ددودھ مافیا بے لگام کمشنر کراچی ناکام شہر کے کمشنر اپنے مقرر کردہ نرخوں پر کبھی عمل درآمد نہیں کروا سکے

جاوید الرحمن خان
شہر کراچی کے موجودہ کمشنر محمد اقبال میمن نے کمشنر کراچی کی حیثیت سے 5 اکتوبر 2021 کو منصب سنبھالا تھا اور 6 اکتوبر کے اخبارات میں یہ خبر نمایاں طور پر شائع ہوئی تھی۔ محمد اقبال میمن پاکستان ایڈ منسٹریٹیو سروس کے گریڈ 21 کے افسر ہیں اور کمشنر کراچی کے عہدے پر تعیناتی سے قبل وہ وزیر اعلیٰ انسپکشن انکوائریز اور امپلی مینٹیشن ٹیم کے چیئرمین کے عہدے پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے سابق کمشنر کراچی نوید احمد شیخ سے عہدے کا چارج لیا تھا۔ شروع میں کمشنر کراچی اقبال میمن ایک متحرک شخصیت اور فرینڈ آف کراچی کے طور پر سامنے آئے تھے اور شہر کی ترقی اور رونقوں کو چار چاند لگانے کے لئے انہوں نے مزید نئے منصوبوں پر کام شروع کیا تھا، جس کی وجہ سے شہر قائد کے ادبی و سماجی حلقوں اور مختلف قوموں کی نامور شخصیات نے اس بات پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا تھا، کیوں کہ کمشنر کراچی کا منصب سنبھالنے کے ساتھ ہی مختصر وقت میں انہوں نے مختلف شعبوں کے لئے متعدد قابل ستائش اقدام اٹھائے اور اعلانات کئے۔ شہر میں ہونے والی اہم تقریبات میں شرکت کے ساتھ ساتھ وہ شہر میں تفریحی سہولیات کی فراہمی، فروغ اور کھیلوں کے مقابلوں کو فروغ دینے کے لئے خاصے متحرک رہے۔ تاہم کمشنر کراچی شہر میں اپنے مقرر کردہ نرخوں پر اشیاءکی فراہمی میں شروع سے ناکام رہے ہیں۔ اس الزام کی صداقت اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ 8 دسمبر 2021 کو کراچی انتظامیہ نے دودھ کی نئی خوردہ قیمت 120 روپے فی لیٹر مقرر کی، مگر دودھ فروشوں نے اس نرخ پر اس وقت بھی دودھ فروخت نہیں کیا تھا، جبکہ دودھ کی ڈیری فارمرز کی قیمت 105 اور تھوک قیمت 110 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی تھی اور کمشنر کراچی کی جانب سے نوٹیفیکشن بھی جاری کیا گیا تھا۔ اس کا فیصلہ کمشنر کراچی کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں کیا گیا تھا، اس اجلاس میں ڈپٹی کمشنر ملیر کی سربراہی میں قائم جائزہ کمیٹی کی رپورٹ پر بھی غور کیا گیا تھا اور رپورٹ اور شرکا کی متفقہ رائے سے دودھ کی قیمت مقرر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس موقع پر کمشنر کراچی نے کہا تھا کہ دودھ کی نئی قیمت ڈیری فارمرز، ہول سیلرز اور ریٹیلرز کی مشاورت سے، دودھ کی پیداواری لاگت کا جائزہ لینے والی کمیٹی کی رپورٹ کی روشنی میں مقرر کی گئی ہے۔ اس اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا تھا کہ سرکاری نرخ کی خلاف ورزی پر قانونی کارروائی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ ہر 3 ماہ بعد دودھ کی قیمت کا جائزہ لینے کا فیصلہ بھی کیا گیا۔ اجلاس میں تمام ڈپٹی کمشنرز، ڈیری فارمرز ایسوسی ایشن، ہول سیلرز ایسوسی ایشن اور ریٹیلرز ایسوسی ایشنز کے نمائندوں، بیورو آف سپلائی، لائیو اسٹاک ڈیپارٹمنٹ اورفوڈ اتھارٹی کے افسران اور دیگر نے شرکت کی تھی۔ بعینہ یہی صورت حال آج بھی موجود ہے، اب بھی اسی طرح اجلاس ہوتا ہے، کمشنر کراچی کی جانب سے دودھ کے نرخ مقرر کئے جاتے ہیں، مگر ان نرخوں پر دودھ فروخت کیا ہی نہیں جاتا اور بھولے کمشنر کراچی کو معلوم ہی نہیں ہو پاتا کہ ان کی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ کمشنر کراچی محمد اقبال میمن سادہ طبیعت کے حامل ذہین اور محنتی افسر ہیں انہوں نے بطور کمشنر شہر کی خدمت کرنے اور شہر کی ترقی کے حوالے سے اقدامات اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، دستیاب وسائل کو بروئے کار لانے اور پیچیدہ مسائل کے حل کے لئے آو¿ٹ آف فاکس سلوشن تھیوری اپلائی کرنے میں بھی متحرک نظر آئے، پوری دنیا مہنگائی کے چنگل میں ہے تو شہر کراچی کیسے بچ سکتا ہے؟ لہٰذا ہر طرف مہنگائی کی دہائی ہے، تاہم ناجائز منافع خوروں کے خلاف کمشنر کراچی نے تمام ڈپٹی کمشنرز کو متحرک کر رکھا ہے، اس حوالے سے خاصے سنجیدہ اقدامات بھی کئے گئے ہیں، جو قابل تحسین ہیں، لیکن شہریوں کے نقطہ نظر سے بات کی جائے تو “ہنوز دلی دور است” والا معاملہ ہے۔ شہریوں کی منشائ کے مطابق ابھی انتظامیہ کو بہت کچھ کرنا باقی ہے، کچھ مزید سختی دکھانے کی ضرورت ہے، محکمے کو اپنے اندر موجود کالی بھیڑوں کی نشان دہی اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانا بھی ضروری ہے۔
ابھی چند ماہ قبل گزرنے والے ماہ صیام میں بھی کمشنر کراچی کی کارکردگی پر بے انتہا تنقید کی گئی تھی اور حقیقت یہ ہے کہ دو عشرے گزرنے کے بعد 20 رمضان المبارک سے گراں فروشوں کے خلاف ڈنڈا اٹھایا گیا تھا۔ گویا دو عشروں تک سارے منافع خوروں کو کھلی چھوٹ دی گئی تھی کہ وہ جس طرح اور جتنا چاہیں، اہلیانِ کراچی کو لوٹ کھسوٹ لیں۔ ہو یہ رہا ہے کہ کمشنر کراچی احکامات صادر فرما دیتے ہیں کہ ڈپٹی کمشنرز ناجائز منافع خوروں کے خلاف کارروائی کریں، اس کے ساتھ ساتھ دوسرا حکم یہ دیا جاتا ہے کہ شہریوں کی شکایات بھی سنیں اور ان کا ازالہ کریں۔ تیسرا حکم یہ دیا جاتا ہے کہ جہاں زائد قیمت کی شکایت ملے، وہیں دکاندار کی موجودگی میں اپنی نگرانی میں سرکاری نرخ پر اشیا فروخت کرائیں، مگر سب ہی جانتے ہیں کہ کمشنر کراچی کے اس نوعیت کے اب تک کے سارے احکامات کو ہوا میں اڑایا جاتا رہا ہے، جس سے دودھ فروشوں کی ہٹ دھرمی، بلکہ غنڈہ گردی کا اظہار ہوتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ وطن عزیز میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افسران میں سے بہت سے ایسے بھی ہیں، جو اپنے عہدے اور اپنے شعبے سے مخلص ہیں اور بہت کچھ کرنے کا نہ صرف جذبہ رکھتے ہیں، بلکہ کرتے بھی ہیں، مگر ان کے اچھے کاموں کو بگاڑنے اور ان کے عوامی فلاح وبہبود کے احکامات پر عمل درآمد میں ان کے اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ کے لوگ رکاوٹ بنتے ہیں اور یوں متعلقہ افسر کے اچھے کاموں کے ثمرات سے عوام محروم ہی رہتے ہیں۔ جیسے گزشتہ سال نومبر 2022 کی بات ہے، جب سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل عمران بھٹی نے یہ حکم جاری کیا تھا کہ ڈیری فارمز کے مالکان، دودھ کے ہول سیلرز اور ریٹیلرز سندھ فوڈ اتھارٹی سے لائسنس حاصل کریں، ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا تھا کہ اگر ان کے پاس لائسنس نہیں ہے تو سندھ فوڈ اتھارٹی لائسنس نہ رکھنے والوں کے خلاف سندھ فوڈ اتھارٹی ایکٹ 2016 کے مطابق کارروائی کرے گی۔ ڈی جی سندھ فوڈ اتھارٹی عمران بھٹی نے دودھ کے کاروبار سے وابستہ افراد کو یہ بھی ہدایت کی تھی کہ وہ ہر قسم کی “ملاوٹ سے پاک” دودھ فروخت کریں، بہ صورت دیگر ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ڈی جی صاحب نے یہ بھی فرمایا تھا کہ سندھ فوڈ اتھارٹی ایکٹ 2016 کی خلاف ورزی کرنے والوں کو جرمانے اور قید کی سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں۔
سندھ فوڈ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل کے مذکورہ حکم پر کتنا اور کس حد تک عمل ہوا؟ اس کا اندازہ ایک عام آدمی بھی کر سکتا ہے۔۔۔ مگر یہ سوال اپنی جگہ نہایت اہم ہے کہ اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد آخر احکامات کیوں جاری کرتے ہیں؟ اگر جاری کرتے ہیں تو پھر ان پر عمل درآمد کیوں نہیں کرواتے؟ ان کے احکامات پر کس حد تک عمل درآمد ہو رہا ہے، اس کی خبر کیوں نہیں رکھتے؟ کیا یہ سمجھا جائے کہ اس طرح کے احکامات کے پس پشت دراصل ان کا اپنا کوئی مفاد ہوتا ہے؟ کیوں کہ اگر کوئی حکم جاری ہوا، مگر جن لوگوں کے لئے جاری ہوا، وہ اس کی پاس داری نہیں کر رہے تو انہیں کوئی سزا کیوں نہیں دی جا رہی؟ سندھ فوڈ اتھارٹی سے یہ سوال تو بنتا ہے کہ جب گزشتہ سال دودھ کا کاروبار بغیر لائسنس ممنوع قرار دے دیا گیا تو کیا سب نے لائسنس بنوا لیا؟ اگر سب نے نہیں بنوایا تو کتنے لوگوں کو جرمانے اور قید کی سزا دی گئی؟ اسی طرح “ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک دودھ” کے حکم پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں؟ تاحال اس کی کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے، کیوں کہ شہر کراچی میں کسی جگہ سندھ فوڈ اتھارٹی کا عملہ دودھ کی دکانوں پر دودھ کے معیار کی چیکنگ کرتا ہوا کبھی نظر تو نہیں آیا۔ تو کیا یہ سمجھا جائے کہ دودھ کے کاروبار سے منسلک افراد ڈی جی سندھ فوڈ اتھارٹی سے اتنا ڈرتے ہیں کہ ان کا حکم جاری ہوتے ہی سب نے لائسنس بھی بنوا لیا اور ملاوٹ سے پاک دودھ بھی بیچنا شروع کر دیا؟
اس بات میں کوئی شک شبہ نہیں ہے کہ دودھ فروشوں نے ایک طویل عرصے سے ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے، مگر کمشنر کراچی اپنے ٹھنڈے اے سی کمرے میں سکون سے براجمان رہتے ہیں، ان کے رویئے سے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے انہیں اہلیانِ کراچی کے ساتھ جاری لوٹ مار کی کوئی پروا ہی نہیں ہے۔ کمشنر کراچی کی اسی بےخودی اور بے خبری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بے لگام، زور آور دودھ مافیا نے گزشتہ ماہ یکم جون 2023 کو دودھ کے نرخ میں ازخود 10 روپے اضافہ کر کے دودھ 220 روپے فی لیٹر کر دیا، مگر حیرت انگیز طور پر کمشنر کراچی، ان کے ماتحت ضلعی کمشنر صاحبان یا ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنرز کی جانب سے 10 جون 2023 تک کسی قسم کی کوئی ہل جل نظر نہ آئی، بالآخر 11 جون کو کمشنر کراچی نے دودھ کی قیمتوں میں اضافے کے تمام ذمہ داروں کو گرفتار کرنے کا فیصلہ کرلیا، جس پر ڈیری فارمرز نے دودھ کی قیمت میں 10روپے کا اضافہ واپس لے لیا۔
