اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور درس گاہ یا عشرت کدہ ؟ منظر عام پر آنے والے منشیات و سیکس اسکینڈل نے ساری جامعات پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا

جاوید الرحمن خان
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں منظر عام پر آنے والے منشیات و سیکس اسکینڈل نے نہ صرف ہر پاکستانی کی آنکھیں شرم سے جھکا دی ہیں، بلکہ والدین کا سکھ چین ختم اور راتوں کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ والدین بجا طور پر یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ وہ اپنی بچیوں کو تعلیم حاصل کرنے درس گاہوں میں بھیج رہے ہیں یا جنسی درندوں کی خواہشات پوری کرنے کے لئے عشرت کدوں میں؟ اس سارے واقعے میں سب سے اہم کردار جامعہ کے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کا ہے، جن کی ناک کے نیچے قوم کی بچیوں کے ساتھ گھناو¿نا کھیل کھیلا جاتا رہا اور ادارے کا سربراہ ہونے کے باوجود انہوں نے کسی قسم نوٹس لیا، نہ کوئی کارروائی کی۔ سامنے آنے والی تفصیلات کی روشنی میں اس سارے واقعے کی زمہ داری وائس چانسلر پر عائد ہوتی ہے، باالفاظ دیگر اس گھناو¿نے جرم کے مرکزی ملزم وائس چانسلر ہیں، مگر انتہائی افسوس ناک، بلکہ شرم ناک بات یہ ہے کہ وائس چانسلر پر ہاتھ ہی نہیں ڈالا گیا۔ دوسرا بڑا ملزم فوج کا ریٹائرڈ میجر اعجاز حسین شاہ ہے، جس کا عہدہ چیف سیکیورٹی آفیسر یعنی ادارے کے تحفظ کا تھا، مگر اسی نے جامعہ میں زیر تعلیم لڑکیوں کو جال میں پھنسایا اور پھر انہیں بلیک میل کر کے غلط کاری پر مجبور کیا۔ یہ اس شخص کے لئے بھی ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ فوج جیسے معتبر، معزز اور قابل احترام ادارے سے تعلق رکھنے کے باوجود اس نے انتہائی گری ہوئی حرکت کی اور فوج کی بھی بدنامی کا باعث بنا۔ کچھ حلقوں کی جانب سے اس ریٹائرڈ میجر کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پنجاب کے شہر بہاولپور میں واقع ہے۔ اس یونیورسٹی کا قیام 1928 میں عمل میں آیا اور مصر کی جامعہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ بنائی گئی۔ 1975 میں اسی جامعہ عباسیہ کو یونیورسٹی قرار دے کر اس کا نام اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور رکھ دیا گیا۔ اس یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ابو بکر غزنوی حضرت مولانا غلام محمد گھوٹوی تھے، جبکہ آخری وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب تھے، جنہوں نے 26 جولائی 2019 کو یہ پاکیزہ اور باوقار منصب سنبھالا اور یونیورسٹی کی تاریخ کے شرم ناک اور بدترین سیکس اسکینڈل کے رونما ہونے تک اس تاریخ ساز یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے عہدے پر فائز رہے۔
