پاکستان میں کم سن گھریلو ملازماو¿ں پر تشدد کا مسئلہ

اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے کم سن گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں مرکزی ملزمہ سومیا عصم کی درخواست ضمانت بعد از گرفتاری مسترد کر دی ہے۔
کیس کی سماعت وفاقی دارالحکومت میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس کی جج شائستہ کنڈی نے کی۔ سماعت کے دوران ایک موقع پر جج نے کہا کہ ’بھول جائیں کہ سومیا عاصم جج کی اہلیہ ہیں، ہم یہاں ایک ملزمہ کا فیصلہ کر رہے ہیں۔‘ جج نے مزید کہا کہ ’عدالت انصاف کرے گی۔‘
دوران سماعت وکیل صفائی نے سی سی ٹی وی ویڈیو دکھاتے ہوئے کہا کہ ’بچی کی والدہ تقریباً دو سے ڈھائی گھنٹے وہیں موجود رہیں۔ اس دوران وہ گاڑی میں بھی بیٹھیں اور بچی کی حالت ٹھیک نظرآ رہی ہے۔‘
وکیل نے کہا کہ ’ویڈیو کے مطابق بچی کو صحیح حالت میں والدہ کے حوالے کیا گیا۔ بچی بس اڈے پر بیٹھتی ہے اور ایک صحتمند فرد کی طرح لیٹ بھی جاتی ہے۔‘
عدالت میں کم سن ملازمہ کی والدہ بھی موجود تھیں جنھوں نے عدالت کو بتایا کہ وہ جج کی اہلیہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھیں جس دوران انھوں (اہلیہ) نے شکایت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی گھر کا کام نہیں کرتی ہیں اور ’اسے واپس لے جاو¿۔‘
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ان کی بیٹی اگلی نشست پر بیٹھی تھی اور وہ ان کے زخم نہیں دیکھ سکیں۔ ’میں نے اپنی بیٹی سے پوچھا کہ تم کام کیوں نہیں کرتی ہو، مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جب انھوں نے بچی کی حالت دیکھی تو وہ بہت گھبرا گئی تھیں۔ انھوں نے عدالت کو بتایا کہ ’میں بہت ڈر گئی تھی،آپ دیکھیں ڈرائیور بھی گاڑی سے نکلا اور دھمکی دی کہ ہم بڑے لوگ ہیں، چپ کر کے چلی جاو¿۔‘
سماعت کے دوران جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ ’سچ ریکارڈ پر لایا جائے گا اور سب کے ساتھ انصاف ہوگا۔‘
وکیل صفائی نے کہا کہ بچی مٹی کھانے کی عادی تھی۔ ’ملازم نے مٹی میں کھاد ملائی جسے بچی نے کھا لیا اور انھیں الرجی ہوگئی اور دانے نکلآئے۔ مگر اس کے بارے میں تاثر دیا گیا کہ بچی کو زہر دیا گیا ہے۔‘
وکیل صفائی نے دعویٰ کیا کہ مذکورہ بچی کو ’کیئرنگ ارینجمنٹ‘ کے تحت گھر لایا گیا۔ ’وہ ملازمہ نہیں تھیں بلکہ انھیں اس لیے لایا گیا کہ ان کو تعلیم دی جا سکے۔ بچی کو قاری اور ٹیوٹر سے تعلیم دلوانے کے لیے سومیا عاصم لائی تھیں۔‘
اس پر جج نے کہا کہ ’وہ کم سن بچی کی والدہ کو دس ہزار روپے دے رہی تھیں، اگر وہ ملازمہ نہیں تھیں تو یہ رقم کیوں دی جا رہی تھی؟‘
وکیل صفائی نے کہا کہ یہ ’کیئرنگ ارینجمنٹ کے تحت تھا جو امریکہ میں مقیم زنیرا نامی خاتون کے ساتھ کیا گیا تھا، وہ غریب بچوں کی امداد کے لیے پیسے بھیجتی تھیں جو اس بچی کی والدہ کو دے دیے جاتے۔‘
تاہم جج کے استفسار پر وہ ایسے کسی بھی معاہدے کے شواہد پیش نہیں کر سکے۔ وکیل نے کہا کہ ان کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہیں مگر یہ ’فلاحی کام کا مثالی کیس ہے۔‘
وکیل صفائی نے کہا کہ ’بچی کو گھر لے جانے کے بعد ان کے اہلخانہ نے جج کو فون کیا اور انھیں بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ جس کے بعد ان کے بینک اکاونٹ میں پہلے پچاس ہزار اور پھر ساٹھ ہزار روپے منتقل کیے گئے۔‘ اس پر جج نے برہمی کا اظہار کیا۔
