پاکستان حکمرانوں و اشرافیہ کی جاگیر

موجودہ شہباز حکومت نے گزشتہ سال اپریل 2022 میں عنان حکومت سنبھالی اور ہر آنے والی حکومت کی طرح گزشتہ (یعنی نیازی) حکومت پر ہی سارا ملبہ ڈالتی رہی اور اس واویلا کی آڑ میں بڑی دیدہ دلیری سے ہر عوام دشمن فیصلہ کرتی رہی، جن میں لگ بھگ 77 بل اسمبلی میں پیش کرنا اور انہیں پاس کرنا بھی شامل ہے۔ ان ہی میں ایک آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل بھی ہے، جسے سینیٹ نے منظور کرلیا ہے۔ اس بل کے تحت فوج کو بدنام کرنے یا اس کے خلاف نفرت انگیزی پھیلانے پر 2 سال قید اور جرمانہ ہوگا، سرکاری حیثیت میں پاکستان کی سلامتی اور مفاد میں حاصل معلومات کا غیر مجاز انکشاف کرنے والے شخص کو 5 سال تک سخت قید کی سزا دی جائے گی‘آرمی چیف یا بااختیار افسر کی اجازت سے معلومات ظاہر کرنے والے شخص کو سزا نہیں ہوگی‘بل کے تحت کوئی بھی فوجی اہلکار ریٹائرمنٹ‘ استعفے اور برطرفی کے 2 سال بعد تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے گا‘حساس ڈیوٹی پر تعینات افسر 5 سال تک سیاسی سرگرمی میں حصہ نہیں لے سکے گا‘شق 176C میں ترمیم کے مطابق اب آرمی چیف، اپنے اختیارات اور ذمہ داریاں اپنے ماتحت کسی بھی افسر کو تفویض کرسکے گا‘ آرمی ایکٹ میں ان ترامیم پر سوال نہیں اٹھایا جاسکے گا‘اس بل کے تحت موجودہ قانون ’پاکستان آرمی ایکٹ 1952‘ میں مجموعی طور پر 18 ترامیم تجویز کی گئیں، جبکہ آرمی ایکٹ کی شق 176 میں ترمیم کے مطابق کسی بھی آرمی افسر بشمول آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے عہدے پر تعیناتی ‘دوبارہ تعیناتی اور توسیع کے الفاظ کے ساتھ ری ٹینشن یعنی عہدے پر برقرار رکھنے کا لفظ بھی شامل کردیا گیا ہے۔ تحریک انصاف نے بل کی حمایت کی، جبکہ بل کی منظوری کے طریقہ کار پر رہنما پیپلز پارٹی و سینیٹر رضا ربانی اور جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے اعتراض کیا۔رضا ربانی کا کہنا تھاکہ آج پارلیمان کی تاریخ کا سیاہ دن ہے‘ہمیں اندھی قانون سازی منظور نہیں‘اس موقع پرسینیٹر رضا ربانی اورطاہر بزنجو نے سینیٹ سے علامتی واک آو?ٹ بھی کیا، سینیٹر مشتاق احمد نے کہا کہ جلد بازی میں اس طرح قانون سازی نہیں ہونی چاہئے۔ اس بل کو پہلے کمیٹی میں بھیجا جانا چاہئے تھا۔ایوان بالا نے کنٹونمنٹس (ترمیمی) بل‘ڈیفنس ہاو?سنگ اتھارٹی اسلام آباد (ترمیمی) بل اور بورڈ آف انویسٹمنٹ (ترمیمی) بل 2023 کی بھی منظوری دے دی۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی سربراہی میں سینیٹ کے ہونے والے اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے آرمی ایکٹ ترمیمی بل منظوری کے لئے پیش کیا، جسے ایوان نے منظور کرلیا۔ بل کے مطابق پاکستان اور افواج پاکستان کے مفاد کے خلاف انکشاف کرنے والے سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے تحت نمٹا جائے گا۔ سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے پر پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے کو 2 سال تک سخت سزا ہو گی۔ ماتحت شخص اگر الیکٹرانک کرائم میں ملوث ہو، جس کا مقصد پاک فوج کو بدنام کرنا ہو تو اس کے خلاف الیکٹرانک کرائم کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ جیو ٹی وی کے مطابق بل کے تحت فوج پر کنٹرول وفاقی حکومت کا ہوگا، آرمی چیف فوج کے انتظامی معاملات دیکھیں گے۔ صدر مملکت پاک فوج میں کمیشن دیں گے، مگر کسی بھی غیر ملکی شہریت رکھنے والے، دہری شہریت رکھنے والے یا 18 سال سے کم عمر شہری کو فوج میں کمیشن نہیں ملے گا۔ آرمی ایکٹ شق 18 میں ترمیم کے مطابق وفاقی حکومت ضرورت کے مطابق غیر معمولی صورت حال یا جنگ کی صورت حال میں آرمی چیف کی مشاورت سے کسی بھی فوجی افسر کو 60 سال کی عمر تک ملازمت پر برقرار رکھ سکتی ہے۔ آرمی چیف نئے ایکٹ کے مطابق قواعد و ضوابط پر عملدرآمد کی ہدایات جاری کرسکے گا‘ آرمی ایکٹ میں پہلی بار مفادات کے ٹکراو? کی شق شامل کی گئی ہے جس کے تحت ریٹائرمنٹ کے بعد 5 سال تک کوئی فوجی افسر آرمی چیف یا مجاز افسر کی اجازت کے بغیر کسی ایسے ادارے کے ساتھ ملازمت یا مشاورت نہیں کرے گا، جس کا پاک فوج کی سرگرمیوں کے ساتھ مفادات کا ٹکراو? ہو‘ خلاف ورزی کی سزا 2 سال تک قید، 5 لاکھ روپے تک جرمانہ ہوگی۔ ‘آرمی ایکٹ میں ان ترامیم پر سوال نہیں اٹھایا جاسکے گا اور ان قوانین کے کسی بھی دوسرے قوانین پر اوور رائیڈنگ اثرات ہوں گے۔
مذکورہ آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے متعلق سینیٹر رضا ربانی کا اعتراض اپنی جگہ خاصی اہمیت کا حامل تھا، مگر حکومت میں شامل انتہائی اہم جماعت پیپلز پارٹی کا حصہ ہونے کے باوجود رضا ربانی کے اعتراض کو چنداں اہمیت نہیں دی گئی اور بل من و عن منظور کر لیا گیا۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت گزشتہ نیازی حکومت کی بچی کھچی مدت پوری کرنے آئی تھی اور جن دعوو¿ں کے ساتھ آئی تھی، ان میں سب سے اہم اور بنیادی دعویٰ معیشت کی ڈوبتی نیا کو پار لگانا تھا، معیشت کی نیا کو تو بہ قول حکمرانوں کے پار لگا دیا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف تک بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا لیا گیا ہے، مگر اصل سچائی یہ ہے کہ عوام کو مہنگائی کے سمندر میں مکمل طور پر ڈبو دیا گیا ہے۔ اگر موجودہ حکومت کی کارکردگی کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ شرم ناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے ابتدا میں سارا زور اپنے کیسز کے خاتمے پر لگایا، کیونکہ اس وقت اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان وزیراعظم شہباز شریف سمیت کافی حکومتی افراد نیب زدہ اور کرپشن کیسز کے ملزم ہیں، مگر آج ماشائ اللہ ان میں سے کسی ایک شخص پر بھی کوئی کیس نہیں ہے، یہاں تک کہ اسحاق ڈار جن کی جائداد کرپشن اور لوٹ مار کے باعث نیلام ہونے جا رہی تھی، وہ خصوصی طیارے پر بیٹھ کر آئے اور نہایت عزت واحترام سے وہی وزارتِ خزانہ کا قلمدان سنبھالا، جس میں ان پر لوٹ کھسوٹ کے کیسز تھے۔ یہ تو ہوا سو ہوا، دنیائے سیاست میں ایک نہایت حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ عزت مآب محترم جناب اسحاق ڈار نے، جب سے انہیں وزارت خزانہ سے بے دخل کیا گیا تھا، اس 4 سالہ پورے عرصے کی کروڑوں روپے تنخواہ بھی تمام مراعات سمیت وصول کی، مگر اقتدار میں شریک اور اسمبلی و سینیٹ میں بیٹھے کسی ایک بھی رکن نے اتنی بڑی دھاندلی کے خلاف ایک لفظ تک نہیں بولا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کی دولت، وسائل، مراعات پر حکمرانوں اور اشرافیہ کا پیدائشی حق ہے، کیوں کہ یہ ملک ان کے باپ کی جاگیر ہے!
