کے الیکٹرک ایک خوں آشام درندہ

جاوید الرحمن خان
ادارے کی نجکاری کے پیسے کہاں گئے؟ اہلیانِ کراچی کے مفادات کے خلاف معاہدہ کس نے کیا؟
نیپرا کسی دوسری کمپنی کو لائسنس جاری کرے، مگر کے الیکٹرک کے لائسنس کی تجدید نہ کرے

لمحہ موجود میں پورے ملک کے عوام کا سب سے بڑا مسئلہ تو شاید کچھ اور ہو، مگر اہلیان کراچی کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ کے الیکٹرک ہے، جس نے کراچی والوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، جس کی وجہ کے الیکٹرک کی نا اہلی، ناقص کارکردگی اور اوور بلنگ ہے۔
یہ وہ ظالم ادارہ ہے کہ ایک دو مہینے کا بل وقت پر ادا نہ کرنے پر کنکشن کاٹ دیا جاتا ہے، جبکہ کے الیکٹرک خود کئی اداروں کی اربوں روپے کی نادہندہ ہے، حقیقت یہ ہے کہ کے الیکٹرک کا سسٹم فلاپ ہوچکا ہے۔ کے الیکٹرک سالانہ 35 سے 40 ارب کماتی ہے، مگر ادارے کی ترقی کے لئے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کرتی۔ اس کی نااہلی کے باعث معصوم بچوں پر 11 ہزار وولٹ کے بجلی کے تار گرے اور وہ جسمانی طور پر معذور ہوگئے، مگر کے الیکٹرک کے کسی زمہ دار کو سزا نہ ملی، جس سے یہ الزام درست ثابت ہوتا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں اور کئی سیاسی لوگ دبئی میں بیٹھے ابراج گروپ سے بھتہ لے رہے ہیں، کے الیکٹرک سے بھتہ لینے والی سیاسی جماعتیں بتائیں کہ بارشوں میں کرنٹ لگنے اور تاریں گرنے کے باعث مرنے والے لوگوں کی ہلاکتوں کا ذمہ دار کون ہے؟ صرف کے الیکٹرک یا پھر ان کی مجرمانہ خاموشی؟ اب بھی وقت ہے، حکمران ہوش کے ناخن لیں اور اس قاتل محکمے کے لائسنس کی تجدید نہ کریں، کیوں کہ اس وقت کے الیکٹرک نے لائسنس کی تجدید کے لئے نیپرا میں درخواست دے رکھی ہے، جس پر پورے کراچی کا یہ متفقہ مطالبہ ہے کہ کے الیکٹرک کے لائسنس کی تجدید کسی صورت نہ کی جائے، بلکہ شنگھائی الیکٹرک یا کسی دوسری کمپنی کو لائسنس جاری کر کے اہلیانِ کراچی کو کے الیکٹرک جیسے خون آشام درندے سے نجات دلائی جائے۔ اگر اہلیانِ کراچی کی آرزوو¿ں، امنگوں اور خواہشات کے برعکس کے الیکٹرک کے لائسنس کی تجدید کی جاتی ہے تو پھر اس بات میں کوئی شک شبہ باقی نہیں رہے گا کہ سائیں سرکار کراچی دشمن ہے اور اہلیانِ کراچی سے سوتیلی ماں کا سا سلوک کر کے انہیں سزا دے رہی ہے۔ کیوں کہ اگر کے الیکٹرک کے لائسنس کی تجدید کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں آئندہ 20 برس کے لئے کے الیکٹرک پھر کراچی والوں کے سروں پر مسلط ہو جائے گی اور ایک بار پھر کراچی والوں کا خون چوسنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ کراچی میں بسنے والے 2 کروڑ سے زائد باشندوں کا یہ متفقہ مطالبہ ہے کہ یا تو کسی اور کمپنی کو لائسنس جاری کیا جائے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر فوری طور پر حکومت اس ادارے کو اپنی تحویل میں لے کر لوگوں کی زندگیوں کو آسان اور محفوظ بنائے، کیوں کہ اس میں کوئی شک شبہ نہیں کہ کے الیکٹرک ایک خون آشام درندہ ہے، جو مستقل طور پر کراچی والوں کا خون چوس رہا ہے۔
