کیا پاکستانی عوام کو معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے؟

28 ستمبر کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں معلومات تک رسائی کا عالمی دن منایا جا تا ہے۔ یہ دن اس بات کی یاددہانی کے لئے ایک اہم موقع ہے کہ پاکستان میں وفاق اور چاروں صوبوں کی سطح پر معلومات تک رسائی کے عوام دوست قوانین متعارف ہوئے دو دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود شہریوں کو افسر شاہی سے معلومات کے حصول میں مشکلات ختم نہیں ہو سکی ہیں۔
اگرچہ پاکستان جنوبی ایشیا کا پہلا ملک ہے جس نے فریڈیم آف انفارمیشن کا قانون لاگو کیا تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں حکومتی امور اور انتظامی معاملات میں شفافیت لانے کے لئے شہریوں کو جاننے کا حق دینے کے لئے قانون سازی کا آغاز عالمی مالیاتی اداروں کے دباو¿ پر جنوری 1997 میں صدر کی طرف سے فریڈم آف انفارمیشن آرڈینس کے اجراء سے ہوا تھا جسے 2002ءمیں قانون کا درجہ دیا گیا۔
بعدازاں جنوری 2010ء میں اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت آرٹیکل 19 اے کو آئین کا حصہ بنایا گیا جس کے تحت ہر شہری کو عوامی اہمیت کے تمام معاملات میں معلومات تک رسائی حاصل کرنے کا حق دیا گیا، اس وقت پاکستان میں آر ٹی آئی کے پانچ ایکٹ یا قانون نافذ ہیں جن میں ایک وفاق سے متعلق ہے جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے جبکہ باقی چار ایکٹ صوبوں سے متعلق ہیں، ان میں پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013، خیبر پختونخوا رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013، سندھ ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016 اور بلوچستان رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2021ءشامل ہیں۔
معلومات تک رسائی کا قانون سرکاری محکموں میں شفافیت اور عوامی احتساب کے ذریعے ان کی کارکردگی بہتر بنانے میں کس طرح ثابت ہو سکتا ہے، اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے کہ 16 جون 2023 کو محکمہ صحت پنجاب نے ایک نوٹیفکیشن جاری کر کے پنجاب بھر میں قائم 1468 ہیلتھ ڈسپنسریوں میں سے 415 کو یکم جولائی 2023ئ سے بند کرنے کے احکامات جاری کئے تھے۔ اس نوٹیفکیشن میں مذکورہ ڈسپنسریاں بند کرنے کے فیصلے کو صوبائی محتسب پنجاب کے “احکامات کی تعمیل” قرار دیا گیا تھا۔
تاہم جب میں نے اس بارے میں صوبائی محتسب پنجاب کے دفتر سے رائٹ ٹو انفرمیشن ایکٹ کے تحت اس ڈائریکشن کی وجوہات معلوم کرنے کے لئے آر ٹی آئی درخواست جمع کروائی تو انکشاف ہوا کہ صوبائی محتسب پنجاب کی جانب سے محکمہ صحت کو ایسا کوئی حکم جاری نہیں کیا گیا تھا، صوبائی محتسب پنجاب نے اس پر 5 جولائی 2023ء کو سیکرٹری ہیلتھ کیئر ڈیپارٹمنٹ کو نوٹس جاری کر کے وضاحت طلب کی جس پر محکمہ صحت کی جانب سے ڈسپنسریوں کی بندش کا فیصلہ واپس لے لیا گیا اور لاکھوں لوگ صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہونے سے بچ گئے۔