شاہانہ اخراجات جاری، ہر شہری ڈھائی لاکھ روپے کا مقروض
روزنامہ “دنیا” اسلام آباد میں ماہ جولائی 2023 کے آخر میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے نئے مالی سال 24-2023 کے پہلے ماہ میں ہی ملازمین کو 15 کروڑ 5 لاکھ روپے کی اعزازی تنخواہیں دے دیں، جبکہ ایک ماہ میں ایک کروڑ 66 لاکھ روپے کھانے کی مد میں خرچ کئے گئے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے رواں مالی سال کے پہلے ایک ماہ میں 43 کروڑ 42 لاکھ 72 ہزار روپے کے مجموعی اخراجات کئے ہیں۔پیٹرولیم مصنوعات کی مد میں 46 لاکھ 88 ہزار روپے خرچ کئے گئے ہیں۔ ملازمین کو یوٹیلیٹی اور الیکٹریسٹی الاو¿نس کی مد میں 3 کروڑ 23 لاکھ روپے، سیشن الاو¿نس کی مد میں 5 کروڑ، 96 لاکھ روپے اور اسپیشل پارلیمنٹ ہاو¿س الاو¿نس کی مد میں 3 کروڑ 29 لاکھ روپے فراہم کئے گئے۔ یعنی 43 کروڑ روپے کے مجموعی اخراجات کئے گئے۔ یہ اس ملک کے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے صرف ایک ماہ کے اخراجات کی تفصیل ہے، جس کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے۔ جس کا بچہ بچہ آئی ایم ایف (بین الاقوامی مالیاتی فنڈ) کا مقروض ہے۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے صرف ایک ماہ کے اخراجات کی متذکرہ تفصیل سن کر ہر باشعور اور محب وطن پاکستانی کے ذہن میں یہ سوال گونج رہا ہے کہ جن ارکان قومی اسمبلی پر صرف ایک ماہ میں 43 کروڑ روپے خرچ کیا جاتا ہے، وہ آخر اس ملک و قوم کے لئے کرتے کیا ہیں؟ کیا اتنی بڑی حکومت میں ایک بھی ایسا درد دل رکھنے والا شخص موجود نہیں ہے، جو لوٹ کھسوٹ کے اس گورکھ دھندے کو بند کرا سکے؟ پھر تو یہ الزام مبنی بر حقیقت ہے کہ
جب معاملہ قومی مفاد کا ہو تو حزبِ اقتدار اور حزب اختلاف ایک دوسرے کی ساری خطائیں معاف کرکے آج کل کے معروف محاورے کے مطابق ایک صفحے پر آجاتی ہیں اور عموماً یہ صفحہ “چیک ب±ک” کا ہوتا ہے، جیسے قومی اسمبلی میں اراکین کے مفادات و مراعات، سفری اور میڈیکل کے چیک وغیرہ سب مشترکہ ہیں تو کسی بھی جانب سے کوئی آواز بلند نہیں کی جاتی۔ جیسے ٹیلی ویڑن پر ایک اشتہار آیا کرتا تھا،
جس میں ایک بچہ کہتا ہے کہ ’کھاﺅں گا نہیں تو بڑا کیسے ہوں گا؟‘ تو ہمارے منتخب ارکان مراعات اور اعزازیے کھائیں گے، تب ہی تو بڑے ہوں گے اور تب ہی تو ملک و قوم کے لئے بڑے بڑے کام کریں گے
سوال تو بنتا ہے کہ جب قومی خزانہ خالی تھا تو پھر آخر اس کے یہ کون سے منہ ہیں، جو ک±ھلے تو ان سے اتنا کچھ نکل آیا؟ بات یہ ہے کہ قومی خزانے کے اپنے کچھ اسٹائل ہیں۔ یہ ہر ایک کو منہ نہیں لگاتا، عوام کے لئے تو یہ اپنے منہ بند ہی رکھتا ہے، ہاں خواص چونکہ اس کے منہ بولے بھائی، بیٹے ہیں، لہٰذا ان کا منہ موتیوں سے بھر دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ لفظ ’قومی‘ سے یہ دھوکا ہوتا ہے کہ قومی خزانہ قوم کا ہے۔ آج قوم کی یہ غلط فہمی د±ور کئے دیتے ہیں۔ ’قومی‘ دراصل خزانے کا تخلص ہے۔ یوں تو شاعر حضرات تخلص نام کے بعد لگاتے ہیں، لیکن چونکہ سب خزانے کے پیچھے لگے ہیں، اس لئے اس نے تخلص کو اپنے آگے لگا لیا ہے۔