دودھ کی بڑھتی قیمتوں پر لگ بھگ ایک عشرے بعد کمشنر آفس میں اجلاس ہوا، جس میں کمشنر کراچی نے اظہار خیال کرتے ہوئے بڑی معصومیت سے پوچھا کہ دودھ کی قیمتیں کس سے پوچھ کر بڑھائی گئیں؟ سرکاری ریٹ کے مطابق دودھ کیوں فروخت نہیں کیا جا رہا؟ انتہائی حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس اجلاس میں کمشنر کراچی کا کہنا تھا کہ سرکاری ریٹ 180 روپے فی لیٹر دودھ فروخت کیا جائے اور فوری طور پر بڑھی ہوئی دودھ کی قیمتوں کو واپس لیا جائے۔ کمشنر کراچی نے دوٹوک مو¿قف اپناتے ہوئے کہا کہ جب تک دودھ کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی، ڈیری فارمرز اور اسٹیک ہولڈرز سے کوئی بات نہیں ہو سکتی۔
مذکورہ اجلاس میں سب سے اہم ترین بات کمشنر کراچی کا وہ فیصلہ تھا، جس میں انہوں نے کہا کہ دودھ کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ واپس نہیں لیا تو تمام ذمہ داروں کو گرفتار کر لیا جائے گا اور ساتھ ہی دوٹوک فیصلہ سنایا کہ دودھ کی قیمتوں میں ازخود اضافہ واپس لینے تک قیمتیں طے نہیں ہو سکتیں۔ کمشنر کراچی کی مذکورہ دھمکی نے فوری اثر دکھایا اور اسی دن ڈیری فارمرز کے شاکر عمر گجر نے کہا کہ دودھ کی قیمتوں میں 10 روپے اضافے کا اعلان واپس لے رہے ہیں، یوں دودھ دوبارہ 210 روپے لیٹر پر آگیا۔ تاہم اس وقت شہریوں کی جانب سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ 10 روپے اس لئے واپس لئے گئے ہیں کہ اب دودھ پر 20 روپے لیٹر بڑھانے کی ڈیل ہو گئی ہے، یہ دعویٰ بالکل سچا ثابت ہوا اور بہ مشکل 20 روز بعد ہی کراچی میں دودھ کا نرخ 230 روپے لیٹر کر دیا گیا اور کمشنر کراچی کے تمام تر دعوو¿ں کے باوجود اس وقت شہر بھر میں دودھ 230 روپے لیٹر ہی فروخت کیا جا رہا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ 8 ماہ کے دوران دودھ کے نرخوں میں چوتھی بار یہ اضافہ کیا گیا ہے۔ موجودہ اضافے کے ساتھ ہی کراچی میں دودھ کے نرخوں نے ڈبل سنچری مکمل کرنے کے بعد ڈھائی سینچری کی طرف تیزی سے پیش قدمی شروع کر دی ہے، مگر افسوس کہ اس مافیا کو روکنے اور لگام ڈالنے والا کوئی نہیں، جبکہ کمشنر کراچی کے ساتھ ساتھ صوبے میں دو انتہائی طاقت ور ترین شخصیات وزیر اعلیٰ اور گورنر سندھ بھی موجود ہیں، مگر شاید متذکرہ شخصیات کی ترجیحات کچھ اور ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق کراچی میں دودھ کی کھپت 50 لاکھ لیٹر روزانہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کراچی والے روزانہ 50 لاکھ لیٹر دودھ، 230 روپے فی لیٹر کے حساب سے تقریباً ایک ارب 15 کروڑ روپے میں خریدتے ہیں۔ جبکہ انتہائی تعجب انگیز بات یہ ہے کہ کراچی میں دودھ کا سرکاری نرخ اب بھی 180 روپے فی لیٹر ہے، جو کمشنر کراچی نے 16 دسمبر 2022 کو مقرر کیا تھا اور بہ قول ان کے یہ نرخ آج بھی نافذ العمل ہے، کیوں کہ اس کے بعد سے کوئی نیا نوٹیفکیشن تاحال جاری نہیں کیا گیا۔ کمشنر کراچی کی طرف سے مقرر کردہ نرخ کے بجائے اپنے من پسند نرخ پر دودھ فروخت کرنے سے ایک جانب دودھ فروشوں کی ہٹ دھرمی، من مانی اور قانون کو جوتے کی نوک پر رکھنے کا اظہار ہوتا ہے تو دوسری جانب یہ بات سامنے آتی ہے کہ کمشنر کراچی صرف نرخ مقرر کر سکتے ہیں، مگر ان پر applementation کروانا ان کے بس کی بات نہیں ہے۔ باالفاظ دیگر کمشنر کراچی کا کام مختلف اشیائ کے صرف نرخ مقرر کرنا ہے، ان نرخوں پر عمل درآمد کروانا ان کا کام نہیں ہے۔
اگر کمشنر کراچی کی جانب سے مقرر کردہ دودھ کے نرخ 180 روپے فی لیٹر کو ہی درست اور قانونی تسلیم کیا جائے تو اس طرح دودھ فروش ہر لیٹر پر 50 روپے اضافی وصول کر رہے ہیں، یوں روزانہ 50 لاکھ لیٹر دودھ کی کھپت کے حساب سے 25 کروڑ روپے کا اہلیانِ کراچی کی جیبوں پر روزانہ ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور یہ سب کمشنر کراچی، وزیر اعلیٰ، گورنر سندھ کی عین ناک کے نیچے ہو رہا ہے، مگر دودھ فروش مافیا کو لگام دینے والا کوئی نہیں۔
کراچی میں دودھ اور اس سے بننے والا دہی، چائے، کریم، پنیر، کھویا، لسی، دیسی گھی وغیرہ بنتے اور فروخت ہوتے ہیں.کراچی میں مختلف باڑوں، کراچی کے مضافات، گردو نواح سے بھینسوں، گائے وغیرہ کا تقریباً 25 لاکھ لیٹر دودھ فروخت کے لئے لایا جاتا ہے، جس میں کم وبیش 3 سے 5 لاکھ لیٹر پانی ملایا جاتا ہے۔ 10 لاکھ لیٹر دودھ پاو¿ڈر سے تیار کیا جاتاہے، جبکہ تقریباً 5 سے 10 لاکھ لیٹر دودھ کیمیکل سے تیار کرکے کراچی والوں کو فروخت کیا جاتا ہے۔ سندھ سرکار اور کمشنر کراچی نے دودھ کا سرکاری نرخ فی لیٹر 180 روپے سکہ رائج الوقت مقرر کر رکھا ہے۔ اگر دودھ سرکاری نرخ پر فروخت ہو تو 90 کروڑ روپے روزانہ کی فروخت ہوتی ہے۔ دودھ کا کراچی میں سرکاری نرخ فی لیٹر 180 روپے ہے، مگر 230 روپے لیٹر فروخت کیا جا رہا ہے، اس طرح 50 روپے فی لیٹر اضافی لئے جارہے ہیں۔ یوں کراچی کے عوام کی جیبوں پر 25 کروڑ روپے کا روزانہ دن دہاڑے ڈاکہ ڈالا جا ریا ہے اور یہ ڈا کہ وہی سسٹم ڈالتا ہے، جو شہر میں 14 ارب کی نام نہاد سڑکیں بناتا ہے، پورے شہر میں لاکھوں روپے کے گٹر کے ڈھکن نہیں لگاتا، غیر قانونی بلڈنگیں بنوا کر اربوں روپے کھا جاتا ہے، لیکن مانتا نہیں۔ دودھ کو مختلف مذاہب میں نور مانا جاتا ہے، مگر ہمارا سسٹم نور کو بھی نہیں بخشتا، نور میں ملاوٹ سے 40 کروڑ روپے سسٹم کھاتا ہے۔
گزشتہ ماہ مئی میں حکومت کی جانب سے پیٹرول کی قیمت میں دو بار کمی کئے جانے کے باعث مجموعی طور پر 35 روپے فی لیٹر گرنے سے ٹرانسپورٹیشن کی لاگت میں خاطر خواہ کمی کے باوجود تازہ دودھ کی قیمت میں 20 روپے فی لیٹر اضافے نے صارفین کو حیران، پریشان، بلکہ مشتعل کر دیا ہے۔ رواں برس فروری میں بھی اسٹیک ہولڈرز نے کھلے دودھ کی فی لیٹر قیمت 20 روپے بڑھائی تھی اور بہ مشکل 4 ماہ گزرے تھے کہ ایک بار پھر 20 روپے لیٹر اضافہ کر دیا گیا۔
