فضائی آلودگی سالانہ ہزاروں اموات کا خدشہ فضائی آلودگی ایک عالمی خطرہ ہے۔

کامران سرور
صاف پانی اور ہوا انسانی صحت کےلیے بے حد ضروری ہے اور یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہمارا ماحول صاف ستھرا اور ہرا بھرا ہوگا۔ افسوس دنیا بھر میں ماحولیاتی آلودگی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک کے دیگر بڑے شہروں کی طرح پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور معاشی ہب کراچی میں بھی فضائی آلودگی کے اثرات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ فضائی آلودگی کے معاملے میں کراچی اور لاہور کا شمار دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں ہوتا ہے۔
ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ فضائی آلودگی ایک عالمی خطرہ ہے اور اس کے اثرات انسانی صحت، موسمیاتی تبدیلیوں اور ماحولیاتی نظام پر ہوتے ہیں۔ فضائی آلودگی میں مضر صحت گیس اور کیمیائی مادوں کے ننھے منے ذرات شامل ہیں جو صرف خوردبین سے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ انہی میں ایک قسم کے ذرات بھی شامل ہیں جنہیں پارٹیکولیٹ میٹر(پی ایم) کہا جاتا ہے۔ پی ایم 2.5 کے ذرات بالخصوص صحت کےلیے بہت تباہ کن ہوتے ہیں، جو عام طور پر ٹریفک کے دھوئیں میں پائے جاتے ہیں اور دیگر آلودگیوں میں بھی موجود ہوسکتے ہیں۔
صنعتی پھیلاو¿، شہر کی غیر منظم آباد کاری اور آبادی میں تیزی سے اضافے کے علاوہ ٹرانسپورٹ سے بڑی مقدار میں پیدا ہونے والی آلودگی کے باعث کراچی میں ہوا کا معیار انتہائی خراب ہوچکا ہے، جس کے باعث فضائی آلودگی سے متاثر ہونے والے مریضوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ فضا میں شامل زہریلی گیس اور ذرات ناک، منہ اور کان کے ذریعے خون کی روانی میں شامل ہوکر انسان کو مختلف بیماریوں کا نشانہ بناتے ہیں، جن میں سانس کی بیماریاں جیسے دمہ، پھیپھڑوں کے امراض، فالج، امراض قلب اور کینسر وغیرہ سرفہرست ہیں۔
سائنسدان مختلف ادوار میں اپنی تحقیق سے یہ ثابت کرچکے ہیں کہ فضائی آلودگی نہ صرف پودوں اور جانوروں کی بقا کےلیے خطرناک ہے بلکہ انسانی صحت بھی اس سے بری طرح متاثر ہوتی ہے، لیکن افسوس ہم اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے۔
کئی سائنسی شواہد سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پی ایم 2.5 ذرات صحت کےلیے انتہائی مضر ہوتے ہیں۔ یعنی آلودگی کے ایسے ذرات جن کی جسامت بہت ہی باریک یا ڈھائی مائیکرون کے برابر ہوتی ہے، ایک مائیکرون کا مطلب ایک میٹر کا دس لاکھواں حصہ ہوتا ہے۔
امریکی نیشنل ہیلتھ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک تحقیق میں کہا ہے کہ اگر آپ سیاہ (بلیک) کاربن سے آلودہ ماحول میں چند ماہ سے کئی سال تک رہیں تو اس سے طبعی عمر سے قبل اموات کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ یہ ذرات بالخصوص ایندھن سے جلنے والی کالک میں پائے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ لکڑی اور کوئلے کے جلنے سے بھی یہ ذرات پیدا ہوتے ہیں۔