جج شائستہ کنڈی نے سوال کیا کہ ’یہ رقم کیوں دی گئی؟ جبآپ نے کچھ غلط کیا ہی نہیں تو پھریہ رقم کیوں کم سن ملازمہ کے والدین کو بھیجی گئی؟‘ جس پر وکیل نے کہا کہ ’ایسا بچی کے علاج میں معاونت کے لیے کیا گیا تھا۔‘
جج نے وکیل صفائی سے متعدد بار شواہد مانگے جو وہ پیش نہ کر سکے۔ اس پر جج نے متعدد بار انھیں کہا کہ ’شواہد کے بغیر بات نہ کریں۔‘
وکیل صفائی نے کہا کہ ’سومیا عاصم ایک جج کی اہلیہ ہیں‘، جس پر جج نے انھیں ٹوکتے ہوئے کہا کہ ’بھول جائیں کہ وہ جج کی بیوی ہیں، ہم یہاں ایک ملزمہ کا فیصلہ کر رہے ہیں۔‘
اس موقع پر پراسیکیوٹر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سومیا عاصم تسلیم کر چکی ہیں کہ بچی ان کے گھر میں ملازمہ تھی۔ ’ان کی جسم پر موجود زخم ایک دن کا واقعہ نہیں ہیں بلکہ یہ سیریل انجریز ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ پولیس کو اطلاع والدین نے نہیں بلکہ ہسپتال انتظامیہ نے دی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج میں بچی کی حالت واضح ہے، وہ اس قدر زخمی تھیں کہ وہ بیٹھ نہیں سکتی تھیں۔ اس لیے بینچ پر لیٹ گئی۔ بچی کی والدہ، والد اور ماموں کا بیان موجود ہے اور سب سے بڑی بات بچی کا اپنا بیان ہے جو ریکارڈ کا حصہ تھا۔‘
ان کے وکیل نے کہا کہ ’بس کے ڈرائیور کا بیان بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں وہ بتا رہے ہیں کہ ایک زخمی بچی دو مردوں اور ایک خاتون کے ہمراہ بس میں سوار ہوئی تھی۔‘
بچی کے وکیل نے کہا کہ ’سول جج کے گھر گذشتہ چار سال سے جو ٹیوٹر ان کے بچوں کو پڑھا رہے ہیں، انھوں نے بھی بیان میں کہا ہے کہ وہ جج کے بچوں کو پڑھاتے تھے مگر ملازمہ بچی کو کبھی نہیں پڑھایا۔‘
انھوں نے وکیل صفائی کے دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ ’کیا مٹی کھانے سے ہڈیاں بھی ٹوٹ جاتی ہیں؟ ہم نے زہر دینے کا تو الزام نہیں لگایا، مقدمے میں زہر کا ذکر نہیں ہے۔ بچی کے ٹیسٹ کی رپورٹس میں یہ کہا گیا ہے۔‘
انھوں نے کہا سومیا عاصم کے خلاف ناقابل ضمانت دفعات کے تحت مقدمہ درج ہے، اس لیے ان کی درخواست مسترد کی جائے۔‘
فیصلے کے بعد جج اور وکیل صفائی قاضی دستگیر میں تلخ کلامی بھی ہوئی۔ عدالت نے انھیں کہا کہ ’ا?پ کا بات کرنے کا رویہ (طریقہ) ٹھیک نہیں ہے،آپ میڈیا کے لیے خبر نہ بنائیں۔‘
مختصر فیصلہ سنا کر جج صاحبہ اپنے چیمبر میں چلی گئیں۔
اس سے پہلے سات اگست جو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں مرکزی ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
اس کیس کی سماعت مقامی عدالت کی جج شائستہ کنڈی نے کی۔ دوران سماعت پولیس نے ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھیں مزید تفتیش کی غرض سے ملزمہ کی کسٹڈی مطلوب ہے کیونکہ ملزمہ سے چند ویڈیوز اور بچی کو دی گئی تنخواہ کی رسیدیں برآمد کروانی ہیں۔
اس پر جج شائستہ کنڈی نے استفسار کیا کہ خاتون کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق پاکستان کا قانون کیا کہتا ہے؟ اس پر پولیس کے نمائندے نے جواب دیا کہ خاتون کا جسمانی ریمانڈ اس وقت ہوتا ہے جب وہ قتل یا پھر ڈکیتی کی کسی کارروائی میں ملوث ہو۔ عدالت کو بتایا گیا کہ اس کیس میں اقدام قتل کی دفعہ 324 لگی ہوئی ہے۔