اسی طرح جولائی 2023 کے پہلے ہفتے کی ہی ایک اور اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ملک پر قرضوں کا ریکارڈ بوجھ جمع ہو چکا ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 31 مئی 2023 تک مجموعی ملکی قرضہ 58 ہزار 692 ارب روپے ہو گیا ہے، جو گزشتہ سال کے مجموعی قرضوں سے 32 فیصد زائد ہے۔ 2022 میں مجموعی قرضوں کا بوجھ 44 ہزار 641 ارب روپے تھا۔ رپورٹ کے مطابق مئی 2022 سے مئی 2023 تک 14 ہزار 321 ارب روپے کے قرضے لئے گئے۔ مئی 2023 میں حکومت نے 363 ارب روپے قرض حاصل کیا، جس سے ملک پر مجموعی قرضے 58 ہزار 692 ارب روپے ہو گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق ملک پر 37 ہزار 54 ارب روپے علاقائی، جبکہ 21 ہزار 908 ارب روپے کا بیرونی قرض ہے حکومت کے اندرونی قرضوں میں ایک سال کے دوران 27 فیصد کا اضافہ ہوا، جو 2900 ارب سے بڑھ کر 3700 ارب ہو گیا۔ رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت کے بیرونی قرضوں میں 40.5 فیصد اضافہ ہوا، جو 15 ہزار 500 ارب سے بڑھ کر 22 ہزار ارب ہو گیا۔ موجودہ حکومت نے ہر روز 39 ارب روپے کا قرض لیا، جس سے ملک کا ہر شہری 2 لاکھ 50 ہزار روپے سے زائد کا مقروض ہو گیا۔
لٹے پٹے غریب ملک کا نوحہ
پاکستان کے عوام کی یادداشت اتنی بھی کم زور نہیں کہ وہ یہ بات بھول چکے ہوں کہ موجودہ پی ڈی ایم حکومت نیازی دور حکومت میں تقریباً روزانہ ہی مہنگائی کے خلاف رونا روتی رہتی اور طنز کے تیر برسایا کرتی تھی، یہاں تک کہ ان جماعتوں نے مل کر مہنگائی کے خلاف باقاعدہ ملک گیر”مہنگائی مکاو¿ مارچ” بھی نکالا تھا۔ حالات نے کروٹ لی، نیازی حکومت رخصت ہوئی اور انتہائی تجربہ کار لوگوں پر مشتمل “پڈم” نے عنان حکومت سنبھالی، مگر حیرت انگیز طور پر مہنگائی میں رتی بھر بھی کمی نہ ہوئی، تاہم حکومت کے ہوش ربا اخراجات اور عیاشیوں کی خبریں متواتر سامنے آتی رہیں۔ البتہ سیاسی بیان کے طور پر وزیراعظم شہباز شریف زبانی کلامی ضرور کابینہ اور سرکاری افسران کے اخراجات میں کمی کرنے کے دعوے کرتے رہے۔