ریاست کیلیفورنیا کے محکمہ ماحولیات نے اپنی ویب سائٹ پر حوالہ دے کر کہا ہے کہ مختصر مدت تک بھی اس آلودگی میں رہنے سے موت ہوسکتی ہے۔ اسی ویب سائٹ پر لکھا ہے کہ یہ ذرات سانس، دمہ، پھیپھڑوں اور قلب کے کئی مرض پیدا کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ امریکا میں ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی نے بھی اپنی ویب سائٹ پر ہارٹ اٹیک، دل کی دھڑکن کا بے ترتیب ہونا، اور سانس کے امراض پر زور دے کر کہا ہے کہ یہ پی ایم 2.5 ذرات سے جنم لیتے ہیں۔
کراچی میں کی گئی تحقیق
آغا خان یونیورسٹی میں شعبہ ماحولیات اور کمیونٹی ہیلتھ سے وابستہ پروفیسر ڈاکٹر ظفر فاطمی کی ٹیم کی جانب سے اکتوبر 2009 سے دسمبر 2010 کے دوران کی جانے والی تحقیق کے مطابق کراچی کی ہوا کا معیار انتہائی ناقص ہے اور یہ انسانی صحت کےلیے خطرناک ہے۔ انہوں نے سینسر کے جمع شدہ ڈیٹا کی مدد سے بتایا کہ کراچی کی فضا میں سلفر، زنک، کاربن، سیسہ، کرومیئم اور لوہے کے باریک ذرات بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ یہ تحقیق سائنس آف ٹوٹل انوائرنمنٹ میں 10 اپریل 2023 میں شائع ہوئی ہے۔
تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ کراچی جو آبادی کے لحاظ سے کئی ممالک سے بڑا شہر ہے لیکن اس کی فضائی آلودگی کو بہت نوٹ کم کیا گیا اور شہر کی فضائی آلودگی میں صرف کیمیائی ذرات ہی موجود نہیں بلکہ بھاری دھاتوں کی موجودگی بھی پائی گئی ہے، جن میں سیسہ سرِفہرست ہے۔ جب کہ کراچی کی فضا میں پی ایم 2.5 اور کچھ دیگر دھاتیں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے مخصوص کی گئی محفوظ حد سے بھی کئی گنا زیادہ ہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر ظفر فاطمی نے بتایا کہ ہمارے پاس یہ اسٹڈی تو موجود ہے کہ فضائی آلودگی سے دل کے امراض یا سانس کی مختلف بیماریاں ہوتی ہیں لیکن بدقسمتی سے اس حوالے سے طول البلد مطالعہ (طویل مدتی اسٹڈی) کراچی تو کیا پاکستان بلکہ اس پورے خطے میں اس طرح کی کوئی اسٹڈی نہیں ہے جس سے ہمیں فضائی آلودگی کی وجہ سے موت کا باعث بننے والی بیماریوں کا پتہ چل سکے۔ انہوں نے کہا کہ ایسی صورت میں ہم چین جیسے قریبی ممالک کی اسٹڈی کا ماڈل استعمال کرتے ہوئے اپنی آبادی کے لحاظ سے شرح اموات کا تناسب نکالتے ہیں، یہاں تک کہ عالمی ادارہ صحت بھی پاکستان میں فضائی اموات کےلیے یہی کرتا ہے۔
سائنس آف ٹوٹل انوائرنمنٹ میں چھپنے والی تحقیق کے مطابق کراچی میں فضائی آلودگی کی سب سے بڑی ذمے داری ٹرانسپورٹ پر عائد ہوتی ہے جس میں ٹرک سے لے کر موٹرسائیکل تک سب شامل ہیں، جن کا آلودگی میں حصہ 59 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں سے نکلنے والا دھواں 39 فیصد ہے، جب کہ پاور پلانٹس سمیت مختلف مقامات پر جلنے والے تیل کا کردار 23.3 فیصد ہے۔
ڈاکٹر ظفر کی تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ شماریاتی ماڈل کے تحت میکرو کے مقام اور اطراف میں فضائی آلودگی سے اوسط سالانہ اموات 3592 اور جامعہ کراچی کے نواح میں شاید 1971 افراد قبل ازوقت طبعی موت کے شکار ہوسکتے ہیں یا ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر ظفر کی تحقیق دو مختلف اضلاع میں کی گئی، جس میں سالانہ اموات تقریباً ساڑھے 5 ہزار کے قریب ہیں اور اس اعداد وشمار کو شہر کے باقی اضلاع میں ضرب دیں تو کراچی میں سالانہ اموات لگ بھگ 20 ہزار کے قریب ہوسکتی ہیں، تاہم یہ ایک اندازہ ہی ہے۔