کمشنر کراچی کی جانب سے 16 دسمبر 2022 کو دودھ کی سرکاری قیمت 170 روپے سے بڑھا کر 180 روپے فی لیٹر کر دی گئی تھی، تاہم خوردہ فروشوں نے سرکاری نرخوں پر دودھ بیچنے سے انکار کرتے ہوئے اس وقت بھی دودھ 190 روپے فی لیٹر فروخت کرنا شروع کر دیا تھا۔ حالانکہ 16 دسمبر 2022 کا نوٹی فکیشن اب بھی نافذ العمل ہے، مگر اس کی حیثیت کاغذ کے معمولی ٹکڑے سے زیادہ نہیں اور دودھ صارفین کو اضافی قیمت کا دھچکا ملنے کا سلسلہ جاری ہے بے خوف و خطر دودھ کی فی لیٹر قیمت 230 روپے کردی گئی ہے، مگر کمشنر کراچی صارفین کا تحفظ کرنے میں بری طرح بے بس نظر ا?تے ہیں۔ تو پھر کیا دودھ صارفین کی جانب سے ایسے مواقع پر لگایا جانے والا یہ الزام درست ہے کہ کمشنر کراچی اپنے حصے کی منہ مانگی رقم وصول کر لینے کے بعد خاموشی سے دودھ کے نرخ بڑھانے کی اجازت دے دیتے ہیں۔
دودھ کے نرخوں میں حالیہ اضافے کے حوالے سے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کراچی ملک ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے میڈیا کوآرڈینیٹر وحید کا کہنا تھا کہ فارمرز نے 37.5 لیٹر دودھ کی قیمت 7 ہزار 70 روپے (باڑوں کے گیٹ پر) مقرر کر دی ہے، جو فروری 2023 میں 6 ہزار 750 روپے تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈیری فارمرز دودھ کی فی لیٹر قیمت 30 روپے بڑھانا چاہتے تھے، لیکن خوردہ فروشوں کی مزاحمت کی وجہ سے قیمت میں 20 روپے اضافہ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈیری فارمرز نے قیمتوں میں اضافے کو جانوروں کے چارے کی لاگت سے منسلک کیا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ڈیزل کی قیمت میں 35 روپے کمی کے باوجود دودھ کی قیمت میں کیوں اضافہ کیا گیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اسٹیک ہولڈرز کو یہ نہیں پتا کہ 15 دن بعد ڈیزل کی قیمت بڑھے گی یا اس میں کمی ہوگی؟ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے اتفاق ہے کہ اگر ڈیزل کی قیمت میں مزید کمی یا طویل عرصے تک کوئی تبدیلی نہ ہوئی تو اس کا اثر صارفین کو منتقل کیا جائے گا۔
ملک ریٹیلرز ایسوسی ایشن کے کوآرڈینیٹر کا کہنا تھا کہ کمشنر کراچی نے 16 دسمبر 2022 کو ڈیری فارمر اور دودھ کی تھوک قیمت 163 روپے اور 170 روپے مقرر کی تھی، لیکن ریٹیلرز کو مقررہ قیمت پر دودھ نہیں مل رہا، اس بات کو یقینی بنانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس صورتحال میں جہاں حکومت اور اسٹیک ہولڈرز کےدرمیان اختلاف ہے، وہاں صارفین کو نہ صرف دودھ کے نرخوں کے حوالے سے، بلکہ ان اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے بھی سب سے زیادہ نقصان ہوتا ہے، جو سرکاری نرخوں پر دستیاب نہیں ہیں۔ کوآرڈینیٹر کا کہنا تھا کہ کراچی میں دودھ کی مجموعی کھپت تقریباً 50 لاکھ لیٹر یومیہ ہے، جس میں خشک، ڈبے والا اور فلیورڈ ملک بھی شامل ہے۔ ریٹیلرز ایسوسی ایشن والوں کی باتیں اپنی جگہ، مگر اس ساری صورتحال میں کمشنر کراچی کے کردار کی اہمیت دوچند ہو جاتی ہے، لہٰذا سوال تو بنتا ہے کہ کمشنر کراچی اس بار ڈنڈا اٹھا کر ڈیری فارمز والوں کو کوئی سبق سکھائیں گے یا پھر اب تک کی مشق کے مطابق اس بار بھی انہیں اپنی من مانی کرنے دیں گے؟
﴾﴿