بجلی کے ہوشربا بل اور عوامی احتجاج

نگراں حکومت عوام کی دادرسی کے بجائے مہنگی بجلی کے بل جمع کرانے پر اصرار کررہی ہے

بجلی مہنگی ہونے کیخلاف کئی شہروں میں احتجاج کیا گیا، لوگوں نے بجلی کے بل جلا دیئے۔ چیئرمین آل کراچی تاجر اتحاد عتیق میر نے کہا ہے کہ تاجر سڑک پر آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ معاشی بحران شروع ہو گیا۔ مظاہرے کراچی، حیدر آباد، نواب شاہ، راولپنڈی، لاہور، ملتان، تونسہ شریف، اٹک، رحیم یار خان ، گوجرانوالہ ، پاکپتن، کوئٹہ ، پشاور اور آزاد کشمیر میں کیے گئے۔
حکومت سے بجلی کے بلوں میں شامل اضافی ٹیکس اور بجلی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمت کو کم کرنے کا مطالبہ لیے شہری مختلف شہروں میں سڑکوں پر نکلے۔
کراچی میں بجلی کے بلوں میں اضافے اور مہنگائی کے خلاف تاجر برادری اور جماعت اسلامی نے مشترکہ احتجاج کیا۔
امیرجماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم اور تاجر رہنما مظاہرے میں شریک
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے تاجر رہنماو¿ں کا کہنا تھا کہ تاجر برادری کے الیکٹرک کی اوور بلنگ کو مسترد کرتی ہے۔
بزنس کمیونٹی کا مزید کہنا تھا کہ لوگ فاقے کر رہے ہیں جب کہ کے الیکٹرک ہزاروں اور لاکھوں روپے کے بلز بھیج رہی ہے۔ لوگ قرض لے کر اور سامان بیچ کر بجلی کے بلز ادا کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔
چیئرمین آل کراچی تاجر اتحاد عتیق میر نے کہا کہ گزشتہ روز کے الیکٹرک نے اپنی بدمعاشی دکھانے کی کوشش کی تھی سن لیں، اگر ایک بھی تاجر گرفتار ہوا تو ہم جیلیں بھر دیں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت یاد رکھے کہ جب تاجر سڑک پر آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ معاشی بحران شروع ہو گیا۔ کے الیکٹرک اب بھی سوچ لے، مارکیٹیں ان کے لیے نو گو ایریا بن جائیں گی۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان نے اس موقع پر کہا کہ اگر حکومت نے عوام کو تنگ کرنا نہ چھوڑا تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔ ہماری لڑائی کے الیکٹرک کے وائٹ کالر مافیا سے ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کو سوچنا چاہیے کہ وہ اگر کے ای کو تحفظ دے گی تو لوگ ان کے مظالم کے خلاف کہیں اٹھ کھڑے نہ ہوجائیں۔
کراچی کے تاجروں کی جانب سے ٹمبر مارکیٹ احتجاجا بند رکھی گئی، تاجروں کا کہنا ہے کہ بجلی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ہوگیا، ہزاروں لاکھوں روپے کے بل آرہے ہیں کاروبار کیسے کریں۔
کاروبار بند ہونے پر ٹمبرمارکیٹ کے مزدور پریشان بیٹھے ہیں
ٹمبر مارکیٹ کے تاجروں کا کہنا تھا کہ کاروبار بند کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔
دوسری طرف راولپنڈی میں بجلی کے اضافی بلوں کے خلاف مری روڈ پر مظاہرہ کیا گیا۔ شہریوں نے کمیٹی چوک پر آئیسکو کے خلاف نعرے بازی کی۔ شہریوں نے مری روڈ کو بند کرکے حتجاج کیا۔
گوجرانوالہ میں اووربلنگ اور بجلی کی قیمتوں میں اضافی ٹیکسز کے خلاف شہریوں نے گیپکو آفس کے باہراحتجاج کیا۔ مظاہرین نے گیپکو آفس کے گیٹ کا گھیراو¿ کیا۔ شرکا نے حکومت اور گیپکو کے خلاف نعرے لگائے اور بجلی کے بل جلائے۔
ادھر اٹک میں بجلی کے بلوں کے خلاف شہریوں نے احتجاج کرتے ہوئے ریلوے پل سے مرکزی شاہراہ بلاک کردی جس کے باعث پنجاب اور خیبر پختونخوا جانے والے تمام راستے بند ہوگئے۔