کراچی کے آلودہ ترین مقام سے متعلق پوچھے گئے سوال پر ڈاکٹر ظفر فاطمی نے بتایا کہ کراچی میں ایم اے جناح روڈ، خاص طور پر تبت سینٹر اور کورنگی انڈسٹریل ایریا شہر کے آلودہ ترین مقامات ہیں۔
ماہر ماحولیات یاسر حسین نے بتایا کہ ہم نے ایک اسٹڈی کروائی ہے جس کے مطابق کراچی میں سب سے زیادہ 60 فیصد آلودگی گاڑیوں میں جلنے والے پٹرول اور ڈیزل کے دھویں سے نکلنے والی گیس اور ذرات (پی ایم 2.5) کی وجہ سے ہوتی ہے، جب کہ لاہور میں یہ شرح 80 فیصد ہے۔ یاسر حسین کے مطابق کراچی میں سردیوں کے موسم خاص طور پر دسمبر سے فروری تک فضا زیادہ آلودہ ہوتی ہے لیکن گرمیوں میں تھوڑی کم ہوجاتی ہے، جس کی اصل وجہ یہاں پر سمندری ہواو¿ں کا چلنا ہے کیوں کہ سمندری ہوا، خراب ہوا کو دھکیل دیتی ہے۔
آلودگی کے اثرات، ایک سے دوسری نسل تک
یاسر حسین نے اپنی ایک نشست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹرز کے مطابق ایئر کوالٹی سے ڈی این اے میں بھی تبدیلی آجاتی ہے اور پی ایم 2.5 کے ذرات آپ کے دماغ پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جو نہ صرف آپ کی یادداشت کو کمزور کرسکتے ہیں بلکہ آپ کو دماغی امراض میں بھی مبتلا کرسکتے ہیں۔ بیرونی عوامل سے ڈی این اے میں تبدیلی کو ’ایپی جینیٹکس‘ کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے پلمونالوجسٹ (پھیپھڑوں کے ماہر امراض) ڈاکٹر صبیحہ خان نے بتایا کہ ڈی این اے میں براہ راست تو تبدیلی نہیں آسکتی لیکن اس میں اس حد تک تبدیلی واقع ہوسکتی ہے کہ وہ آپ کی اگلی نسل میں منتقل ہوجائے، جس کے نتیجے میں وہ مختلف بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ فضائی آلودگی کے نتیجے میں کچھ ذرات خون میں شامل ہوکر دماغ کے ساتھ اعصاب پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور اگر اس کی مقدار بہت بڑھ جائے تو یہ آپ کے بون میرو پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔
فضائی آلودگی سینسر میں سرکاری عدم دلچسپی
کراچی میں آلودگی کی پیمائش کرنے والے کئی سینسر لگانے والے یاسرحسین نے بتایا کہ ہم نے کراچی میں فضائی آلودگی اور متاثرہ ہوا ناپنے والے 25 سے 30 سینسر لگائے ہوئے ہیں اور ان میں سے ایک سینسر بھی حکومت نے نہیں لگایا۔
رائٹ ٹو انفارمیشن کے تحت سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کو لکھے گئے سوال کے جواب میں ادارے نے بتایا کہ حکومت نے شہر میں کوئی سینسر نہیں لگایا کیوں کہ ہمارے پاس بجٹ نہیں اور نہ ہی آج کے دور میں ان سینسرز کی کوئی ضرورت ہے، شہر بھر کا سیٹلائٹ ڈیٹا موجود ہے جسے کوئی بھی شہری آئی کیو ایئر کی ویب سائٹ سے حاصل کرسکتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں کہا گیا کہ پرائیوٹ سیکٹرز کی جانب سے لگائے گئے سینسرز کا ڈیٹا ہمارے پاس موجود نہیں اور نہ ہی شہر میں لگائے گئے درختوں کا ڈیٹا ہمارے پاس موجود ہے، جب کہ ماحولیاتی کیفیت پر سندھ حکومت کی سالانہ رپورٹ بھی دستیاب نہیں۔
