ہزارہ ایکسپریس ٹرین حادثہ

جب میتوں کو ایمبولینس میں ڈالا تو ا±ن کے اعضا گِر رہے تھے

عبدالغفار بزدار کے اہلخانہ صوبہ سندھ کے شہر روہڑی سے لاڑکانہ اپنے رشتے داروں سے ملنے اور گھومنے پھرنے گئے تھے لیکن ا±ن کی واپسی پوٹلیوں میں لپٹی لاشوں کی صورت میں ہوئی ہے۔
عبدالغفار ٹنڈو آدم کے رہائشی ہیں اور ہزارہ ایکسپریس ٹرین حادثے میں ان کے گھر کے پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
سندھ کے ضلع سانگھڑ کے علاقے سرہاڑی کے قریب اتوار کی دوپہر کو ہزارہ ایکسپریس کی دس بوگیاں پٹڑی سے اتر گئی تھیں جس کے نتیجے میں 30 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 60 زخمی ہو گئے تھے۔
پاکستان ریلوے کی انتظامیہ نے ابتدائی تحقیقات کے بعد ٹرین کے حادثے کی وجہ خراب ٹریک اور فش پلیٹس کی عدم موجودگی کو قرار دیا تھا اور پیر کو حکام نے تین افسران سمیت چھ ملازمین کو معطل بھی کر دیا ہے۔
اس حادثے میں ہلاک ہونے والوں کی اکثریت کا تعلق سندھ کے ضلع سانگھڑ سے تھا صرف ٹنڈو آدم شہر اور آس پاس کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے 11 افراد اس حادثے میں ہلاک ہوئے جن میں سے بیشتر کی تدفین کر دی گئی ہے۔
’رات دو بجے بچوں کو دفنایا‘
ٹنڈو آدم کی محمدی کالونی میں عبدالغفار بزدار سے اہل علاقہ تعزیت کے لیے آ رہے ہیں۔ انھیں شکوہ ہے کہ انتظامیہ یا حکومتی نمائندوں میں سے کوئی بھی ا±ن کے پاس داد رسی کے لیے نہیں آیا۔
’میری فیملی کے پانچ افراد تھے میری بیوی، ایک بہو، 15 سالہ بیٹی اور دو نواسے۔ ہمارے گھر کے پانچ افراد چلے گئے، پورا گھر تباہ ہو گیا، ہمارے پانچ افراد کے لیے کفن دفن کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے؟ حکومتِ وقت نے نہ یہ سوچا اور نہ ہی کوئی تعاون کیا، پڑوسیوں کے تعاون سے ہم نے رات دو بجے بچوں کو دفنایا۔‘
محمدی کالونی کے لوگوں نے ٹرین حادثے میں ہلاک ہونے والے افراد کی تدفین کے لیے اپنی مدد آپ کے تحت قبریں کھود کر تیار کیں۔
حکومت کی جانب سے جاری کی گئی فہرست میں اس خاندان کے تین افراد کے نام تحریر تھے جبکہ ان کے رحیم نامی نواسے کو لڑکی بتایا گیا تھا جبکہ عبدالغفار کے پاس پانچ افراد کی لاشیں وصول کرنے کی رسیدیں موجود تھیں۔
عبدالغفار طبی عملے کی نااہلی کی شکایت کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ان کے نواسے رحیم کی سانسیں چل رہی تھیں جسم پر کسی چوٹ کا نشان بھی نہیں تھا اس کا علاج درست نہیں کیا گیا اور اسی لاپراوہی میں بچے کی موت واقع ہوئی ہے۔‘
’لاشیں ناقابل شناخت تھیں‘
عبدالغفار کے بھانجے پیار علی بزدار کہتے ہیں کہ حادثے کی اطلاع ملتے ہی وہ جائے وقوع سرہاڑی پہنچے تھے لیکن وہاں ان کے عزیزوں کی لاشیں نہیں تھیں، جس کے بعد وہ پی ایم سی نوابشاہ گئے جہاں پولیس لواحقین کو سرد خانے میں جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی، اسی دوران وہاں کشیدگی بھی ہوئی۔
انھوں نے بتایا کہ ’لاشیں شاخت کے قابل نہیں تھیں، بچے رحیم کو چوٹیں نہیں لگیں تھیں اس لیے اسے پہچان لیا جبکہ خواتین کو کپڑوں اور ہاتھوں میں پہنے گئے زیوارت کی مدد سے شناخت کیا گیا۔‘