اس پر جج نے ریمارکس دیے کہ 324 قتل کی کوشش کرنے پر لگتی ہے جبکہ جسمانی ریمانڈ صرف دو نوعیت کے کیسز، قتل کرنے اور ڈکیتی جیسے جرم، میں ملتا ہے۔ جج شائستہ کنڈی نے مزید کہا کہ وہ ’میڈیا ہائپ‘ کی بنیاد پر ملزمہ کا ریمانڈ نہیں دے سکتیں۔
اس پر استغاثہ کے وکیل نے کہا کہ تفتیشی افسران کو ابھی ویڈیوز کا جائزہ لینا ہے اور بچی کو جو تںخواہ بطور ملازمہ دی گئی ہے ا±س کی رسیدیں برآمد کروانی ہیں، جس کے لیے جسمانی ریمانڈ ضروری ہے۔
تاہم جج نے ریمارکس دیے کہ ’آپ ویڈیوز تو ملزمہ کے بغیر ہی برآمد کر سکتے ہیں۔‘
اس موقعے پر ملزمہ نے جج کو آگاہ کیا کہ وہ پولیس سے ہر طرح کا تعاون کر رہی ہیں۔ انھوں نے جج کو بتایا کہ وہ تین بچوں کی ماں ہیں جبکہ انھوں اس کیس میں بننے والی جے آئی ٹی میں تفتیش کے نام پر رات ساڑھے گیارہ بجے تک بٹھایا گیا۔
انھوں نے عدالت کے روبرو الزام عائد کیا کہ انھیں تفتیش کے نام پر ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کرتے ہوئے ملزمہ کمرہ عدالت میں ہی رو پڑیں۔
اس پر عدالت نے پولیس کے نمائندہ سے استفسار کیا کہ کیا واقعی ان کی رویہ ایسا ہی تھا جیسا ملزمہ بیان کر رہی ہیں؟ اس پر پولیس نے تردید کی۔
عدالت نے ملزمہ سے استفسار کیا کہ کیا آپ وویمن تھانے میں تھیں؟ جس پر انھوں نے بتایا کہ ’مجھے کل ایک گھر میں لے کر گئے، وہاں سے چیزیں اکٹھی کی ہیں۔ اس دوران استغاثہ کے وکیل نے آگاہ کیا کہ زیادہ تر شواہد اکھٹے ہو چکے ہیں۔
جج شائستہ کنڈی نے ریمارکس دیے کے عدالت قانون کے مطابق کسی خاتون سے غروب آفتاب کے بعد تفتیش نہیں کی جا سکتی اور یہ تفتیش بھی خاتون لیڈی اہلکار کی موجودگی میں کی جا سکتی ہے۔
اس موقعے پر استغاثہ نے عدالت سے قانون کے مطابق ریمانڈ سے متعلق فیصلہ کرنے کی استدعا کی۔
اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ دیکھا جائے تو ملزمہ کی حد تک تفتیش مکمل ہو چکی ہے اور استغاثہ کے وکیل کے بیان کے بعد اب جسمانی ریمانڈ کی ضرورت نہیں رہی۔
اس دوران ملزمہ ایک مرتبہ پھر روسٹرم پر آئیں اور کہا کہ ان کا اتنا ب±را میڈیا ٹرائل کیا جا رہا کہ ان کا دل کرتا ہے کہ وہ خودکشی کر لیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا اس کیس میں ایسا کوئی کردار نہیں جیسا میڈیا میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ملزمہ نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی کہ وہ اپنی فیملی سے ملنا چاہتیں ہیں جس پر جج شائستہ کنڈی نے انھیں 10 منٹ کی اجازت دے دی۔
کچھ دیر بعد عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے ملزمہ کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انھیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کے احکامات جاری کیے۔عدالت نے انھیں دوبارہ 22 اگست کو پیش کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔
دوسری جانب ملزمہ کے وکیل کا کہنا ہے کہ عدالت کی طرف سے ملزمہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجے جانے کے بعد اب وہ ا±ن کی ضمانت کی درخواست دائر کریں گے۔