رحیم یار خان میں بھی بجلی کے بلوں کیخلاف لوگ سیاہ پرچم تھامے سڑکوں پر آئے، شہریوں نے میپکو دفتر کے باہر مظاہرہ کیا۔
پاکپتن میں شہریوں نے واپڈا کے ٹیکسز کے خلاف پیر غنی روڈ پر ٹائروں کو آگ لگا کر احتجاج کیا اور اس دوران بلوں کو بھی نذر آتش کردیا۔

قصور میں مہنگائی سے تنگ اور بجلی کے ستائے عوام سڑکوں پر آئے، شہریوں نے مسجد نور چوک میں بجلی کے بل جلائے۔ مظاہرین نے کئی گھنٹے روڈ بلاک کر کے شدید نعرے بازی بھی کی۔
پشاور کے عوام بھی گھروں سے نکلے اور مہنگی بجلی پر حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔
پشاور میں شہری احتجاج کررہے ہیں
آزاد کشمیر میں بھی تاجر مہنگی بجلی کے خلاف سڑکوں پر آئے۔ باغ میں انجمن تاجران، عوامی ایکشن کمیٹی اور سول سوسائٹی نے بجلی کے بلز میں اضافے کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے بجلی کے بل جلا کر حکومت اور انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ جب تک بجلی کے بلز میں اضافہ ختم نہیں کیا جاتا تب تک احتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا جب کہ 5 ستمبر کو بھرپور عوامی قوت کے ساتھ آزاد کشمیر بھر کے ہر چوک چوراہے پر صدائے احتجاج بلند کریں گے۔
شہریوں نے احتجاج میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جس پر واپڈا اور بجلی کے بلوں کے خلاف نعرے درج تھے۔
بجلی کے اضافی بلوں کے خلاف مظاہروں میں خواتین بھی گھروں سے نکلیں اور حکومت کےخلاف نعرے بازی کرتے ہوئے بجلی سستی کرنے کا مطالبہ کیا۔
خواتین مظاہرین بجلی کے اضافی بلوں کے خلاف احتجاج کررہی ہیں
کراچی، حیدر آباد، نواب شاہ، راولپنڈی، لاہور، ملتان، تونسہ شریف، اٹک، رحیم یار خان ، گوجرانوالہ ، پاکپتن، کوئٹہ اور پشاور سمیت مختلف شہروں میں ہونے والے مظاہروں کے شرکا کا کہنا تھا بجلی کے بل دیکھ ہمارے ہوش ا±ڑ گئے ہیں، مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کے دور میں عوام کا جینا محال کردیا۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کے بلوں میں بے جا اضافہ اور ٹیکسز کی بھرمار ہے، ان بلز نے مزدور اور سفید پوش طبقے کو فاقہ کشی پر مجبور کردیا ہے۔
یوں لگتا ہے کہ دن بہ دن بڑھتی مہنگائی اور توانائی کی قیمتوں کی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بعد چھلکنے لگا ہے۔ اور اب عوام احتجاج کے بعد تشدد کا راستہ اختیار کرنے لگے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ سے عوامی پریشانی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ لوگوں نے بجلی محکمے کے نچلے عملے کو تشدد کا نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔
تشدد کا ایسا ہی ایک واقعہ جمعرات کو کراچی کی ٹمبر مارکیٹ میں پیش آیا جہاں پر خود ساختہ آل سٹی تاجر اتحاد کے رہنما شرجیل گوپلانی کی سربراہی میں ایک گروہ نے کے الیکٹرک کی فیلڈ ٹیم پر حملہ کیا اور انہیں تشدد کے بعد یرغمال بنالیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ سوشل میڈیا پر ملتان سے بھی سامنے آرہا ہے، جہاں ملتان الیکٹرک پاور کمپنی کے عملے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کے علاوہ ملک بھر میں عوامی سطح پر احتجاج جاری ہے اور لوگ بلوں کی ادائیگی روکنے اور بل جلا کر احتجاج کررہے ہیں۔