اس حوالے سے یاسر حسین نے بتایا کہ سیپا والے اپنا کام نہ کرنے اور جان چھڑانے کےلیے یہ کہہ رہے ہیں کہ سیٹلائٹ ڈیٹا موجود ہے، اس لیے ہمیں سینسر لگانے کی ضرورت نہیں، دراصل یہ کام ہی نہیں کرنا چاہتے، حالانکہ یہ ان کے فرائض میں شامل ہے کہ یہ خود مانیٹرنگ کریں اور شہر بھر میں ایئر کوالٹی کی ریڈنگ لیں۔ اس کےلیے اتنے بڑے بجٹ کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ اب تو سستے ایئر کوالٹی سنسر موجود ہیں جو شہریوں کو آگاہی فراہم کرسکتے ہیں۔ کراچی میں کم سے کم 500 سینرز لگانے کی ضرورت ہے لیکن سیپا والے کہتے ہیں کہ یہ درست ریڈنگ نہیں لیتا۔ حالانکہ اس میں سچائی نہیں اور شاید وہ مہنگے سینسر خریدنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی میں بھی فضائی آلودگی کو ملک کےلیے خطرہ قرار دیا گیا ہے جس کے مطابق زراعت، ٹرانسپورٹ اور صنعت سے بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے نتیجے میں نہ صرف ایوی ایشن کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ یہ انسانی صحت پر بھی اثرانداز ہورہا ہے، جو مختلف بیماریوں کی وجہ سے اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔
جامعہ کراچی میں ماحولیات کے ریٹائرڈ پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال شمس نے اپنی ایک تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ عالمی ادارہ برائے صحت نے سال 2021 میں جنوب مشرقی ایشیا اور مغربی اوقیانوس کے ممالک کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں ہر سال تقریباً 22 ہزار بالغ افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے قبل ازوقت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جس کی مرکزی وجہ بیرونی آلودہ فضا ہے۔ ان اموات کی وجوہ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ظفر اقبال نے بتایا کہ گاڑیوں اور فیکٹریوں میں استعمال ہونے والے تیل میں سلفر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، اگر ہماری فیکٹریاں اور آئل ریفائنریز زیرو سلفر فیول استعمال کرنا شروع کردیں تو امیشن کنٹرول ڈیوائس (آلودگی کے اخراج کو کنٹرول کرنے والے آلات) کے ذریعے ہم فضا میں موجود ان گیسوں کو کنٹرول کرسکتے ہیں لیکن اس کےلیے حکومت تعاون نہیں کرتی۔ آئل ریفائنریز والوں نے حکومت سے ایک ارب ڈالر مانگے تھے کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ لو سلفر یا زیرو سلفر فیول بنانے کےلیے ہمیں اپنا سارا نظام تبدیل کرنا ہوگا اور نئی مشینری لانی ہوگی۔
صحافی عافیہ سلام کا کہنا تھا کہ اسپتالوں اور دیگر ریسرچ اداروں کو تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ کس عمر کے لوگ فضائی آلودگی سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں جیسے لاہور میں زیادہ تر بچے یا پھر دمہ کے مرض میں مبتلا افراد فضائی آلودگی کا شکار بنتے ہیں۔
سیپا کے عہدیدار سے جب ماحولیاتی کیفیت سے متعلق سالانہ رپورٹ کے بارے پوچھا گیا تو انہوں نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور اس حوالے سے ادارے کی ویب سائٹ پر بھی کوئی مواد موجود نہیں۔
فضائی آلودگی کا تجزیہ بذریعہ سیٹلائٹ
1963 میں سوئٹزرلینڈ سے آغاز کرنے والی کمپنی آئی کیو ایئر (IQAir) دنیا بھر کے شہروں میں فضائی آلودگیاں جانچتی ہے اور یہ ڈیٹا ان کی ویب سائٹ پر موجود ہوتا ہے جو دنیا بھر میں قابل اعتماد سمجھا جاتا ہے۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق کاربن مونو آکسائیڈ، سیسہ، نائٹروجن آکسائیڈز، اوزون، پارٹیکولیٹ میٹر، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور ہائیڈرو کاربنز فضا زیادہ آلودہ کرتے ہیں اور فضا میں ان ہی عناصر کی مقدار کو مدنظر رکھتے ہوئے آلودگی کی جانچ کی جاتی ہے۔