اسلامی یونیورسٹی بہاولپور کو عام طور پر آئی یو بی (IUB) کے مخفف سے پکارا جاتا ہے۔ شروع میں اس میں عباسیہ اور خواجہ فرید کیمپس بنا کر 10 شعبوں میں کام شروع کیا گیا۔ اب اس یونیورسٹی کو جدید تقاضوں کے مطابق بنانے کے لئے 1250 ایکڑ زمین حاصل پور روڈ پر بہاولپور سے 8 کلومیٹر کے فاصلے پر مختص کی گئی ہے۔ صحرا کے ٹیلوں کو سرسبز قطعوں میں بدل دیا گیا ہے۔ اسلامی یونیورسٹی بہاولپور نے جدید ترین تدریسی طریقہ کار اور قومی و بین الاقوامی پیشہ ورانہ ضروریات سے ہم آہنگ پروگراموں پر مشتمل فاصلاتی ذریعہ تعلیم کے نفاذ کا بھی آغاز کر دیا ہے۔ بین الاقوامی تعاون و اشتراک سے شروع کیا جانے والا فاصلاتی ذریعہ تعلیم ملک میں موجود اسی طرز کے دیگر پروگراموں سے یکسر مختلف اور زیادہ کار آمد ہے، کیونکہ جدید ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی اور نصاب کی بدولت یہ پروگرام بین الاقوامی معیار کی فاصلاتی تعلیم فراہم کر رہا ہے۔ یونیورسٹی فوری طور پر تمام شعبہ جات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر فاصلاتی تعلیمی پروگرام متعارف کرا چکی ہے۔
اسلامیہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبات کے ساتھ جنسی معاملات کا سلسلہ تو نہ جانے کب سے جاری تھا، مگر حیرت انگیز طور پر یونیورسٹی کی چار دیواری سے یہ بات کبھی باہر نہیں آئی۔ تاہم مادر علمی جیسی پاکیزہ جگہ پر گھناو¿نا کام کرنے والے سیاہ کاروں کو ایک دن قدرت نے بے نقاب کر ہی دیا اور اس کا ذریعہ یونیورسٹی کی حدود میں قائم تھانہ بغداد الجدید بنا۔ حقیقت یہ ہے کہ بہاولپور پولیس کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ سے ہی شرم ناک، ہوش ربا انکشافات سامنے آئے، جب اسلامیہ یونیورسٹی کے خزانچی بہ نام ابوبکر کے خلاف تھانہ بغداد الجدید میں ایف آئی آر درج کی گئی۔
اس کہانی کی تفصیل پولیس کی زبانی کچھ یوں ہے کہ قابل اعتماد ذرائع سے مقامی پولیس کے علم میں آیا کہ مختلف عہدوں پر فائز پروفیسرز کا گروپ منشیات فروشی، منشیات کے استعمال، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے اندر اور باہر مختلف فارم ہاو¿سز میں ڈانس اور سیکس پارٹیوں کے انعقاد میں ملوث ہے۔ وہاں کا گینگ لیڈر ابوبکر، جو IUB کا خزانچی ہے، ہمیشہ اپنے ساتھ کسی نہ کسی قسم کی منشیات لے کر جاتا ہے اور یونیورسٹی کے استحصال زدہ دانستہ اور غیر ارادی طلبائ اور اساتذہ کے ساتھ شراب پینے، منشیات سونگھنے کی پارٹیاں منعقد کرتا ہے۔ جب وہ ایک طالبہ کے ساتھ کار میں جا رہا تھا کہ پولیس پارٹی نے اسے ناکہ بانڈی پوائنٹ 07/BC پر روک لیا۔ اس کے پاس سے چھ (06) گرام آئس اور تین (03) جنسی گولیاں برآمد ہوئیں۔ جس پر مورخہ 28.06.2023 کو FIR نمبر 1014/23 کے تحت 9(2)1 CNSA? ?مقدمہ تھانہ بغداد الجدید میں درج کیا گیا۔ تفتیش کے دوران ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ دیگر پروفیسرز کے ایک گروپ کے ساتھ مل کر طلبا کے ذریعے منشیات خریدتا اور تقسیم کرتا ہے اور ڈانس و سیکس پارٹیوں کا اہتمام کرتا ہے اور آج وہ ڈانس پارٹی منانے کے لئے فارم ہاو¿س جا رہا تھا۔ IUB کے چیف سیکیورٹی آفیسر (سی ایس او) میجر اعجاز حسین شاہ کے ساتھ ایک اور کار میں دو طالبات ان کے پیچھے تھیں۔ اطلاعات کے مطابق لڑکیوں کو ڈانس پارٹی کے لئے لے جایا جا رہا تھا۔ پوچھ گچھ سے پتہ چلا کہ پروفیسرز کا یہ گروہ معصوم لڑکیوں کا استحصال و بلیک میل کرتا ہے اور انہیں منشیات (یعنی آئس، شراب اور چرس) کے استعمال میں ملوث کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ یہ غیر اخلاقی سرگرمیاں یونیورسٹی کے سیکیورٹی امور کے کنٹرولر میجر اعجاز حسین شاہ کی ملی بھگت سے کی جا رہی ہیں۔