اس عوامی احتجاج میں سیاسی جماعتیں بھی شریک ہونے لگی ہیں جس سے صورتحال مزید گمبھیر ہوتی جارہی ہے۔ اسی لیے احتجاج نے نگراں حکومت کو بھی جگا دیا ہے۔ حکومت نے بجلی کے بلوں میں اضافے پر کابینہ اجلاس بھی طلب کیے مگر یوں لگتا ہے کہ حکومت کے ہاتھ آئی ایم ایف کی شرائط کے ہاتھوں بندھے ہوئے ہیں اور وہ عوام کو کسی طور بھی ریلیف دینے کے قابل نہیں۔ سابقہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ شرائط میں یہ بات طے کی تھی کہ توانائی کے شعبے میں پیدا ہونے والے گردشی قرضے کو ختم کرنا اور بجلی گیس کو اس کی اصل لاگت پر فروخت کرنا ہے۔ اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہتے ہیں کہ ملک میں پیدا ہونے والی تقریباً 30 فیصد بجلی کی قیمت حکومت کو موصول نہیں ہوتی۔ 20 فیصد تک بجلی ٹرانسمیشن ڈسٹری بیوشن میں ضائع یا چوری ہوجاتی ہے، جبکہ 10 فیصد صارفین بجلی کے بل ادا نہیں کرتے، جس سے حکومت کو خسارہ ہوتا ہے اور بجلی کے ریٹ بڑھانے پڑتے ہیں۔
بجلی کے بلوں میں اضافے کی متعدد وجوہ شامل ہیں۔ بجلی کے بلوں میں اضافے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ روپے کی قدر میں ہونے والی کمی ہے۔ کیونکہ بجلی کی پیداوار کےلیے زیادہ تر ایندھن درآمد کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ آئی پی پیز سے معاہدے میں ڈالر ریٹ شامل ہیں۔ روپے کی قدر کے علاوہ پالیسی ریٹ میں اضافہ بھی اہم ہے۔ جس کی وجہ سے کمپنیوں کے لیے گئے قرض پر سود کی ادائیگی 22 فیصد سے بڑھ گئی ہے۔ ان دونوں وجوہ کی بنیاد پر ملک میں افراط زر یا مہنگائی ہورہی ہے، جس کی وجہ سے بجلی کی لاگت میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حکومت کے پاس اس وقت کوئی مالیاتی گنجائش موجود نہیں کہ عوام کو رعایت یا سبسڈی فراہم کرسکے۔ اس لیے حکومت نے بھی آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت بجلی کی قیمتوں پر دی جانے والی سبسڈی میں کمی کی ہے۔
بجلی کے یونٹس مہنگے ہونے کے باوجود بھی بجلی اس قدر مہنگی نہیں ہوئی کہ صرف دو یونٹ بجلی کے استعمال پر بل 3872 روپے وصول ہو۔ یہ بل ہمارے دوست محمد رضوان بھٹی نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا، جس پر بھی مختلف نوعیت کے کمنٹس آئے۔ مگرحقیقت ہے کہ بجلی کے مہنگا ہونے کے ساتھ ساتھ بجلی کے ماضی میں رہ جانے والے واجبات کی وصولی نیپرا اور حکومت کی منظوری سے آنے والے مہنیوں میں کی جاتی ہے۔ اس وجہ سے بھی بلوں میں کبھی کبھی مضحکہ خیز صورتحال پیدا ہوجاتی ہے۔
ہمارے دوست رضوان بھٹی چند ہفتے قبل اپنے نئے گھر منتقل ہوئے اور ان کا سابقہ گھر خالی ہوگیا، اس گھر میں آنے والے بل پر بجلی کے صرف دو یونٹ استعمال ہوئے تھے۔ جس پر انہیں زیادہ سے زیادہ 32 روپے کی ادائیگی کرنا تھی مگر ان کا بل 3747 روپے موصول ہوا، یعنی 1873 روپے کا ایک یونٹ پڑا۔ بل کے عقب میں دی گئی تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں ستمبر 2022 میں استعمال کردہ 210 یونٹ بجلی پر سہ ماہی ایڈجسمنٹ میں 326 روپے کی ادائیگی کرنا پڑی، اس کے علاوہ جون 2023 کے ایف سی کی مد میں 2.31 روپے، اور 2022 مئی، جون جولائی کے ایف سی اے کی مد میں 832 روپے کی ادائیگی کرنا پڑی، اسی طرح سیلز ٹیکس کی میں 223.71 روپے اور ٹی وی لائسنس کی مد میں 35 روپے کی ادائیگی کرنا ہے۔ اس طرح رضوان بھٹی کا دو یونٹ کا بل 1510 ہوگیا ہے۔ اسی طرح اس بل میں جولائی میں کیے گئے اضافے کا بل بھی شامل کیا گیا جوکہ 2246.27 روپے تھا۔ اس طرح دو یونٹ استعمال پر بل 3872 روپے ہوگیا۔