آئی کیو ایئر کی ویب سائٹ پر فضائی آلودگی کے کچھ پیمانے درج ہیں جس کے مطابق اگر فضا میں ان کی مقدار 0 سے 50 ہے تو وہ جگہ صاف ستھری یعنی عمدہ ہے۔ 51 سے 100 (درمیانی)، 101 سے 150 (حساس جانداروں کےلیے غیرصحت مند)، 151 – 200 (غیر صحت مند)، 201 سے 300 (زیادہ غیر صحت مند) اور 301 سے 500 (نقصان دہ) ہے۔
آئی کیو ایئر کی ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق 2017 سے 2022 تک آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں لاہور سب سے پہلے نمبر پر ہے۔ یہ فہرست تمام شہروں میں پی ایم 2.5 کے ذرات کی سالانہ اوسط کی بنیاد پر بنائی گئی ہے۔
اس کے علاوہ آئی کیو ایئر کی ویب سائٹ پر پاکستان کے بڑے شہروں کا براہ راست ڈیٹا بھی موجود ہوتا ہے۔
یاسر حسین نے بتایا کہ سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کے پاس بہت مہنگا سامان ہے جو 2008 سے ان کی چھت پر لگا ہوا ہے، اس کے علاوہ ان کے پاس موبائل گاڑیاں ہیں جو ایئر کوالٹی ریڈنگ لے سکتی تھیں لیکن اب وہ ناکارہ ہوچکی ہیں کیوں کہ ایک تو انہیں استعمال میں نہیں لیا گیا، دوسرا ان کی دیکھ بھال نہیں کی گئی۔ سپریم کورٹ کے واٹر کمیشن نے ڈی جی سیپا کو برطرف کرکے ایک بار چلایا تھا لیکن جب واٹر کمیشن ختم ہوا تو وہ بھی دوبارہ کبھی نہیں چلا۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ظفر فاطمی نے کہا کہ سیپا کو ایئرکوالٹی مانیٹرنگ کرنی چاہیے یا کروانی چاہیے لیکن وہ ایسا نہیں کرتے جب کہ انہیں جاپان کی جانب سے ایک ٹیکنالوجی دی گئی تھی لیکن اس کی مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت تھی جو وہ نہیں کرسکے اور اس حوالے سے وہ موقف اختیار کرتے ہیں کہ ہمارے پاس وسائل نہیں، اس کے علاوہ یہ آلات چلانے کی لاگت بھی نہیں ہے جب کہ ہمارے پاس ٹیکنیکل ٹیم بھی نہیں۔
سیپا کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ہمیں یہ ٹیکنالوجی ملی تھی جس کا ہم نے کچھ وقت کےلیے استعمال بھی کیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ پرانی ہوگئی اور اس میں اپ گریڈیشن کی ضرورت تھی جو ہم نہیں کرواسکے، کیوں کہ ہمیں بجٹ سمیت بہت سے مسائل کا سامنا تھا۔
فضائی آلودگی کا عالمی منظرنامہ
کینیڈا کی ایک ویب سائٹ سائنس ڈاٹ جی سی ڈاٹ سی اے پر 23 مارچ 2023 کو شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 90 لاکھ افراد ہر سال بیرونی فضائی آلودگی کی وجہ سے قبل از وقت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور یہ شرح پچھلی بار کے تخمینوں سے دو گنا زیادہ ہے جس کے بعد بیرونی فضائی آلودگی عالمی سطح پر قبل از وقت موت کی سب سے بڑی وجوہات میں شامل ہوگئی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی ویب سائٹ پر 28 نومبر 2022 کو چھپنے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ 2020 میں گھریلو فضائی آلودگی کے باعث 32 لاکھ اموات ہوئیں، جس میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی تعداد 2 لاکھ 37 ہزار تھی۔ اس کے علاوہ بیرونی اور گھریلو فضائی آلودگی کے مشترکہ اثرات کا جائزہ لیا جائے تو اس سے قبل از وقت موت کی سالانہ شرح 67 لاکھ سے زیادہ ہے تاہم اس رپورٹ میں کسی مخصوص ملک کا نہیں بتایا گیا البتہ ایک اور رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت نے چین اور بھارت فضائی آلودگی سے ہونے والی اموات میں سرفہرست ممالک قرار دیا ہے۔