واضح رہے کہ پنجاب میں شہریوں کو سرکاری معلومات تک بہتر رسائی فراہم کر کے حکومت کو جوابدہ بنانے کے لئے پنجاب اسمبلی نے 12 دسمبر 2013ءکوپنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 منظور کیا تھا۔ اس قانون کے تحت کسی بھی سرکاری محکمے ، خودمختار یا نیم خودمختار سرکاری ادارے اور حکومتی معاونت سے چلنے والے اداروں سے معلومات کے حصول کے لئے درخواست دی جا سکتی ہے جس پر متعلقہ سرکاری ادارے کا سربراہ یا پبلک انفارمیشن آفیسر آر ٹی آئی ایکٹ کے سیکشن 10 کی ذیلی شق 7 کے تحت 14 دن میں مطلوبہ معلومات کی فراہمی کا پابند ہے، معلومات کی عدم فراہمی یا نامکمل معلومات کی فراہمی پر شہری پنجاب انفارمیشن کمیشن میں اپیل دائر کر سکتا ہے جس پر کمیشن آر ٹی آئی ایکٹ کے سیکشن دو کے تحت کسی بھی شکایت کی وصولی کی تاریخ سے 30 دن یا ٹھوس وجوہات کی بنیاد پر60 دن کے اندر فیصلہ کرے گا۔
اس عمل کو مزید آسان بنانے کے لئے پنجاب انفارمیشن کمیشن نے جنوری 2023ئ میں فیصل آباد سمیت صوبے کے دس شہروں کے ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر میں “ضلع رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ مرکز ” قائم کئے تھے، تاہم فیصل آباد کا ضلعی آر ٹی آئی مرکز شہریوں کی معلومات تک رسائی میں آسانی فراہم کرنے کی بجائے معلومات تک رسائی یا شہریوں کے جاننے کے حق کی راہ میں خود ایک بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔
اس کا پہلا تجربہ مجھے اس وقت ہوا جب میں نے 13 فروری 2023 کو اقبال سٹیڈیم فیصل آباد میں ہونے والے کرکٹ میچز اور دیگر تقریبات کے علاوہ گزشتہ ایک سال کی آمدن اور اخراجات کے بارے میں جاننے کے لئے ایک درخواست ضلعی آر ٹی آئی مرکز میں جمع کروائی۔ میری درخواست پر آر ٹی ایکٹ کے تحت دی گئی 14 دن کی مدت مکمل ہونے کے باوجود مجھے معلومات فراہم کرنے کی بجائے مختلف حیلے بہانوں کے ذریعے تقریبا ڈھائی ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزار کر معلومات کی فراہمی سے انکار کر دیا گیا۔ اس دوران ہر مرتبہ رابطہ کرنے پر یہی بتایا گیا کہ متعلقہ افسران دیگر ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔
ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کاشف رضا اعوان کے اس روئیے کے خلاف میں نے سات مئی 2023 کو پنجاب انفارمیشن کمیشن میں شکایت درج کروائی، اس شکایت پر پنجاب انفارمیشن کمیشن کی جانب سے ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کو 30 مئی، 15 جون اور 19 جون 2023 کو کمیشن میں پیش ہو کر وضاحت پیش کرنے کے لئے تین نوٹس جاری کئے گئے لیکن ضلعی آر ٹی آر مرکز کے انچارج نے ان نوٹسز کا جواب نہیں دیا۔ آخر کار 24 جون 2023 کو ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج نے پنجاب انفارمیشن کمیشن کے حتمی نوٹس کے جواب میں اقبال سٹیڈیم فیصل آباد کو “نان پبلک باڈی” قرار دے کر معلومات کی فراہمی سے انکار کر دیا۔
ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کی جانب سے جمع کروائے گئے اس جواب کے خلاف لیگل آرڈر جاری کرنے کے لئے میں نے پنجاب انفارمیشن کمیشن کو تین جولائی 2023 کو دوبارہ اپیل فائل کی جس پر کمیشن نے ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کے جواب کو مسترد کرتے ہوئے 31 جولائی 2023 تک مجھے معلومات فراہم کرنے کے احکامات جاری کرنے کے ساتھ ساتھ اقبال سٹیڈیم فیصل آباد کی مینجمنٹ کمیٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن، پنجاب حکومت کے ساتھ ہونے والے لیز ایگریمنٹ اور دیگر ضروری دستاویزات کمیشن میں جمع کروانے کا حکم جاری کیا، اس دوران ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کے ایما پر اقبال سٹیڈیم فیصل آباد کے کیئر ٹیکر نوید نذیر کی جانب سے مجھ پر اپنی آر ٹی آئی درخواست واپس لینے یا یہ لکھ کر دینے کے لئے مختلف ذرائع سے دباو¿ ڈالا جاتا رہا کہ مجھے معلومات فراہم کر دی گئی ہیں۔