یہ بل اپنی جگہ مگر جولائی میں بجلی کی قیمت میں اضافے نے بجلی کے بلوں میں اچانک اضافہ کردیا ہے۔ یہ اضافہ کتنا تھا، اس پر بھی نظر ڈال لیتے ہیں۔ حکومت نے بجلی کے بلوں پر 27 جولائی 2023 میں اضافے کا نوٹس جاری کیا، جس میں 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والے لائف لائن صارفین کے بجلی کے نرخ نہ بڑھائے جبکہ ایک سو سے 200 یونٹ استعمال کرنے والے عام صارف پر 4 روپے 23 پیسے سرچارج عائد کردیا ہے۔ جس کے بعد ان کی 12 روپے 6 پیسے اور 200 یونٹ استعمال کرنے والوں کی فی یونٹ قیمت 14 روپے 38 پیسے ہوگئی ہے۔
وہ صارفین جو لائف لائن صارف نہیں کہلاتے، انہیں بجلی کے بیس ٹیرف میں اضافے کے ساتھ ساتھ سرچارج کا بھی سامنا ہے۔ ایک سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والے کا ٹیرف 13.48 روپے تھا جس میں بیس ٹیرف میں تین روپے اور سرچارج میں 4.22 روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یوں انہیں ایک یونٹ 20.70 پیسے میں پڑ رہا ہے، یعنی یکمشت 7.22 روپے کا اضافہ ہوا۔ اس طرح اگر 100 یونٹ بجلی استعمال کرتے ہیں تو آپ کا بل 1348 روپے آتا تھا وہ بڑھ کر اب 2070 روپے ہوگیا۔ یعنی بجلی کے حقیقی بل میں 722 روپے کا اضافہ ہوگیا ہے۔
اسی طرح اگر ایک متوسط طبقے کا گھر جہاں 400 یونٹ بجلی استعمال کی جاتی ہے، اس کے بیس ٹیرف جو کہ 25.53 پیسے تھا، اس بیس ٹیرف میں 6.5 روپے اور سرچارج میں 6.23 پیسے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اس طرح فی یونٹ بل میں یکمشت 12.73 روپے کا اضافہ کردیا گیا۔ اور فی یونٹ بجلی کا بل 38.26 روپے ہوگیا۔ اسی طرح پیک آور ریٹ 48.12 روپے اور آف پیک ریٹ 41.8 روپے ہوگیا ہے۔
صارفین کو بیس ریٹ کے علاوہ فیول چارجز ایڈجسمنٹ اور سہ ماہی ٹیرف ایڈجسمنٹ کی بھی ادائیگی کرنا ہوتی ہے۔ نیپرا قوانین کے مطابق اگر بجلی کی پیداوار میں ایندھن کی لاگت بیس ٹیرف میں ایندھن سے کم ہو تو یہ رقم واپس کی جاتی ہے۔ اور اگر ایندھن کی لاگت بیس ٹیرف میں ایندھن کی لاگت سے زائد ہو تو اسے صارف سے وصول کیا جاتا ہے۔ گزشتہ ایک سال میں کے الیکٹرک کے صارفین کو سات ماہ تک منفی فیول چارجز ایڈجسمنٹ جبکہ دیگر ڈیسکوز کے صارفین کو تین ماہ تک منفی فیول چارج ایڈجسمنٹ موصول ہوئی۔ یعنی ڈیسکوز اور کے الیکٹرک نے صارفین سے ایندھن کی مد میں رقم وصول کرنے کے بجائے واپس کی۔
اسی طرح سہ ماہی ایڈجسمنٹ بجلی کی قیمت خرید میں سے بجلی کی ترسیل اور تقسیم میں ہونے والے نقصانات پر مشتمل ہوتی ہے۔ اور پورے پاکستان میں تمام صارفین سے یکساں سہ ماہی چارجز وصول کیے جاتے ہیں۔
بجلی کے بلوں پر مختلف نوعیت کے ٹیکس بھی وصول کیے جاتے ہیں، جس میں رہائشی اور صنعتی صارفین سے مجموعی بجلی کے بل پر حکومت سندھ الیکٹریسٹی ڈیوٹی وصول کرتی ہے۔ گھریلو صارفین کےلیے 1.5 فیصد الیکٹریسٹی ڈیوٹی، تجارتی اور بلک صارفین سے 2 فیصد الیکٹریسٹی ڈیوٹی وصول کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ 18 فیصد سیلز ٹیکس، ?صنعتی صارفین جن کا بل 20 ہزار روپے سے اوپر ہو، 10 سے 12 فیصد انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ جبکہ گھریلو صارفین جن کا بل 20 ہزار سے زائد ہو، سے 7.5 فیصد انکم ٹیکس وصول کیا جاتا ہے۔ ٹی وی فیس 35 روپے اور 60 روپے وصول کی جاتی ہے۔ عوام پر یکمشت ڈالے گئے اس بوجھ کی وجہ سے اب عوام کی بل ادا کرنے کی صلاحیت ختم ہوتی جارہی ہے۔ اور اسی وجہ سے ملک بھر میں احتجاج کے ساتھ چند ایک مقامات پر بجلی کے بلوں سے ستائے عوام میں تشدد بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