پیار علی کے مطابق ’یہ بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے لیکن حوصلہ کرنا پڑتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’دو سالہ بچی کے ہاتھ پاو¿ں کٹے ہوئے تھے، 15سالہ حسینہ کے بھی جسم کے ٹکڑے تھے، ہپستال انتظامیہ نے ان کی میت کو کسی تابوت میں نہیں ڈالا تھا، جب سرد خانے سے ایمولینس میں ڈالا تو میتوں کے جسمانی اعضا گر رہے تھے۔‘
ان کے مطابق ایمبولینس سروس بھی سفارش کے ذریعے مل رہی تھی۔ وہ اپنے عزیزوں کی تین لاشیں ایک ایمبولینس میں لائے باقی دو بعد میں دوسری ایمبولیسنز میں لے کر آئے جس کا کرایہ خود ادا کیا گیا۔
ہلاک ہونے والوں میں سعیدہ خلجی اور ان کی سمدھن بھی شامل تھیں جو نوابشاہ جا رہی تھیں۔ سعیدہ کے بیٹے عمران کے دوست محمد کاشف نے بتایا کہ انھوں نے اپنی مدد آپ کے تحت جائے حادثہ پر عمران کی والدہ اور ساس کو تلاش کیا اور ہسپتال منتقل کیا۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’سول ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے کوئی تعاون نہیں کیا جا رہا تھا، پولیس بدتمیزی کر رہی تھی، ہم نے کہا کہ ہم خود انھیں ڈھونڈ کر لائے ہیں لہذا لاشیں ہمارے حوالے کی جائیں لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں تھا۔‘
سرہاڑی نوابشاہ سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے، یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں بڑی ٹرینیں نہیں رکتیں۔ حادثے کے بعد مساجد سے اعلانات کیے گئے کہ لوگ مدد کے لیے پہنچ جائیں۔
سلیم بھنگوار قریب ہی رہتے ہیں انھوں نے آٹھ زخمی مسافروں اور ہلاک ہونے والوں کو ٹرین کی بوگیوں سے نکالا۔
وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ جائے حادثہ پہنچے تو کچھ لاشیں ٹرین کی بوگیوں کی کھڑکیوں میں پھنسی ہوئی تھیں، کچھ ایسی بھی تھیں جنھیں کرین کی مدد سے بوگیوں کو سیدھا کر کے نکالا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ زخمیوں میں بھی کسی کی ٹانگیں تو کسی کے بازو ٹوٹے ہوئے تھے۔
سلیم بھنگوار کے مطابق جائے حادثہ پر ایمبولینسز تاخیر سے پہنچی تھیں اس سے قبل زخمیوں اور لاشیوں کو چنگچی لوڈرز، موٹر سائیکلوں پر ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔
سوشل میڈیا پر ایسی کئی تصاویر اور ویڈیوز شیئر کی گئیں جن میں مقامی لوگ متاثرہ مسافروں میں جوس، کھانے پینے کی اشیا اور پانی تقسیم کر رہے تھے۔ جبکہ زخمیوں کی بڑی تعداد کے باعث نوابشاہ کے نوجوان خون کے عطیات دینے بھی پہنچے تھے۔
سرہاڑی ہسپتال میں سہولیات کے فقدان کی وجہ سے زخمی مسافروں کو نوابشاہ پی ایم سی ہسپتال لایا گیا تھا۔ 60 سے زائد زخمیوں میں سے اس وقت 20 کے قریب زخمی وہاں موجود ہیں۔
ان زخمیوں میں ایسے بچے بھی ہیں جن کی مائیں اس ٹرین حادثے میں ہلاک ہو گئی ہیں۔
دادو کے رہائشی محمد کاشف بیڈ پر اپنی پانچ سالہ بیٹی کے ساتھ موجود تھے جس کو سر پر چوٹیں آئی تھیں جبکہ دوسرے بیڈ پر ان کا زخمی بیٹا سویا ہوا تھا۔