بعدازاں 31 جولائی 2023ئ کو پنجاب انفارمیشن کمیشن کی جانب سے مقررہ تاریخ پر ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کی طرف سے وعدہ کیا گیا کہ 16 اگست 2023ئ تک مجھے مطلوبہ معلومات فراہم کر دی جائیں گی، تاہم مقررہ تاریخ تک جب مجھے معلومات فراہم نہیں کی گئیں تو میں نے دوبارہ پنجاب انفارمیشن کمیشن میں اپیل دائر کر دی جس پر 22 اگست کو مجھے ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کی طرف سے جو معلومات فراہم کی گئیں ان میں صرف ایک سال کے دوران اقبال سٹیڈیم میں ہونے والے میچز اور تقریبات سے حاصل ہونے والی آمدن کی تفصیل موجود تھی جبکہ اقبال سٹیڈیم میں کام کرنیوالے عملے ، دکانوں کے کرائے ودیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی آمدن اور اخرجات سے متعلق تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کی طرف سے نامکمل معلومات کی فراہمی پر میں نے 23
اگست 2023ئ کو پنجاب انفارمیشن کمیشن میں دوبارہ اپیل دائر کی تھی جس پر تاحال مجھے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
اسی طرح جب میں نے 8 مارچ 2023 کو ضلعی آر ٹی آئی مرکز کی کارکردگی سے متعلق جاننے کے لئے ایک درخواست جمع کروائی تو اس کے جواب میں مجھے ساڑھے تین ماہ تک کوئی جواب فراہم نہیں کیا گیا۔ بعدازاں میں نے 22 جون 2023 کو ضلعی آر ٹی آئی مرکز کی کارکردگی سے متعلق جاننے کے لئے ایک اور درخواست جمع کروائی اور 14 دن کی مقررہ مدت گزرنے کے باوجود معلومات کی عدم فراہمی پر دس جولائی 2023ءکو پنجاب انفارمیشن کمیشن میں ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کے خلاف اپیل دائر کر دی۔
میری اپیل پر پنجاب انفارمیشن کمیشن کی جانب سے نوٹس جاری ہونے پر 19 جولائی کو ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کی طرف سے کمیشن میں یہ جھوٹا جواب جمع کروایا گیا کہ درخواست گزار کو 15 مارچ 2023ءکو معلومات فراہم کر دی گئی تھیں۔ ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کی طرف سے جمع کروائے گئے اس جواب پر میں نے پنجاب انفارمیشن کمیشن میں 26 جولائی کو دوبارہ اپیل کی اور کمیشن سے درخواست کی کہ ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کی طرف سے پنجاب انفارمیشن کمیشن کو جمع کروائے گئے جواب میں مجھے معلومات کی فراہمی کا جھوٹا دعوی کرنے اور مجھے “عادی درخواست باز ” قرار دے کر حراساں کرنے کا نوٹس لیا جائے۔
میری یہ اپیل بھی پنجاب انفارمیشن کمیشن میں تاحال زیر التواءہے۔ علاوہ ازیں گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران ضلعی انتظامیہ سے متعلق مختلف معاملات سے متعلق معلومات کے حصول کے لئے ضلعی آر ٹی آئی مرکز میں جمع کروائی گئی میری دس درخواستوں پر معلومات کی عدم فراہمی کے باعث اپیلیں پنجاب انفارمیشن کمیشن میں زیر سماعت ہیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کی طرف سے تاحال ضلع کی سطح پر کام کرنے والے تمام سرکاری محکموں میں پبلک انفارمیشن آفیسرز کی نامزدگی کا عمل بھی مکمل نہیں کیا جا سکا ہے جس کی وجہ سے شہریوں کی طرف سے بھیجی جانے والی درخواستوں پر معلومات کی فراہمی میں بہتری نہیں آ سکی ہے۔