یہ وہی کے الیکٹرک ہے، جسے عدالتوں نے بار بار ڈانٹا، جس کے بارے میں سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کی گئی کہ اس نے پورے کراچی سے ’ارتھ وائرز‘ اتارلیں، جس کی وجہ سے بارشوں کے موسم میں کھمبوں اور تاروں سے انسان مر رہے ہیں، مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جب اکتوبر 2020 میں سپریم کورٹ میں کے الیکٹرک کے خلاف کیس چل رہا تھا تو اس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد نے اس حوالے سے ریمارکس دیئے تھے کہ حکومت میں صلاحیت ہی نہیں۔ جس کی مرضی حکومتی اداروں کا استحصال کرے، کوئی روکنے والا نہیں، سارا ملک پریشان ہے۔ سپریم کورٹ میں سندھ میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف از خود نوٹس پر سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے سب رپورٹس پڑھ لیں، ان میں کچھ بھی نہیں۔ کراچی میں بجلی کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔ وفاقی حکومت، نہ ہی صوبائی حکومت کچھ کر رہی ہے۔ فیڈریشن اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔ اس موقع پر جسٹس فیصل عرب نے بھی کہا تھا کہ کراچی اتنا پھیل گیا، مگر بجلی کی پیداوار نہیں بڑھائی گئی۔
چیف جسٹس کا مذید کہنا تھا کہ حکومت کی کمزوری سے سب ادارے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دائیں بائیں ہر طرف سے حکومت کا استحصال کیا جارہا ہے۔ نیپرا اور پاور ڈویڑن کے تمام ملازمین کو فارغ کر دیتے ہیں۔ ایسے ملازمین کے ہونے کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔ کے الیکٹرک شہریوں کو رتی بھر بھی فائدہ نہیں دے رہی۔ کے الیکٹرک والے لوگوں کو ہائی جیک کر کے ماسٹر بن گئے۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر ایم ڈی کے الیکٹرک سے مکالمے میں کہا تھا کہ آپ تو پرانے ایم ڈی ہیں، آپ کو تو نکال دیا تھا، آپ کیسے آ گئے، کچھ بولئے؟ ایم ڈی کے الیکٹرک کا کہنا تھا کہ مجھے ابھی تک نہیں نکالا گیا۔
چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کے الیکٹرک کو کنٹرول کون کرتا ہے؟ کتنے شیئر ہولڈرز ہیں؟ اگر کھوج لگائی جائے تو کے الیکٹرک بمبئی سے کنٹرول ہورہا ہوگا۔ کے الیکٹرک کے سرمایہ کاروں پر ہمارے شبہات ہیں۔ چیف جسٹس نے زور دے کر کہا تھا کہ وہ 9 شیئر ہولڈرز کون ہیں،جو فریق بننا چاہتے ہیں؟ یہ شان عشری کون ہے؟ کیا یہ پاکستانی ہے؟شان عشری نے جواب دیا کہ میں پاکستانی ہوں، میری وفادراری پر شک نہ کریں۔ بینچ کے سربراہ نے جواباً کہا، اگر آپ وفادار ہوتے تو کے الیکٹرک اور پاکستان کے عوام کا یہ حال نہ ہوتا۔ شان عباس عشری کا کہنا تھا کہ کے الیکٹرک میں سعودی عرب اور کویت کے لوگوں نےسرمایہ کاری کی ہے۔ اس کا جواب چیف جسٹس نے ان الفاظ میں دیا تھا کہ یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہو گی، ان کی پشت پر کوئی اور ہے۔ کے الیکٹرک کے معاملے پر لوگوں کے مفادات سامنے آگئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے پاور ڈویڑن کے 10 ٹکڑے کر دیئے ہیں۔ آپ کا سسٹم صحیح آپریٹ نہیں کررہا ہے،ان کو کوئی دیکھ نہیں رہا۔ نیپرا میں میٹنگ شور شرابے سے ختم کرا دی جاتی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کے الیکٹرک کی نجکاری کے پیسے کہاں گئے؟ جسٹس فیصل عرب نے کہا،اگر مقابلے کی فضا بنا رہے ہیں تو ایسے معاہدے بنائیں، جو حکومت کے حق میں ہوں۔ چیف جسٹس کی جانب سے ازخود نوٹس لینے کا یہ کیس انتہائی اہمیت کا حامل تھا، مگر افسوس کہ چیف جسٹس گلزار احمد کے بعد آنے والوں نے اس کیس میں کوئی خاص دل چسپی نہیں لی، چنانچہ برسوں بیت جانے کے باوجود آج تک نتیجہ سامنے نہیں آیا۔
کے الیکٹرک کی کہانی یہ ہے کہ برسوں پہلے ایک کمپنی ہوا کرتی تھی، جس کا نام کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن ( KESC) تھا۔ مشرف دور کے سال 02-2001 میں اس کمپنی کا خسارہ بڑھ کر 17ارب 74 کروڑ روپے ہوگیا تو اس کی نجکاری پر غور شروع ہوا، چنانچہ نجکاری کا فیصلہ ہونے کے بعد اشتہار دیا گیا، بولیاں طلب کی گئیں۔ خلیجی ملک کی ایک کمپنی نے سب سے زیادہ بولی دی، یہ کمپنی مقررہ وقت پر ادائیگی نہ کرسکی، جس کے بعد حکومت پاکستان نے خلیجی ملک کی ہی ایک بروکر کمپنی سے مذاکرات کئے، حکومت پاکستان نے اس کمپنی کو مشورہ دیا، کنسورشیم بنا لو، لہذٰا کنسورشیم بنا، جب کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کے اثاثوں کی مالیت 2 ارب روپے سے زائد تھی اور صارفین سے 29 ارب روپے لینے تھے، تب کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو خلیجی ملک کی بروکر کمپنی کو 15ارب 86کروڑ روپے میں بیچ دیا گیا، اس خلیجی بروکر کمپنی کا تجربہ بجلی کے شعبے کی بجائے تعمیرات کے شعبے میں تھا۔جبکہ کنسورشیم میں سب سے زیادہ شیئرز والی کمپنی کا تجربہ آٹو موبائل شعبے میں تھا، کراچی الیکٹرک سپلائی کارپویشن خریدنے والوں نے جرمنی کی ایک کمپنی کو تکنیکی معاون مقررکیا، اس جرمن کمپنی کا بجلی سے بس اتنا واسطہ تھا کہ وہ بجلی کی مصنوعات بناتی تھی، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ حکومت پاکستان نے 15ارب 86 کروڑ روپے میں کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن بیچ کر کمپنی خریدنے والوں سے یہ حیرت انگیز، شرم ناک اور ناقابلِ یقین وعدہ بھی کر لیا کہ انہیں 14 ارب دیں گے تاکہ کمپنی کو جدید بنایا اور فعال کیاجا سکے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جب خلیجی کمپنی کراچی صارفین کو بجلی فراہم کرنے میں ناکام ہوگئی تو اس نے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت پاکستان جو 26 فیصد شیئرز کی مالک تھی، اسے بتائے بغیر “ابراج گروپ” کو کمپنی فروخت کردی، ابراج نے اس کا نام کے الیکٹرک رکھ دیا۔
پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد پیپلز پارٹی حکومت آئی، راجہ پرویز اشرف پانی وبجلی کے وزیر بنے، ابراج نے معاہدے میں اپنی مرضی کی ترامیم کرا لیں، مبینہ ترمیمی معاہدے کے تحت کے الیکٹرک کے 31 ارب کے بقایا جات کو حکومتی خسارہ قرار دے کر نہ صرف معاف کر دیا گیا، بلکہ کے الیکٹرک کو پاکستانی قوانین سے متصادم آرڈر پاس کرنے کا اختیار بھی مل گیا۔ ایک اہم ترین شق جس کے مطابق کے الیکٹرک 7 سال تک بجلی کی قیمتیں نہیں بڑھا سکتی، یہ شق ختم کر دی گئی، وفاق کے الیکٹرک کو 650 میگا واٹ بجلی دینے کا پابند ہوا، یہی 650 میگا واٹ اب بڑھتے بڑھتے 850 میگا واٹ ہوگئے ہیں۔ حکومت پاکستان کے الیکٹرک کو سبسڈی دے گی، کے الیکٹرک سسٹم بہتر بنانے کے لئے ہر سال انویسٹمنٹ کرے گی، یہ شق بھی ختم کر دی گئی، ترمیمی معاہدے میں یہ شق بھی ڈال دی گئی کہ اگر کسی موقع پر حکومت پاکستان کے الیکٹرک کو اپنی تحویل میں لے گی تو اس کے تمام واجبات حکومت پاکستان ادا کرے گی۔ یہ شق اس لئے ڈلوائی گئی کیونکہ کے الیکٹرک کی زمین، گرڈ اسٹیشن، آلات گروی رکھوا کر ملکی وغیر ملکی اداروں سے اربوں روپے قرضہ لیا جا چکا، جس کا صاف اور سیدھا مطلب یہ ہوا کہ اب اگر حکومت پاکستان کے الیکٹرک کو اپنی تحویل میں لیتی ہے تو معاہدے کی روسے یہ سب قرضہ حکومت پاکستان کو دینا ہوگا۔ سب سے اہم بات جس پر آج تک کسی نے آواز بلند نہیں کی کہ اس ترمیمی معاہدے کی وفاقی کابینہ، کابینہ ڈویڑن یا نجکاری کمیشن سے منظور ی تک نہ لی گئی، بلکہ یہ ترمیمی معاہدہ کے الیکٹرک کے سی ای او اور وزارت پانی وبجلی کے سیکرٹری کے درمیان ہوا، یہ ایک ایسی حیرت انگیز “ڈیل” ہے، جو دنیا کے کسی ملک میں ہونا ناممکن ہے، مگر پاکستان دنیائے عالم کا وہ عجوبہ ملک ہے، جہاں کچھ بھی ناممکنات میں سے نہیں، کیوں کہ یہاں صاف شفاف احتساب کا نظام اور پکڑے جانے کا ڈر، خوف ہی نہیں۔
پی پی حکومت گئی، مسلم لیگی حکومت آئی، مگر 5 سال تک لیگی حکومت نے پاکستانی مفادات سے متصادم مذکورہ معاہدے کی طرف دیکھا تک نہیں۔ مطلب یہ کہ اپنے اپنے مفادات کے تحت کے الیکٹرک کی بدمعاشیوں، من مانیوں، ظلم و زیادتی کے باوجود ایک بھی حکومت نے کسی قسم کا ایکشن نہیں لیا اور اہلیانِ کراچی فریاد کرتے رہے، روتے، تڑپتے اور بلبلاتے رہے، مگر کسی کے دل میں ہم دردی کی رتی بھر رمق بھی پیدا نہ ہوئی۔ ہاں البتہ پیپلز پارٹی کے الیکٹرک کی جانب سے کی جانے والی تباہی یا لوڈشیڈنگ پر مگرمچھ کے آنسو ضرور بہاتی رہتی ہے۔