محمد کاشف کی اہلیہ نائلہ اپنے چھوٹی بہن سے ملنے ٹنڈو آدم گئیں تھیں وہ دادو واپس جانے کے لیے نوابشاہ آ رہی تھیں۔ وہ خود اس حادثے میں ہلاک ہو گئی ہیں جبکہ ان کے بچے زخمی ہیں۔
کاشف نے بتایا کہ ’ان کی بیوی فون نہ کرنے کی وجہ سے ان سے ناراض تھی اور انھوں نے کہا تھا کہ وہ بس سے واپس آ رہی ہیں۔ ان کا ہم زلف انھیں ٹنڈو آدم سٹیشن سے ٹرین پر سوار کروا کر گئے تھے۔‘
فتح خاتون ٹنڈو آدم سے نوابشاہ محرم کے نیاز میں شرکت کے لیے آ رہی تھیں، وہ اس بوگی میں سوار تھیں جو سب سے زیادہ متاثر ہوئی، یہ بوگی پل سے ٹکرا کر پانی میں جا گری تھی۔ اس حادثے میں خوش قسمتی سے وہ بچ گئی لیکن انھیں متعدد فریکچر ہوئے۔
فتح خاتون کہتی ہیں کہ ’گاڑی بہت تیز چل رہی تھی حادثے کے وقت ایسا تھا جیسے زلزلہ یا طوفان ہو، لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے، لوگ موت کے شکنجے میں آ گئے تھے۔‘
’میں نے سوچا اب ہم زندہ نہیں بچیں گے، ایسے زلزلے سے کیسے بچ پائیں گے، اتنے میں بوگی پانی میں جا گری اور پانی میں غوطہ کھا کر جیسے میرے جسم میں جان آ گئی۔ مجھے تقریبا ایک گھنٹے کے بعد باہر نکالا گیا جس کے بعد سے ہوش نہیں تھا۔‘
ریلوے ٹریک کے ایک طرف چار تو دوسری طرف چھ بوگیاں الٹی پڑی ہوئی تھیں جبکہ ایک نہر کے پل سے ٹکر کر اندر گر گئی تھی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ سب سے زیادہ جانی نقصان اسی بوگی میں ہوا ہے۔
ہاتھوں سے ٹریک کی بحالی کا کام
سرہاڑی کے قریب درجنوں مزدور ٹریک کی بحالی میں مصروف نظر آئے، وہ ایک پٹڑی کو لوہے کی سلاخوں سے پھنساتے اور نعرے لگا کر اس کو آگے سرکاتے ہیں، یہ پورا عمل ہاتھوں اور اوزاروں کی مدد سے کیا جا رہا تھا جس میں مشنری کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
ریلوے حکام کے مطابق حادثے کے بعد سوموار کی اعلی الصبح ایک ٹریک بحال کر دیا گیا تھا جس کے بعد ٹرین کی اپ اور ڈاو¿ن آمد و رفت اسی پر ہو رہی ہے۔
ہماری موجودگی کے دوران ایک ٹرین وہاں سے انتہائی سست رفتاری سے گزری جبکہ مسافر کھڑکیوں سے جائے حادثہ پر تباہی کے مناظر فلم بند کر رہے تھے۔
دوسری جانب ہزارہ ایکسپریس ٹرین حادثے کی جوائنٹ سرٹیفیکیٹ رپورٹ میں حادثہ کا ذمہ دار شعبہ سول اور شعبہ مکینیکل کو قرار دیا گیا ہے اور تخریب کاری کے امکان کو مسترد کیا گیا ہے۔
جوائنٹ سرٹیفیکیٹ میں حادثے کی وجہ پٹری کا ٹوٹنا اور فش پلیٹ نہ ہونے کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ٹرین انجن وہیل اور ٹریک میں خرابی بھی حادثے کی وجوہات میں شامل ہے۔
یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ ٹریک کو آپس میں جوڑنے کے لیے فش پلیٹ موجود نہیں تھی۔
واضح رہے کہ یہ کوئی پہلا حادثہ نہیں تھا اس سے قبل بھی ریتی سے لے کر کراچی تک اس ٹریک پر ٹرینوں کے ٹکرانے اور پٹڑیوں سے اترنے کے متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں تاہم ماضی قریب میں ان حادثوں کے ذمہ داروں کے خلاف کسی سزا کی مثال نہیں ملتی۔
ؑبشکریہ بی بی سی