بھارتی ریاست منی پور میں نسلی فسادات

ریاست میں ڈھائی ماہ سے جاری نسلی فسادات کے دوران ایک ہجوم کے سامنے دو خواتین کے کپڑے اتارنے اور ان پر جنسی تشدد کی ایک ویڈیو حال ہی میں منظر عام پر آئی جس نے انڈیا کے سیاسی و سماجی حلقوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔
منی پور کی پولیس نے ویڈیو کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ یہ واقعہ چار مئی کو ضلع تھوبل میں پیش آیا تھا جس پر نامعلوم افراد کے خلاف اغوا، گینگ ریپ اور قتل کا مقدمہ درج کیا گیا‘۔
ویڈیو سامنے آنے تک اس سلسلے میں پولیس نے ملزمان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی تھی لیکن اب حکام کا کہنا ہے کہ چار افراد کو اس سلسلے میں گرفتار کیا گیا ہے۔
انڈیا کی شمال مشرقی ریاست میں تین مئی سے کوکی اور میتی برادریوں کے درمیان نسلی تنازعہ جاری ہے۔ ان میں سے کوکی طبقہ زیادہ تر عیسائی ہے اور پہاڑی علاقوں میں رہتا ہے، جب کہ میتی زیادہ تر ہندو ہیں۔
پ±رتشدد واقعات میں اب تک 142 افراد مارے گئے ہیں جبکہ 60 ہزار شہری بے گھر ہوئے ہیں۔ ریاستی حکومت کے اب تک آتشزنی کے 5000 واقعات ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں منی پور کی حکومت نے بتایا کہ پ±رتشدد واقعات پر 5995 مقدمات درج کیے گئے ہیں اور6745 افراد کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
خواتین کی برہنہ پریڈ کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد ہفتوں تک کوئی مناسب قدم نہ اٹھانے پر غم و غصے کے بعد ریاست کے وزیر اعلیٰ نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مجرموں کے لیے سزائے موت کا مطالبہ کریں گے۔
انھوں نے کہا، ‘ویڈیو دیکھنے کے بعد ہم نے اس گھناو¿نے جرم کی مذمت کرنے کا فیصلہ کیا اور ہم اسے انسانیت کے خلاف جرم قرار دیتے ہیں… مزید تفتیش جاری ہے اور جو لوگ ملوث ہیں انہیں بھی گرفتار کیا جائے گا اور ملک کے قانون کے مطابق مقدمہ درج کیا جائے گا’۔
اپوزیشن نے اس معاملے پر وزیراعلیٰ کے استعفے کا مطالبہ بھی کیا ہے جبکہ حکومت نے ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اس ویڈیو کو حذف کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
جمعرات کو اس معاملے کے مرکزی ہیرم ہیروداس میتی کے مکان کو بھی نذر آتش کر دیا گیا اور یہ حرکت ان کی اپنی برادری میتی کی خواتین کی سب سے مضبوط تنظیم میرا پیبی کے کارکنوں نے کی۔
ہیرم ہیروداس کو جمعرات صبح حراست میں لیا گیا تھا اور مذکورہ ویڈیو میں انھیں متاثرہ خواتین کو پکڑے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
ان کی گرفتاری کے بعد ان کے آبائی گاو¿ں کے رہائشیوں نے ہیرم کے خاندان کو علاقہ بدر کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔
پولس نے جمعرات کو ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص کو بھی گرفتار کیا ہے۔
واقعے کی ایف آئی آر میں کیا درج ہے؟
ان خواتین نے پولیس کو دیے بیان میں کہا کہ ویڈیو میں صرف دو خواتین نظر آ رہی ہیں جبکہ وہاں موجود جتھے نے 50 سال کی خاتون کے بھی کپڑے اتارے تھے۔
ایف آئی آر میں درج ہے کہ ایک نوجوان خاتون کو دن کی روشنی میں گینگ ریپ کیا گیا۔