ایک حیران کن بات یہ ہے کہ خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان کے اس وقت کے وائس چانسلر اطہر محبوب نے جہاں سے IUB کے خزانچی ابوبکر کو ساتھ لیا تھا، خواجہ فرید یونیورسٹی رحیم یار خان سے استعفیٰ دینے کے بعد انہیں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں دوبارہ ملازم رکھ دیا۔ موبائل فون کے تجزیے پر انتہائی بے ہودہ تصاویر اور وڈیوز بھی منظر عام پر آئیں۔
ا سلامیہ یونیورسٹی کے منشیات، جنسی ہراسگی اور نازیبا وڈیو اسکینڈل میں مزید پیش رفت چیف سیکیورٹی آفیسر میجر اعجاز حسین شاہ کے بیان سے ہوئی۔ اعجاز حسین شاہ نے دوران حراست اس گھناونے اسکینڈل میں ملوث شعبہ جات کے ہیڈز کے نام بتا دیئے۔ میجر اعجاز شاہ کے اعترافی بیان کی وڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی، جس کے بعد گویا ایک بھونچال سا آگیا۔ اعجاز شاہ نے اپنے اعترافی بیان میں بتایا کہ ڈاکٹر ابوبکر، ڈاکٹر رانجھا، ڈاکٹر سلیم، ڈاکٹر عمران اور ڈاکٹر طاہر بھی اس گروہ کا حصہ ہیں۔ مجموعی طور پر ہر ڈیپارٹمنٹ کے پانچ میں سے تین اساتذہ اس گروہ میں شامل ہیں۔ یہ لوگ جنسی ہراسمنٹ کے ساتھ ساتھ مالی کرپشن میں بھی ملوث ہیں۔
شراب، آئس اور چرس کا نشہ بھی کرتے ہیں۔
ایف آئی آر کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی کے حوالے سے ایک کے بعد ایک ہوش ربا انکشافات سامنے آنے لگے اور بتایا گیا کہ چیف سیکیورٹی آفیسر میجر اعجاز حسین شاہ، ایک پروفیسر اور ملازم طالبات کو ہراساں کرتے رہے، احسان جٹ نامی شخص نے ن لیگی وزیر طارق بشیر چیمہ کے بیٹے اور دیگر طلبا کو نشے پر لگایا، قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے اس معاملے پر جوڈیشل کمیشن کا مطالبہ کردیا۔ آہستہ آہستہ اسلامیہ یونیورسٹی کے اسکینڈل میں ملوث تمام کرداروں کے نام اور کارنامے سامنے آنے لگے۔
یونیورسٹی اسکینڈل کے حوالے سے نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی زیر صدارت ایک اجلاس بھی ہوا، جس میں بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی آفیسر، 21 گریڈ کے ایک پروفیسر اور یونیورسٹی ملازم مل کر طالبات کو ہراساں کرتے رہے۔ مزید بتایا گیا کہ عثمان بزدار کے دور میں انسپکشن ٹیم نے وائس چانسلر کو نکالنے کی سفارش کی تھی، طالبات نے شکایتی لیٹر بھی بھیجے، لیکن یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے شکایات پر کوئی کارروائی نہیں کی، بلکہ وہ طلبا کے والدین کو بلانے کا کہتے رہے۔اجلاس میں نگراں وزیر اعلیٰ محسن نقوی نے سوال کیا کہ وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے بیٹے کا اس اسکینڈل میں کیا کردار ہے؟ جس پر بتایا گیا کہ طارق بشیر چیمہ نے احسان جٹ کو وزارت ہاو¿سنگ میں افسر بنوایا اور اسی احسان جٹ نے وفاقی وزیر کے بیٹے ولی داد چیمہ کو آئس کے نشہ میں ڈال دیا۔ احسان جٹ اور ولی داد دونوں اکٹھے پھرتے تھے، طارق چیمہ نے ڈی پی او کو احسان جٹ کے خلاف کارروائی کا کہا۔ ڈی پی او نے طارق بشیر چیمہ کے کہنے پر احسان جٹ کے خلاف کارروائی کی اور منشیات برآمد ہونے کا مقدمہ درج کرکے گرفتار کیا، لیکن پولیس نے مقدمے میں یونیورسٹی کا نام نہیں آنے دیا، اور کیس دبانے کی کوشش کی، تاہم جب احسان جٹ سے تفتیش شروع ہوئی تو معاملہ یونیورسٹی تک پھیل گیا۔