واضح رہے کہ پنجاب ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2013 کے سیکشن سات کے تحت ہر سرکاری ادارہ اس قانون کے اجراءسے 60 دن کے اندر اندر اپنے اور اپنے ذیلی دفاتر میں حسب ضرورت ایک یا ایک سے زیادہ پبلک انفارمیشن کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کرے گا جو درخواست دہندہ شہریوں کو مقررہ مدت میں مطلوبہ معلومات فراہم کرے گا، اسی قانون کے سیکشن نو کے تحت ہر ادارہ یا دفتر ہر سال 31 اگست تک اس قانون پر گزشتہ سال کے دوران عملدرآمد اور کارکردگی کے حوالے سے الیکٹرانک یا دیگر شکل میں سالانہ رپورٹ شائع کرے گا لیکن ڈپٹی کمشنر فیصل آباد یا دیگر سرکاری محکموں کی جانب سے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت تاحال گزشتہ سال کی سالانہ رپورٹ شائع نہیں کی گئی ہیں۔
ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے انچارج کاشف رضا اعوان کے مطابق ضلع کے 14 سرکاری محکموں میں پبلک انفارمیشن آفیسرز نامزد کئے جا چکے ہیں جبکہ دیگر محکموں کو پبلک انفارمیشن آفیسر کی نامزدگی کے لئے آخری مرتبہ 28 فروری 2023 کو خط لکھا گیا تھا۔
ضلعی آر ٹی آئی مرکز کے علاوہ دیگر سرکاری محکموں سے معلومات کا حصول بھی شہریوں کے لئے آسان نہیں ہے۔ اس کا ایک تجربہ میں یہاں شیئر کرنا چاہوں گا کہ میں نے فیصل آباد میں ہونے والے مبینہ پولیس مقابلوں کے حوالے سے معلومات کے حصول کے لئے 22 جون 2023ءکو سٹی پولیس آفیسر فیصل آباد کو ایک درخواست بھجوائی جس پر 14 جولائی 2023 ءکو ڈی ایس پی لیگل فیصل آباد کی جانب سے میرے خلاف سمن جاری کر دیئے گئے۔
تاہم اس حوالے سے پنجاب انفارمیشن کمیشن میں دائر کی گئی میری اپیل پر چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب محبوب قادر شاہ نے آئی جی پنجاب کو حکم جاری کیا کہ وہ ایک سرکلر جاری کر کے صوبے کے تمام پولیس آفیسرز کو رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت درخواست دینے والے شہریوں کو ہراساں نہ کرنے کی ہدایات جاری کریں، علاوہ ازیں فیصل آباد پولیس کو چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب کے حکم پر میرے خلاف جاری سمن واپس لے کر تحریری معذرت بھی کرنا پڑی۔
2021ءمیں آر ٹی آئی چیمپئن کا ایوارڈ حاصل کرنے والی صحافی شازیہ محبوب تنولی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری محکموں سے معلومات کا حصول مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے، ان کا کہنا ہے کہ مرکز اور صوبوں میں قائم انفارمیشن کمیشنز کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس صورتحال کا نوٹس لیں اور شہریوں کو معلومات کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے مزید فعال کردار ادا کریں۔
انہوں نے بتایا کہ سرکاری محکموں میں یہ ایک معمول بنا ہوا ہے کہ معلومات کی فراہمی میں تاخیر کی جائے اور جب تک معلومات دستیاب ہوتی ہیں متعلقہ ایشو ختم ہوچکا ہوتا ہے۔2022ء میں آر ٹی چیمپئن کا ایوارڈ حاصل کرنے والی صحافی سعدیہ مظہر کے مطابق حکومت اور عوامی نمائندے معلومات تک رسائی کے قوانین پر عملدرآمد کے حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں، انہوں نے بتایا کہ انفارمیشن کمشنرز کو ہمیشہ حکومت اور بیوروکریسی کی طرف سے عدم تعاون کا سامنا رہتا ہے، اس کے علاوہ حکومتی سطح پر مختلف حیلوں بہانوں سے انفارمیشن کمیشنز کو غیر فعال کرنے کی بھی کوشش کی جاتی رہی ہے۔