گلوبل الائنس آن ہیلتھ اینڈ پلوشن کی جانب سے 2019 میں ایک تحقیق کی گئی تھی جس میں فضائی آلودگی کے باعث قبل از وقت اموات میں سرفہرست 10 ممالک کی لسٹ فراہم کی تھی، جس میں بھارت پہلے، چین دوسرے اور نائیجیریا تیسرے نمبر پر ہے، جب کہ پاکستان کا نمبر پانچواں ہے۔
گھریلو فضائی آلودگی اس ناقص ہوا کو کہتے ہیں جو ایک بند گھر میں لکڑی، کوئلے یا ناقص چولہے جلانے سے پیدا ہوتی ہے۔ اس صورت میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے علاوہ دیگر مضر گیسیں اور سیاہ کاربن کو شمار کیا جاتا ہے۔ تنگ گھروں میں بالخصوص خواتین کو مسلسل اس آلودگی کا سامنا ہوتا ہے۔ اسی بنا پر اسے اِن ڈور پلوشن یا گھر کے اندر کی آلودگی کہا جاتا ہے۔ اس حوالے سے صحافی عافیہ سلام نے بتایا کہ اگر کسی گھر کا کچن کھلی فضا میں نہیں تو دھواں خواتین کی آنکھوں اور پھیپڑوں میں جاتا ہے جس سے ان کی صحت متاثر ہوتی ہے، اس کےلیے کچھ اداروں نے ماحول دوست چولہے بنائے ہیں اور طریقے بھی بتائے ہیں کہ کچن کیسے ہونے چاہئیں اور چولہا کس جگہ رکھنا چاہیے۔ اگر یہ بنیادی تبدیلیاں نہیں ہوں گی تو خواتین ان مسائل کا شکار رہیں گی۔ اس کے علاوہ اگر بایو گیس کا استعمال کیا جائے تو اس سے نہ صرف کچن صاف رہیں گے بلکہ آلودگی بھی نہیں ہوگی اور ساتھ ہی خواتین کی صحت بھی متاثر نہیں ہوگی۔
طبی جریدے ’نیچر کمیونی کیشنز‘ میں 29 نومبر 2022 کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے 1998 سے 2016 تک پاکستان، بھارت سمیت دنیا کے137 ممالک میں بچوں کی اموات پر تحقیق کی جس کا نتیجہ انہوں نے یہ اخذ کیا کہ دنیا بھر میں سالانہ 10 لاکھ بچے ماں کے پیٹ میں یا پیدائش کے فوراً بعد انتقال کرجاتے ہیں۔
ڈان نیوز میں 7 دسمبر 2022 کو شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کو کم کرنے کےلیے کام کرنے والا ایک غیر سرکاری ادارہ ’فیئر فنانس پاکستان‘ کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ پاکستان میں فضائی آلودگی اور اس سے متعلقہ بیماریوں کے نتیجے میں ہر سال کم از کم ایک لاکھ 28 ہزار افراد کی ہلاکت ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صبیحہ خان نے کہا کہ اگر ہم 2023 کا ڈیٹا نکالیں تو اموات کی تعداد اس سے بہت زیادہ ہوگی کیوں کہ ہم نے دنیا کو تباہ کرنے کےلیے کوئی کام نہیں چھوڑا، ہم نے اپنی حرکتوں سے اوزون لیول کو کم کردیا ہے اور ہم مسلسل درخت کاٹ رہے ہیں اور ساتھ ہی پلاسٹک کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔ اگر ہم اپنی فضا کو آلودگی سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو ان بیماریوں سے دور رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سب روکنا ہوگا۔
سانحہ کیماڑی