بریفنگ میں بتایا گیا کہ احسان جٹ نے یونیورسٹی میں طلبہ اور طالبات کو نشہ کی لت لگائی، چیف سیکورٹی آفیسر میجر اعجاز حسین شاہ نے ہاسٹل کے باہر ناکے لگانے شروع کر دیئے، طالبات کے دیر سے آنے یا کسی لڑکے کے ساتھ آنے پر تصاویر بنائی جاتیں، اعجاز شاہ نے طالبات کو بلیک میل کر کے ان سے ناجائز تعلقات بنائے، کمیٹی نے اعجاز شاہ سے جیل میں بیان بھی لیا۔
دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم میں بھی اسلامیہ یونیورسٹی کے منشیات اور وڈیوز اسکینڈل کا معاملہ زیر غور آیا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے سوال اٹھایا کہ واقعہ پر کیا ایکشن لیا گیا؟ اسلامیہ یونیورسٹی کا ماحول ایسا کیوں بنا؟ موجودہ وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی نے بریفنگ میں بتایا کہ وڈیو اسکینڈل میں ملازمین اور طلبہ کی وڈیوز ہیں، تحقیقات کیلئے کمیٹیاں قائم کی ہیں۔ وی سی یونیورسٹی نے بتایا کہ ایچ ای ڈی کے سامنے منشیات کا نیا کیس سامنے نہیں آیا، آئس کیس میں تین ملازمین ملوث تھے، جو جیل میں ہیں، منیشات کیس میں گریڈ 21 کا پروفیسر ملوث تھا۔ وی سی یونیورسٹی نے یہ بھی بتایا کہ ہاسٹل میں 7 ہزار 800 طلبا رہتے ہیں اور سیکیورٹی افسر اعجاز حسین شاہ نے بیان دیا ہے کہ ساڑھے 5 ہزار وڈیوز ہیں، سابقہ وی سی بیرون ملک جارہا تھا، سابقہ وی سی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کا کہا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ یہ صرف ایک یونیورسٹی کی کہانی نہیں ہے۔
مہرتاج روغانی نے کہا کہ سابق وی سی کو کمیٹی میں بلایا جائے۔ جام مہتاب نے کہا کہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کو خط لکھ رہے ہیں، چیف جسٹس واقعہ پر جوڈیشل کمیشن قائم کریں۔ اسلامیہ یونیورسٹی وڈیو اسکینڈل پر جماعت اسلامی کی جانب سے تحفظ تعلیم مارچ کا انعقاد کیا گیا، جس میں جماعت اسلامی نے یونیورسٹی گیٹ کے سامنے احتجاجی پنڈال لگایا۔ جس میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق اور دیگر قیادت نے حکومتی اداروں سے یونیورسٹی اسکینڈل کے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
اسلامیہ یونیورسٹی میں اتنا بڑا واقعہ رونما ہوا، مگر زمہ داروں، خصوصاً وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کے خلاف انتہائی شرم ناک طور پر کسی قسم کی سنجیدہ کارروائی سامنے نہ آئی، شاید اسی لئے وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب کے خلاف تھانہ سٹی میں ایک شہری کی جانب سے مقدمہ کے اندراج کیلئے درخواست دی گئی۔ درخواست میں کہا گیا کہ یونیورسٹی وائس چانسلر کی بطور سربراہ ادارہ ذمہ داری تھی کہ وہ سامنے آنے والے واقعات کو روکتے۔ شہری نے درخواست میں مزید کہا کہ اسلامیہ یونیورسٹی جیسے ایک مقدس ادارے میں اس طرح کی حرکات سے بدنامی ہوئی، لہٰذا وی سی ڈاکٹر اطہر محبوب کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔
25 جولائی کو وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ڈاکٹر اطہر محبوب نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل پریس کانفرنس کرتے ہوئے جامعہ سے متعلق وڈیوز کو پروپیگنڈا قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملازمین کو ہنی ٹریپ کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ احتساب کیلئے خود کو ہر فورم پر پیش کرتا ہوں، اگر ایسی کوئی شکایت تھی بھی تو ہمیں بھی اعتماد میں لیا جاتا۔ جامعہ کسی بھی ملوث کردار کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔ حیرت انگیز طور پر وی سی کا کہنا تھا کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کا معاملہ مفروضے پر مبنی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ساتھ ہی پولیس پر الزامات عائد کرتے ہوئے وائس چانسلر کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے کچھ طالبات اور اسٹاف سے پیسے لینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر وائس چانسلر نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ شفاف ٹرائل کا حق سب کو ہے، جامعہ کے خلاف دو ٹرائلز شروع کئے گئے، ہم ثبوت اعلیٰ حکام کو پیش کریں گے، جامعہ کے 2 ملازمین کو ہنی ٹریپ کیا گیا۔
دوسری طرف اسلامیہ یونیورسٹی کی ایک اور غیر اخلاقی وڈیو بھی کچھ روز قبل سامنے آئی تھی۔ وڈیو میں یونیورسٹی کی بس کے ہیلپر کو چلتی بس میں طالبہ کے ساتھ غیر اخلاقی طور پر کھڑے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بہاولپور پولیس نے اسلامیہ یونیورسٹی کے 3 افسران کو منشیات کیس میں گرفتار کیا تھا، ان افسران سے کرسٹل آئس، موبائل فونز سے یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبات کی نازیبا وڈیوز، تصاویر اور جنسی ادویات برآمد ہوئی تھیں۔
پولیس تھانہ بغداد الجدید نے جامعہ کے ڈائریکٹر فنانس ابوبکر، چیف سیکیورٹی افسر میجر اعجاز حسین شاہ اور ٹرانسپورٹ انچارج محمد الطاف سے باقاعدہ منشیات (کرسٹل آئس) برآمد کرکے ملزمان کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد نازیبا وڈیوز بھی سامنے آئی تھیں، مگر سابق وائس چانسلر اطہر محبوب اتنے ٹھوس شواہد کے باوجود نہایت دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے انتہائی گھناو¿نے معاملے کو صرف منشیات برآمدگی کا تاثر دینے کی کوشش کرتے رہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں پیش آنے والے تمام غیر اخلاقی واقعات اور منشیات وغیرہ کے استعمال کی ساری زمہ داری سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اطہر محبوب پر عائد ہوتی ہے۔ وائس چانسلر جامعہ کا باپ ہوتا ہے، درس گاہ میں زیر تعلیم ہر طالب علم و طالبہ اس کے بچوں کی طرح ہوتے ہیں، ان کی عزت و ناموس کی حفاظت وائس چانسلر کی ہی بنیادی زمہ داری ہے، جس سے اطہر محبوب نے روگردانی کر کے ناقابل معافی جرم کا ارتکاب کیا ہے، لہذٰا عدالت عظمیٰ اس گھناو¿نے واقعے کا پوری سنجیدگی سے نوٹس لیتے ہوئے وائس چانسلر سمیت تمام زمہ داروں کو کسی بھی قسم کی رورعایت کے بغیر کیفرِ کردار تک پہنچائے، تب ہی پاکستان بھر کے تمام والدین کی باالعموم اور بہاولپور یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبات کے والدین کی باالخصوص تسلی و تشفی ہو گی اور عدلیہ کا وقار بھی بلند ہو گا۔