پنجاب انفارمیشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب معلومات کے مطابق مختلف سرکاری محکموں کی جانب سے معلومات کی عدم فراہمی کے خلاف اس وقت کمیشن کے پاس 748 اپیلیں زیر سماعت ہیں۔ علاوہ ازیں پنجاب انفارمیشن کمیشن کے قیام سے ابتک مجموعی طور پر 21 سرکاری افسران کو معلومات کی عدم فراہمی پر جرمانے کئے گئے ہیں۔
پنجاب کے چیف انفارمیشن کمشنر محبوب قادر شاہ کے مطابق کمیشن کو آغاز سے ہی عملے اور وسائل کی کمی کے باعث اپنے فرائض کی انجام دہی میں مسائل کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2014 میں پنجاب انفارمیشن کمیشن کی تشکیل کے وقت منظور شدہ آسامیوں کی تعداد 46 تھی لیکن تاحال 24 آسامیاں خالی ہیں۔ واضح رہے کہ اس وقت پنجاب انفارمیشن کمیشن میں کام کرنے والے 24 ملازمین میں ایک چیف انفارمیشن کمشنر، دو انفارمیشن کمشنرز، ایک اسسٹنٹ ڈائریکٹر، تین اسسٹنٹ ، ایک اکاونٹنٹ، ایک ڈیٹا انٹری آپریٹر، ایک ڈرائیور، چار نائب قاصد، ایک سینٹری ورکر اور ایک چوکیدار کنٹریکٹ پر جبکہ تین ملازمین یومیہ اجرت پر کام کر رہے ہیں۔
چیف انفارمیشن کمشنر پنجاب کا کہنا ہے کہ وسائل اور عملے کی کمی کے باوجود کمیشن نے رواں سال کے دوران ایک ہزار سے زائد اپیلوں پر مختلف سرکاری محکموں کے افسران کو نوٹس جاری کر کے شہریوں کو معلومات کی فراہمی ممکن بنائی ہے، ضلعی آر ٹی آئی مراکز کا قیام بھی اس بات کو مدنظر رکھ کر کیا گیا تھا کہ شہریوں کو ضلع کی سطح پر معلومات کی فراہمی بہتر بنائی جا سکے اور اگر کسی شہری کو ضلع کی سطح پر کسی محکمے سے معلومات کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہو تو وہ ضلعی آرٹی آئی مرکز سے رجوع کر سکے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آر ٹی ایکٹ کے تحت معلومات کے حصول میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ حکومت کی طرف سے اس کی اونر شپ نہ لینا اور سرکاری محکموں میں ریکارڈ کی ڈیجٹلائزیشن نہ ہونا ہے۔
رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے حوالے سے عوامی آگاہی کے لئے کام کرنے والی سماجی تنظیم سنٹرفار پیس اینڈ ڈویلپمنٹ انیشٹو کے پراجیکٹ منیجر فیصل منظور کھوکھر کہتے ہیں کہ شہری رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت معلومات کے حصول کی کوشش تو کرتے ہیں لیکن جب انہیں متعلقہ محکموں سے جواب نہیں ملتا تو وہ مایوس ہو کر اپنے اس حق کا استعمال ہی ترک کر دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس صورتحال میں پنجاب انفارمیشن کمیشن کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شہریوں کی جانب سے کی جانے والی اپیلوں پر بروقت کارروائی کر کے معلومات کی فراہمی یقینی بنائے۔
فیصل منظور کے مطابق پنجاب انفارمیشن کمیشن کو چاہیے کہ چھوٹے شہروں اور دیہات سے معلومات کے حصول کی کوشش کرنے والے شہریوں کی اپیلوں کو بھی وہی توجہ اور اہمیت دے جو چند بڑے شہروں سے متعلق ایشوز پر آنے والی اپیلوں کو دی جاتی ہے۔