یاد رہے کہ پیر کے روز اسلام آباد کی ایک مقامی عدالت نے کمسن گھریلو ملازمہ پر تشدد کے کیس میں مرکزی ملزمہ کی ضمانت میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انھیں گرفتار کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔
پیر کے روز اس کیس کی سماعت ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج فرید بلوچ کی عدالت میں ہوئی تھی جہاں ملزمہ کے وکلا نے ضمانت میں توسیع کی درخواست کی تھی۔ یاد رہے کہ اس کیس میں مرکزی ملزمہ آٹھ اگست تک ضمانت پر تھیں۔ دو اگست کو ان کی ضمانت میں توسیع کرتے ہوئے عدالت نے انھیں شامل تفتیش ہونے کی ہدایات جاری کی تھیں اور 8 اگست کو انھیں دوبارہ عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔ضمانت کی منسوخی کے بعد اسلام آباد پولیس نے ملزمہ کو کمرہ عدالت کے باہر سے گرفتار کر لیا تھا۔گرفتار کیے جانے کے بعد انھیں ویمن پولیس سٹیشن میں منتقل کر دیا گیا تھا۔
گذشتہ سماعت پر ملزمہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ملزمہ اس سلسلے میں بننے والی جی آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئیں اور اپنی بے گناہی کا اظہار کیا جبکہ ریکارڈ میں بھی پولیس نے لکھا کہ ملزمہ نے تشدد نہیں کیا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ جب بچی والدین کے حوالے کی گئی تو وہ ٹھیک ٹھاک تھی۔
ملزمہ کے وکیل نے دلائل میں کہا کہ بچی کے والدین کو بارہا واپس بھیجنے کو کہا گیا تھا مگر وہ لے جانے سے انکاری رہے۔
ملزمہ کے وکیل نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس کے تفتیشی افسر نے ویڈیو حاصل کی، بس سٹاپ پر بچی کی تین گھنٹے کی ویڈیو موجود ہے؟
ملزمہ کے وکیل کی استدعا پر عدالت نے تفتیشی افسر کو ویڈیو حاصل کرنے کی ہدایت کر دی اور کہا کہ تفتیشی افسر کا کام دونوں سائیڈ سے ثبوت حاصل کرنا ہے۔
دوران سماعت کمرہ عدالت میں ویڈیو بھی دکھائی گئی جس کے بعد وکیل صفائی نے کہا کہ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ملازمہ گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بیٹھی ہے اور گاڑی کی بیک سیٹ پر ملزمہ اور ملازمہ کی والدہ بیٹھی ہیں۔ گاڑی میں بیٹھی ملازمہ پر اس کی والدہ نے تشدد کیا اور تین چار مکے بھی مارے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ بچی پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا۔متاثرہ بچی لاہور جنرل ہسپتال میں زیرعلاج ہے
ملزمہ کے وکیل کے مطابق ان کی موکلہ پر جھوٹا الزام لگایا گیا اور عدالت سے پہلے ہی ان کا میڈیا ٹرائل بھی کیا گیا۔
وکیل صفائی نے کہا کہ جو کہانی بنائی گئی وہ جھوٹی ثابت ہو رہی ہے، انھوں نے دعویٰ کیا کہ بچی کی جلد پر الرجی تھی جس کی دوا لینے کی فارمیسی سلپ بھی موجود ہے۔
وکیل صفائی کے دلائل مکمل ہونےکے بعد مدعی وکیل نے ملزمہ کی ضمانت خارج کرنے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ کیا عورت کوئی بھی جرم کرلے تو ا±س کو ضمانت دے دی جائے؟ انھوں نے کہا کہ ’اس طرح تو جرائم پیشہ لوگ پھر ایسے ہی کریں گے، خواتین سے جرم کروا کے اس قانون کا سہارا لیں گے۔‘