متاثرین نے کہا کہ تین مئی کو تھوبل میں ان کے گاو¿ں میں جدید ہتھیاروں سے لیس 800 سے 1000 افراد نے حملہ کیا جو وہاں گولیاں برسانے اور لوٹ مار کرنے لگے۔
ان حالات میں ایک نوجوان اور دو معمر خواتین اپنے والد اور بھائی کے ہمراہ جنگل کی طرف بھاگیں۔
شکایت کے مطابق پولیس نے انھیں بچا لیا۔ جب پولیس انھیں تھانے لے جا رہی تھی تو تھانے سے دو کلو میٹر دور جتھے نے ان خواتین کو اغوا کیا اور کپڑے اتارنے پر مجبور کیا۔
ایف آئی آر کے مطابق مظاہرین نے ان خواتین کو پولیس کی تحویل سے لیا جس کے بعد نوجوان خاتون کے والد کو موقع پر قتل کر دیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق ایک جتھے نے تین خواتین کو مظاہرین کے سامنے بغیر کپڑوں کے چلنے پر مجبور کیا جبکہ نوجوان خاتون کو ہجوم کے سامنے گینگ ریپ کیا گیا۔ ان کے بھائی نے انھیں جتھے سے بچانے کی کوشش کی مگر اسے بھی قتل کر دیا گیا۔
علاقے کے قبائلی رہنماو¿ں کے گروہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مجرموں نے متاثرین کی نشاندہی کروانے کے لیے ویڈیو جاری کی تاکہ ان پر مزید دباو¿ ڈالا جائے۔
ریاست میں خواتین کے حقوق کی ایک تنظیم نے اس واقعے پر احتجاجی مظاہرے کی کال دی ہے مگر حکومت نے ریاست کے پانچ اضلاع میں غیر معینہ کرفیو نافذ کر دیا ہے۔
اخبار دی ہندو کے مطابق منی پور کے حالات کو دیکھتے ہوئے سنٹرل ریزوو پولیس فورس نے ناگالینڈ اور آسام سے دو پولیس افسران کو منی پور تعینات کر دیا ہے۔ اس وقت منی پور میں مرکز سے مسلح افواج کی 124 کمپنیاں اور فوج کے 184 دستے تعینات ہیں۔
ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم نریندر مودی پر مسلسل اس بارے میں بات نہ کرنے پر تنقید کی گئی۔
کانگریس رہنما پریانکا گاندھی نے ایک بیان میں کہا کہ ’ہم سب یک زباں ہو کر تشدد کی مذمت کرتے ہیں اور منی پور میں امن قائم کرنے کی کوششوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔ مرکزی حکومت، وزیر اعظم منی پور میں پ±رتشدد واقعات پر آنکھیں بند کیوں کیے ہوئے ہیں؟ کیا یہ مناظر اور پ±رتشدد واقعات انھیں پریشان نہیں کرتے؟‘
منی پور، خواتین، احتجاج
جبکہ راہل گاندھی نے ٹویٹ کیا کہ ’وزیر اعظم مودی کی خاموشی نے منی پور کو فسادات کی طرف دھکیل دیا۔ منی پور حملوں کی زد میں ہے مگر انڈیا خاموش نہیں رہے گا۔ ہم منی پور کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور واحد راستہ امن ہے۔‘
دوسری طرف عام آدمی پارٹی کے سربراہ اروند کیجریوال نے کہا کہ یہ واقعہ شرمناک اور قابل مذمت ہے۔ ’انڈیا کے سماج میں ایسے جرائم کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ منی پور کی صورتحال پریشان کن ہوتی جا رہی ہے۔‘
’میں وزیر اعظم سے اپیل کرتا ہوں کہ منی کے حالات پر توجہ دیں۔ ویڈیو میں مجرمان کی نشاندہی کر کے ان کے خلاف سخت اقدامات کریں۔ انڈیا میں ایسے مجرمان کے لیے کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔‘
اس تنقید کے بعد وزیراعظم نے ایک بیان میں ریاست میں جنسی مظالم سے جڑے واقعات کی مذمت کی اور کہا کہ ‘منی پور کی بیٹیوں کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے اسے کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا، قصورواروں کو بخشا نہیں جائے گا۔’