پنجاب انفارمیشن کمیشن کے سابق چیف انفارمیشن کمشنر مختار احمد علی کہتے ہیں کہ معلومات تک رسائی کے حوالے سے گزشتہ ایک عشرے کے دوران بتدریج بہتری آئی ہے لیکن اب بھی اس حوالے سے بہت کام کرنے کی ضرورت ہے، قانون بنا ہوا ہے، کمیشن موجود ہے اور شہریوں کو معلومات کی فراہمی کے حوالے سے کسی نہ کسی حد تک اپنا کردار ادا کر رہا ہے لیکن اصل مسئلہ حکومت کی پالیسی اور عزم کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حکومت اس قانون پر عملدرآمد میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو سرکاری محکموں سے معلومات کے ازخود افشائ پر عملدرآمد کروایا جا سکتا ہے، رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ پر عملدرآمد اور شہریوں کو اس سے متعلق آگاہی دینے کے لئے حکومت، سول سوسائٹی اور میڈیا کو مزید کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اپنے جاننے کا حق استعمال کریں اور اس کے ذریعے گورننس کے معاملات میں شفافیت لائی جا سکے۔
عام شہریوں کے لیے معلومات تک رسائی کا قانون 2002ئ میں نافذ ہوا تھا۔ 28 ستمبر کو منائے جانے والے رائٹ ٹو انفارمیشن کے عالمی دن کے موقع پر بہت سے پاکستانیوں کو شکایت ہے کہ انہیں اہم سرکاری معلومات تک رسائی نہیں دی جا رہی۔
دو عشروں سے بھی زیادہ عرصہ قبل 2002ئ میں پاکستان میں رائٹ ٹو انفارمیشن قانون کے نافذ العمل ہونے کے دو سال بعد 2004ئ میں حکومت نے اس قانون پر عمل درآمد کو مو¿ثر بنانے کے لیے قواعد بھی بنائے تھے۔ لیکن کئی ماہرین، تجزیہ کار اور بہت سے عام شہری آج بھی یہ شکایت کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ اس قانون کا احترام کرتے ہوئے عام شہریوں کو کوئی مطالبہ کیے بغیر اہم معلومات کی از خود فراہمی ایک مشکل عمل ثابت ہو رہی ہے۔
پاکستان میں صوبائی سطح پر کئی برسوں سے انفارمیشن کمشنر بھی تعینات ہیں، جن کا کام یہ ہے کہ اگر عام شہری حکومت سے کوئی معلومات طلب کریں مگر سرکاری محکمے یا ادارے وہ معلومات مہیا نہ کریں، تو یہ انفارمیشن کمشنر اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے مداخلت کریں اور شہریوں کو ان کی مطلوبہ معلومات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں رائٹ ٹو انفارمیشن قانون سے متعلق کئی سطحوں پر شکوک و شبہات بھی پائے جاتے ہیں۔ پھر کئی بار ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختلف سرکاری ادارے درخواست دہندگان کے مطالبات کو ‘حساس نوعیت کی معلومات‘ قرار دے کر ان کی فراہمی سے انکار بھی کر دیتے ہیں۔
ہم تو عوامی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے معلومات تک رسائی کا عمل بے حد آسان بنا دیا ہے، شعیب صدیقیتصویر: FAROOQ NAEEM/AFPGetty Images
پاکستان میں اس قانون پر عمل درآمد کی صورت حال کیا ہے، اس حوالے سے پاکستان کے چیف انفارمیشن کمشنر شعیب احمد صدیقی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ”یہ بے بنیاد اور افواہوں پر مبنی الزامات ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہم نے تو عوامی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے معلومات تک رسائی کا عمل بے حد آسان بنا دیا ہے۔“