تشدد کی کسی طور بھی حمایت نہیں کی جاسکتی، مگر کیا نگران حکومت بجلی کے بلوں پر عوام کو کوئی ریلیف دے پائے گی؟ مگر اس کا جواب نفی میں لگتا ہے۔ کابینہ نے اپنے اجلاس میں بجلی کے بلوں میں کمی کے حوالے سے جو بھی بات چیت کی، اس کا لب لباب یہ ہے کہ کمی اس طرح کی جائے کہ اس سے قومی خزانے پر بوجھ نہ پڑے، یعنی کوئی سبسڈی دے نہیں سکتے۔
موجودہ حکومت کو اس حوالے سے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنا ہوں گے اور عوام کو ریلیف دلوانے کےلیے رعایت بھی حاصل کرنا ہوگی۔ بصورت دیگر احتجاج نگراں حکومت کےلیے الیکشن سے بڑا چیلنج بن سکتے ہیں۔
سیاسی منظرنامہ کچھ اس تیزی سے تبدیل ہورہا ہے کہ بڑے بڑے تجزیہ کار و تبصرہ نگار حتمی رائے دینے سے قاصر ہیں جبکہ سیاسی قیادت ہیجانی کیفیت میں مبتلا اور اچھنبے کا شکار ہے کہ آخر ا±ن کے ساتھ ہو کیا رہا ہے اور انھیں سیاسی شطرنج پر اگلی چال کون سی چلنی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ جلد بازی میں لیا گیا ہر فیصلہ ان کے اپنے گلے پڑ رہا ہے۔
لیکن یہاں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر سیاسی منظرنامہ اس تیزی کے ساتھ تبدیل کون کررہا ہے؟ خیر اس سوال کا جواب تلاشنا اتنا مشکل بھی نہیں۔ تھوڑی سی بھی سیاسی بصیرت رکھنے والا بخوبی سمجھتا ہے کہ اس سب کے پیچھے وہی کردار ہیں جو صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں۔
اس وقت سیاسی ماحول میں بداعتمادی کی ایسی فضا قائم ہے کہ پوری ریاست غیریقینی کی صورتحال سے دوچار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک جانب ملکی معیشت روز بروز دم توڑتی نظر آتی ہے تو دوسری جانب غریب عوام مہنگائی کے ہاتھوں صبر کا دامن چھوڑتے نظر آتے ہیں۔
بجلی کے بھاری بلوں سے شروع ہونے والا پرامن عوامی احتجاج پرتشدد فسادات میں کب تبدیل ہوجائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن ہمیں اس سے پہلے اس امر پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ مذکورہ احتجاج عوامی ہے بھی یا نہیں؟ یا اس میں کوئی سازشی تھیوری تو شامل نہیں؟ اس بات کو سمجھنے سے پہلے موجودہ سیاسی منظرنامے کو ٹھیک سے سمجھنا ہوگا۔
پی ڈی ایم حکومت کی رخصتی سے پہلے اسٹیبلشمنٹ نے ان کے ساتھ کئی عہد وپیماں کیے۔ بلکہ تھوڑا اور پیچھے جائیں جب اسٹیبلشمنٹ ماضی میں کیے اپنے غلط فیصلوں پر پردہ ڈالنے کےلیے پی ڈی ایم سے مشکل فیصلے کروانے انھیں اقتدار میں لائی تھی۔ اس سہولت کاری کے بدلے وفاداری کی خوب یقین دہانی کروائی گئی تھی۔
پیپلزپارٹی کو پورا یقین تھا کہ پی ٹی آئی چیئرمین کو کرپشن کیسز میں سزا ہونے اور جیل جانے کے بعد پوری پارٹی انتقال فرما جائے گی جس کے بعد جو مالِ غنیمت تقسیم ہوگا اس میں جنوبی پنجاب اور کے پی کے سے تعلق رکھنے والے الیکٹیبلز پیپلزپارٹی کے حصے میں آئیں گے جبکہ بلوچستان سے بلوچستان عوامی پارٹی پہلے ہی اپنا وزن پیپلزپارٹی کے پلڑے میں ڈال چکی تھی، جوکہ اسٹیبلشمنٹ کی ایما پر وہ بھی یوٹرن لے چکی ہے۔