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے بھی تشدد پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے کہا، ‘کل شیئر کی گئی ویڈیوز سے ہم بہت پریشان ہیں۔ ہم اپنی گہری تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ حکومت قدم اٹھائے اور کارروائی کرے۔ یہ ناقابل قبول ہے۔’

منی پور میں نسلی فسادات: یورپی پارلیمان میں قراردار منظور ہونے پر انڈیا ناراض
انڈیا کی ریاست منی پور میں دو مہینے سے جاری خونریز نسلی فسادات کے خلاف یورپی یونین کی پارلیمان میں جمعرات کے روز قرارداد منظور کر لی گئی ہے۔
اس قرارداد میں منی پور کے فسادات کی صورتحال پر تسویش ظاہر کی گئی اور انڈیا پر زور دیا گیا کہ وہ ریاست کی مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے۔
انڈیا نے اس قرارداد کو ناقابل قبول کہہ کر مسترد کر دیا ہے۔ انڈیا نے اعتراض کیا ہے کہ یہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کے مترادف ہے۔
انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا ہے کہ عدلیہ سمیت انڈین انتظامیہ منی پور کی صورتحال سے واقف ہے اور وہاں امن و امان بحال کرنے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھا رہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ انڈیا کے معاملات میں اس طرح کی مداخلت سامراجی ذہنیت کی عکاس ہے۔
واضح رہے کہ یہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی فرانس کے دو روزہ دورے پر اس وقت پیرس میں موجود ہیں۔
فرانس کے سٹراس برگ شہر میں یورپی پارلیمنٹ کے رواں اجلاس میں چھ سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کے ارکان نے بدھ کے روز الگ الگ قراردادیں پیش کی تھیں۔
ان میں انڈیا کی ریاست منی پور میں حقوق انسانی کی پامالیوں، جمہوریت، مذہبی تفریق اور قانون کی حکمرانی کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
ان قراردادوں میں انڈین حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ منی پور میں جاری نسلی فسادات پر فوراً قابو پائے اور نسلی و مذہبی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرے۔
سوشلسٹ اینڈ ڈیموکریٹس گروپ کی قرارداد میں کہا گیا کہ ’انسانی حقوق کی تنظیموں نے منی پور اور مرکز کی بی جے پی کی حکوت پر الزام عائد کیا کہ وہ ایسی نسل پرستی پرمبنی قوم پرست پالیسیاں نافذ کر رہی ہیں جن کے تحت مذہبی اقلیتوں کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔‘
اس میں ’انڈیا میں سول سوسائٹی، جائز حقوق کی مانگ کرنے والوں کو ہراساں کیے جانے اورمخالفت کو دبانے کے لیے قانون کے بے جا استعمال‘ پر تشویش ظاہر کی گئی۔
یورپین پیپلز پارٹی نے اپنی قرارداد میں ’منی پور میں مسیحیوں پر حملے‘ کا سوال اٹھایا جبکہ اعتدال پسند رینیو گروپ نے ’حکومت کی ہندو نوازاورشدت پسندی کوفرو?غ دینے والی سیاسی محرکات پر مبنی پھوٹ ڈالنے والی پالیسیوں پر‘ تشویش ظاہر کی۔
یورپین کنزرویٹیو اور ریفارمز گروپ کی قراداد میں کہا گیا کہ’حالیہ برسوں میں انڈیا میں مذہبی آزادی متاثر ہوئی ہے۔ ملک میں ایسی پالیسیاں اور تفریق پرمبنی قوانین اختیار کیے جا رہے ہیں جن سے ملک کی مسیحی، مسلم، سکھ اقلیتوں اور ق?بائلی آبا دی پرمنفی اثر پڑ رہا ہے۔‘