شعیب احمد صدیقی نے بتایا، ”شہریوں کی جانب سے رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران سب سے زیادہ معلومات کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے)، وزارت خزانہ اور نادرا کے بارے میں مانگی گئیں۔ ہمارا بجٹ 39.7 ملین روپے ہے، جو بہت ناکافی ہے۔ عملہ بھی صرف 12 افراد پر مشتمل ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم کوشش کرتے ہیں کہ ایک سے دو تاریخوں میں ہی درخواست دہندگان کو مطلوبہ معلومات دلوا دی جائیں۔ ابھی حال ہی میں تو ایک اپیل پر کارروائی کرتے ہوئے ہم نے سی ڈی اے سے 50 سالہ ریکارڈ ایک ماہ میں ہی لے کر دیا ہے۔ تو یہ کمیشن مسلسل پہلے سے بہتر کام کر رہا ہے۔“
پاکستان کے چیف انفارمیشن کمشنر نے مزید بتایا، ”جس بات پر زیادہ اعتراض کیا جا رہا ہے، وہ اس کمیشن میں 2019ئ میں حکومت نے ایک ضابطہ بنایا تھا کہ ہر درخواست گزار یہ لازمی بتائے کہ اس نے اپنی مطلوبہ معلومات کہیں اور سے بھی نہیں مانگیں۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ جب مختلف مقامات پر ایک ہی درخواست پر کام کیا جائے گا، تو یہ وقت، مالی وسائل اور توانائی کا ضیاع ہو گا۔ اس لیے ہر درخواست دہندہ اگر اپنی درخواست میں یہ بات بھی ساتھ ہی لکھ دے، تو ہمارے لیے آسانی ہو جاتی ہے اور بہت سا وقت بچایا جا سکتا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اکثر عام شہری اپنی درخواستوں کے ساتھ یہ دو جملے بھی نہیں لکھتے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے۔“ شعیب احمد صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ رائٹ ٹو انفارمیشن کے حق پر کام تو ہو رہا ہے، تاہم جتنا ہونا چاہیے اتنا ابھی تک نہیں ہو پا رہا۔
صحافیوں کے لیے آر ٹی آئی کتنا مو¿ثر؟
گزشتہ دس سال سے اس قانونی امکان کو بروئے کار لانے والے فری لانس صحافی ندیم عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان میں بہت طاقت ور بیوروکریسی خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے۔ وہ نہیں چاہتی کہ وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہو۔ اس لیے کئی سرکاری ادارے عمومآ بنیادی معلومات کو بھی حساس قرار دے کر ان کی ترسیل سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ ہماری ایک ساتھی نے جب یہ مطالبہ کیا کہ انہیں ان فلموں کی فہرست مہیا کی جائے جنہیں سینسر کیا گیا اور جن کی پاکستان میں ریلیز روک دی گئی، تو حیران کن طور پر سینسر بورڈ نے ان معلومات کو بھی حساس قرار دے کر ان کی فراہمی سے انکار کر دیا۔“
ندیم عمر نے دعویٰ کیا کہ پاکستانی نوکر شاہی کی بالعموم کوشش یہ ہوتی ہے کہ شروع میں ہی شہریوں کی حوصلہ شکنی کی جائے، یہاں تک کہ عام صارفین اس قانون کا استعمال ہی ترک کر دیں۔ ان کے مطابق ایسی صورت میں صوبائی انفارمیشن کمشنرز کی طرف سے عملی مدد اور بھی فیصلہ کن ہو جاتی ہے۔
پاکستان میں آر ٹی آئی قانون کے استعمال سے متعلق صوبے خیبر پختونخوا کی چیف انفارمیشن کمشنر فرح حامد خان نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا، ”خیبر پختونخوا میں ہمیں عام شہریوں کی جانب سے جو درخواستیں موصول ہوتی ہیں، وہ زیادہ تر وزارت تعلیم، صحت اور لوکل گورنمنٹ کے بارے میں ہوتی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کیسز میں تو درخواست دہندگان کو اکیس دنوں کے اندر اندر مطلوبہ معلومات مل جاتی ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو، تو پھر شکایات ہمارے پاس آتی ہیں اور ہم جلد از جلد یہ معلومات دلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔“
﴾﴿