وزیر اعظم کے ان دعوو¿ں کی قلعی اس وقت مکمل طور پر کھل گئی، جب پنجاب حکومت کی جانب سے پنجاب بھر کے ڈپٹی کمشنرز کو نئی 2023 ماڈل کی فارچونرز گاڑیاں دی گئیں۔ ذرائع کے مطابق اس ایک گاڑی کی قیمت تقریباً 13 کروڑ روپے تک ہے۔ پاکستانی عوام بجا طور پر حکومت سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ کیا آئی ایم ایف سے ڈیل کا مقصد اپنے لئے مراعات حاصل کرنا اور فقط اپنی عیاشیوں کا تسلسل برقرار رکھنا ہے؟ ایک طرف یہ رونا کہ م±لک ڈیفالٹ کے قریب ہے تو دوسری طرف یہ فریاد کہ آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں مل رہا، الیکشن کروانے کے پیسے نہیں، ان جھوٹی باتوں کی آڑ لے کر مہنگائی کی چکی میں پستے ہوئے عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی۔ بجلی، گیس، آٹا عوام کی پہنچ سے دور کر دیئے گئے، لیکن ماشائ اللہ اشرافیہ کی عیاشیوں، کرپشن، لوٹ مار کے لئے سب کچھ میسر ہے۔
یہ باتیں عام آدمی کے ذہن میں اس لئے آ رہی ہیں کہ ڈپٹی کمشنرز کو دی جانے والی مذکورہ گاڑیوں میں سے ہر گاڑی کی قیمت تقریباً 13 کروڑ روپے ہے۔ 13 کروڑ بنانے کیلئے ایک عام پاکستانی کو 13 بار پیدا ہونا پڑے گا۔ جب کہ 13 کروڑ میں 3611 بچوں کی سال بھر کی اسکول فیس جمع کروائی جا سکتی ہے۔ 13 کروڑ میں 5,200 ریڑھی والوں کو روزگار دیا جا سکتا ہے۔ 13 کروڑ میں 26 ایسے اسکول بن سکتے ہیں، جن میں ہزاروں بچے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ 13کروڑ میں 26 ڈسپنسریاں بن سکتی ہیں، جن میں سینکڑوں مریضوں کو دوا مل سکتی ہے۔ 13 کروڑ میں کم از کم 70 گھر بن سکتے ہیں،جن میں رہ کر بیوائیں اور یتیم اپنی زندگی بھر کا خواب حقیقت کرسکتے ہیں۔ جن لوگوں کی دن بھر کی کل کمائی 500 روپے ہوتی ہے، ان 13 کروڑ سے ان کی زندگی تبدیل کی جا سکتی ہے، لیکن یہ 13 کروڑ ایک ایسے “سرکاری خچر” پر لگائے جاتے ہیں، جو عوام کے کسی کام نہیں آتا۔ یہ جملہ معترضہ نہیں، بلکہ مبنی بر حقیقت ایک تلخ سوال ہے کہ ملک بھر میں پھیلے ڈپٹی کمشنرز آخر کرتے کیا ہیں؟ کیا جس مقصد اور کام کے لئے انہیں یہ عہدہ دیا گیا ہے، وہ اپنا فرض بہ خوبی نبھا رہے ہیں؟ ملک بھر میں روزانہ کی بنیاد پر کسی عفریت کی طرح پھیلنے اور بڑھنے والی مہنگائی پر تو کمشنر اور ان کے ڈپٹی کمشنرز قابو نہیں پا سکتے تو ان سے مزید کیا کسی اچھے کام کی امید رکھی جا سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ دراصل ایک لٹے پٹے غریب ملک کا نوحہ ہے، جو حکمران اور اشرافیہ لکھ رہے ہیں۔
الیکشن ایکٹ میں مجوزہ ترامیم
موجودہ 13 جماعتی اتحاد پر مشتمل پی ڈی ایم (پڈم) حکومت نے حکومتی ایوانوں سے رخصتی سے قبل الیکشن ایکٹ میں کافی ساری ترامیم کی ہیں، جن کے مطابق نگراں حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوں گے اور ملکی معیشت کے لئے ضروری فیصلوں کا اختیار ہو گا۔ ان ترامیم کی چیدہ چیدہ تفصیلات درج ذیل ہیں:
1۔نگران حکومت بین الااقوامی اداروں اور غیرملکی معاہدوں کی مجاز ہوگی۔
2۔پریزائیڈنگ افسر نتیجے کو فوری الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسرکو بھیجنے کاپابند ہوگا۔