انڈیا نے ان قراردادوں کو روکنے کی کوشش بھی کی تھی۔
انڈیا کے خارجہ سکریٹری ونے کواترا نے ایک نیوز کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں کہا ’منی پور کا سوال انڈیا کا اندرونی معاملہ ہے۔ ہم نے یورپی پارلیمنٹ کے متعلقہ ارکان سے رجوع کیا تھا اور انھیں یہ قراردادیں نہ پیش کرنے کے بارے میں باور کرانے کی کوشش کی تھی۔‘
اس طرح کی بھی خبریں آئی تھیں کہ انڈیا کی وزارت خارجہ نے قراردادیں رکوانے کے لیے ایلبر اینڈ گائجرنام کی ایک سیاسی لابی کی خدمات حاصل کی تھی لیکن اس بارے میں پوچھے جانے پر خارجہ سکریٹری نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔
منی پور میں گذشتہ دو مہینے سے ریاست کے دو نسلی گروہوں، میتی اور کوکی کے درمیان خونریز فسادات ہو رہے ہیں۔ میتی قبائل کا تعلق اکثریتی ہندو برادری سے ہے اور بیشتر کوکی مسیحی ہیں۔ فسادات میں اب تک تقریباً 150 افراد مارے جا چکے ہیں جن کی اکثریت کوکی سے تعلق رکھتے ہیں۔
ان فسادات میں ہزاروں گھر اور دکانیں بھی جلائی گئی ہیں۔ تقریباً 60 ہزار افراد نے محفوظ مقامات پر پناہ لے رکھی ہے۔ کوکی نسل کے لوگ میزورم اور برما میں بھی آباد ہیں۔ میتی ہندو انھیں غیرملکی تصور کرتے ہیں۔
تعلیم کے سبب کوکی نسل کے لوگ ریاست کی انتظامیہ میں دوسری برادریوں سے آگے ہیں۔ یہ فسادات ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ منی پور سے تشدد کی خبریں اب بھی آ رہی ہیں۔ اس ریاست میں بی جے پی کی حکومت ہے۔
کچھ دنوں قبل انڈیا میں امریکہ کے سفیر ایریک گارسیتی نے بھی منی پور کی صورتحال پر تشویش ظاہر کی تھی اور کہا تھا کہ امریکہ وہاں کی صورتحال پر قابو پانے کے لیے انڈیا کی مدد کرنے کے تیار ہیں۔
تاہم بعد میں انڈین وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ایک نیوز کانفرنس میں جب یہ کہا کہ غیر ممالک کے سفیر عموماً انڈیا کے اندورنی معامالات پر تبصرہ نہیں کرتے تو گارسیتی نے وضاحت کرتے ہوئے بیان دیا تھا کہ منی پور کے بارے میں امریکہ کی تشویش کی نوعیت انسانی ہمدردی کی ہے۔
یورپی پارلیمنٹ میں منی پور پر قرارداد کا فوری نتیجہ یہ ہو سکتا ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ ساتھ یورپی حکومتوں پر دباو¿ بڑھے گا کہ انڈیا کی حکومت سے بات کریں۔
حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیمیں، اقوام متحدہ اور مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والے امریکی حکومت کے ادارے انڈیا میں جمہوریت، انسانی حقوق اور مذہبی اقلیتوں کے سوال پر مودی حکوت پر تنقید کرتی رہی ہیں۔
مودی حکومت اگرچہ ان نکتہ چینیوں کو یکسر مسترد کرتی رہی ہے لیکن وہ غیر ممالک بالخصوص امریکہ اور یورپ میں اپنی شبیہ کے سوال پر انتہائی حساس ہے۔
مودی حکومت نے دوسرے ممالک سے اپنے تعلقات مضبوط کرنے اور عالمی سطح پر انڈیا کو ایک بڑی اقتصادی طاقت کے طورپر پیش کرنے کے عمل میں غیر معمولی کوششیں کی ہیں لیکن انسانی حقوق کی صورتحال اورمذہبی آزادی اور جمہوریت کے بارے میں وقتاً فوقتاً اٹھنے والے سوالات سے حکومت کی یہ کوششیں یقیناً متاثر ہوتی ہیں۔