں باپ کی ایک بڑی تعداد ایسی ملے گی، جن کے روز مرہ ضروری اخراجات کی کفالت محنت مزدوری کرنے والے نوعمر بچے کرتے ہیں۔ اگر ان سے یہ روزگار چھین لیا جائے تو 24 گھنٹے میں ایک وقت کی دال روٹی کا انتظام بھی ان کے لئے مشکل ہو جائے گا۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ تصویر کا ایک رخ دیکھتے ہیں اور دوسرا رخ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ہمیں یہ تو نظر آتا ہے کہ مغربی ممالک میں بچوں سے محنت مزدوری کا کام لینا ممنوع ہے، لیکن یہ دکھائی نہیں دیتا کہ مغرب کی فلاحی ریاستیں اپنے شہریوں کی بنیادی ضروریات زندگی کی کفالت کی ذمہ داری بھی اٹھاتی ہیں۔ یہ اصل میں اسلام کا اصول ہے اور خلافت راشدہ کے دور میں بیت المال، یعنی قومی خزانے سے ہر شہری کی ضروریات زندگی کی لازمی کفالت کا عملی نمونہ پیش کیا گیا ہے۔ حتیٰ کہ امیر المومنین حضرت عمر کا یہ ارشاد گرامی ہماری ملی تاریخ کا ایک روشن باب ہے کہ:
”اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے روز عمر سے اس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔“
پانی، روٹی، کپڑا اور مکان ایک انسان کی کم از کم بنیادی ضروریات ہیں، جن کے بغیر وہ روح اور جسم کا تعلق باقی نہیں رکھ سکتا اور ایک اسلامی ریاست اپنے شہریوں کی ان ضروریات کی کفالت کی ذمہ دار ہے، مگر مسئلہ یہ ہے کہ یہ کام جب ہی ممکن ہے، جب “اسلامی ریاست” موجود ہو اور عمر جیسا خوف خدا رکھنے والا عادل اور منصف حکمران بھی!