مدعی وکیل نے دلائل میں کہا کہ بچی کے والدین پر الزام لگایا گیا کہ جج کی اہلیہ کو بلیک میل کر رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ بچی کے والدین سے رابط کیا گیا اور پیسوں کی آفر کی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ایک بار نہیں، بچی پر کئی بار تشدد کیا گیا۔ ’کمسن بچی کی عمر 13 سے 14 سال ہے، سول جج اور ان کی اہلیہ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ کمسن ملازمہ رکھنا جرم ہے۔‘
پراسیکیوٹر وقاص احمد نے دلائل میں کہا کہ قانون کے مطابق اگر دلائل پختہ دیے جاتے ہیں تو عورت کو ضمانت نہیں ملتی۔طبی رپورٹ کے مطابق بچی کو 14 زخم آئے ہیں۔ بچی کی کھوپڑی کی دائیں، بائیں اور پچھلے حصے میں انجری ہے جبکہ بچی کی آنکھوں، گال، ہونٹوں اور کمر پر بھی انجریاں ہیں۔
اس موقع پر بچی کی والدہ کمرہ عدالت میں آبدیدہ ہو گئیں۔
دلائل کے اختتام پر پراسیکوٹر وقاص حرل نے ملزمہ کی گرفتاری کی استدعا کی جسے عدالت نے منظور کرتے ہوئے پولیس کو انھیں حراست میں لینے کا فیصلہ جاری کر دیا۔
جج فرخ فرید بلوچ نے حکم سنانے کے بعد ملزمہ کو کمرہ عدالت سے باہر لے جانے کی ہدایت کی اور کہا کہ ’میرے لیے بھی مشکل ہے کیونکہ یہ میرے کولیگ کی اہلیہ ہیں مگر جہاں انصاف کی بات ہو گی تو میں نے انصاف کرنا ہے۔‘
اس کیس کی ایف آئی آر متاثرہ بچی کے والد کی مدعیت میں درج کروائی گئی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ متاثرہ بچی اسلام آباد میں تعینات ایک سول جج کے گھر میں گذشتہ چھ ماہ سے بطور گھریلو ملازمہ کام کر رہی تھیں۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق بچی کی والد کی جانب سے مذکورہ سول جج کی اہلیہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ’وہ (جج کی اہلیہ) روزانہ اس پر ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھیں اور کمرے میں بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھیں۔‘
مقدمے کے مطابق بچی نے یہ بھی بتایا ہے کہ انھیں سول جج کے گھر ملازمت کے بعد سے زیادہ تر عرصہ ایک کمرے میں بند کر کے رکھا گیا تھا۔
والد کے مطابق ملازمت پر جانے کے بعد ان کا کئی ماہ تک اس سے رابطہ بذریعہ فون ہوتا تھا تاہم چند روز قبل جب وہ بچی سے ملنے جج کے گھر پہنچے تو انھیں ایک کمرے سے اس کے رونے کی آواز آئی۔
ایف آئی آر میں بچی کے جسم پر موجود زخموں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔’بچی کے سر پر جگہ جگہ زخم تھے جن میں چھوٹے کیڑے پڑ چکے تھے۔ ان کا بازو، دونوں ٹانگیں اور ایک دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا۔‘
ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’بچی کے جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے علاوہ ان کے گلے پر بھی نشانات تھےجیسے کسی نے گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہو۔‘
سرگودھا کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) فیصل کامران نے بتایا تھا کہ ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے سر سمیت جسم کے 15 مقامات پر زخموں کے نشانات ہیں۔ ’بچی کے سر پر متعدد جگہ گہرے زخم ہیں اور بروقت علاج نہ ہونے کے باعث یہ زخم خراب ہو چکے ہیں اور ان میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔‘
میڈیکل رپورٹ کے مطابق ’15 ظاہری چوٹوں کے علاوہ بچی کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہیں۔‘