اسی طرح ن لیگ سمیت پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کا لالی پاپ ہاتھ میں تھامے پرامید بیٹھی تھیں۔ لیکن ان امیدوں پر پانی تب پھرا جب پی ٹی آئی نے سانحہ 9 مئی کرکے خود اپنے اوپر خودکش دھماکا کرلیا۔ جس کے بعد تمام معاملات پی ڈی ایم حکومت کے ہاتھ سے نکل کر کہیں اور چلے گئے۔ جنھیں کھل کر سیاسی پچ پر کھیلنے کا موقع مل گیا۔ جو نہیں چاہتے کہ جمہوری جماعتیں اتنی مضبوط ہوں کہ اہم فیصلہ سازی میں خودمختار ہوجائیں۔
لہٰذا پی ٹی آئی سے وصولا گیا مالِ غنیمت پی ڈی ایم کو دے کر انھیں مضبوط کرنے کے بجائے انھوں نے اپنے آپ کو مضبوط کرنا بہتر سمجھا اور تمام مالِ غنیمت استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک کی پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین پر وار دیا۔ اب اس پر پیپلزپارٹی ناراض ہے۔ جبکہ ن لیگ اس حوالے سے مطمئن تو ہے کہ اسے کچھ آسرے ملے ہوئے ہیں لیکن ڈری سہمی وہ بھی بیٹھی ہے کہ کہیں پیپلزپارٹی کی طرح اس کے ساتھ بھی ہاتھ نہ ہوجائے۔
دونوں کو ڈر ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نگراں سیٹ اپ طویل کرکے نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی اور پرویز خٹک گروپ کو مستحکم کرکے اقتدار کی کرسی انھیں نہ سونپ دے۔ یہی وجہ ہے کہ اب پیپلزپارٹی 90 دن میں انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے جبکہ ن لیگ زیادہ سے زیادہ مارچ 2024 تک رک سکتی ہے۔ لیکن اسٹیبلشمنٹ نگراں سیٹ اپ کو کم از کم دو سال لے جانے کا ارادہ رکھتی ہے۔
میری دانش کے مطابق پورے ملک میں موجودہ عوامی احتجاج اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے ذریعے پی ڈی ایم جماعتیں نگراں سیٹ اپ بالخصوص اسٹیبلشمنٹ کو خاموش پیغام دینا چاہتی ہیں کہ اگر ان کے ساتھ ہاتھ کیا یا نگراں سیٹ اپ طویل کیا گیا تو اسے چلنے نہیں دیا جائے گا۔ جبکہ نگراں حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس خاموش پیغام کو سمجھ چکے ہیں۔ جس کے بعد پہلے مرحلے میں پیپلزپارٹی رہنماو¿ں کے خلاف احتساب کا عمل تیز کرتے ہوئے کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے، جبکہ سندھ کی بیوروکریسی میں بھی اکھاڑ پچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔
بس اتنی سی کہانی ہے اس احتجاجی سلسلے کی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں آگے کا سیاسی منظرنامہ کیا ہوتا ہے۔
جہاں تک بجلی کے بھاری بلوں کی بات ہے تو عوام کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ آپ کتنا ہی احتجاج کرلیں بجلی کی قیمتیں کم ہونے والی نہیں۔ بجلی کی قیمتیں آئی ایم ایف پروگرام سے مشروط ہیں جوکہ احتجاج میں شامل پی ڈی ایم حکومت خود طے کرکے گئی ہے۔ لہٰذا کسی سازشی تھیوری کا حصہ نہ بنیے۔ یاد رکھیے اس وقت ملک کسی بھی قسم کے انتشار کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
غریب عوام کے پاس بجلی کے بھاری بلوں سےبچنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ بجلی کا استعمال کم سے کم کرتے ہوئے سو یونٹ تک لے آئیں۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ بجلی کی بچت ممکن ہوسکے گی جبکہ دوسرا فائدہ آپ کے بل پر اضافی ٹیکسز نہیں لگیں گے اور بل کم آئے گا۔
﴾﴿