جنوری میں کراچی کے علاقے کیماڑی کے علاقے علی محمد گوٹھ میں زہریلی گیس پھیلنے سے 19 لوگ موت کے منہ میں چلے گئے تھے، جن میں 10 بچے بھی شامل تھے۔ ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ رہائشی علاقے میں موجود کارخانوں سے مضر صحت دھواں تعفن اور خاک اڑنے سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے جو خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوئی۔
کیماڑی واقعے سے متعلق ڈاکٹر ظفر فاطمی نے کہا کہ اس پر میں نے خود تو کوئی تحقیق نہیں کی، چونکہ میں خود ایک ڈاکٹر ہوں تو جب ابتدائی رپورٹس میں یہ بتایا گیا کہ یہ اموات خسرہ پھیلنے سے ہوئی ہے تو میں نے اس سے اتفاق نہیں کیا، کیوں کہ خسرے کی وجہ سے چند دنوں میں ہی 19 اموات ہونا ممکن ہی نہیں لہٰذا یہ بات تو صاف تھی کہ یہ اموات فضائی آلودگی کی وجہ سے ہی ہوئیں لیکن وہ زہریلی وجہ کیا تھی اس پر گہری تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس کیس میں میڈیکل بورڈ کی سربراہی کرنے والی پولیس سرجن ڈاکٹر سمعیہ سعید سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ وہ رپورٹ ہائی کورٹ میں جمع کروادی گئی ہے اور مجھے اس رپورٹ کا مواد یاد نہیں کہ وہ کون سی گیس تھی اور کیا معاملہ تھا اور دوسری بات یہ ہے کہ وہ کیس اب بھی عدالت میں چل رہا ہے۔
فضائی آلودگی کا حل کیا ہے؟
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ فضائی آلودگی اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں کو کیسے کنٹرول کیا جائے، اس کےلیے کون کردار ادا کرے گا؟ اس سوال کے جواب میں پروفیسرشمس نے بتایا کہ اس کی ساری ذمے داری حکومت پر عائد ہوتی ہے کیوں کہ حکومت کا عمل دخل زیادہ ہوتا ہے اور وہ قانون کے مطابق بہت سی چیزوں پر عمل کرواسکتی ہے لیکن افسوس حکومت اس حوالے سے کوئی کام نہیں کررہی، البتہ بطور انسان ہمیں کچھ اہم کام کرنا ہوں گے جس میں اپنی گاڑیوں کی دیکھ بھال یعنی ٹیوننگ کرنا ہوگی تاکہ شہر میں دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کی تعداد کم سے کم ہو، جگہ جگہ کچرا پھینکنے اور اسے جلانے سے گریز کریں اور ٹریفک والے مقامات پر ماسک کا استعمال کریں۔
عافیہ سلام کا کہنا ہے کہ کراچی میں زیادہ تر کونوکارپس نامی درخت لگائے جارہے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں۔ کراچی میں بڑے پیمانے پر درخت لگانے کی ضرورت ہے لیکن اس کےلیے پہلے ہمیں ماہرین سے معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ کون سے درخت لگانے سے فضائی آلودگی کم ہوگی۔
یاسر حسین کا کہنا تھا کہ ہم نے شہر بھر میں ایک تجربہ کیا جس کے تحت ایک بائیک بنائی جس میں ایئرکوالٹی سینسر لگا ہوا تھا اور وہ جہاں بھی جاتی وہاں کا ڈیٹا بائیک میں موجود ڈیوائس میں آجاتا، اس کے ساتھ ہم نے کلر کوڈ بھی رکھا، اگر فضا بالکل صاف ہے تو وہ گرین ہوجائے گی جو ہمارے ہاں مون سون سیزن میں ہوتا ہے اور اگر بہت خراب ہے، خاص طور پر زیادہ ٹریفک والے مقامات پر تو وہ جامنی ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس پریکٹس کا مقصد لوگوں کو آگاہی فراہم کرنا تھا کیوں کہ حکومت اس حوالے سے کوئی کام نہیں کررہی اور پاکستان میں سالانہ سوا لاکھ اموات ہورہی ہیں۔ کراچی میں فضائی آلودگی کی وجہ سے انسان کی عمر 3 سال اور لاہور میں 7 سال کم ہوجاتی ہے۔ ایسے میں عوام کو ٹریفک والے مقامات سے دور رہنا چاہیے یا پھر ماسک کا استعمال کرنا چاہیے۔