اس پر آخر کون اور کب بات کرے گا کہ ہر طرح سے اہلیان کراچی کے خلاف مذکورہ ترمیمی معاہدہ کیوں ہوا؟ کس کس کو کتنا فائدہ ہوا؟ کون مال کما گیا؟ یہ ساری باتیں سامنے آنی چاہئیں۔ آج جو ہر ادارہ تباہ و برباد ہو چکا، جدھر دیکھو خسارہ ہی خسارہ، یہ سب پل بھر میں نہیں ہوا۔ اس کے پیچھے برسوں کی لوٹ مار اور بدنیتی ہے، یہی وجہ ہےکہ جس طرف نظر جاتی ہے، بس ڈھانچے ہی ڈھانچے نظر آتے ہیں، سب کچھ گدھ نوچ نوچ کر کھا گئے۔ آزادی کے 75 سال بعد بھی ہم اپنے ملک کے عوام کو زندگی کی بنیادی ضرورت “بجلی” تک بھی نہیں دے سکے، جو انتہائی شرم کا مقام ہے۔
﴾﴿

حکومت کو سستی بجلی کی پیداوار سے کوئی دلچسپی نہیں،ڈاکٹر ثمر مبارک
ڈاکٹر ثمر مبارک پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک معروف سائنسدان ہیں۔ دنیا کی ایٹمی طاقتیں اپنے ایٹمی پروگرام سے بجلی پیدا کر کے اپنی معیشت اور عوام کو مستفیض کرتی ہیں بلکہ پاکستان میں گنگا الٹی ہی بہتی ہے۔ یہاں ایٹمی پروگرام صرف ہاتھی کے دانت کے طور پر رکھا ہوا ہے۔ ڈاکٹر ثمر مبارک کا سوشل میڈیا پر یہ کلپ بہت وائرل ہوا ہے جس میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ہم ایٹمی پروگرام سے بجلی پیدا کرنے کی پوزیشن میں آگئے لیکن حکومت کی طرف سے اس میں کوئی دلچسپی نہیں لی گئی اور اس پروگرام کے پیسے بند کرکے اسے رول بیک کرنے پر مجبور کردیا گیا ان کے کلب سے اخذ کردہ خیالات آپ بھی سنیے اور اپنی قسمت اور بجلی مافیا پر ماتم کیجئے۔

بجلی کی سستی پیداوار کے حوالے سے نہ صوبائی حکومت کو دل چسپی ہے کہ اس کو آگے لے کے چلیں،نہ وفاقی حکومت کو دل چسپی ہے۔ جس دن میں نے پلاننگ کمیشن کو خط لکھااور احسن اقبال صاحب کو کہا ہم نے بجلی بنانا شروع کردی ہے ، اسی دن انہوں نے اس پلانٹ کے پیسے بند کردیئے۔یعنی یہ خوش خبری سنتے ہی انہوں نے پہلا کام یہ کیا کہ اس کے پیسے بند کرو۔ جیسے ہم نے بجلی پیدا کرکے کوئی جرم کردیا۔ اگر یہ رویہ ہے حکومت کاتو اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں سستی بجلی کی پیداوار سے کوئی دل چسپی نہیں۔انہوں نے اگر پیسے بند کیے ہیں تومیں نہیں سمجھتا کہ نواز شریف صاحب کو نہیں پتا، میں نہیں سمجھتا کہ اسحاق ڈار صاحب کو نہیں پتا اگر اتنے بڑے پروجیکٹ کے پیسے بند کیے ہیں تو اس سے زیادہ ناجائز بات اور کیا ہوسکتی ہے؟۔ یہ بجلی کا واحد پروجیکٹ ہے جو وفاقی حکومت کررہی ہے۔ سی پیک کو چھوڑ دیں آپ کا سی پیک تو آپ قرضہ لے کر بنا رہے ہیں ۔اتنی اچھی چیز ہم بنارہے تھے جس میں سستی بجلی بننی تھی۔کوئی آلودگی نہیں ہونی تھی تھر کے پورے صحرا کو ہم نے برباد نہیں کرنا تھا۔ دھوئیں کے ساتھ ساتھ کھدائیاں کر کرکے ہتھوڑے مار مار کر ہم نے زمین کو خراب نہیں کرنا تھا۔ 7 روپے یونٹ ان کو بجلی دینے کے لیے تیار تھے۔ اور وفاقی حکومت کی سرمایہ کاری اس میں کم ہورہی تھی ۔تھرکول میںسندھ حکومت بیٹھی ہوئی ہے سندھ حکومت کو پتہ ہے کہ ہم وہاں پر کیا کررہے ہیں؟سندھ حکومت اینگروکے پروجیکٹ میں لگی ہوئی ہے ۔اینگرومیں وہ کان کنی(مائننگ) کی کوشش کررہے ہیں میں نے انہیں پچاس دفعہ بتایا ہے کہ کان کنی (مائننگ)بہت مہنگی ہوگی۔اگر آپ کریں گے اس سے جو بجلی بنے گی وہ بہت مہنگی بنے گی اس لیے آپ یہ نہ کریں مگر وہ نہ مانے میں نے کہا کہ چلیں آپ کوشش کریں خود ہی آپ سبق سیکھ لیں گے۔آپکو پتہ لگ جائے گا کہ کان کنی (مائننگ)کا کیا خرچہ آتا ہے ۔لیکن یہ ہم نے آپ کو ایک موقع فراہم کردیا ہے ایک واحد پلانٹ چل رہا ہے تھر میں،جوآپ کو بنا کر دیا ہے۔جو سستی بجلی بنارہا ہے آلودگی(Pollution) سے پاک بجلی بنارہا ہے۔ آلودگی بہت بڑا مسئلہ ہے جہاں بن فور پلانٹ چل رہے ہیں اور آپ اسی روٹ پر عمل پیرا ہیں اور ہمارے ملک میں زمین کے نیچے اتنے زیادہ ذخائر ہیں شیل گیس کے اور شیل آئل کے کہ امریکن سروے یہ کہتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ آئل اور گیس کا شیل اسٹون کی شکل میں آپ کی زمین کے نیچے موجود ہے اور ڈرلنگ ہورہی ہے اور یہاں غیر ملکی کمپنیاںتیل کے لئے ڈرلنگ کررہی ہیں۔تو ان کو ہر قدم پر شیل اسٹون مل رہے ہیں جو تیل اور گیس سے بھرے ہوئے ہیں لیکن کیا ہے؟وزیرپیٹرولیم نے انھیں کہا ہے کہ آپ شیل گیس اور شیل آئل کو رہنے دیں، ہم گیس قطر سے خرید رہے ہیں تو آپ اگر باہر سے چیزیں خریدیں گے اور اس سے ملک کو چلانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو اس ملک کی معیشت سے کوئی دل چسپی نہیں ہے کیونکہ آج اگر آپ کوطویل مدتی فائدہ نظرآرہا ہوگا تو پھر لوگوں کو ریلیف ملے گا کہ سردیوں میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کم ہوجائے گی لیکن طویل مدتی عرصے میں 30 سال میں کیا ہوگا؟30 سال میں یہ ہوگا کہ آپ نے اپنی شیل گیس سے 4 گنا زیادہ قیمت پر قطر سے گیس خریدی ہے اور اس سے آپ کی انڈسٹری اور معیشت پر کیا برا اثر پڑا ہے آپ کی سوچ 3 سال کے لیے یا 5 سال کے لیے نہیں ہونی چاہیے کہ میں نے اگلا الیکشن جیتنا ہے ہمارے ملک کے سیاست دانوں کی سوچ یہ ہونی چاہیے کہ ہم ایسے کام کریں کہ لوگوں کو پسند آجائیں۔30 سال کے بعد ہم نے پاکستان کو موجودہ مقام سے اٹھا کر کہاں تک لے کر جانا ہے؟ یہ نہیں ہوناچاہیے کہ وقتی فائدہ ہوجائے کہ ہم ایسے کام کریں کہ لوگوں کو پسند آجائے گی اور ہم فوراً عوام میں مقبول ہوجائیں اور اگلا الیکشن جیت جائیں۔ یہ سوچنا چاہیے کہ پاکستان کو 25 سال بعد یا 10 سال بعد یا 20 سال بعد ہم کہاں لے کر جائیں گے اور پاکستان یہاں سے وہاں تک پہنچنا چاہیے۔