3۔پریزائیڈنگ افسر حتمی نتیجے کی تصویر بناکر آر او اور الیکشن کمیشن کوبھیجے گا۔
4۔انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے پرپریزائیڈنگ افسر اصل نتیجہ خود پہنچانے کا پابند ہوگا۔
5۔پریذائیڈنگ افسر الیکشن کی رات 2 بجے تک نتائج دینے کا پابند ہوگا۔ نتائج کی تاخیر کی صورت میں ٹھوس وجہ بتائے گا۔
6۔پریزائیڈنگ افسر کے پاس الیکشن نتائج کےلئے اگلے دن صبح 10 بجے کی ڈیڈ لائن ہوگی۔
7۔الیکشن کمیشن پولنگ سے ایک روز قبل شکایات نمٹانے کا پابند ہوگا۔
8۔پولنگ ڈے سے 5 روز قبل پولنگ اسٹیشن تبدیل نہیں کیا جاسکے گا۔
9۔انتخابی اخراجات کےلئے امیدوار اپناکوئی بھی بینک اکاو¿نٹ استعمال کرسکے گا۔
10۔حلقہ بندیاں رجسٹرڈ ووٹرزکی مساوی تعداد کی بنیاد پر کی جائیں گی۔
11۔حلقہ بندیوں کا عمل انتخابی شیڈول کے اعلان سے 4 ماہ قبل مکمل ہوگا۔
12۔کاعذات نامزدگی مسترد یا واپس لینے پر امیدوار کو فیس واپس کی جائے گی۔
13۔حلقوں میں ووٹرز کی تعداد میں فرق 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔
14۔پولنگ عملہ انتخابات کے دوران اپنی تحصیل میں ڈیوٹی نہیں دے گا۔
15۔پولنگ اسٹیشن میں کیمروں کی تنصیب میں ووٹ کی رازداری یقینی بنائی جائے گی۔
16۔امیدوار ٹھوس وجوہ پر پولنگ اسٹیشن کے قیام پر اعتراض کرسکے گا۔
17۔حتمی نتائج کے 3 روز میں مخصوص نشستوں کی حتمی ترجیحی فہرست فراہم کرنا ہوگی۔
18۔غفلت پر پریزائیڈنگ اور ریٹرننگ افسر کے خلاف فوجداری کارروائی کی جائے گی
19۔ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا فیصلہ 15 کے بجائے 7 روز میں کیا جائےگا۔
20۔پولنگ عملے کی حتمی فہرست الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پراپ لوڈ کی جائے گی۔
21۔سیکیورٹی اہلکار پولنگ اسٹیشن کے باہر ڈیوٹی دیں گے۔
22۔سیکیورٹی اہلکار ہنگامی صورتحال میں پریزائیڈنگ افسر کی اجازت سے پولنگ اسٹیشن کے اندر آسکے گا۔
23۔الیکشن کمیشن آر او کو ماتحت حلقے کی ووٹرلسٹ پولنگ سے 30 روز قبل فراہم کرنے کا پابند ہوگا۔
24۔معزور افراد کو ووٹ کی سہولیات پریزائیڈنگ افسر دینے کا پابند ہوگا۔
25۔الیکشن ٹریبونل 180 دن میں امیدوار کی جانب سے دائر پٹیشن پرفیصلہ کرنےکا پابند ہوگا۔
26۔انٹرا پارٹی انتخابات نہ کرانے کی صورت میں پارٹی کو 2 لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
27۔نادرا الیکشن کمیشن کو نئے شناختی کارڈ کے ریکارڈ کی فراہمی کا پابند ہوگا۔
28۔سینیٹ ٹیکنوکریٹ سیٹ پر تعلیمی قابلیت کے علاوہ 20 سالہ تجربہ درکار ہوگا۔
29۔قومی اسمبلی کی نشست کےلئے 40 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک خرچ کرنے کی اجازت ہوگی۔
30۔صوبائی نشست کےلئے انتخابی مہم پر 20 سے 40 لاکھ روپے تک خرچ کئے جاسکیں گے۔